اسامہ بن لادن سے اوباما کی عجب ملاقات؟

m aslam oad نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏مئی 16, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. m aslam oad

    m aslam oad نوآموز.

    شمولیت:
    ‏نومبر 14, 2008
    پیغامات:
    2,443
    بارک حسین اوباما شام کے وقت اوول آفس (واشنگٹن) میں سی آئی اے کی طرف سے پاکستان، یمن، صومالیہ، افغانستان اور فلپائن میں کئے جانے والے مختلف ڈرون حملوں کی درخواستوں کی منظوری دینے میں مگن تھے کہ اچانک اسامہ بن لادن کا ہیولا کمرے میں آدھمکا اور آتے ہی گویا ہوا ’’اوباما ! تم نے میرا جسم ایک سال پہلے بحیرہ عرب کی مچھلیوں کے حوالے کر دیا تھا مگر میں آج تم سے کھری کھری باتیں کرنے آ گیاہوں‘‘۔ اوباما نے خوف اور حیرت سے دیدے پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھا اور خوش آمدید کہنے میں تامل کیا تو ہیولا بولا: ’’تم نے اپنے کینیائی نژاد باپ حسین اوباما کے مسلمان ہونے کی لاج بھی نہ رکھی اور افغانستان، پاکستان، صومالیہ اور یمن میں ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے، پھر یہ کون سی بہادری تھی کہ تمہارے سیلز (Seals) فوجی کمانڈوز نے مجھے گرفتار کرنے کے بجائے گولیوں کا نشانہ بنا دیا جبکہ میں نہتا تھا اور تم نے اپنی بے مغز قوم کے سامنے ڈینگ ماری کہ اسامہ جو دو دہائیوں سے امریکہ کے لئے خطرہ بنا ہوا تھا وہ خطرہ صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے‘‘۔ اوباما نے گھگھیا کر کہا: ’’تو اب تم ہیولا بن کر مجھے ڈرانے آ گئے ہو، یسوع کی قسم! میں ڈرتا ورتا نہیں‘‘۔
    ہیولا بولا: ’’اوہو، تم تو بددماغ بش کے بوٹ چاٹنے والے بدخصلت آمر پرویز مشرف کے لہجے میں بولنے لگے۔ دیکھو، میرا کام 11 ستمبر 2001ء کی شام ختم ہو گیا تھا، میں امریکیوں کے دل و دماغ میں جو دہشت بٹھانا چاہتا تھا، اسے جارج واکر بش، ڈک چینی اور تم نے میرے خلاف چیخ چیخ کر اس قدر بڑھا چڑھا دیا کہ میری چھوٹی سی تنظیم القاعدہ اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی تھی، صدر بش نے صلیب کا نام لے کر ایشیا اور افریقہ میں لاحاصل جنگی مہمات کا آغاز کر دیا، جنہیں تم اب تک جاری رکھے ہوئے ہو، تم لوگوں نے اپنی قوم کی آزادیاں چھین کر انہیں خوف اورتفکرات کے جہنم میں دھکیل دیا، تم سمجھتے ہو کہ نام نہاد ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹ کر امریکہ کو ’’سپر سپر پاور‘‘ بنا دو گے… این خیال است و محال است و جنون است‘‘…
    ہیولا کہہ رہا تھا: ’’مسلم ممالک پر تمہارے جارحانہ اور خونریز حملوں، ہزاروں مسلم نوجوانوں کی قید و بند اور اذیت رسانی (ٹارچر)، دنیا بھر میں تمہارے خفیہ بندی خانوں اور تمہاری عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں نے تمہیں زمانے بھر میں ان کو اور ذلیل بنا دیا ہے۔ تمہارے پیشرو صدر کے بارے میں بولیویا (جنوبی امریکہ) کے پہلے ریڈ انڈین صدر مملکت ایوومورالس نے برملا کہا: ’’میں دنیا میں ایک ہی دہشت گرد سے واقف ہوں اور اس کا نام جارج بش ہے‘‘۔ اور وینزویلا کے صدر شاویز نے تمہارے نیو یارک شہر میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کہہ دیا: ’’بش تقریر کر کے چلا گیا ہے مگر اپنی بدبو یہاں چھوڑ گیا ہے‘‘۔
    ’’مجھے بش سے کوئی دلچسپی نہیں‘‘ اوباما نے بیزاری سے کہا۔ہیولا بولا: ’’اچھا تو سنو اوباما! تم لوگوں نے افریشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں ہمیشہ جابر اور مطلق العنان آمروں کی حمایت کی ہے جو امریکی اسلحے سے اپنے ہی عوام کو قتل کرتے اور لوٹتے ہیں۔ تمہاری قوم انسانیت کے دشمن صہیونی یہودیوں کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے اور غاصب اور خونخوار اسرائیل کے تحفظ کے لئے تم نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے ٹکر لے رکھی ہے جبکہ تمہارے فوجی ریکارڈ تعداد میں خود کشیاں کر رہے ہیں‘‘۔
    ’’تم بتا سکتے ہو، وہ خود کشیاں کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ اوبامہ نے شرمندگی سے پوچھا۔
    ’’ہاں سنو…جب تم انہیں عراق، افغانستان اور دیگر مقامات پر جارحانہ حملوں کے لئے بھیجتے ہو اور وہ وہاں بڑی تعداد میں عورتوں، بچوں اور مردوں کو قتل کرتے ہیں تو ان کے ضمیر شدید صدمے سے دوچار ہوتے ہیں۔ تمہارے مخالفوں کے پاس توپخانہ، بمبار اور میزائل نہیں ہوتے جبکہ تمہارے فوجی ان نہتوں پر اپنے مہلک ترین ہتھیار داغتے ہیں اور ان کے سامنے ان کے ننھے بچوں اور ان کی مائوں، باپوں اور بوڑھوں کے جسموں کے پرخچے اڑاتے ہیں، گھروں، مسجدوں اور بازاروں میں انسانی لاشے تڑپتے اور جلتے ہیں۔ افغانستان میں لوگ کہیں ایندھن اکٹھا کرنے یا شادی کی تقریب منانے کے لئے جمع ہوتے ہیں تو امریکی بم اور میزائل ان کی بوٹیاں اڑا دیتے ہیں، تمہارے فوجی روزانہ ان گنت لوگوں کے چیتھڑے اڑتے یا انہیں بے گھر ہوتے دیکھتے ہیں تو ان کے ضمیر پر جو گزرتی ہے، اوباما، تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے، پھر وہ خود کشیاں نہ کریں تو اور کیا کریں؟‘‘
    ’’لیکن تم نائن الیون کی خونیں وارداتوں کی بھی تو بات کرو!‘‘ اوباما نے کھسیانا ہو کر کہا، ’’ہاں، وہ حملے تو بے حس امریکیوں کو احساس دلانے کیلئے کئے تھے… یہ کہ تم لوگ جو کئی عشروں سے کروڑوں انسانوں کو مصائب سے دوچار کئے ہوئے ہو، کچھ تمہیں بھی ٹیس پہنچے، شاید تم لوگ اوروں پر ظلم کرنے سے باز آ جائو، ظالم یہودیوں کو لگام دے کر مظلوم فلسطینیوں سے انصاف کی روش اختیار کرو‘‘۔ تم جو افریقہ کی ایک غریب قوم کے بیٹے ہو اور عیسائی ہو جانے کے باعث صدر امریکہ بن بیٹھے ہو، تمہیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ تم نے نصف کروڑ فلسطینیوں کو بے گھر اور بھکاری بنا دینے والے اسرائیل کی سلامتی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، گویا اسرائیل ایک ایسا طوطا ہے جس میں امریکہ کی جان ہے۔ تم اسرائیلیوں کو تباہ کن ہتھیار دیتے ہو تاکہ وہ مظلوم فلسطینیوں کو مسلسل کچلتے اور ان کی بچی کھچی زمینیں ہتھیاتے رہیں، اگر تم عالم عرب کی گردنوں پر سوار نہ ہوتے اور خونخوار اسرائیلیوں کے پشت پناہ بن کر فلسطینیوں کی تباہی کا باعث نہ بنتے تو ہمارے 19 شہداء کو نیو یارک اور واشنگٹن آ کر نائن الیون کے دھماکے کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی‘‘۔
    ان کھری کھری باتوں پر اوباما چٹخ اٹھا: ’’مجھے تم بش اور ڈک چینی کے ساتھ نہ ملائو، بش تو نراکودن تھا جو اپنے برطانوی پوڈل (کتورے) ٹونی بلیئر کے بھرے میں آ گیا۔ بلیئر نے جھوٹ بول کر اسے عراق پرحملے کی راہ دکھائی۔ اس طرح وہ لوگ تمہارے ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔ بطور سینیٹر میں نے جنگ عراق کی مخالفت کی تھی، تاہم برسر اقتدار آ کر میں نے عراق سے اپنے فوجی افغانستان بھیج دیئے تاکہ ادھر القاعدہ کا صفایا کیا جا سکے۔ تم جانتے ہو وہاں تمہارے اور القاعدہ کے ساتھ کیا ہوا؟‘‘ ہیولے نے ترکی بہ ترکی جواب دیا: ’’ہاں، امریکی اب تک وہاں پھنسے ہوئے ہیں، القاعدہ اب افغانستان میں نہیں، اس کی سرگرمیاں دیگر ملکوں میں منتقل ہو گئی ہیں۔ وہ اب یمن، صومالیہ اور شمالی افریقہ میں متحرک ہیں اور وہاں تمہارے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ تمہارے جارحانہ حملوں سے ہمارے مشن کو بڑھاوا ملا ہے، امت مسلمہ کی اسلامی شناخت اور جہادی شعور میں اضافہ ہوا ہے۔ ادھر عراق اور افغانستان کی جنگوں نے امریکی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا ہے۔ وال سٹریٹ کے یہودی اور دیگر سرمایہ داروں کے خلاف نفرت بڑھی ہے جواب ایک تحریک بن گئی ہے۔ امریکیوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے، امریکہ میں بھوک اور غربت میں اضافہ ہوا ہے حتیٰ کہ کئی امریکی شہروں میں بھوکوں کو اجتماعی کھانا کھلانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے تاکہ امریکہ بہادر کا پیٹ ننگا نہ ہو! مسٹر اوباما، تمہارے عوام بہت بڑی تعداد میں کہہ رہے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے نکل آئے مگر اس معاملے میں تمہاری جمہوریت گونگی بہری بن گئی ہے حالانکہ اس جنگ سے امریکہ دیوالیہ ہو رہا ہے اور تمہارے صدارتی امیدوار رون پال کے بقول امریکہ کا ’’ستیا ناس ہو رہا ہے‘‘۔
    اس پر اوباما نے گفتگو کا رخ موڑا! ’’تم وہاں ایبٹ آباد میں چھپے کیا کرتے رہے!‘‘ ہیولے نے کہا: ’’کرنا کیا تھا افغانستان میں صلیبیوں کی رسوائی کا تماشا دیکھتا تھا۔ میرا کام ختم ہو گیا تھا لیکن تمہاری سازش سے مسلمان ایک دوسرے کو جو قتل کرنے لگے تھے، میں اس پر کڑھتا تھا، معاملات میرے ہاتھ سے نکل گئے تھے، میں نے پاکستانی طالبان کو بہت سمجھایا مگر بے سود، پھر تمہارے گرگے وہاں آدھمکے‘‘۔ اوباما بات کاٹ کر بولا: ’’میں تمہاری باتیں اور تفصیل سے سنتا مگر مجھے تین ملکوں میں بعض ہائی ویلیو ٹارگٹس کا فیصلہ کرنا ہے ۔امریکہ کے دشمنوں کو شکار کرنے کا سلسلہ کبھی رک نہیں سکتا‘‘۔ ہیولا بولا: ‘‘واہ اوباما جی! سب سے بڑا ٹارگٹ تمہارے ہاتھ لگا تھا مگر تم نے واٹر بورڈنگ کے ذریعے اس سے تفتیش کا موقع کھو دیا۔ ذرا سوچو، میں تمہارے خفیہ اداروں کو پچھلے تیس سال کے متعلق کیا کچھ بتا سکتا تھا۔ اچھا، اب میں چلتا ہوں، تمہارے ایک غوطہ خور بل وارن نے میرا باڈی بیگ بھارت کے شہر سورت سے 200 میل مغرب کی طرف سمندر میں ڈھونڈ نکالا ہے۔ میں وہیں جا رہا ہوں، اللہ تمہیں غارت کرے!‘‘یہ کہہ کر ہیولا آناً فاناً غائب ہو گیا اور اوباما سر پکڑے اگلے ڈرون حملوں کی فائلیں دیکھنے لگا۔ (ملاقات کی یہ تفصیل فرضی ہے، اسے حقیقت پر محمول نہ کیا جائے۔)

    بشکریہ ہفت روزہ جرار
    والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
    ali oadrajput
     
  2. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    فکر انگیز۔۔۔۔
     
  3. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    یہ سب چیزیں اپنی جگہ پر لیکن!!! ایمان والوں کا عقیدہ ہے کہ ’’روحیں واپس نہیں آتیں‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

    اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ(سورة المطففین اور سورة الانفطار)

    وَاِنَّ الْفُجَّارَ لَفِيْ جَحِيْمٍ (حوالہ مذکورہ)

    لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ ہم اس طرح سے ’’وعظ و نصیحت‘‘ کرتے وقت خوب غور و فکر کرلیں کہ ہمارا ’’انداز بیاں‘‘ کہیں ٹکراؤ کا سبب تو نہیں بنے گا؟؟؟؟؟
     
  4. خادم خلق

    خادم خلق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 27, 2007
    پیغامات:
    4,946
    جی بالکل خواب کی صورت بھی بیان کیا جاسکتا تھا ۔
     
  5. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    مگر یہ بھی فرضی ہی ہوتا۔
     
  6. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954
    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    ايک ايسے شخص کو اسلام کے مقدس مجاہد کے پيراۓ ميں بيان کرنے اور اس کی تعريف و توصيف ميں زمين آسمان کے قلابے ملانے سے پہلے اس کی جانب سے کيے گۓ مظالم اور دنيا بھر ميں بے گناہ انسانوں کی ہلاکت کو بھی ملحوظ رکھيں، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ يہ سب کچھ ايک ايسی سوچ اور نظريے کا شاخسانہ ہے جس کا اسلام يا کسی بھی اور مذہب سے دور کا بھی واسطہ نہيں ہے۔

    دو درجن سے زائد اسلامی ممالک کے 250 سے زائد جيد علماء اور سکالرز کی جانب سے مشترکہ اعلاميہ اس حقيقت کو اجاگر کرتا ہے کہ اسامہ بن لادن نے جو کچھ بھی کيا اس کا جہاد يا دنيا بھر ميں اسلامی اقدار اور اصولوں کو سربلند کرنے سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

    اگر عورتوں اور بچوں سميت بے گناہ انسانوں کی ہلاکت کاميابی کا پيمانہ سمجھا جانے لگے تو اس معيار کو مدنظر رکھتے ہوۓ اسامہ بن لادن اور ان کے حواری اس تعريف کے مستحق يقينی طور پر قرار ديے جا سکتے ہيں جس کا تذکرہ اس کالم ميں موجود ہے۔

    کسی بھی بے گناہ انسان کی جان کا ضياع اس کے مذہب سے قطع نظرانتہاہی قابل مذمت فعل ہے۔ يہ درس تو خود اسلام سميت دنيا کے تمام مذاہب ميں موجود ہے۔ ليکن اگر آپ اسامہ بن لادن سميت دیگر دہشت گردوں کی ويڈيو انٹرويوز ديکھيں تو يہ واضح ہے کہ تخريب کاری کی کاروائيوں کے ليے مذہب کو استعمال کيا جا رہا ہے۔

    کيا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب خودکش حملہ آور کسی پرہجوم مقام پر بغير کسی تفريق کے بے شمار بے گناہوں کی جان ليتے ہيں تو اس کا کيا مقصد ہوتا ہے؟ اسامہ بن لادن اور اسلام کے دفاع کے يہ دعوے دار ہميشہ يہ کہتے ہيں کہ ان کی جنگ اسلام کے دشمنوں کے خلاف ہے۔ پچھلے چند سالوں ميں پاکستان ميں دہشت گردی کے نتيجے ميں جو بے گناہ ہلاک ہوۓ ہيں تو اس میں کتنے غير مسلم تھے؟

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    U.S. Department of State
    Improve Your Experience | Facebook
     
  7. ابوعمر

    ابوعمر محسن

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 23, 2007
    پیغامات:
    171
    کل تک اِنھیں مجاہدین کے لیے وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر زمین اور آسمان کے قلابے ملائے جاتے تھے آج جب مفادات تبدیل ہوئے تو وہی ہیرو '' دہشتگرد '' بن گئے !!!

    اب ان کھوکلے پروپیگنڈوں کا زمانہ گیا ، سب کو معلوم ہے کہ '' امن '' کے نام پر کون دنیا کا امن تباہ و برباد کرنے پر تلا ہوا ہے ۔
     
  8. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    مگر ہم اسی امن کے نام پر استعمال ھوتے رہیں گے؟
    کیا ہم اتنے ھی کمزور ھو گئے ھیں؟
     
  9. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    موضوع کیا تھا؟؟؟؟؟
     
  10. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954
    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


    آپ نے يہ سطحی راۓ اس تاثر اور مقبول عام سوچ کی بنياد پر دی ہے جس کی پاکستانی میڈيا کے کچھ عناصر نے غير جانبدارانہ تحقيق اور تجزيہ کیے بغير دانستہ تشہير کی ہے۔

    ماضی ميں 80 کی دہائ ميں امريکہ کے کردار اور پوزيشن کو واضح کرنے کے لیے ميں نے درجنوں سرکاری امريکی رپورٹس، دستاويزات اور ريکارڈ پر موجود بيانات اسی فورم پر پوسٹ کیے ہيں۔ آپ اسی فورم پر وہ دستاويزات پڑھ سکتے ہيں۔

    اس ضمن ميں چاہوں گا کہ آپ سينیر پاکستانی اہلکاروں کے بيانات پر بھی غور کريں۔ آج کل ميڈيا پر ان ميں سے اکثر امريکہ کے شديد ترين نقاد گردانے جاتے ہيں۔ ليکن اس کے باوجود يہ نقاد بھی ان واقعات کے تسلسل سے انکاری نہيں ہيں جن کے متعلق ميں نے دستاويزات پوسٹ کی ہيں۔

    مثال کے طور پر آئ – ايس – آئ کے سابق افسر خالد خواجہ جو کرنل امام کے نام سے جانے جاتے ہيں اور ماہرين کی نظر ميں انھيں بجا طور پر طالبان کا گاڈ فادر قرار ديا جا سکتا ہے۔ اپنے ايک انٹرويو ميں جب ان سے 80 کی دہائ ميں افغان جنگ ميں امريکی کردار کے حوالے سے سوال کيا گيا تو ان کا جواب قابل توجہ تھا۔

    اس ويڈيو ميں 4:38 منٹ پر ان کا جواب موجود ہے۔

    KHALID KHAWAJA INTERVIEW.. Must Watch all parts

    "وہ ہماری جنگ تھی۔ جرنل ضيا کی يہ بہت بڑی کاميابی تھی کہ انھوں نے امريکہ کو اس جنگ ميں شامل کروايا۔ جب ہم انھيں منانے ميں کامياب ہو گۓ تو پھر ہميں امريکہ اور سعودی عرب دونوں سے امداد موصول ہوئ"

    ميں نے يہ بات ہميشہ تسليم کی ہے کہ امريکی حکومت نے افغانستان ميں سويت حملے کے بعد مجاہدين کی مکمل حمايت کی تھی۔ اس حقیقت سے کوئ انکار نہيں کر سکتا۔ حالات کے تناظر ميں وہ ايک درست اور منصفانہ فيصلہ تھا۔

    کيا آپ کے خيال ميں افغانستان کے لوگوں کی مدد نہ کرنا ايک درست متبادل ہوتا؟

    يہاں يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ افغانستان پر سوويت افواج کے حملے کے بعد صرف امريکہ ہی وہ واحد ملک نہيں تھا جس نے امداد مہيا کی تھی بلکہ اس ميں مسلم ممالک جيسے سعودی عرب اور شام سميت ديگر بہت سے ممالک بھی شامل تھے۔ دنيا کے مختلف ممالک سے آنے والی فوجی اور مالی امداد براہ راست پاکستان منتقل کی جاتی رہی۔ اور پھر پاکستان کے توسط سے يہ امداد افغانستان پہنچتی

    اس ضمن ميں آئ – ايس – آئ کے سابق چيف جرنل حميد گل کا انٹرويو آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہیں۔

    Loud Pakistan Ka Khuda Hafiz
    /
    http://www.youtube.com/watch?v=eBy48Bkj4y4&feature=player_embedded

    انھوں نے اپنے انٹرويو ميں يہ واضح کيا کہ يہ پاکستانی افسران ہی تھے جنھوں نے يہ فيصلہ کيا تھا کن گروپوں کو اسلحہ اور ديگر سہوليات سپلائ کرنا ہيں۔ انٹرويو کے دوران انھوں نے يہ تک کہا کہ "ہم نے امريکہ کو استعمال کيا"۔

    يہ کسی امريکی اہلکار کا بيان نہيں بلکہ شايد پاکستان ميں امريکہ کے سب سے بڑے نقاد کا ہے۔

    اور يہ واحد شخص نہيں ہيں جنھوں نے اس ناقابل ترديد حقيقت کو تسليم کيا ہے۔

    برگيڈير محمد يوسف 1983 سے 1987 تک آئ– ايس - آئ ميں افغان بيرو کے انچارج تھے۔ انھوں نے بھی اپنی کتاب "بير ٹريپ" کے صفحہ 81 پر اس بات کی تصديق کی ہے کہ افغان جہاد کے دوران جتنی مالی امداد امريکہ نے دی تھی اتنی ہی سعودی عرب نے بھی دی تھی۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ساری امداد افغانستان تک منتقل کرنے کی ذمہ داری پاکستان نے لی تھی۔

    کچھ عرصہ قبل اس وقت کے پاکستانی صدر ضياالحق کے صاحبزادے اعجازالحق نے بھی ايک ٹی وی پروگرام ميں يہ تسليم کيا تھا کہ پاکستان افغانستان ميں بيرونی امداد منتقل کرنے ميں واحد کردار تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے اہلکار جو اس تناظے کے اہم کردار تھے، انھوں نے بھی اس حقيقت کی تصديق کی ہے۔

    ان حقاۂق کی روشنی ميں افغان جہاد کے دوران دی جانے والی فوجی اور مالی امداد کو موجودہ دور کی دہشت گردی کی وجہ قرار دينا سرار غلط ہے۔ يہ مسخ شدہ تاريخ دانستہ آج کے مخصوص سياسی ايجنڈے کی تکميل کے لیے تخليق کی گئ ہے۔افغان جہاد کے دوران امريکہ اور سعودی عرب سميت ديگر ممالک نے جو فوجی اور مالی امداد کی تھی وہ افغان عوام کو روسی جارحيت سے نجات دلانے کے ليے تھی ۔ اس کا مقصد مستقبل کے ليے دہشت گرد تيار کرنا نہيں تھا۔ القائدہ کی بنياد امريکہ نے نہيں رکھی تھی اس کے ذمہ دار وہ عرب جنگجو تھے جو اس جنگ کا حصہ بنے تھے اور اس بات کا اظہار القائدہ کی ليڈرشپ بارہا کر چکی ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    U.S. Department of State
    Improve Your Experience | Facebook
     
  11. ابوعمر

    ابوعمر محسن

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 23, 2007
    پیغامات:
    171
    جس طرح اپنی '' معصومیت '' کی وجہ سے امریکہ پاکستان کی باتوں میں آکر افغانستان آ گیا تھا اسی طرح اپنے بھول پن میں اُس وقت کے مجاہدین اور آج کے '' دہشتگردوں'' کی تعریف کے پل بھی باندھتا رہا !!!

    اسامہ بن لادن کو نہ ہم جانتے ہیں‌ اور نہ ہی مسلمانوں کی اکثریت القاعدہ جیسی کسی جماعت کی تائید کرتی ہے۔ لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اسامہ اور القاعدہ کا نام کا حوا بنا کر کس طرح امریکہ نہتے مسلمان بچوں اور عورتوں کا قتل عام کر رہا ہے ۔ عراق ، افغانستان اور پاکستان میں دن رات قتلِ عام کرنے والے امریکی وحشیوں کو امن کی بات زیب نہیں دیتی۔
     
  12. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    اسلام کے حق میں کوشش کرتے رہو۔جذبہ صادقہ کو ہی منزل ملتی ہے۔
     
  13. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954
    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


    جو بھی يہ سوچ رکھے کہ القائدہ کا محض فرضی ہوا کھڑا کيا گيا ہے اور حقيقت ميں اس حوالے سے کوئ خطرہ سرے سے موجود ہی نہيں ہے، اسے چاہيے کہ گزشتہ دو دہائيوں کے دوران دنيا بھر ميں اس تنظيم کی کاروائيوں اور ظلم اور بربريت پر مبنی شہ سرخيوں پر ايک نظر ڈالے جو اس تنظيم کی ايک لامتنائ خونی مہم کو اجاگر کرتی ہيں جس کے نتيجے ميں ہزاروں کی تعداد ميں بے گناہ شہری مارے گۓ ہيں، جن ميں زيادہ تر مسلمان ہيں۔

    يہ کہنا حقائق کے منافی اور ناقابل فہم ہے کہ دہشت گردی کا ايشو امريکہ کا تخليق کردہ اور ہماری تشہير کے نتيجے ميں دنيا کے سامنے لايا گيا ہے۔ اگر آپ دنيا بھر ميں دہشت گردی کا شکار ہونے والے بے گناہوں کے کوائف پرنظر ڈاليں تو آپ پر واضح ہو جاۓ گا کہ کسی بھی سياسی اور مذہبی وابستگی سے قطع نظر دہشت گردی تمام انسانيت کے ليے مشترکہ ايشو اور خطرہ ہے۔ يہی وجہ ہے کہ پاکستان سميت دنيا بھر ميں بے شمار اسلامی ممالک کی حکومتوں نے القائدہ اور اس سے منسلک دہشت گرد گروہوں کے خلاف امريکی اور نيٹو افواج کی کاوشوں کو نا صرف يہ کہ تسليم کيا ہے بلکہ اس ضمن ميں مکمل حمايت اور سپورٹ بھی فراہم کی ہے۔

    جہاں تک بارہا دہرايا جانے والا يہ دعوی ہے کہ امريکہ کسی بھی حوالے سے 80 کی دہائ ميں مدد فراہم کرنے کے نتيجے ميں القائدہ کی تخليق کے ليے ذمہ دار ہے تو اس ضمن ميں جو حقائق ميں نے فراہم کيے ہيں وہ واضح طور پر ثابت کرتے ہيں کہ يہ صرف ايک غلط تاثر ہے جو تاريخی طور پر بھی اور دانش وفہم کے معيار کے مطابق بھی قطعی طور پر غلط ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    U.S. Department of State
    Improve Your Experience | Facebook
     
  14. ابوعمر

    ابوعمر محسن

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 23, 2007
    پیغامات:
    171
    القاعدہ اور اس طرح کی دوسری تنظیموں کے طریقہ کار کے بارے میں علماء اسلام کی واضح ہدایات موجود ہیں ۔ لہٰذا اسلام قطعی طور پر دہشت پسندی کی اجازت نہیں دیتا ۔
    لیکن اُس جانبدار اور متعصب مغربی میڈیا کی شہ سرخیوں کی ہمارے نزدیک کوئی حیثیت نہیں جنھیں امریکانے ہمیشہ یک طرفہ رجحان پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اسی طرح اسلامی ممالک کی اکثر و بیشتر حکومتوں کا کیا کہنا ، اُن کی حیثیت تو مغرب کے پٹھووں سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ ان کا کام تو اپنے آقاؤں کی مداح سرائی ہے۔ ان کو کہاں دکھے گا کہ کس طرح امن کے یہ نام نہاد سورما ، پوری دنیا میں معصوم شہریوں کا قتلِ عام میں مصروف ہیں۔

    حالیہ خبر : نیٹو کی کارروائی میں آٹھ شہری ہلاک

    ان اصلی دہشت گردوں کے لیےشرم کا مقام ہے ۔
     
  15. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954
    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



    آپ کی راۓ کو قابل فہم يا منطقی دليل نہيں قرار ديا جا سکتا۔ يہ تو "ميں نا مانوں" والی صورت حال لگتی ہے۔ آپ اپنی راۓ کا خود تنقيدی جائزہ ليں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں اسلامی ممالک ميں حکومتيں اور رياست کے فعال کردار کے ليے ان ميں موجود سينکڑوں کی تعداد ميں ادارے محض امريکہ کی کٹھ پتلياں ہيں؟ کيا آپ دنيا بھر ميں موجود مسلمانوں کے ليے اتنا کم احترام رکھتے ہيں؟ ميں آپ کو موجودہ حالات کے تناظر ميں اپنے انتہائ قريبی اتحادی ممالک اور شراکت داروں سميت دنيا بھر کے بے شمار مسلم ممالک ميں سے ايسی ان گنت مثاليں دے سکتا ہوں جہاں ان ممالک ميں رياستی پاليسياں، فيصلہ سازی کا عمل، سرکاری ايجنڈے اور اہم بيانات ہماری پوزيشن، موقف اور پاليسی سے يکسر متصادم ہيں۔

    مثال کے طور پر اگر پاکستان ميں موجود حکومت آپ کے غلط تاثر کے مطابق محض امريکہ کی کٹھ پتلی ہے تو امريکہ اور پاکستان کی حکومتوں کے مابين کئ ماہ سے جاری نيٹو سپلائ کے حوالے سے موجود تنازعہ اور اس ضمن ميں موجود خلش کو آپ کيا کہيں گے؟ بے شمار ملاقاتوں، سفارتی کاوشوں اور طويل بحث کے باوجود يہ معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔ کيا يہ کسی ايسے تعلق يا باہمی رشتے کی غمازی کرتا ہے جو کہ ايک کمزور اور بے بس غلام اور تمام تر اختيارات سے مزين آقا کے درميان ہوتا ہے؟

    آپ دہشت گردی کی حقيقت کو بھی يہ کہہ کر تسليم کرنے سے انکاری ہيں کہ امريکی حکومت مغربی ممالک اور مسلم ممالک ميں ميڈيا پر اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کر کے ايک مخصوص سوچ اور فکر کو پروان چڑھاتا ہے۔ ليکن آپ يہ بھول رہے ہيں کہ پاکستان ميں ميڈيا دہشت گردی کے عفريت اور اس سے منسوب خطرات کو اجاگر تو ضرور کرتا ہے ليکن بعض موقعوں پر ٹی وی اينکرز اور تجزيہ نگار دنيا بھر ميں تمام تر دہشت گردی کے ليے امريکہ ہی کو مورد الزام قرار ديتے ہيں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی حکومت کسی بھی طرح سے دانستہ اور جانتے بوجھتے ہوۓ اس غلط سوچ اور نظريے کی تشہير اور اس کو فروغ دينے کے لیے کاوش کرے گی جس کے تحت دنيا بھر ميں عام عوام ہزاروں کی تعداد ميں بے گناہ شہريوں کی اموات کے ليے ہميں قصوروار سمجھيں، صرف اس ليے کہ ہم کسی بھی طرح سے دہشت گردی کے ايشو کو زندہ رکھنے اور اس کے وجود کی حقيقت کے ليے دنيا کو قائل کر سکيں؟

    اس دليل ميں منطق کا کوئ بھی پہلو ہے جسے تسليم کيا جا سکے؟ کيا يہ بہتر نہيں ہے کہ دہشت گردی کی ناقابل ترديد حقيقت کو تسليم کيا جاۓ بجاۓ اس کے کہ ايسی متضاد اور بے بنياد کہانياں تخليق کی جائيں جو منطق اور دليل کی کسوٹی پر کسی بھی بنيادی اصول اور پيمانے پر پورا نہيں اترتيں۔ اوکم ريزر کے اصول کے مطابق سب سے آسان اور واضح تشريح اکثر پيچيدہ يا مبہم وضاحتوں سے بہتر ہوتی ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    U.S. Department of State
    Improve Your Experience | Facebook
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں