" اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ"

حرب نے 'مثالی معاشرہ' میں ‏مارچ 15, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    اس حقیقت سے ہر انسان واوف ہے کے زندگی تو ایک بہتے دریا کی طرح گزرتی چلی جاتی ھے۔ وقت لمحے لمحے کی صورت اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ھے ماہ و سال گزرتے جارہے ھیں۔ لیکن محسوس ہمیں نہیں ھوتا کہ زندگی جیسی قیمتی متاع ھم سے چھین رھی ھے اورھم ہیں جو لمحہ بہ لمحہ اس سے محروم ھو رھے ھیں۔ ان گزرتے لمحات میں ھم بہت کچھ کرسکتے ھیں یہی وہ لمحات ہیں جس سے جنت خریدی جا سکتی ھے یا پھراس سے محروم بھی رہا جاسکتا ھے۔

    کوئی قا نون کتنا ہی اچھا اور جامع کیوں نہ ہو اس نے کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر چا ہے جتنا ہی بہتر حل واضع کیا ہو مگراگرقانون کے نفاذ میں بد نیتی کا مظاہرہ کیا جائے تو ساری کاوش و محنت پر پانی پھر جاتا ہے اور یہ بنایا گیا اُصول بس ایک دکھاوے کی چیز بن کر رہ جاتا ہے۔

    ذرا غور کیجئے اس پر فتوٰی صادر کرنے سے پہلے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ "محبوب بھی خدا کی طرح ہوتا ہے اس کی بھی پرستش کی جاتی ہے وہ اپنے عاشق کی ضروریات سے واقف بھی ہو تو چاہتا ہے کہ وہ اُسے ہر ضرورت کے لئے پکارے اُس سے ہاتھ اٹھا کر اپنی ضرورت کے لئے آگاہ کیا جاتا ہے اُس سے بات کرنے کے لئے زبان سے گفتگو کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ دل کی زبان پر استعفادہ کرنا پڑتا ہے،اُس کے قریب جانے کے لئے جسمانی قربت کی نہیں بلکہ دلی قربت چاہئے،اُسے راضی کرنے کے لئے گڑگڑانا پڑتا ہے، اُس کی خوشنودی کے حصول کے واسطے ہر اُس کام سے اجتناب کرنا پڑتا ہے جو اُسے بُرا لگے اور ہر وہ کام کرنا پڑتا ہے جو اُسے پسند ہو، کتنی عجیب بات ہے کے اِس تعلق میں بھی بندے کو توحید کا دامن تھامنا پڑتا ہے کیونکہ شرک یہاں بھی جائز نہیں"۔ مگر جب بات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ہو تو وہاں پر تاویلات کا لامحال سلسلہ ہمارے انتظار میں پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے۔ یعنی محبوب کے ساتھ شریک بنانا ہمارے نفس کو کسی بھی حال میں قبول نہیں مگر جب بات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو تو خیر ہے!۔

    بات یہ ہے کہ کیا ملک کی ترقی کے لئے لازم ہے عورت و مرد شانے سے شانہ ملا کر چلے؟۔ چلیں مان لیا عورت کو زندگی کے ہر شعبہ میں ہونا چاہئے مگر! مرد و عورت کو ہر لمحہ اپنی حدود کا خاص اہتمام لازمی کرنا پڑے گا اور وہ تب ہی ممکن ہے جب ہم خود اسلامی تعلیمات کے پابند بنیں مگر ہمارا المیہ یہ ہے کے اس وقت ہم روشن خیالی کی وباء میں بُری طرح مبتلا ہیں جس کی وجہ سے معاشرے کے وہ افراد جو اسلامی تعلیمات کی پابندی کرتے ہیں وہ یہ دیکھ کر کے اُسی معاشرے میں بسنے والے وہ افراد جو روشن خیالی وہ غیر اسلامی تہذیب اور تعلیمات کو معاشرے میں نافذ کرنے پر اپنی توانائیاں خرچ کررہے تو ایسے ماحول میں جنم لیتے ہیں اختلافات، جسے دنیا انتہا پسندی کا ٹائٹل دے کر اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والوں کو انتہا پسند کہہ کر آسمانی شریعت پر اپنا ہاتھ صاف کر جاتی ہے۔ قصور اُن کا نہیں قصور ہمارا ہے کیونکہ ہم آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بننے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے ماضی کے واقعات جیسے گوانتےموبے میں قرآن پاک کی شہادت، بھارت میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایک مسجد اور شہید کی گئی اور فرانس نے اسکاف پر پابندی لگادی۔

    بھئی جب قرآن خود اپنے ماننے والے کو یہ دعوت دے رہا ہے کے " اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ" تو اس میں سمجھ نہ آنے والی بات کون سی ہے۔۔۔۔ مگر پڑھے کون؟ اور چلیں اگر پڑھ لے تو مانے کون؟۔ اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا۔ مسئلہ عورت مرد کا ہو یا میاں بیوی کا صرف ایک رسی پکڑ لینے سے سارے مسئلے حل ہوجائیں گے اور وہ ہے اللہ کی رسی۔ پھر یہاں وہی سوال کے پکڑے کون؟؟؟۔۔۔ غور کیجئے کے اللہ کا پسندیدہ دین اسلام ہے اور ماننے والا مسلمان کیا وجہ ہے کے اللہ مسلمانوں سے ناراض ہے؟؟؟۔۔۔ کفر اور کافروں سے اللہ کبھی خوش نہیں ہوتا مگر کیا وجہ ہے وہ پھل پھول رہے ہیں؟؟؟۔۔۔ کہیں نا کہیں ہم غلط ہیں ہمیں خود انفرادی طور پر اپنا اپنا احتساب کرنے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ اگر ہم اپنی کوتاہیوں سے اسی طرح غفلت برتتے رہے تو دنیا تو سمجھو گئی گئی آخرت بھی جائے گی۔۔۔ اور مسلمان کی ساری بھاگ دوڑ ہی صرف آخرت کے حصول کے لئے ہے۔ اگر نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  2. marhaba

    marhaba ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏فروری 5, 2010
    پیغامات:
    1,667
    عرفت ربی بفسخ العزائم:حضرت علی

    [ar][/ar]آپ نے بالکل صحیح بات کہی کہ (صرف ایک رسی پکڑ لینے سے سارے مسئلے حل ہوجائیں گے اور وہ ہے اللہ کی رسی۔ پھر یہاں وہی سوال کے پکڑے کون؟؟؟۔۔۔ )۔
    میں آپ کو اس کا جواب دیتا ہوں۔
    کوئی بھی مسلمان گناہ کرتا ہے تو وہ اس حالت میں کرتا ہے کہ اس کا ایمان کمزور ہواہوتاہے۔اسلئے کہ ایمان اگرہو تاجیسا کہ حدیث رسول میں کہ مومن جب زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے الگ ہوجا تاہے یعنی وہ مومن نہیں رہتا۔مگر بعد میں جب ایمان لوٹ آتا ہےتو اسے اپنی غلطی کا احساس ہو تا ہے تو وہ توبہ کے ذریعہ اس کی تلافی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔مگر جب اپنی کمزورئ ایمان کا احساس یی ختم ہوجائے تو یہیں سے ماڈرن طرز زندگی اور آپ نے جیسےلکھا ہےآدھا تیتر اور آدھابٹیر والا قصہ شروع ہوتا ہے۔
    ہمارے لئے اس کاسب سے بہتر حل یہ ہے کہ ہم لوگوں کو یہ بتا ئیں کہ خدا کی کائنات میں غور کریں۔اللہ کی عظمت و حکمت اور بصیرت کو ڈسکور کریں ۔اسی ہمارے اندر خدا کا خوف، اللہ سے محبت پیدا ہوتی ہے ۔آخرت کے بارے میں انسان سوچتا اور غور کرتا ہے۔صحیح معنوں آج ہمارا ایمان زندہ ایمان نہیں ۔کتابی ایمان ہے۔ اللہ نے اس پوری کائنات کو اللہ کی معرفت اور اس کی عظمت کو دریافت کرنے کیلئے پیدا کیا ہے۔قرآن کا اکثر حصہ اسی معرفت ربانی کے رزق کے حصول کی طرف ہم سب کو متوجہ کرتا ہے۔
    مکی سورتیں اس کا واضح ثبوت ہیں۔مکی سورتوں میں اسی مضمون معرفت رب کو دھرایا گیا ہے۔ اور یہی ایک چیز ہے جو اسلام کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کا محرک بنتی ہیں۔
    کائنات پر غوروفکر ہی سے انسان نماز،روزہ زکاۃ اورحج پر عمل کرتاہے۔ورنہ موقع دیکھ کر پتلی گلی سےنکل جاتاہے۔دین کی بات سننےکیلئے اس کے پاس وقت نہیں ہوتا۔وہ اتنا زیادہ اپنے کاروبار کیلئے بھاگ دوڑ کرتاہے۔وغیرہ
     
  3. کنعان

    کنعان محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2009
    پیغامات:
    2,852

    السلام علیکم

    اس پر میں ایک بات لکھنا چاہتا ہوں، اپنی پوری زندگی میں کاروبار میں ایک پاکستانی کو دیکھا ھے اس کا ذکر کرنا پسند کرتا ہوں۔
    کوئی بھی اس کی انکوائری کروا سکتا ھے۔

    ابوظہبئی سینٹر میں پرانی مارکیٹ ھے جہاں پر سونے کی انگنت دکانیں ہیں، وہاں پر ایک پاکستانی " فیصل جیولرز" ھے، 25 سے زیادہ سٹاف ھے شو روم اور بنوائی کا، شاہی خاندان بھی اپنی شادیوں کے زیوارات اس سے بنواتے ہیں۔
    اس کا آنر کی ایمان کی حالت یہ ھے کہ دکان پر رش کبھی کم نہیں ہوتا اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تمام خریداروں کو نماز کے بعد آنے کا کہتے ہیں اور تمام شوروم بند کر کے پورے سٹاف کے ساتھ نماز پڑھنے جاتے ہیں پھر بعد میں‌ آ کر دکانداری کرتے ہیں۔ اس سے سونا خریدو دوبارہ زندگی میں کبھی بھی اس کو جا کر واپس کرو اس وقت کے حساب سے جو ریٹ ہوتا ھے وہی دیتا ھے۔ دوسرے سنیاروں کی طرح 2 ہزار کے سیٹ کے 500 نہیں دیتا۔
    میرا دل کیا اس لئے آپ سے یہ شیئر کر دیا۔

    اس کا ایمان اور نماز پر یہ بات ذھن میں رہے کہ ابوظہبی میں نماز پڑھنے پر کاروبار بند کرنے کا قانون نہیں ھے۔

    والسلام
     
  4. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    السلام علیکم
    جزاک اللہ
    آج کے نفانفسی اور مادئیت کے دور میں‌بھی جہاں‌ہر جانیوالا لمحہ کچھ نہ کچھ پیسہ آجانے کی تھنکینگ ہے، وہاں ایسی سلیم الفطرت روحیں‌موجود ہیں‌جو تقوٰ ی اور پرہیزگاری کی روش پر اپنی زندگی گذار رہی ہیں۔
    ان میں‌
    بچے بھی ہیں۔۔۔جو بلا تاخیر کے اپنے کھیل کود کے کے کچے ذہن کے باوجود بھی ، دین کی بنیادیں،عبادات،اخلاق حسنہ، وغیرہ پر گامزن ہیں۔
    خواتین۔۔۔رسم و رواج کے دور میں‌بھی ، ایسے خواتین موجود ہیں جو کہ دین کو اسکی ویسی کی ویسی حالت میں‌نہ صرف عمل کرتے ہیں بلکہ سختی کے ساتھ جمے ہوئے ہیں، انکی تہجد تک کبھی مس نہیں‌ہوتی، عام نمازوں اور عبادات کے ساتھ ساتھ، انکے اخلاق حسنہ قابل تعریف و تحسین اور باعث انسپایریشن ہیں۔
    بزنس مین اور جاب کرنے والاے اپنے جابس کے ساتھ ساتھ، عبادات میں‌کوتاہی نہیں‌کرتے، اور ساتھ ہی ساتھ، دین کی دعوت انکا فرض منصبی ہے، اورانکی شخصیات، گفتار و کردار میں جھول نہیں‌پاتیں

    اگر دل سے اسلام کو قبول کر کے مان لیا جائے تب اللہ تعالی خود ایسے سلیم الفطرت اشخاص کے ساتھ رحم کا معاملہ کرتا ہوگا، اور انکے لئے فتنہ بھری دنیا بھی کوئی رکاوٹ نہیں‌بنتی کہ دین پر جمے رہیں۔۔
    دین پر دین پر جمے رہنا صرف چند چیزوں‌پر انفرادی طور پر جمے رہنا نہیں‌بلکہ ویسا جمے رہنا جیسا کہ اسلام مطالبہ کرتا ہے۔۔۔۔
    کہ زندگی کے تمام شعبہ ہائے جات میں‌اسلام کی نفوذ پزیری ہوجائے۔
    اس میں ذاتی زندگی بھی ہے۔
    عائلی زندگی بھی ہے۔
    اجتماعی زندگی بھی ہے۔
    عبادات بھی ہیں
    سیاسیات سے لیکر معاشیات،معاملات سے لیکر سماجی تعلقات، نیز۔۔۔بیدار ہونے سے لیکر سونے تک کہ تمام افعال میں اسلامی مزاج کا ظاہر ہونا اور یہ تمام دل کی آمادگی کے ساتھ تو کیسے۔۔۔شخصیات اور سوسائیٹی اور شب و روز نہیں‌بدلینگے۔

    اور قانون نہ بھی کہے تو نماز کے اوقات بزنس بند نہ کرو، لیکن قانون الہیٰ کے تحت تو پرئیریٹیز فکس کی جاسکتی ہیں نا۔اور اسکے لئے سب سے بڑا ڈنڈا۔۔۔۔ضمیر ہے۔۔۔لیکن اگر وہ زندہ رہے، ۔۔۔کہ ۔۔۔زندگی نام ہے احساس کی بیداری کے۔۔۔۔اور جسطرح غذا جسمانی ضرورت ہے، اسی طرح روحانی غذا کے طور پر اسلام کے تمام بنیادوں‌کو روحانی طور پر اور دل کی آمادگی کے ساتھ ڈائجسٹ کیا گیا تو ہر فرد اپنی جگہ کسی نہ کسی حد میں داعی الہ اللہ کا کردار بھی ادا کرے جسکے اثرات فرد سے لیکر اجتماعیت تک محیط ہونگے۔

    ان شا اللہ
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں