شاہین فصیحؔ ربانی غزل رستوں میں سراب رہ گئے ہیں جیون میں عذاب رہ گئے ہیں تعبیر کہیں پہ کھو گئی ہے آنکھوں میں خواب رہ گئے ہیں گلشن میں بہار ہے کوئی دَم دو چار گلاب رہ گئے ہیں نظروں میں حیا نہیں رہی ہے چہروں پہ نقاب رہ گئے ہیں کوشش تو ہوئی سنوارنے کی ہم پھر بھی خراب رہ گئے ہیں منزل تو کسی نے پا بھی لی ہے ہم پا بہ رکاب رہ گئے ہیں پیاسوں کے نصیب میں فصیحؔ اب وعدوں کے سحاب رہ گئے ہیں
آپ کا بہت شکریہ، ہمیشہ خوش رہیے۔ آپ کا بہت شکریہ سدا شاد آباد رہیے۔ آپ کا بہت شکریہ زاہد بھائی سدا خوش رہیے۔ اس نوازش پر آپ کا بہت شکریہ جاسم بھائی سدا شاداں و فرحاں رہیے۔
عمدہ جناب! بہت شکریہ نظروں میں حیا نہیں رہی ہے چہروں پہ نقاب رہ گئے ہیں کوشش تو ہوئی سنوارنے کی ہم پھر بھی خراب رہ گئے ہیں منزل تو کسی نے پا بھی لی ہے ہم پا بہ رکاب رہ گئے ہیں پیاسوں کے نصیب میں فصیحؔ اب وعدوں کے سحاب رہ گئے ہیں