کیا بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر اپنا مال خرچ کر سکتی ہے؟

عائشہ نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏ستمبر 24, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    حال ہی میں شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ کا زیر نظر فتوی دیکھا تو یاد آیا کہ ایک مرتبہ مجلس پر اس موضوع پر بات ہوئی تھی۔ اب وہ بحث مل نہیں رہی لیکن امید ہے کہ یہ مطالعے کے لیے ایک مفید انتخاب ہو گا۔
    جواب: الحمد للہ :
    اس میں کوئي شک وشبہ نہیں کہ عاقل بالغ اورآزاد اورتصرفات کرسکتا ہو کواپنی زندگی میں اپنے ذاتی مال میں تصرف کرنے کا حق ہے اوراس کے لیے جائز ہے کہ وہ چاہے خرید وفروخت کرے یا کرایہ وغیرہ پر دے یا پھر ھبہ اوروقف کرے اوراسی طرح باقی تصرفات بھی اس کے لیے جائز ہیں ، اوراہل علم کے مابین اس میں کوئي اختلاف نہیں ۔
    اوراہل علم کے مابین اس میں بھی کوئي اختلاف نہیں کہ خاوند کواپنی بیوی کے ذاتی مال میں کوئي اعتراض کرنے کا حق نہیں جبکہ اس کا تصرف کسی عوض میں ہو یعنی خرید وفروخت ، اورکرایہ وغیرہ ۔
    اورجب وہ عورت عقل مند اورتصرف کرنے میں بھی جائزہو اورپھر وہ عادتا دھوکہ باز بھی نہ ہو اس کے لیے تصرف جائز ہے ۔
    دیکھیں : مراتب الاجماع لابن حزم ( 162 ) ، الاجماع فی الفقہ الاسلامی تالیف ابوجیب ( 2 / 566 ) ۔
    علماء کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ کیا عورت اپنا سارا مال یا اس میں کچھ حصہ اپنے خاوند کی اجازت کی بغیر ہبہ کرسکتی ہے ، ذيل میں ہم مختلف مذاہب بیان کرتے ہیں :
    پہلا قول :
    مالکیہ اورحنابلہ کی ایک روایت ہے کہ :
    ثلث سے زيادہ مال کے ہبہ میں خاوند کوروکنے کا حق ہے ، اس سے کم میں خاوند کوروکنے کا حق نہیں ۔
    دیکھیں شرح الخرشی ( 7 / 103 ) المغنی لابن قدامہ ( 4 / 513 ) نیل الاوطار ( 6 / 22 ) ۔
    ان کے دلائل میں قیاس اورمنقول دونوں ہی شامل ہیں :
    منقول میں سے دلائل :
    کعب بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ کی بیوی خیرۃ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا زیور لے کر آئي تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا :
    عورت کواپنے مال میں سے خاوند کی اجازت کے بغیر کچھ بھی جائز نہیں ، توکیا تو نے کعب ( رضي اللہ تعالی عنہ ) سے اجازت لی ہے ، اس نے کہا جی ہاں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک کے پاس ایک شخص کوبھیجا کہ ان سے پوچھے کہ کیا تو نے خیرہ کواپنا زیور صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے ، توانہوں نے جواب میں کہا جی ہاں میں نے اجازت دی ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قبول کرلیا ۔
    سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2380 ) اس حدیث کی سند میں عبداللہ ابن یحیی اوراس کا والد دونوں راوی مجھول ہيں ۔
    2 - عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی روایت میں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ میں فرمایا :
    ( کسی بھی عورت کا خاوند کی اجازت کے بغیر عطیہ دینا جائز نہیں ) سنن ابوداود کتاب البیوع باب نمبر ( 84 ) ، سنن نسائی الزکاۃ باب ( 58 ) مسنداحمد ( 2 / 179 ) سنن ابن ماجۃ ( 2 / 798 ) ۔
    اورایک روایت میں ہے کہ :
    ( جب خاوند بیوی کی عصمت کا مالک بن جائے تواس کے لیے اپنے مال میں کچھ بھی جائز نہيں ) ترمذی کے علاوہ باقی پانچ نے اسے روایت کیا ہے ۔
    یہ اوراس سے قبل والی حدیث اس کی دلیل ہے کہ بیوی کے لیے جائز نہيں کہ وہ خاوندکی اجازت کے بغیر اپنے مال میں تصرف کرسکے ، اوراس میں یہ ظاہر ہے کہ عورت کےلیے اپنے مال میں تصرف کرنے لیے خاوندکی اجازت شرط ہے ، اس قول کے قائلین نے ثلث سے زیادہ کی شرط دوسری نصوص کی وجہ سے لگا‏ئي ہے ، جن میں یہ ہے کہ مالک کے لیے صرف ثلث اوراس سے کم میں وصیت کرنے کا حق حاصل ہے اس سے زيادہ کی وصیت نہیں کرسکتا لیکن اگرورثاء اجازت دیں تو پھر کرسکتا ہے ۔
    جیسا کہ سعدبن ابی وقاص رضي اللہ تعالی عنہ کے قصہ میں میں جو کہ مشہور ہے اس میں ہے کہ جب انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے سارے مال کے صدقہ کے بارہ میں پوچھا توآپ نے اجازت نہ دی اورجب دو ثلث کا پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی نہیں ہی کہا اورجب انہوں نے ثلث کے بارہ میں پوچھا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ثلث ٹھیک ہے اورپھر ثلث بہت ہے ۔ صحیح بخاری و مسلم ۔
    اورقیاس ميں ان کی دلیل یہ ہے کہ :
    خاوند کا حق اس کے مال سے بھی متعلق ہے جس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
    ( عورت سے اس کے مال اوراس کی خوبصورتی وجمال اور اس کے دین کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے ) اسے ساتوں نے روایت کیا ہے ۔
    اورعادت ہے کہ بیوی کے مال کی وجہ سے خاوند اس کا مہر بھی زيادہ کرتا ہے اوراس میں دلچسپی لیتااوراس سے نفع حاصل کرتا ہے ، اورجب اسے تنگي پیش آجائے تووہ اسے مہلت دے دیتا ہے ، تواس طرح یہ مريض کےمال سے وارثوں کے حقوق کی جگہ ہوا ۔ دیکھیں المغنی لابن قدامہ ( 4 / 514 ) ۔
    دوسرا قول :
    خاوند کومطلق طورپر بیوی کوتصرف سے روکنے کا حق حاصل ہے ۔چاہے وہ کم ہویا زيادہ لیکن صرف خراب اورضائع ہونے والی اشیاء میں یہ حق نہیں ۔
    یہ قول لیث بن سعد کا قول ہے ۔ دیکھیں نیل الاوطار ( 6 / 22 ) ۔
    تیسرا قول :
    عورت کواپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کرنے کا حق نہیں :
    یہ طاووس رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے ۔ دیکھیں فتح الباری ( 5 / 218 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی فتح الباری میں کہتے ہیں :
    طاووس رحمہ اللہ تعالی نے عمروبن شعیب والی مندرجہ ذيل حدیث سے استدلال کیا ہے :
    عورت کےلیے اپنے مال خاوند کی اجازت کے بغیر عطیہ جائز نہیں ۔ ابوداود اورنسائی رحمہ اللہ تعالی نے روایت کی ہے ، ابن بطال رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : باب کی احادیث صحیح ہیں ۔
    چوتھا قول :
    عورت اپنے مال میں مطلقا تصرف کا حق حاصل ہے چاہے وہ عوض کے ساتھ یا بغیر عوض کے ، چاہے وہ سارے مال میں یہ کچھ میں ۔
    یہ قول جمہورعلماء کرام کا ہے ، جن میں شافعیہ ، احناف ، حنابلہ کا ایک مذھب ، اورابن منذر شامل ہيں ۔ دیکھیں المغنی لابن قدامہ ( 4 / 513 ) الانصاف ( 5 / 342 ) اورشرح معانی الآثار ( 4 / 354 ) فتح الباری ( 5 / 318 ) ، نیل اولاطار ( 6 / 22 ) ۔
    کتاب وسنت اورنظر کے اعتبار سے سب سے زيادہ عادل اورصحیح قول یہی ہے ۔
    کتاب اللہ سے دلائل :
    اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
    { اورعورتوں کو ان کے مہر پورے کے پورے ادا کرو ، اگر تو وہ تمہیں اپنی مرضي اورخوشی سے کچھ معاف کردیں تواسے بڑي خوش سے کھاؤ } ۔
    تواللہ تعالی نے اس آیت میں خاوند کے لیے بیوی کے مال سے جس پر وہ راضي ہو مباح قرار دیا ہے ۔
    اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :
    { اوراگر تم انہیں چھونے سے قبل ہی طلاق دے دو اوران کا مہر مقررکر چکے ہو توجوتم نے مہر مقررکیا ہے اس کا نصف ادا کرو لیکن اگروہ معاف کردیں } ۔
    تواللہ تعالی نے خاوند کے طلاق دینے کے بعد عورت کو اپنا مال معاف کرنے کی اجازت دی ہے اوراس میں کسی کوبھی دخل نہیں کہ اس سے اجازت طلب کی جائے جوکہ عورت کے اپنے مال میں تصرف کرنے کی دلیل ہے ، اوراس پر بھی دلیل ہے کہ اپنے مال میں اسی طرح ہے جس طرح کہ مرد اپنے مال میں تصرف رکھتا ہے ۔ دیکھیں کتاب : شرح معانی الآثار ( 4 / 352 ) ۔
    اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا ہے :
    { اوریتیموں کو ان کے بالغ ہونے تک سدھارتے اورآزماتےرہو پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اورحسن تدبیر پاؤ توانہیں ان کے مال سونپ دو } النساء ( 6 ) ۔
    اوریہ بالکل ظاہر ہے کہ اگر یتیم بچی ہوشیار اوربالغ ہوجائے تواس کے لیے اپنے مال میں تصرف کرنا جائز ہے ۔
    اوراسی طرح جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےعید کے خطبہ میں وعظ ونصیحت کرنے کے بعد عورتوں نے اپنے زیورات صدقہ کردیے ، تویہ سب کچھ اس پر دلالت کرتا ہے کہ عورت کا اپنے مال میں تصرف کرنا جائز ہے اورکسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ۔
    دیکھیں کتاب : اتحاف الخلان بحقوق الزوجین فی الاسلام تالیف ڈاکٹر فیحان بن عتیق المطیری ص ( 92 - 96 ) ۔
    نیل الاوطار میں ہے کہ :
    جمہور اہل علم کا کہنا ہے کہ :
    جب عورت بے وقوف نہ ہو تواس کے لیے مطلقا اپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا جائز ہے ، اوراگروہ بے وقوف ہو تو پھر جائز نہیں ۔
    فتح الباری میں کہا ہے کہ :
    جمہورعلماء کرام کی اس پر کتاب وسنت میں سے بہت سے دلائل ہيں ، انتہی ۔
    جمہور علماء کرام نے اس حدیث :
    عورت کے لیے اپنے مال میں خاوند کی عصمت میں رہتے ہوئے ہبہ جائز نہیں ۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 3079 ) صحیح الجامع حدیث نمبر ( 7265 ) اوربعض روایات کا بیان ہوچکا ہے ۔
    اس حدیث سے استدلال کا رد کرتے ہوئے جمہور علماء کرام کہتے ہیں :
    یہ ادب اورحسن معاشرت اورخاوند کے بیوی پر حق اورمقام مرتبہ اوراس کی قوت رائے اورعقل پر محمول ہے کہ خاوند ان اشیاء میں پختہ ہوتا ہے ۔
    امام سندھی نے نسائی کی شرح میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے کہا ہے کہ :
    یہ حدیث اکثر علماء کرام کےنزدیک حسن معاشرت اورخاوند کوراضی وخوش کرنے کے معنی پر ہے ، اورامام شافعی رحمہ اللہ تعالی سے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث ثابت ہی نہیں تو ہم کس طرح ایسا کہيں اورقرآن مجید اس کے خلاف پر دلالت کرتا ہے ، قرآن مجید کےبعد سنت اورپھر آثار اوراس کے بعد معقول کا درجہ ہے ۔۔۔
    میمونہ رضي اللہ تعالی عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے بغیر ہی غلام آزاد کردیا تھا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علم ہونے پر انہیں کوئي عیب نہیں لگایا ، تویہ اس کے علاوہ دوسری احادیث اس پر دلالت کرتی ہيں کہ یہ حدیث اگر ثابت ہوتو پھر ادب واحسان اوراختیار پر محمول ہوگي ۔
    تو اس طرح مسلمان عورت کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنے خاوند سے اجازت طلب کرے اوراجازت لینا اس پر واجب تونہیں بہتر ہے ، اسے اس کا اجر بھی ملے گا ۔
    ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا عورتوں میں سے کونسی عورت بہتر ہے ؟
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    وہ عورت اچھی اوربہتر ہے جب اس کی طرح خاوند دیکھے تووہ اسے خوش کردے ، اورجب اسے کوئي حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے ، اوروہ اپنے مال اورنفس میں خاوند کی مخالفت نہ کرے جسے وہ ناپسند کرتا ہو ۔ سنن نسائي حديث نمبر ( 3179 ) صحیح الجامع حدیث نمبر ( 3292 ) ۔
    واللہ اعلم .
    الشیخ صالح المنجد

    http://islamqa.info/ur/4037
    http://islamqa.info/ur/4037
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  2. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    خاوند كی اجازت کے بغیر عورت کو اسکے مال میں تصرف کرنے سے منع والی احادیث واضح ہیں ۔
    انہیں ایک تہائی سے زائد کے ساتھ مقید کرنا بلا دلیل اور غلط ہے۔
    ایک تہائی سے زائد ہبہ یا صدقہ تو مرد بھی نہیں کر سکتا جیسا کہ مرفوع احادیث سے واضح ہے۔ نہ کسی سے اجازت لے کر اور نہ ہی اجازت کے بغیر۔

    یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اجازت دو طرح سے ہوتی ہے
    اجازت لفظی
    اجازت عرفی
    مرد کی طرف سے تصرف کی اجازت لفظا نہ بھی ہو تو انکے عرف میں عورت کو جتنا تصرف کرنے کی اجازت ہوتی ہے اتنا تصرف وہ کر سکتی ہے۔
     
  3. انا

    انا -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 4, 2014
    پیغامات:
    1,400
    جزاک اللہ خیرا۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    حضرات ممانعت والی احادیث پڑھ کر آنکھیں ٹھنڈی کر سکتے ہیں،خواتین حلت والی نصوص پر خوش ہوسکتی ہیں۔ شکر ہے کہ یہ فتوی شیخ صالح المنجد کا ہے۔ ہماری تو کوئی بیوی نہیں جس کا مال ہم کھائیں اس لیے کونفلکٹ آف انٹرسٹ کا کوئی خطرہ نہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • ظریفانہ ظریفانہ x 1
  5. انا

    انا -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 4, 2014
    پیغامات:
    1,400
    الحمداللہ مجھے تو خوب تسلی ہوئی ۔ جہاں میاں بیوی میں اتفاق اور خلوص ہو گا ، وہاں بیوی اپنے میاں کی مالی مشکل کے وقت خود بخود ہی اپنا تمام مال و دولت دینے پر راضی ہو جائے گی۔ اور خوشحالی کے دنوں میں ، میری سمجھ سے باہر ہیں وہ مرد جو اپنے اللہ کے بھروسے اور اپنی قوت بازو کی بجائے بیگم کے مال پر نظر رکھیں ۔ہاں جہاں تعلقات اچھے نہیں وہاں تو بیویوں کو اور اپنےمال و دولت کے لیے محتاط ہو جانا چاہئے کہ علیحدگی کی صورت میں اپنا گزر بسر کرنے کے قابل رہیں ۔
     
    • متفق متفق x 1
  6. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    یہاں شوہر کو دینے کی نہیں، اس کی اجازت سے خرچ کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ یعنی ملکیت بیوی کی ہے لیکن کیا وہ شوہر کے علم اور مرضی کے بغیر خرچ کر سکتی ہے۔ علما کے اختلاف کی وجہ بھی یہی ہے کہ حالات کئی قسم کے ہو سکتے ہیں۔ بعض میاں بیوی مالی معاملات کے بارے میں ہوشیار ہوتے ہیں، لیکن کہیں بیوی کو مالی فیصلوں کی بالکل سمجھ نہیں ہوتی، مگر اس کے پاس پیسہ ہوتا ہے، مثلا جائیداد یا تحفوں کی صورت میں ۔ ان سب صورتوں کا حل اس فتوے میں بتا دیا گیا ہے۔
    ابھی حال ہی میں ایسی ایک خبر نظر سے گزری
    آج کل آپ جانتی ہیں بینک میں اکاؤنٹ بنتے ہی کئی طرح کی انعامی سکیموں والے جان کو آ جاتے ہیں، ایسے میں ایک عام انسان کو چاہیے اپنے کسی خیرخواہ سے مشورہ ضرور کر لے۔ اس میں مرد عورت کی قید نہیں۔ اسی طرح بعض اوقات کوئی خاتون مالی معاملات میں زیادہ علم والی ہو سکتی ہے کہ خاندان کے مرد اس سے مشورہ کرتے ہیں، لیکن ہمارے معاشرے میں خواتین کی تعلیم وتربیت میں پسماندگی کی وجہ سے عموما مرد حضرات باہر کی دنیا کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ ویسے یہ اچھی بات نہیں ہے کہ کوئی باشعور انسان اپنی اہلیہ اور بیٹیوں کی تربیت کو نظر انداز کرے اور انہیں بالکل ہی محتاج بنائے رکھے۔ جیسا کہ علما نے مثالیں دی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اپنے مالی فیصلے کرتی تھیں۔
    میں ایک سال سے اس موضوع پر کورس پڑھا رہی ہوں، وہاں دل کھول کر بات ہو جاتی ہے اس لیے یہاں بحث کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ہماری قوم نے ویسے بھی خود کو بدلنے کی فکر تھوڑی کرنی ہوتی ہے۔ بحث برائے بحث کرنی ہوتی ہے۔
     
    Last edited: ‏جون 29, 2016
    • متفق متفق x 1
  7. انا

    انا -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 4, 2014
    پیغامات:
    1,400
    ٹھیک۔ مشورہ تو ضروری چیز ہے۔ گھر کی روز مرہ کی اشیاء یا ہلکا پھلکا صدقہ زکاۃ بتائے بغیر سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن جہاں لاکھوں روپے کی بات ہو وہاں تو سبھی کے مشورے سے ہی چلتے ہیں ۔ اس طرح کی باتیں مزید آگے کئی باتوں پر منحصر ہیں ۔ خاتون نے مکان خریدنا ہے یا زیور۔ خاتون کا علم تجربہ کتنا ہے ۔ ہو سکتا ہے وہ میکے میں کسی کی مدد کرنا چاہ رہی ہوں خاموشی سے جہاں شوہر کی مرضی نہ ہو۔ وغیرہ وغیرہ ۔ بہت سے مختلف حالات ہیں جن میں کبھی تو یہ ضروری ہے کہ خاتون لازمی اپنے شوہر سے مشورہ اور اجازت لیں اور کبھی بغیر اجازت خرچ کر لیں ۔
    آپ اسلام کے اندر صرف ایک اصول کو پکڑ کر کامیاب زندگی نہین گزار سکتے۔خاتون اگر صرف اس فتوے کو پکڑ لیں کہ وہ اب مکمل خود مختار ہیں اور اپنی مرضی سے مال و دولت صرف کر سکتی ہیں تو یہ کافی نقصان کی بات ہے۔ اس سے پہلے انہیں علم حاصل کرنے کے ، صبر و شکر بلکہ مختصر کہہ لیں کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد وغیرہ کے اصول بھی مکمل یاد رکھنے چاہیئے۔اسی طرح مرد حضرات بلا وجہ روک ٹو ک کریں تو انہیں بھی اللہ سبحانہ و تعالی سے ڈرنا چاہئے کہ روز قیامت کس طرح حساب دیں گے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  8. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    یہی بات میں مختصر لفظوں میں کہہ چکا ہوں۔
    کہ ہر خاندان ا ور معاشرہ کا اپنا اپنا عرف ہوتا ہے۔ جس میں ایک خاص حد تک رقم خرچ کرنے پہ خاوند اپنی بیوی سے نہیں پوچھتا۔ اس حد تک خاوند کو بتائے بغیر بیوی رقم خرچ کر سکتی ہے۔ اسے اجازت عرفی کہا جاتا ہے۔
    غرباء میں تو شاید 100 روپیہ بھی بیوی کو خاوند کی لفظی اجازت کے بغیر خرچ کرنا عرفا ممنوع ہو۔ اور امراء میں چند ہزار تک بھی خاموشی سے خرچ کرنے پہ نکیر نہ ہو۔
    ہر کسی کا اپنا عرف ہے اسکا لحاظ رکھا جائے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  9. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    آپ نے مختصر لفظوں میں جو مارشل لا لگایا تھا وہ پنجاب کے دیہات میں بھی نہیں چلتا۔ بیویاں شوہر کے مال میں سے مزے سے خرچ کرتی ہیں اور اپنے میں سے بھی۔
     
  10. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    میرے خیال میں عام سا مسئلہ ہے کہ جو رقم بیوی کی دسترس میں ہے اسے خرچ کرنے کے لئے اجازت کی ضرورت قطعا نہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں