کیا عریانی ستر ہو سکتی ہے ؟ اوریا مقبول جان

ابوعکاشہ نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏اگست 2, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. منصف

    منصف -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 10, 2008
    پیغامات:
    1,920
    جاہل کی جاہلانہ بات پر طویل تبصرہ ، وقت کا ضائع ہے
     
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    بھائی ۔ یہ شخص آپ کے اور ہمارے نزدیک جاہل ہے لیکن پاکستانی قوم تو انہیں‌ کوئی بہت بڑا دانشور سمجھتی ہے ۔ یقین نہ آئے تو صرف فیس بک اور ٹیوٹر پراس کے پیجز دیکھ لیں‌۔ تھریڈ شروع کرنے کا مقصد یہی تھا کہ اس کی جاہلانہ باتوں کا رد کیا جائے تاکہ کم علم اور ناسمجھ مسلمان خاص طور پر نوجوان نسل اس کی جاہلانہ باتوں کی طرف توجہ نہ کرے اور پردے ، داڑھی سمیت بہت سے مسائل کو سمجھنے کے لیے علماء کی طرف رجوع کریں‌۔ ۔
     
  3. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    اس خبیث کا ایک اور شوشہ۔۔۔۔
    اقبال کی توہین اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو چور کہنا!!!
     
    Last edited by a moderator: ‏اگست 9, 2012
  4. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو چور اس لیے کہتا ہے کہ اس نے چوری کر کے ایٹم بم بنایا ۔ اس کا جواب ایک پروگرام میں دیا گیا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک نے چوری کر کے ہی ایٹم بم بنایا ہے ، پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان اور ڈاکٹرعبدالقدیر خان ہی قصوروار ہے ۔
     
  5. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    نذیر ناجی پہلے ہی دنیا نیوز سے منسلک ہیں ۔ اب حسن نثار بھی جیو چھوڑ کر دنیا نیوز سے وابستہ ہو گئے ہیں‌۔
    Dunya News: پاکستان:-معروف کالم نگار اور...
    دنیا نیوز میں شامل ہونے پرنذیرناجی کا تبصرہ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
    Hassan Nisar Joins Dunya News Network
    ان ممتاز اور معروف جاہلوں کا کوئی دین و مذہب نہیں‌ہوتا ۔ جدھرشہرت و دولت نظرآئی ، اسی کروٹ بیٹھ گئے ۔
     
  6. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    لوٹا ای اوئے!! :00003:
    نذیر ناجی سیاست اور صحافت کا پرانا لوٹا ھے ، اب حسن نثار لوٹا بھی ساتھ مل گیا ۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے لوٹے دو:00026:
     
  7. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    پکے رافضی باپ بیٹا ااس کا یہ کالم پڑھیں اور رافضیوں کی خوشی دیکھیں
    
    اسلامی کانفرنس، یااللہ خیر۔
    تحریر: نذیر ناجی
    اب آپ کو یاد کرنا پڑے گا کہ ایک اسلامی کانفرنس ہوا کرتی تھی، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس تنظیم نے کبھی بھی مسلمانوں کی کسی ریاست یا کسی گروہ کے مفادات کیلئے کبھی کچھ نہیں کیا۔ یہ ہمیشہ اس وقت حرکت میں آتی ہے، جب امریکہ اور اس کے حواریوں کو اسلام کا نام استعمال کرکے اپنے اسٹریٹجک مقاصد کو آگے بڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مجھے اسکا جو سب سے پہلا اور بڑا کارنامہ یاد ہے، وہ اسرائیل کیساتھ معاہدہ امن کرنے کے بعد مصر کی نام نہاد مسلم امہ میں واپسی کا ڈرامہ ہے۔
    انور سادات نے جب کیمپ ڈیوڈ میں یہودیوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کئے تو فطری طور پر لازم تھا کہ عرب عوام میں بالخصوص اور مسلمانوں میں بالعموم اس پر شدید ردعمل پیدا ہوتا، لیکن مسلمان حکمرانوں کو اس معاہدے سے پہلے اعتماد میں لیا جاچکا تھا اور جو ہوا ان کی مرضی سے ہوا۔ انہوں نے صرف عوامی غم و غصے اور بغاوتوں کے خوف سے اس معاہدے کی مخالفت کی اور مصر کو اپنی نام نہاد برادری سے نکال دیا۔ مگر جب عوام کا غصہ قدرے ٹھنڈا ہوا تو مصر کو واپس مسلم امہ کا حصہ بنانے کے لئے اسلامی کانفرنس کا مردہ زندہ کیا گیا۔ اس کا ایک اجلاس منعقد ہوا، ہمارے مرد مومن مرد حق ضیاالحق کی ڈیوٹی لگی کہ وہ مسلم امہ کے ناراض حکمرانوں کو اس بات کا قائل کریں کہ مصر، مسلم امہ کا ایک بہت بڑا اثاثہ ہے اور اسلامی کانفرنس میں اس کی واپسی بہت ضروری ہے۔
    اس مقصد کے لئے او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس) کا ایک خصوصی اجلاس طلب کیا گیا۔ جنرل صاحب اپنی اسلامی شان و شوکت کے ساتھ اسٹیج پر تشریف لائے اور پورا زور خطابت صرف کرتے ہوئے پہلے ہی سے قائل اسلامی حکومتوں کے نمائندوں کو مزید قائل کیا۔ کافروں کو مکے دکھائے، اسرائیلیوں کے خلاف شعلے اگلے۔ اسلامی تاریخ کے سنہرے ادوار کو یاد کیا اور پھر اسلامی کانفرنس کی طرف سے مصر کے ہجر کی درد بھری کہانی دہرائی اور پھر بتایا کہ مصر کی اسلامی کانفرنس میں واپسی کیوں ضروری ہے۔
    یہ ساری المیہ کہانی دہراتے ہوئے وہ کبھی ہنسے، کبھی غضبناک ہوئے، کبھی آنسو بہائے، کبھی ہچکیاں لے کر روئے، پہلے سے تیار اسلامی حکومتوں کے نمائندوں نے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے اور اس جذباتی فضا میں مصر کو اسلامی کانفرنس میں واپس لینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ امریکہ اور اسرائیل جو کام اپنی سفارتی طاقت اور اثر و رسوخ کے ذریعے کرنے میں دقت محسوس کر رہے تھے، اسلامی کانفرنس نے وہ کر دکھایا۔ واشنگٹن اور تل ابیب میں شادیانے بجائے گئے، مصری حکمرانوں نے عرب عوام سے جو غداری کی تھی، اسے سند قبولیت حاصل ہوگئی اور اس کے بعد کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ وہ او آئی سی کہاں گئی اور کیا کرتی رہی۔
    البتہ اس کا سیکرٹریٹ جوں کا توں قائم رہا۔ اسے پیٹرو ڈالر ملتے رہے اور مختلف مسلمان ملکوں کے امریکہ نواز لیڈر اس تنظیم کے عہدیدار بن کر عیش و آرام کے مزے لوٹتے رہے۔ مصر اور پاکستان کے کئی لیڈر اس چشمہ فیض سے خوب سیراب ہوئے، لیکن اسلامی بلاک کی سطح پر یہ تنظیم کہیں نظر نہ آئی۔ میں ان تمام تنازعات اور خونریزیوں کا ذکر نہیں کروں گا، جن سے متعدد ملکوں کے مسلمان دوچار ہوتے رہے۔ خود مسلمانوں نے مسلمانوں کو مارا، لیکن اسلامی کانفرنس کبھی کوئی نتیجہ خیز قدم نہ اٹھا سکی۔
    افغانستان میں بادشاہت کے خلاف مقامی قوم پرستوں نے جب بغاوت کرکے جمہوری حکومت قائم کی تو امریکیوں نے اس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں اور انہیں اتنا مجبور کر دیا کہ ببرک کارمل کو سوویت یونین سے مدد مانگنا پڑی اور جب امریکی سازش اور خواہش کے عین مطابق روسی فوجیں اپنی حمایت یافتہ مقامی حکومت کی مدد کے لئے اسی کی درخواست پر افغانستان میں داخل ہوئیں، تو اسلامی کانفرنس انگڑائی لے کر اٹھی اور پھر جب تک روسی افواج افغانستان سے واپس نہ چلی گئیں، اس کے پے در پے اجلاس ہوئے۔
    امریکہ نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اڈے بنا کر افغانستان کے اندر مداخلت کے جو مراکز قائم کئے، اسلامی کانفرنس، عالمی رائے عامہ کو اس کے حق میں ہموار کرنے کے لئے مسلسل سرگرم رہی۔ افغان جنگ کے دوران او آئی سی کے جتنے اجلاس منعقد ہوئے، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ شمار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جیسے ہی افغانستان سے سوویت افواج واپس گئیں، او آئی سی لاپتہ ہوگئی۔ پچیس چھبیس سال لاپتہ رہنے کے بعد اچانک اس کا اجلاس طلب کرنے کی خبر آئی ہے اور میں سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ اب مسلمانوں کو کہاں پر اور کیسا گھا لگانے کی تیاریاں ہیں۔
    امریکہ نے افغانستان اور عراق پر حملوں کے بعد جنگ کے جو نئے طریقے ایجاد کئے ہیں، وہ بہت انوکھے اور منفرد ہیں۔ پہلے دونوں ملکوں میں باقاعدہ فوجیں اتار کے میدانی جنگیں لڑی گئیں۔ جن میں فضائیہ کا بے رحمانہ استعمال ہوا۔ ان جنگوں کے دوران امریکہ نے اسلام کے نام پر دہشتگرد گروہوں کے ساتھ اپنے رابطے بڑھائے اور حیرت انگیز طور پر جس دہشتگردی کے خلاف اس نے عالمی جنگ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، انہی دہشتگردوں کو مسلمانوں کے خلاف اپنی جنگ میں آلہ کار بنانا شروع کر دیا۔
    اس کا پہلا تجربہ تو پاکستان میں ہوا، جہاں امریکہ نے پاکستان ہی کے تیار کردہ مجاہدین کو اسی کے خلاف استعمال کرنے کا تجربہ کیا۔ تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ایک گروہ کو ہماری مسلح افواج کے خلاف میدان میں اتارا گیا۔ وہ اب ہمارے پورے ملک میں دہشتگردی کر رہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک گروہ سوات میں فضل اللہ کی زیرقیادت میدان جنگ میں اتارا گیا، جو اتنی تیزی سے فتوحات حاصل کرنے لگا کہ مغربی میڈیا نے اسلام آباد پر ان کے قبضے کے خطرات کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا۔
    پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو خطرہ محسوس ہوا کہ دہشتگردوں کی یہ لہر ہمارے ایٹمی اثاثوں کی طرف بڑھنے والی ہے۔ چنانچہ فوج کو میدان میں اتارا گیا اور دہشتگردوں کو اپنی طاقت کا مرکز افغانستان میں منتقل کرنا پڑا، لیکن سوات پر ان دہشتگردوں کے قبضے کے دوران ہمارے میڈیا کے کچھ عناصر نے جیسے بڑھ چڑھ کر ان کی حمایت کی، اس سے پتہ چلا کہ دہشتگرد صرف مقامی نہیں، ان کی ڈوریاں بیرون ملک سے ہل رہی ہیں اور بیرونی طاقتوں کے زیراثر کام کرنے عناصر والے ہمارے ملک میں بیٹھ کر جذباتی فضا کو ان کے حق میں ہموار کر رہے ہیں۔
    کرزئی حکومت بظاہر سیکولر ہے۔ وہ اور امریکہ دونوں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ لیکن پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والے مذہبی انتہا پسندوں کو ان دونوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ کھیل جو ہمارے ملک سے شروع ہوا تھا، بہت دور تک پھیلنے لگا اور افغانستان میں لڑنے والے جن دہشتگردوں کے ساتھ امریکہ نے رابطے کئے، اچانک وہ لیبیا کا رخ کرنے لگے۔ یہاں تک کہ پاکستان نے پشاور سے پکڑے گئے جو دہشتگرد امریکہ کے حوالے کئے تھے اور جنہیں گوانتاناموبے میں قید کیا گیا تھا، وہاں سے رہائی پا کر لیبیا پہنچے اور قذافی کے خلاف بغاوت منظم ک۔
    آپ کو یاد ہوگا کہ بغاوت کے آغاز میں صدر قذافی نے شدید تکلیف کے عالم میں کہا تھا کہ جن نام نہاد مجاہدین کو اس نے اپنے ملک میں پناہ دی، وہی اس کی جان کے دشمن ہوگئے ہیں۔ صدر قذافی کو جس ہجوم نے گھیر کے ہلاک کیا، اس کی قیادت بھی القاعدہ کے وہ لوگ کر رہے تھے جو پاکستان اور افغانستان سے لیبیا گئے تھے اور جس نوجوان نے صدر قذافی پر ہلاکت خیز وار کئے، وہ بھی پاکستان میں رہ کر لیبیا گیا تھا۔
    اسلامی دہشتگردوں کے ذریعے اگلا انقلاب شام میں برپا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ شام کا ڈرامہ آخری مراحل میں ہے۔ او آئی سی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے اور میں دعا کر رہا ہوں کہ اے اللہ! مسلمانوں کی خیر اور ساتھ ہی سوچ رہا ہوں کہ اس مرتبہ اسلامی کانفرنس کا نشانہ صرف شام کے مسلمان ہوں گے یا پاکستان، بنگلہ دیش، یمن اور افریقہ میں ساحل کے ممالک، سب اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔
    "بشکریہ روزنامہ جنگ"
     
  8. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    رافضی انیق ناجی نے گیسٹ کون بلائے؟؟ ڈاکٹر مہدی اور اصغر ندیم سید جو حجاب کے لئے عورتوں کے ایرانی چینل کی مثال دے رہا تھا جدھر سب عورتیں کام کرتی ھیں ۔
     
  9. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    اصغر ندیم سید تو خود پکا رافضی ہے
     
  10. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    اور 'پروفیسر' ساجد حمید ؟؟؟ :biggrin:
     
  11. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    غامدی کا معروف چیلا!!!
     
  12. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    بھانجا
     
  13. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    ڈاکٹر مہدی حسن کی نئی بکواس

    :00003: سوچو پیارے پاکستانیو انیق ناجی حجاب کا حکم پوچھنے کس کے پاس گیا تھا؟؟؟ رافضیاں دے بڈھے ویلے دے کم ویکھو :00003:

     
  14. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    آپ لوگوں نے اس کو نوٹس کیا ہے تو وہ حدیث مبارک بھی سنی ہو گی جس کو اس شخص نے توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے ؟ کذاب ہے یہ ۔
     
  15. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    کونسی والی؟
     
  16. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    طبیبہ صحابیہؓ کے مسجد نبوی میں خیمے والی حدیث ۔
     
  17. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329

    On The Front - 9th September 2012 کو کامران شاہد کے پروگرام میں پاکستانی میڈیا اور فحاشی کے مسئلے پر حسن نثار،اوریا مقبول جان، سہیل احمد اور دوسرے مہمان تھے ۔
    On The Front - 9th September 2012


    اس بحث کے بارے میں ایک کالم

    ابلیسیت کے ثنا خوانوں سے
    غلام اکبر

    اگر آپ غور کریں تو جو لوگ ہمیں فحاشی اور عریانی کے معاملے میں لبرلزم اختیار کرنے کا سبق دیتے ہیں‘وہ دراصل یا تو قرآن حکیم کو الہامی کتاب مانتے ہی نہیں یا پھر ان کے خیال میں چودہ سوبرس قبل کا وہ اللہ تعالیٰ کوئی اور تھا جو پیغمبرِاسلام حضرت محمد سے ہم کلام ہوا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کوئی اور ہے جو اکیس ویں عیسوی صدی میں نظامِ حیات چلارہاہے۔)نعوذ باللہ(
    دوسرے الفاظ میں ہمارے یہ لبرل دانشور یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ بدلتی دنیا کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کو بھی بدلتے رہنا چاہئے اور اگروہ نہیں بدلتا تو یہ فرض ہم پر عائد ہوجاتا ہے کہ ہم اسے بدل ڈالیں۔ )نعوذ باللہ(
    یہ لبرلزم کا شوق اور رواج نسلِ انسانی کی تاریخ میں نیا نہیں۔ اگر قرآن حکیم کو ہی ریفرنس کا حتمی اور سب سے مستند ذریعہ سمجھا جائے تو عاد‘ ثمود اور صدوم ۔۔۔ تینوں قوموں کی تباہی تب ناگزیر بنی تھی جب ان میں لبرلزم انتہا کو پہنچ گیا اور اخلاقیات یا مورالٹی کا تصور حقیقت سے دور رہنے والے خیال پرستوں سے منسوب کردیا گیا۔قوم ِنوح کے لبرلزم کےلئے اللہ تعالیٰ نے قیامت بپا کرنے والی بارش کا انتخاب کیا۔ جہاں تک حضرت ہود ؑ‘ حضرت صالح ؑ ‘ حضرت لوط ؑ اور حضرت شعیب ؑ کی قوموں کا تعلق ہے ان کا لبرلزم اللہ تعالیٰ کی نظروں میں ایسے ” زلزلوں “ کا مستحق قرار پایا جن میں لوگ کبھی رات کے اندھیرے میں اور کبھی دن کے اجالے میں ہمیشہ ہمیشہ کی نیند سو گئے۔ اکیسویں صدی میں اگر لبرلزم کی آڑ میں فحاشی اور عریانی اسی طرح عروج پر ہے جس طرح قدیم ادوار کی ان تہذیبوں میں تھی جنہیں اللہ تعالیٰ نے طوفانوں اور زلزلوں کی نذرکردیا‘ تو ہمیں کوئی اچنبھا نہیں ہونا چاہئے۔ آج بھی ابلیس ہمارے نفس کو اپنے راستے پر ڈالنے کےلئے اسی طرح آزاد ہے جس طرح دور ِ نوح ؑ ‘ دورِ ہود ؑ ‘ دورِ صالح ؑ‘ دور ِلوط ؑ یا دورِشعیب ؑ میں آزاد تھا۔ انسان بھی نہیں بدلا‘ ابلیس بھی نہیں بدلا مگر ہمارے دانشور کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو تبدیل کرڈالیں )نعوذ باللہ(یعنی ایک ایسے نئے اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود بنالیں جو ہمیں عریانی فحاشی بے حجابی اور بے حیائی کی اجازت دیتا ہو۔ )نعوذ باللہ ( میں بڑی سخت بات لکھ رہا ہوں لیکن دیانت داری سے سوچیں کہ کیا ہمارے ٹی وی چینلز پر پروان چڑھنے والے مادر پدر آزاد کلچر کے لبرل نقیب علمبردار اور پروموٹر یہی بات نہیں کہہ رہے کہ ہم نئے دور کے نئے تقاضوں سے بغلگیر ہونے کےلئے اپنا خدا اور اپنا قبلہ تبدیل کریں۔؟
    گزشتہ دنوں مجھے ایک ایسے ہی ” لبرل ثنا خوان ِ مغرب“ کی گونجتی گرجتی آواز ایک ٹی وی چینل پر سنائی دی۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔ ” یہ منافقت ۔۔۔ یہ ملائیت ۔۔۔ یہ جھوٹ اور یہ خود فریبی چھوڑو۔۔۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کپڑے کتنے مختصر پہنے جاتے ہیں اور جسم کتنا چھپایا جاتا ہے۔ اگر فرق پڑ رہا ہوتا تو مغرب کے سارے ممالک شاہراہِ ترقی پر سفر نہ کررہے ہوتے۔ اصل مورالٹی اس بات میں ہے کہ ہم ناپ تول میں ڈنڈی تو نہیں مارتے‘ ٹیکس تو نہیں چراتے ۔ فریب اور فراڈ تو نہیں کرتے۔۔۔“
    میں اُن سے پوچھنا چاہتا تھا کہ جو معاشرہ قرآن حکیم کے احکامات کے ایک حصے کو )نعوذ باللہ (ٹھکراتا ہو وہ دوسرے حصے پر عمل کیسے کرے گا۔
    جس قرآن میں اللہ تعالیٰ نے شرم و حیا اور حجاب کے واضح اصول وضع کئے ہیں وہی قرآن ناپ تول میں دیانت اور فریب و فراڈ سے اجتناب کا حکم بھی دیتا ہے۔ہم شرم و حیا اور حجاب کے واضح اصول متعین کرنے اور اس سلسلے میں غیر مبہم ہدایات دینے والے خدا کو )نعوذ باللہ (بالائے طاق رکھ کر ایک ایسے ” خدا“ کو اپنا ” معبود“ کیوں بناناچاہتے ہیں جو ابلیس کا ہمنوا ہو؟ جس پروگرام کا میں نے ذکر کیا ہے اور جس میں ” تقدیسِ مغرب “ کے متذکرہ ثنا خوان نے عریانی اور فحاشی کو ”نان اشو “ قرار دیا ‘ اسی پروگرام میں ایک معروف پرفارمربھی حصہ لے رہے تھے جنہوں نے اپنی ذہانت اور ظرافت دونوں کی بدولت بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہے۔ انہوں نے ” ہمنوائے ابلیس “ سے براہ راست مخاطب ہو کر کہا کہ ” جناب یہ تاثر غلط ہے کہ اہل ِ مغرب اپنی تہذیب میں فروغ پانے والی عریانی اور فحاشی سے خوش ہیں۔ مادر پدر آزاد رویوں نے خاندانوں کے خاندان برباد کردیئے ہیں‘ ایسے بچے دھڑا دھڑ پیدا ہورہے ہیں جن کی مائیں انہیں والد کا نام نہیں دے پاتیں‘ فیملی سسٹم داستان ِ پارینہ بن چکا ہے اور صرف عورت اور مرد ہی شادی کے بغیر ایک ساتھ نہیں رہتے‘ ہم جنس جوڑوں کی تعداد بھی ناقابل یقین تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ ایسے معاشرے کو ترقی یافتہ کہنا بہت بڑی خود فریبی ہے۔ میں نے درجنوں مغربی ملکوں میں پرفارم کیا ہے اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہاں کے معاشرے اپنی اخلاقی زبوں حالی اور بربادی پر اتنے نازاں نہیں جتنے نازاں ہمارے لبرل دانشور اپنے گھروں کی بہو بیٹیوں کو نیم لباسی یا بے لباسی میں دیکھ کر ہوا کرتے ہیں۔ خدا کا خوف کریں بھائیو۔۔۔ ہم مسلمان ہیں۔ اللہ کا حکم ماننا اور اللہ سے ڈرنا ہم پر لازم ہے ۔ ٹی وی سکرین پر پنڈلیوں بازوﺅں اور جسم کے دیگر حصوں کی نمائش کرنا لبرلزم نہیں اللہ کے قہر کو للکارنا ہے۔“ ان صاحب کی باتیں سن کر مجھے قلبی اطمینان ہوا کہ اس نقار خانے میں کچھ ایسی آوازیں بھی گونج رہی ہیں جن کا رشتہ اپنی تاریخ اور اپنی ثقافت سے ہے۔میں یہاں ان فیشن شوز کی بات کروں گا جن کے بغیر متعدد ٹی وی چینلز کا خبرنامہ بھی مکمل نہیں ہوتا۔
    یہ فیشن شوز مجھے پرانے ادوار کی ان تہذیبوں کی یاد دلاتے ہیں جن میں فاحشائیں یا لونڈیاں شب بسری کےلئے امراءکا ” شرف ِ قبولیت“ پانے کےلئے اسی انداز میں پریڈ کیا کرتی تھیں۔مغربی تہذیب کا المیہ ہی یہی ہے کہ وہ عورت کو تفریح یا تسکین کے ذریعے سے زیادہ حیثیت دینے کےلئے تیار نہیں ۔ لیکن جتنی تیزی کے ساتھ مغربی تہذیب کی کوکھ سے جنم لینے والی یہ وباءہمارے معاشرے میں پھیلی ہے وہ ہمیں ان تہذیبوں کے عبرتناک انجام یاد دلانے کےلئے کافی ہونی چاہئے جنہوں نے نفس کو اپنا حاکم اور ابلیس کو اپنا خدا بنایا۔ کیا ہمیں آسمانی آفات کا انتظار کرنا چاہئے یا اصلاحِ احوال کےلئے خود ابلیسی قوتوں کو للکارنا چاہئے۔
    میں جانتا ہوں کہ رنگین شاموں اور رنگین تر راتوں کے رسیا مخالف سمت سے آنے والی ہر آواز کو غیرت برگیڈ کا نام دے کر ڈسمس کررہے ہیں ۔ مگر جو قوم شان ِ رسول میں گستاخی پر کفن سر پر باندھ سکتی ہے‘ وہ قرآنی ہدایات کی پامالی پر کب تک خاموش رہے گی ؟ ​
     
  18. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
  19. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    اچھا کالم ہے ، اس پروگرام کو سننے کا موقع اب تک نہیں ملا لیکن تعریف سنی ہے ۔
    ایک بات جو ہم معصوم سمجھتے نہیں ، میڈیا فحاشی کی مذمت کے لیے صرف ان کو بلاتا ہے جو شوبز کے شیطانی کاروبار سے منسلک ہیں ۔ یہ ہلکی پھلکی مذمت کر کے عوام کو خوش کر دیتے ہیں ۔
    رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی ​

    ّآپ اس پروگرام کے پینلسٹ دیکھ لیں سب اس کاروبار سے منسلک ہیں اس کی کمائی سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔
    اوریا مقبول جان: ڈرامہ رائٹر
    سہیل احمد: تھئیٹر ٹی وی ایکٹر
    کامران شاہد : فلمی ایکٹر کی اولاد صحافی

    ہم ان سے توقع کرتے ہیں کہ یہ قبلہ درست کریں گے ؟
    ٹھیک ہے یہ حسن نثار کی طرح کھل کر ابلیس کے حامی نہیں لیکن ایک حد تک یہ بھی اسی گروہ سے ہیں جو بے حیائی کا مبلغ ہے۔ اس اعتبار سے حسن نثار ان کو منافق کہنے میں حق بجانب ہے ۔
    ہم یا تو بہت معصوم ہیں یا شاید معصوم بنے رہنا چاہتے ہیں !
     
  20. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    علما کو بلا کر انہوں نے پھنسنا ہے
    کامران شاہد کے ایک پروگرام پہ اہل الحدیث بھائی نے لکھا تھا یہ اس میں مفتی عبدالقوی کے ساتھ بدتمیزی پہ چپ رہا تھا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں