فکر مودودی امت کے لیے مشکلات کا باعث : شیخ الازہر

ابوعکاشہ نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏جون 3, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    فکر مودودی امت کے لیے مشکلات کا باعث : شیخ الازہر
    روز قیامت تک اس امت کی ہر نسل میں علمائے حق رہیں گے : شیخ الازہر
    مترجم: شبیر حسین ازہری


    نوٹ : گزارش ہے کہ تمام بھائی اس مضمون کو غور سے پڑھیں ۔ ہمارا اختلاف مولانا مووددی رحمہ اللہ سے نہیں ۔ اور نا ہی ان کی شخصیت یا ان کے علم سے ہے ۔ لیکن ہم ان کے فکر سے ضرور اختلاف رکھتے ہیں ۔ کیونکہ کتاب اللہ و سنت اور فہم صحابہ ؓ سے ہٹ کر کسی بھی فکر کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور نا ہی وہ قابل قبول ہے ـ

    مرسلہٗ: مولانا احمد رضا ازہری مالیگانوی، قاہرہ مصر فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر احمد الطیب نے فرمایا : کہ حاکمیت کا غلط مفہوم شدت پسند تحریکوں کے وجودکے بنیادی پتھروں میں سے ایک ہے یہی وہ خارجی فکر ہے جس نے ان جماعتوں کو معاشرے کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر آمادہ کیا۔شیخ الازہر نے گزشتہ جمعہ مصر کے رسمی چینل پر گفتگو کے دوران فرمایا کہ جس فتنہ حاکمیت کو خارجیوں نے جنم دیا تھا وہ ان کے ساتھ ہی سوگیا تھامگر جماعت اسلامی کے بانی ہندوستانی مفکر ابوالاعلیٰ مودودی نے اس فتنے کو دوبارہ زندہ کیا، انہوں نے اپنی ایک کتاب، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ( الٰہ ،رب، عبادت، دین) میں اس فکر کی تجدید اور احیا کرتے ہوئے کہا کہ ان چار اصطلاحوں پر ہی دین کی بنیاد قایم ہے اورانہوں نے الہ کی تعبیر حاکم سے، الوہیت کی حاکمیت سے، اور عبودیت کی تعبیراللہ کے احکام کی اطاعت سے کی ہے
    اور مزید لکھا ہے کہ حکومت و سلطنت اللہ ہی کو زیبا ہے مخلوق کے لیے صرف اطاعت ہے اور جو شخص اس بات کا دعوی کرے کہ اسے حکومت کرنے یا انسانوں کے لیے قانون سازی کی آزادی ہے وہ کافر ہے، کیوں کہ وہ حاکمیت میں اللہ کا مقابل بننا چاہتا ہے جو صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے، نیز جو کوئی اس شخص کی حکومت کو مانے یا اس کے بنائے قوانین پر عمل کرے وہ بھی مودودی صاحب کے نزدیک ’’مشرک‘‘ ہے کیوں کہ اس نے اللہ کے سوا دوسرے کو معبود مانا۔
    اور شیخ الازہر نے مودودی کی اس فکر کا بھی ذکر کیا جس کا دعویٰ انہوں نے کیاہے کہ ان چار اصطلاحوں کا یہ مفہوم ان کی ایجادواختراع نہیں ہے، بلکہ نزول قرآن کے وقت مشرکین قریش ان کا یہی مفہوم سمجھتے تھے اور اسلام کو ایک یا دو صدی بھی نہیں گزری تھی کہ[یہ] مفہوم ان کی نظروں سے اوجھل ہوگیا اور کئی صدیوں تک اوجھل رہا یہاں تک کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اس کا صحیح مفہوم مودودی صاحب نے آکر واضح کیا اور پچھلی دس صدیوں کے مسلمانوں پر ’’گمراہیت‘‘ پر رہنے کا الزام بھی دیا ۔
    شیخ الازہر نے مودودی کے ا س دعویٰ کی تردید نبی اکرم ﷺکی حدیث سے کی جیسا کہ مروی ہے کہ: ’’میری امت کبھی گمرہی پر جمع نہیں ہوگی‘‘ اور فرمایا کہ مودودی صاحب اس حدیث کا انکار کیسے کر سکتے ہیں؟ اک اور حدیث ہے کہ’’ روز قیامت تک اس امت کی ہر نسل میں علمائے حق رہیں گے جنہیں ناتو کسی مخالف کا ڈر ہوگا ناہی کسی ملامت کی پرواہ ‘‘۔ یہ احادیث اور اس قسم کی دیگر احادیث صحیحہ کا ذخیرہ ’’فکرِ مودودی‘‘ کے قصر کو ملیامیٹ کرنے کے لیے کافی ہے جو دس صدیوں کے مسلمانوں کی تضلیل پر قایم ہے۔
    مزید فرمایا کہ: مودودی صاحب کا یہ دعویٰ قرآن مجید پرغیرصریح اور غیر واضح ہونے کاکھلا الزام ہے حالانکہ خود اللہ رب العزت نے بہت سی آیتوں میں قرآن پاک کاوصف مبین یعنی واضح ہونا بیان فرمایا ہے؛ سورہ حجر آیت نمبر دس :ترجمہ :’’یہ روشن کتاب قرآن کی آیتیں ہیں ‘‘ تو جب اللہ نے فرمادیاکہ قرآن کے معانی وا ضح وبین ہیں تو مودودی صاحب اس نظریے کو کہاں سے لائے جو آیات کریمہ کے بالکل متضاد ہے ،مودودی صاحب عالم تھے۔ ممکن ہے بعض مسائل میں ان کے رائے درست ہو مگر ان کے بعض افکار امت کے لیے کثیر مشکلات کا باعث بنے، اسی طرح انہوں نے پہلی دس صدیوں کی تفسیرات میں شک کیا ہے، حالاں کہ خود ان کی تفسیر کے اَصح[صحیح] ہونے پر کوئی دلیل نہیں ایسے ہی انہوں نے کہا کہ’’ قرآن ہمیشہ ایک پہیلی اور غموض وابہام سے بھرپور رہے گا اور کوئی اس کی تفسیر نہیں کرسکے گا‘‘ ان کا یہ قول اسلامی اصول پر کھلا وار ہے۔
    اس مسئلے پرمزید روشنی ڈالتے ہوئے شیخ الازہر نے فرمایا کہ :’’سید قطب‘‘ اپنے ہم عصر دوست ابو الاعلیٰ مودودی کے اس نظریہ سے دیوانگی کی حد تک متاثر ہوئے اور اس نظریہ کی رو سے انہوں نے کہاکہ حاکمیت صرف اللہ ہی کے لیے ہے کیوں کہ حاکمیت الوہیت کا دوسرا نام ہے ، کسی انسان یا ادارہ یا تنظیم کو حق قانون سازی دینا اللہ کی حاکمیت کو چھوڑ کر انسانوں کو حاکم بنانا ہے اور سید قطب کے مطابق موجودہ تمام انسان اللہ کے عطاکردہ قانون کو چھوڑ کر انسان کے خود ساختہ قوانین پر عمل پیرا ہیں جو شریعت اسلامیہ کے بالکل خلاف ہے اس وجہ سے موجودہ معاشرہ ’’کافر و مشرک‘‘ اور ’’غیر اللہ‘‘ کی عبادت کرنے والا ہے، کیوں کہ عبادت کا مفہوم قطب صاحب کے نزدیک اللہ کی حاکمیت میں اس کی اطاعت کرنا ہے اور جب معاشرے نے اس کے سوا دوسرے کی اطاعت کی تو اس نے مخلوق کو اللہ کاساجھے دار ٹھہرایا ،اسی نظریہ کو بنیاد بناتے ہوئے سید قطب نے کہا کہ موجودہ معاشرہ جس میں امت اسلامیہ پنپ رہی ہے در اصل’’زمانۂ جاہلیت‘‘ کا معاشرہ ہے اور نہ صرف ’’زمانۂ جاہلیت‘‘ کی طرح ہے بلکہ اس سے دوگنا جہالت کا حامل ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں صرف بتوں کی پرستش ہوتی تھی اور موجودہ مسلم معاشرے پردساتیر اور ’’قانون ساز اداروں کاتسلط‘‘ ہے جو سید قطب کی نظر میں ’’اصنام‘‘[بت] ہیں اور دوسرے ہزاروں قسم کے بت ہیں جن کی مسلمان پرستش کرتے ہیں ،مزید برآں جو لوگ شریعت کی تطبیق کی بات کرتے ہیں ان سے تمسخر کرتے ہوئے سید قطب کہتے ہیں کہ یہ معاشرے مسلم تو ہے نہیں کہ ان میں نظام شریعت لاگو کیا جاسکے، یہ تو کافر معاشرہ ہے جس پر کافر حاکموں کا راج ہے پہلے ان سب کو اسلام میں دوبارہ داخل کرو ، ’’اسی نظریہ کو لے کر انہوں نے پہلے اسے جاہلی معاشرہ قرار دیا پھر اس معاشرے کو کافر کہا اور اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو جائز قرار دیا‘‘ اور کہا کہ مسلمانوں کے لیے ولایت اور غیر مسلمین سے برائت کو اپنا وتیرہ بنانا چاہیے ،ان کی اس تفریق نے (جو پورے مسلم معاشرے کی تکفیر اور اس سے نفرت کی طرف بلاتی ہے )اس فکر کے دلدادہ نوجوانوں کو اپنے آباواجداد سے متنفر کیا ان میں سے بعض نے اپنی نوکری چھوڑدی اوربعض نے اس سے علاحدگی اختیار کرلی کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ یہ پورامعاشرہ جاہلی ہے، حاکم جاہلی ہے ۔
    اخیر میں اپنی گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے شیخ الازہر نے فرمایا کہ ’’’سید قطب کے ان افکار ونظریات کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ،لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض داعیان اسلام اس نظریہ کی تائید میں کھڑے نظر آتے ہیں۔‘‘
    (بحوالہ جریدہ صوت الازہر، عدد شمارہ ۷۰۸ بتاریخ ،۱۳؍ مارچ ۲۰۱۵ء)
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 5
    • متفق متفق x 1
    • مفید مفید x 1
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    ڈاکٹر احمد طیب نے بالکل درست تشخیص کی ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  3. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    حسن البنا بانی اخوان المسلمین کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ ان کے مولانا مودودی کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔
    بہرحال جیسے کہ عکاشہ بھائی نے کہا ان کی ذاتیات سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ۔ لیکن جماعت اسلامی کے ممبرز پر مجھے حیرانی ہوتی ہے جو ان کی ہر بات کو غلطی سے پاک سمجھتے ہیں حالانکہ غلطی ہونا بشری تقاضا ہے اگر ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو ہمیں وہ غلطی نہیں کرنی چاہیے۔
    دجال کے بارے میں ان کا عقیدہ سرار قرآن وحدیث کے خلاف ہے !
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
  4. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    بجا فرمایا ۔۔ رد کرتے ہوئے مقصد یہ ہوتا ہے ۔ یہ وہ بنیادی غلطی ہے جس کی وجہ سے جماعت اسلامی اور اہل سنت و الجماعت کے عقائد کے درمیان خلیج حائل ہے ۔ یہی و ہ فکر ہے جو کہ حق بات کو قبول نا کرنے ، محبت کرنے والے دوستوں اور بھائیوں کودور کردیتی ہے ۔ وجہ صرف یہ فکر نہیں ۔ بلکہ اصل وجہ مولانا مودودی کا نام آتے ہی حق بات کوٹھکرا دیا جاتا ہے ۔ورنہ ہمارے بہت سےقریبی جماعت بھائی تسلیم کرتے ہیں کہ اس فکر نے امت کو سوائے فساد کے اور کچھ نہیں دیا ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  5. فہد جاوید

    فہد جاوید رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2015
    پیغامات:
    83
    یہ بہت خطرناک ’’فکر ‘‘ہے، اور اس کی زد میں ہمیشہ کم علم طبقہ ہی آتا ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  6. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    مولانا رحمہ اللہ کے خود اپنے بیٹے شاید نام حیدر ہے وہ جماعت اسلامی کے سخت ناقد ہیں۔
    بہرحال اللہ ہمیں حق پر چلنے کی توفیق دے۔
     
  7. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    ان کے ناقد ہونے کی ایک اہم وجہ جماعت اسلامی کے قائدین کا اصولوں سے انحراف بتایا جاتا ہے ـ واللہ اعلم
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  8. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    یا تو بہت ہی کم علم طبقہ زد میں آتا ہے یا بہت زیادہ پڑھا لکھا ـ مشاہدہ بتاتا ہے کہ جماعت اسلامی میں پڑھے لکھے لوگوں کی کمی نہیں ـ شاید تمام جماعتوں کی نسبت شرح خواندگی زیادہ ہے ـ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  9. فہد جاوید

    فہد جاوید رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2015
    پیغامات:
    83
    دنیاوی تعلیم کا حصول انسان کو پڑھا لکھا تو بنا سکتا ہے مگر عالم تو صرف دین کا علم حاصل کرنے سے ہی بنا جاسکتا ہے۔ میں نے یہ بات اسی پسِ منظر میں کہی ہے۔ اس کی مثال ڈاکٹر عبداسلام ہے۔ پڑھ لکھ کر اتنا بڑا سائنس دان تو بن گیا مگر مرزا قادیانی کی جعلی نبوت کو نہیں جان سکا۔ اس لے وہ صرف پڑھا لکھا تھا نہ کہ عالم
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  10. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    انتہائی احترام کے ساتھ تھوڑا سا اختلاف کروں گا ،قادیانی کی مثال تو یہاں نہیں بنتی اور نا ہی مناسب ہے ـجہاں تک دینی تعلیم کی بات ہے تو یہ بات آپ کی کسی حد تک صحیح ہے ـ لیکن اگر دینی تعلیم حاصل بھی ہوجائے تو جماعت کا منہج لوگوں کو اس فکر سے آزاد نہیں ہونے دیتا ـبچپن سے نوجوانی یا جوانی کے مراحل تک بچوں کی ایسی تربیت کی جاتی ہے کہ ان کےذہن میں صرف اتنی بات رہ جائے کہ حاکمیت صرف اللہ کی ـ اسی کو اولیت حاصل رہے ـ باقی سب احکامات کی حیثیت ثانوی ہے ـ ایسی صورت میں دین کا علم آبھی جا تو فائدہ نہیں دیتا ـ یہ اس فکر کی مصیبت ہے ـ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  11. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    ذرا وضاحت فرما دیں۔شکریہ !
     
  12. فہد جاوید

    فہد جاوید رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2015
    پیغامات:
    83
    درست فرمایا آپ نے۔۔۔ یہ حقیقت بھی عین ممکن ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  13. شبیر حسین تاب

    شبیر حسین تاب نوآموز

    شمولیت:
    ‏ستمبر 29, 2015
    پیغامات:
    9
    بطور مترجم اس مضمون کی اشاعت کے شکر گزار ہوں:)
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  14. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    محترم شبیرحسین ازہری بھائی کو ایک بار پھر اردو مجلس فورم پر خوش آمدید ۔مرحبا بک ۔ یہ تو بہت قیمتی شکریہ ہے ۔ بارک اللہ فیک.
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  15. محمد عرفان

    محمد عرفان -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 16, 2010
    پیغامات:
    764
    اللہ ہر طرح کی فکری گمراہی سے حفاظت فرمائے اور تا حیات کتاب وسنت کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے آمین...

    آجکل جماعت اسلامی ہی کی فکر لے کر مختلف تنظیمیں الگ الگ ناموں سے کام کر رہی ہیں..
    ہمارے یہاں" پاپولر فرنٹ آف انڈیا " کے نام سے ایک تنظیم خصوصا نوجوانوں کو لیکر بہت زور و شور سے کام کر رہی ہے( ابن قاسم بھائی کے شہر میں بھی یہ بہت متحرک یے)
    مگر افسوس کی بات یہی ہے کہ ساری فکر جماعت اسلامی کی ہے..اور اس سے بھی بڑی افسوس کی بات یہ ہے کہ اہل حدیث اہل السنہ والجماعہ کے اکثر نوجوان اس تنظیم سے بہت بری طرح متاثر ہیں..
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  16. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    بری طرح متاثر ہونے کی کچھ وجوہات ہیں ۔ اس کی وجوہات ان شاء اللہ کسی تھریڈ میں کریں گے ۔ شرط یہ ہے کہ وہابی مجھ پر کوئی فتوی نا لگادیں ۔ ویسے میں اس جماعت یعنی جماعت اسلامی سے اچھی طرح متاثر ہوں : )
     
  17. ابن قاسم

    ابن قاسم محسن

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2011
    پیغامات:
    1,717
    جی عرفان بھائی ہمارے شہر میں پاپولر فنٹ آف انڈیا والے مہینے دو مہینے میں کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ انہیں عقل سلیم سے نوازے۔
     
  18. ابن عادل

    ابن عادل -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 17, 2008
    پیغامات:
    79
    مولانا مودودیؒ کی دینی فکر اور شدت پسندی کا بیانیہ
    محمد عمار خان ناصر

    مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا شمار عصرِ حاضر کے ان ممتاز مفکرین میں ہوتا ہے جنہوں نے بطور ایک اجتماعی نظام، اسلام کے تعارف پر توجہ مرکوز کی اور مختلف پہلوؤں سے اس بحث کو تحقیق و تصنیف کا موضوع بنایا۔ مولانا کی دینی فکر میں اسلامی ریاست کا قیام، جس کو وہ اپنی مخصوص اصطلاح میں ’’حکومتِ الہٰیہ‘‘ کا عنوان دیتے ہیں، بے حد اساسی اہمیت کا حامل ہے اور وہ اسے مسلمانوں کے ایک اجتماعی فریضے کا درجہ دیتے ہیں۔ اسلام چونکہ محض پوجا اور پرستش کا مذہب نہیں، بلکہ انسانی زندگی میں مخصوص اعتقادی و اخلاقی اقدار اور متعین احکام، قوانین کی عمل داری کو بھی اپنا مقصد قرار دیتا ہے، اس لیے بیسویں صدی میں مسلم قومی ریاستوں کے ظہور نے حیات اجتماعی کے دائرے میں مسلمان معاشروں کی تشکیلِ نو اور بالخصوص مذہب کے کردار کو اہلِ دانش کے ہاں غور و فکر اور بحث و مباحثہ کا ایک زندہ موضوع بنا دیا۔ مذہب کے اجتماعی کردار کا سوال اپنے متنوع پہلوؤں کے ساتھ ان مفکرین کے غور و فکر اور مطالعہ و تحقیق کا موضوع بنا جو جدید تہذیبی رجحانات کے علی الرغم ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کو نہ صرف مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، بلکہ ریاست کو خالص مذہبی و نظریاتی اساس پر استوار کرنا چاہتے تھے۔ مولانا مودودی کا شمار اس طرزِ فکر کے حامل قائدین کی صفِ اول میں ہوتا ہے۔ چنانچہ تقسیم ہند سے قبل مولانا نے ’’موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کے زیر عنوان ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں کئی قسطوں پر مشتمل ایک مفصل تجزیاتی تحریر لکھی جس میں معروضی صورتحال میں مسلم لیگ اور جمعیۃ علمائے ہند وغیرہ کی طرف سے مسلمانانِ ہند کے لیے تجویز کیے جانے والے لائحہ عمل پر زور دار تنقید کی اور متحدہ قومیت اور لبرل جمہوری ریاست کے تصورات کے بالمقابل حکومتِ الہٰیہ یعنی اسلامی ریاست کے قیام کو مسلمانوں کے لیے واحد شرعی لائحہ عمل قرار دیا۔

    مولانا کے نتائج فکر پر مختلف حوالوں سے بحث و تمحیص اور نقد و اختلاف کی گنجائش موجود ہے اور ان کی فکر میں ارتقا کے بعض اہم پہلو بھی خاص توجہ کا تقاضا کرتے ہیں (جس کی کچھ تفصیل ہماری کتاب ’’جہاد۔ایک مطالعہ‘‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے) تاہم اس کا ایک بے حد قیمتی اور قابل قدر پہلو ہے اور وہ یہ کہ مولانا کے معاصر تناظر میں زمینی حقائق کا بھرپور ادراک بھی موجود ہے اور وہ عصری صورتحال کی پیچیدگیوں سے پوری پوری آگاہی رکھتے ہیں۔ آئندہ سطور میں ہم اس حوالے سے مولانا کی فکر کے چند اہم پہلوؤں کا مختصر جائزہ لیں گے۔

    قیامِ پاکستان کے فوراً بعد نظری سطح پر اس حوالے سے زوردار بحث شروع ہوگئی تھی کہ نئی ریاست کو ایک سیکولر جمہوری ریاست ہونا چاہیے یا ایک اسلامی ریاست۔ اس بحث میں مولانا مودودی نے بھی بھرپور حصہ لیا اور آخرکار عوامی سطح پر جماعت اسلامی کی محنت اور دستور ساز اسمبلی میں مولانا شبیر احمد عثمانی اور ان کے رفقا کی جدوجہد کے نتیجے میں ۱۹۵۶ء کے دستور میں قرآن و سنت کی بالادستی کی دفعات شامل کرلی گئیں۔ اس تناظر میں ڈاکٹر احمد حسین کمال اور مولانا مودودی کے مابین اس نکتے کے حوالے سے تفصیلی مراسلت ہوئی کہ کیا اس دستور کو ایک اسلامی دستور قرار دیا جاسکتا ہے، جبکہ اس کی رو سے شریعت کے قوانین کا نفاذ مجلس قانون ساز اور صدر مملکت کی منظوری کا محتاج ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی میں مسلم و غیر مسلم اراکین دونوں کو یکساں حق رائے دہی حاصل ہے۔

    ڈاکٹر احمد حسین کمال کے اٹھائے ہوئے ان سوالات کے جواب میں مولانا نے دو تفصیلی مکتوب تحریر کیے، جن میں انہوں نے نفاذِ شریعت کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کو واضح کیا۔ یہ مکاتیب ترجمان القرآن کے دسمبر ۱۹۵۶ء کے شمارے میں شائع ہوئے۔ مولانا لکھتے ہیں:

    ’’آپ نے جن مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے، ان کے متعلق ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہم اپنی تحریک خلا میں نہیں چلا رہے ہیں، بلکہ واقعات کی دنیا میں چلا رہے ہیں۔… دستورِ اسلامی کے بارے میں جو باتیں آپ نے لکھی ہیں، ان میں سے کوئی بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ہے، نہ کبھی پوشیدہ تھی، لیکن یہاں ایک کھلی کھلی لادینی ریاست کا قائم ہو جانا ہمارے مقصد کے لیے اس سے بہت زیادہ نقصان دہ ہوتا جتنا اب اس نیم دینی نظام کا نقصان آپ کو نظر آرہا ہے‘‘۔ (’’مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کا طریق فکر‘‘، مرتب: محمد ریاض درانی، جمعیۃ پبلی کیشنز لاہور ۲۰۱۱ء، ص ۱۰۸۔۱۰۹)

    ’’ہم جس ملک اور جس آبادی میں بھی ایک قائم شدہ نظام کو تبدیل کرکے دوسرا نظام قائم کرنے کی کوشش کریں گے، وہاں ایسا خلا ہم کو کبھی نہ ملے گا کہ ہم بس اطمینان سے ’براہ راست‘ اپنے مقصود کی طرف بڑھتے چلے جائیں۔ لامحالہ اس ملک کی کوئی تاریخ ہوگی، اس آبادی کی مجموعی طور پر اور اس کے مختلف عناصر کی انفرادی طور پر کچھ روایات ہوں گی۔ کوئی ذہنی اور اخلاقی اور نفسیاتی فضا بھی وہاں موجود ہوگی۔ ہماری طرح کچھ دوسرے دماغ اور دست و پا بھی وہاں پائے جاتے ہوں گے جو کسی اور طرح سوچنے والے اور کسی اور راستے کی طرف اس ملک اور اس آبادی کو لے کر چلنے کی سعی کرنے والے ہوں گے۔… ان حالات میں نہ تو اس امر کا کوئی امکان ہے کہ ہم کہیں اور سے پوری تیاری کرکے آئیں اور یکایک اس نظام کو بدل ڈالیں جو ملک کے ماضی اور حال میں اپنی گہری جڑیں رکھتا ہے۔ نہ یہ ممکن ہے کہ اسی ماحول میں رہ کر، کشمکش کیے بغیر، کہیں الگ بیٹھے ہوئے اتنی تیاری کرلیں کہ میدانِ مقابلہ میں اترتے ہی سیدھے منزل مقصود پر پہنچ جائیں۔ اور نہ اس بات ہی کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ ہم اس کشمکش سے گزرتے ہوئے کسی طرح ’براہ راست‘ اپنے مقصود تک جاپہنچیں۔ ہمیں لامحالہ واقعات کی اس دنیا میں موافق عوامل سے مدد لیتے ہوئے، اور مزاحم طاقتوں سے کشمکش کرتے ہوئے بتدریج اور بروقت قدم اٹھانا ہوگا‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۱۶۔۱۱۷)

    ’’واقعات کی دنیا میں ہم جس صورتحال سے دوچار ہیں، وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مجالسِ قانون ساز کے قیام کی ابتدا انگریزوں کے دورِ حکومت میں ہوئی۔ اس نظام کو انہوں نے اپنے نظریات کے مطابق قومی، جمہوری، لادینی ریاست کے اصولوں پر قائم کیا۔ انہی اصولوں پر سالہا سال تک اس کا مسلسل ارتقا ہوتا رہا اور انہی اصولوں پر نہ صرف پوری ریاست کا نظام تعمیر ہوا، بلکہ نظامِ تعلیم نے ان کو پوری طرح اپنا لیا اور بحیثیت مجموعی سارے معاشرے نے ان کے ساتھ مطابقت پیدا کرلی۔ ان واقعات کی موجودگی میں جتنے کچھ ذرائع ہمارے (یعنی دینی نظام کے حامیوں کے) پاس تھے، ان کو دیکھتے ہوئے یہ بھی کوئی آسان کام نہ تھا کہ کم ازکم آئینی حیثیت سے اس عمارت کی اصل کافرانہ بنیاد (لادینیت) کو بدلوا کر اس کی جگہ وہ بنیاد رکھ دی گئی جس کی بنا پر آپ موجودہ دستور کو نیم دینی تسلیم کررہے ہیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۲۱۔۱۲۲)

    غلبۂ دین کی جدوجہد میں تدریج کی حکمت عملی کی اہمیت اور اس کے بنیادی اصولوں کو واضح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:

    ’’اسلامی نظامِ زندگی جن لوگوں کو قائم کرنا اور چلانا ہو، انہیں آنکھیں بند کرکے حالات کا لحاظ کیے بغیر پورا کا پورا نسخہ اسلام یکبارگی استعمال نہ کر ڈالنا چاہیے، بلکہ عقل اور بینائی سے کام لے کر زمان و مکان کے حالات کو ایک مومن کی فراست اور فقیہ کی بصیرت و تدبر کے ساتھ ٹھیک ٹھیک جانچنا چاہیے۔ جن احکام اور اصولوں کے نفاذ کے لیے حالات سازگار ہوں، انہیں نافذ کرنا چاہیے اور جن کے لیے حالات سازگار نہ ہوں، ان کو موخر رکھ کر پہلے وہ تدابیر اختیار کرنی چاہیے جن سے ان کے نفاذ کے لیے فضا موافق ہوسکے۔ اسی چیز کا نام حکمت یا حکمتِ عملی ہے جس کی ایک نہیں، بیسیوں مثالیں شارع کے اقوال اور طرزِ عمل میں ملتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامتِ دین بدھوؤں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔

    ثانیاً، اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب زمان و مکان کے حالات کی وجہ سے اسلام کے دو احکام یا اصولوں یا مقاصد کے درمیان عملاً تضاد واقع ہو جائے، یعنی دونوں پر بیک وقت عمل کرنا ممکن نہ رہے تو دیکھنا چاہیے کہ شریعت کی نگاہ میں اہم تر چیز کون سی ہے اور پھر جو اہم تر ہو اس کی خاطر شرعی نقطۂ نظر سے کم تر اہمیت رکھنے والی چیز کو اس وقت تک ترک کر دینا چاہیے جب تک دونوں پر ایک ساتھ عمل کرنا ممکن نہ ہو جائے۔

    ثالثاً، اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جہاں قبائلیت اور برادریوں کے تعصبات یا دوسری گروہی عصبیتیں زندہ و متحرک ہوں، وہاں ان سے براہ راست تصادم کرنا مناسب نہیں ہے، بلکہ جہاں جس قبیلے یا برادری یا گروہ کا زور ہو، وہاں اسی کے نیک لوگوں کو آگے لانا چاہیے تاکہ زور آور گروہ کی طاقت اسلامی نظام کے نفاذ کی مزاحم بننے کے بجائے اس مددگار بنائی جاسکے اور بالآخر نیک لوگوں کی کارفرمائی سے وہ حالات پیدا ہو سکیں، جن میں ہر مسلمان مجرد اپنی دینی و اخلاقی اور ذہنی صلاحیت کی بنا پر بلالحاظ نسل و نسب و وطن سربراہی کے مقام پر آسکے۔

    رہا اس پر کسی کا یہ اعتراض کہ اس نوع کے تصرفات کرنے کا حق صرف شارع کو پہنچتا تھا، دوسرا کوئی اس کا مجاز نہیں ہوسکتا تو میں صاف عرض کروں گا کہ یہ بات اگر مان لی جائے تو فقہ اسلامی کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے، کیونکہ اس کا تو سارا نشو و ارتقا ہی اس بنیاد پر ہوا ہے کہ شارع کے زمانے میں جو حوادث اور معاملات پیش آئے تھے، ان میں شارع کے احکام اور تصرفات اور طرزِ عمل کا گہرا مطالعہ کرکے وہ اصول اخذ کیے جائیں، جو شارع کے بعد پیش آنے والے حوادث و معاملات کے لیے رہ جائے گی جو شارع کے زمانے میں پیش آئے تھے۔ بعد کے نئے حالات میں ہم بالکل بے بس ہوں گے‘‘۔ (’’تفہیم الاحادیث‘‘، مرتب: وکیل احمد علوی، ادارۂ معارف اسلامی، لاہور، ۶/۴۵۴۔۴۵۵)

    اس ضمن میں مولانا مودودی نے اپنی تحریروں اور بیانات میں یہ نکتہ بھی غیر مبہم انداز میں واضح کیا ہے کہ جدید جمہوری ریاستوں میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد کا صرف وہی راستہ جائز ہے جو آئین و قانون کی حدود کے اندر ہو، جبکہ غیر آئینی طریقوں سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ شرعاً درست ہوگی اور نہ حکمتِ عملی کی رو سے۔ اس حوالے سے مولانا کی بعض تصریحات کو یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔

    مولانا سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا موجودہ صورتحال میں آئینی ذرائع سے انقلاب لانا مشکل نہیں ہوگیا؟‘‘ اس کے جواب میں فرمایا:

    ’’فرض کیجیے کہ بہت سے لوگ مل کر آپ کی صحت بگاڑنے میں لگ جائیں، تو کیا آپ ان کی دیکھا دیکھی خود بھی اپنی صحت بگاڑنے کی کوشش میں لگ جائیں گے؟ بہت بُرا کیا گیا کہ غیر آئینی طریقوں سے کام لیا گیا ہے اور بہت بُرا کریں گے، اگر ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ غیر آئینی طریقوں کو اختیار کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک علانیہ اور دوسری خفیہ۔ آپ دیکھیں کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

    علانیہ طور پر غیر آئینی طریقوں سے جو تغیر پیدا ہوگا، وہ زیادہ بُرا ہوگا۔ اس طرح کی کوششوں سے پوری قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے اور پھر سو سال تک آپ اسے قانون کی اطاعت پر مجبور نہیں کرسکتے۔ ہندوستان میں تحریک آزادی کے دوران قانون شکنی کو ایک حربے کی حیثیت سے جو استعمال کیا گیا تھا، اس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج ۲۵ سال بعد بھی لوگوں کو قانون کا پابند نہیں بنایا جاسکا۔

    اگر خفیہ طریقے سے غیر آئینی ذرائع کو اختیار کیا جائے تو نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختارِ کُل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحریک ان ہی کی مرضی پر چلتی ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو فوراً ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسی سے اظہار بے اطمینانی سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دی جاتی ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب برسراقتدار آئیں گے تو کس قدر بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔ اگر آپ ایک ڈکٹیٹر کو ہٹا کر دوسرے ڈکٹیٹر کو لے آئیں تو خلقِ خدا کے لیے اس میں خیر کا پہلو کون سا ہے؟

    میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر و تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود حضوؐر کا طریقِ کار بھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا۔… آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیر آئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں‘‘۔(’’تصریحات‘‘، مرتب: سلیم منصور خالد، البدر پبلی کیشنز لاہور، ص ۲۷۔۲۵۸)

    مزید فرماتے ہیں:

    ’’بکثرت لوگ اس الجھن میں پڑ گئے ہیں کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے یا نہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیر جمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ہمارے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو اس طرح سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن ہم اس پوری صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور اس کی پیدا کردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام جسے برپا کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہوسکتا اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جاسکے تو وہ دیرپا نہیں ہوسکتا۔

    اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیر جمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظامِ زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کرکے انہیں ہم خیال بنایا جائے اور ان کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔

    کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسنا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جباریت ہے اور خود اس کے ائمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ استعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی رائے عامہ کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عامہ کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے، لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور ان کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک اور خواص (خصوصاً کارفرماؤں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اس کے اصول و احکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام و خواص کی ذہنیت، اندازِ فکر اور سیرت و کردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلند پایہ اصول و احکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہوسکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل و دماغ میں نہیں ٹھونسی جاسکتی، بلکہ ان میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کرکے لوگوں کے عقائد و افکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اقدار بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں اور ان کو اس حد تک ابھار دیا جائے کہ وہ اپنے اوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کر دینے کے لیے کوئی اقدام اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہو جائے۔ (ایضاً، ص ۳۲۰۔۳۲۲)

    مولانا سے سوال ہوا کہ اسلامی انقلاب فوری طور پر کیسے آئے گا؟ جواب میں فرمایا:

    ’’یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ اسلامی انقلاب بہت جلد آرہا ہے؟ آپ اس قسم کی غلط توقعات قائم نہ کریں۔ بیجا توقعات سے مایوسی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تشکیل سے پہلے بھی اخلاقی حالت بگڑی ہوئی تھی۔ پاکستان کے بعد اس بگاڑ میں اور اضافہ ہوا۔ اس ساری مدت میں اصلاح کی طرف کماحقہ توجہ نہ ہوئی۔ ہمارے بس میں جو کچھ ہے وہ ہم کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل سے جو افراد دین کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں، وہ سرگرمی کے ساتھ اصلاح کے کام کا بیڑا اٹھائیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس تمام تر مساعی کے نتیجے میں حالت کب بدلے گی۔ ایک طرف شیطان اپنا کام کر رہا ہے، دوسری طرف ہم اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں، لیکن ہمیں توقع ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ ہمارے کرنے کی جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ باقی معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۴۰)

    ’’میں اصولاً قانون شکنی اور غیر آئینی طریق کار اور زیر زمین کام کا سخت مخالف ہوں۔ میری یہ رائے کسی سے خوف یا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ میں سالہا سال کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کا احترام مہذب معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی تحریک اگر اس احترام کو ایک دفعہ ضائع کر دے تو پھر خود اس کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زیر زمین کام اپنے اندر وہ قباحتیں رکھتا ہے جن کی وجہ سے اس طریقے پر کام کرنے والے آخرکار خود ان لوگوں سے بھی بڑھ کر معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جن کو ہٹانے کے لیے وہ یہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔ انہی وجوہ سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ قانون شکنی اور خفیہ کام قطعی غلط ہے۔ میں نے ہمیشہ جو کچھ کیا ہے، علانیہ کیا ہے اور آئین و قانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، حتیٰ کہ جن قوانین کا میں شدید مخالف ہوں، ان کو بھی میں نے آئینی و جمہوری طریقوں سے بدلوانے کی کوشش کی ہے، مگر کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔… یہی عقیدہ جماعت اسلامی کا بھی ہے۔ اس کے دستور کی دفعہ ۵ میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ہم ایسے ذرائع اور طریقے کبھی استعمال نہیں کریں گے جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔ ہم جو کچھ کریں گے، جمہوری اور آئینی طریقوں سے کریں گے اور خفیہ طریقوں سے نہیں بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کریں گے‘‘۔ (ایضاً، ص ۹۲)

    مولانا نے یہ بات بھی واشگاف الفاظ میں واضح کی کہ اگر خدانخواستہ پاکستان کو ایک غیر اسلامی ریاست بنانے کے خواہش مند عناصر اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائیں تو بھی جدوجہد کا راستہ ایک تحریک اصلاح برپا کرنا ہی ہوگا نہ کہ مسلح انقلاب برپا کرنے کی کوئی کوشش۔ لکھتے ہیں:

    ’’واضح طور پر سمجھ لیجیے کہ یہاں اسلامی نظام کا قیام صرف دو طریقوں سے ممکن ہے:

    ایک یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت زمام کار ہے، وہ اسلام کے معاملے میں اتنے مخلص اور اپنے ان وعدوں کے بارے میں جو انہوں نے اپنی قوم سے کیے تھے، اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو اہلیت ان کے اندر مفقود ہے اسے خود محسوس کرلیں اور ایمانداری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہوگیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام تعمیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس کے اہل ہوں۔…

    دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک عمومی تحریک اصلاح کے ذریعے سے اس میں خالص اسلامی شعور و ارادے کو بتدریج اس حد تک نشوونما دیا جائے کہ جب وہ اپنی پختگی کو پہنچے تو خود بخود اس سے ایک مکمل اسلامی نظام وجود میں آجائے۔

    ہم اس وقت پہلے طریقے کو آزما رہے ہیں۔ اگر اس میں ہم کامیاب ہو گئے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ پاکستان کے قیام کے لیے ہماری قوم نے جو جدوجہد کی تھی وہ لاحاصل نہ تھی، بلکہ اس کی بدولت اسلامی نظام کے نصب العین تک پہنچنے کے لیے ایک سہل ترین اور قریب ترین راستہ ہمارے ہاتھ آگیا، لیکن اگر خدا نخواستہ ہمیں اس میں ناکامی ہوئی اور اس ملک میں ایک غیر اسلامی ریاست قائم کردی گئی تو یہ مسلمانوں کی ان تمام محنتوں اور قربانیوں کا صریح ضیاع ہوگا جو قیامِ پاکستان کی راہ میں انہوں نے کیں اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم پاکستان بننے کے بعد بھی اسلامی نقطہ نظر سے اسی مقام پر ہیں جہاں پہلے تھے۔ اس صورت میں ہم پھر دوسرے طریقے پر کام شروع کر دیں گے، جس طرح پاکستان بننے سے پہلے کررہے تھے‘‘۔ (ابوالاعلیٰ مودودیؒ ’’اسلامی ریاست۔ فلسفہ نظام کار اور اصول حکمرانی‘‘، مرتب: خورشید احمد، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور، اکتوبر ۲۰۱۰ء ص ۶۳۶۔۶۳۷)

    گزشتہ معروضات سے واضح ہے کہ مولانا مودودی نے بالکل ابتدا میں ہی ان سوالات کو گہری فکری سطح پر موضوع بنالیا تھا جو جذباتیت، بے صبری اور غیر معروضی زاویہ نظر سے ذہنوں میں پیدا ہورہے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ آگے چل کر بعینہ وہی سوالات ہمارے ہاں انہی فکری بنیادوں پر پیدا ہوئے جن کی واضح نفی مولانا مودودی نے اپنی تحریروں میں کی تھی اور خود جماعت اسلامی کے حلقۂ فکر سے وابستہ نوجوان نسل اس انتہا پسندانہ فکر سے شدید طور پر متاثر ہوئی۔ اس کے اسباب و وجوہ ایک مستقل تجزیے کا تقاضا کرتے ہیں، تاہم اتنا واضح ہے کہ مولانا کی پیش کردہ صریح اور واضح فکر حالات کے اتار چڑھاؤ میں رفتہ رفتہ نظروں سے اوجھل ہوتی گئی اور شدت پسندی کے بیانیے نے وسیع پیمانے پر ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے لیا۔

    اسی ضمن میں مولانا کی دینی و اجتہادی بصیرت کے اسی نوعیت کے ایک اور پہلو کی طرف اہل فکر کو دوبارہ متوجہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ مذہبی شدت پسندی اور عسکریت کے جس عفریت کا ہمیں سامنا ہے، اس کے اسباب میں سے اہم ترین سبب نجی سطح پر جہادی سرگرمیوں کی تنظیم ہے۔ پوری اسلامی روایت اس پر متفق رہی ہے کہ اگر مسلمان کسی جگہ ایک نظم اجتماعی کے تحت رہ رہے ہوں تو ان کی طرف سے کسی دوسرے ملک کے ساتھ جنگ کا فیصلہ ان کا نظم اجتماعی ہی کرسکتا ہے اور یہ کہ اگر مسلمان مختلف علاقوں میں ایک سے زیادہ نظام ہائے اجتماعی کے تحت زندگی بسر کر رہے ہوں تو ان میں سے ہر نظم اجتماعی اپنی ذمہ داریوں کا تعین اور اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ کسی نجی گروہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ نظم اجتماعی کے اختیار کو اپنے ہاتھ میں لے اور اور قوم کی طرف سے فیصلے کا حق تفویض کیے جانے کے بغیر ازخود کوئی فیصلہ کرکے اس کے نتائج و عواقب کی ذمہ داری پوری قوم پر ڈال دے۔

    مولانا مودودی نے اپنی تحریروں میں اس حوالے سے درج ذیل تین بنیادی نکات کی وضاحت کی ہے:

    ایک یہ کہ مسلمانوں کا لازمی طور پر کسی ایک ہی نظم اجتماعی کے تحت سیاسی طور پر متحد ہونا ضروری نہیں اور سیاسی وحدت کا ہر گز یہ تقاضا نہیں کہ الگ الگ اور خودمختار حکومتوں کے جواز کی نفی کی جائے۔

    دوسرے یہ کہ جنگ کا فیصلہ اور اعلان کرنے کا اختیار صرف اور صرف منتخب اربابِ اقتدار کو حاصل ہے۔ غیر حکومتی گروہ اگر یہ اختیار اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے تو اس سے چند درچند قانونی اور اخلاقی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔

    تیسرے یہ کہ مسلمانوں کی حکومت اس ضمن میں کسی بھی ملک کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی لفظاً و معناً پابندی کرے گی اور معاہدے بظاہر قائم رکھتے ہوئے ایسی خفیہ سرگرمیوں کی اجازت یا ان کی تائید نہیں کرے گی، جو معاہدے کے خلاف ہوں۔

    پہلے نکتے کی وضاحت میں ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں لکھتے ہیں:

    ’’دنیا میں جہاں بھی ان اصولوں پر کوئی حکومت قائم ہوگی، وہ لازماً اسلامی حکومت ہی ہوگی، خواہ وہ افریقا میں ہوں یا امریکا میں، یورپ میں ہوں یا ایشیا میں، اور اس کے چلانے والے خواہ گورے ہوں یا کالے یا زرد۔ اس نوعیت کی خالص اصولی ریاست کے لیے ایک عالمی ریاست بن جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن اگر زمین کے مختلف حصوں میں بہت سی ریاستیں بھی اس نوعیت کی ہوں تو وہ سب کی سب یکساں اسلامی ریاستیں ہوں گی، کسی قوم پرستانہ کشمکش کے بجائے ان کے درمیان پورا پورا برادرانہ تعاون ممکن ہوگا اور کسی وقت بھی وہ متفق ہو کر اپنا ایک عالمگیر وفاق قائم کرسکیں گی‘‘۔ (ص ۵۶)

    یہ وہی تصور تھا جو دورِ جدید میں عالمی سطح پر امت مسلمہ کی سیاسی وحدت کو روبہ عمل کرنے کے لیے علامہ محمد اقبالؒ نے بھی ’خلافت‘ کے قدیم سیاسی نظام کے احیا کے متبادل کے طور پر تجویز کیا تھا۔ چنانچہ خطبہ اجتہاد میں انہوں نے لکھا کہ:

    ’’موجودہ صورتحال میں ہر مسلمان قوم کو اپنے آپ میں گہرے طور پر غوطہ زن ہونا چاہیے اور عارضی طور پر اپنی نظر خود اپنے آپ پر جمالینی چاہیے، حتیٰ کہ تمام اقدر مضبوط اور مستحکم ہو جائیں کہ وہ جمہوریتوں کا ایک زندہ خاندان تشکیل دے سکیں۔ ایک سچی اور زندہ وحدت قوم پرست مفکرین کے مطابق کوئی ایسی آسان نہیں کہ اسے محض ایک علامتی عالمگیر حکمرانی کی وساطت سے حاصل کر لیا جائے۔ اس کا سچا اظہار خودمختار اکائیوں کی کثرت سے ہوگا، جن کی نسلی رقابتوں کو مشترک روحانی امنگوں کی وحدت سے ہم آہنگ اور ہموار کر دیا گیا ہو۔ مجھے یوں نظر آتا ہے کہ خدا ہمیں آہستہ آہستہ اس حقیقت کے ادراک کی طرف لارہا ہے کہ اسلام نہ تو قومیت ہے اور نہ ملوکیت، بلکہ ایک مجلس اقوام ہے جو مصنوعی حد بندیوں اور نسلی امتیازات کو محض پہچان کے لیے تسلیم کرتی ہے، نہ اس لیے کہ ان رکن ممالک کے اپنے اپنے سماجی آفاق کو تنگ کر دیا جائے‘‘۔

    جہاد و قتال کے ضمن میں بین الاقوامی معاہدات کی پاسداری کی قانونی و عملی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے سورۂ انفال کی آیات ۷۲۔۷۳ کی تشریح میں مولانا نے ’تفہیم القرآن‘ میں جو کچھ لکھا ہے وہ قابل ملاحظہ ہے۔ فرماتے ہیں:

    ’’یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی بڑا اثر ڈالتی ہے۔ اس کی رو سے دولتِ اسلامیہ کی ذمہ داری ان مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمہ داری کا بار اس کے سر نہیں ہے۔ یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ ان بریٔ من کل مسلم بین ظہرانی المشرکین ’’میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت و حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو‘‘۔ اس طرح اسلامی قانون نے اس جھگڑے کی جڑ کاٹ دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے، کیونکہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑ جاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں۔… ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دھند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں اور اخلاقی حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جاسکے گا۔ اگر ظلم کرنے والی قوم سے دارالاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جاسکے گی جو ان تعلقات کی اخلاقی ذمہ داریوں کے خلاف پڑتی ہو‘‘۔ (تفہیم القرآن ۲/۱۶۱۔۱۶۲)

    اگرچہ کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پابندی کا اصول کلاسیکی فقہ میں بھی تسلیم کیا گیا ہے، تاہم فقہا اسے ایک محدود اور وقتی اصول کی حیثیت دیتے ہیں۔ مولانا کے اقتباس سے واضح ہے کہ وہ اسے بین الاقوامی سیاست اور مسلم و غیر مسلم حکومتوں کے تعلقات کی تشکیل کے ضمن میں ایک مستقل اور بنیادی اصول کا درجہ دیتے ہیں، جس کی پاسداری مظلوم مسلمان اقلیتوں کی مدد کرنے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ دونوں زاویہ ہائے نگاہ کی ترجیحات کا فرق اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب ۱۹۴۸ء میں کشمیر کے مقامی مسلمانوں نے بھارت کے خلاف جنگِ آزادی کا آغاز کیا تو مولانا مودودی نے حکومت پاکستان کی پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ:

    ’’جہادِ کشمیر کے سلسلے میں میرے نزدیک یہ کوئی معقول بات نہیں ہے کہ وہاں لڑائی بھی ہو اور نہ بھی ہو۔ یعنی ایک طرف ہماری حکومت تمام دنیا کے سامنے اعلان کرے کہ ہم لڑ نہیں رہے بلکہ لڑنے والوں کو روک رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لڑے بھی، تو اس سے نہ صرف ہماری اخلاقی پوزیشن خراب ہوگی بلکہ ہم لڑ بھی نہیں سکیں گے۔ حکومت کا یہ موقف خود پاکستانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ میں بیان کیا تھا‘‘۔ (تصریحات، ص ۴۷۰)

    اس نکتے پر مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے مابین ایک اہم اور دلچسپ بحث بھی ہوئی، کہ آیا پاکستانی حکومت مجاہدین کی عسکری اور افرادی امداد کرسکتی ہے یا نہیں۔ مولانا عثمانی کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کا عملاً مجاہدین کو مدد فراہم کرنا گویا اس بات کا اعلان ہے کہ وہ معاہدے کی پابند نہیں رہی۔ جبکہ مولانا مودودی کا استدلال یہ تھا کہ حکومت کا اس بات کا واضح اعلان اور اقرار نہ کرنا بلکہ ظاہری طور پراس کی تردید کرنا اور پہلے کی طرح بھارتی حکومت سے سفارتی اور سیاسی تعلقات قائم رکھنا اس امر کو تسلیم کرنے سے مانع ہے۔ تاہم بحث کے آخر میں مولانا مودودی نے یہ قرار دیا کہ چونکہ پاکستانی حکومت کی طرف سے مجاہدین کشمیر کی امداد کے علانیہ اعتراف کے باوجود بھارتی حکومت نے اسے نبذ عہد کے مترادف نہیں سمجھا، اس لیے قانونی طور پر اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ صرف کشمیر کی حد تک دونوں حکومتیں امن معاہدے کی پابند نہیں رہیں، جبکہ عمومی طور پر یہ معاہدہ برقرار ہے۔ (یہ مراسلت مولانا مودودی اور مولانا شبیر احمد عثمانی، ہر دو بزرگوں کے مجموعۂ مکاتیب میں شامل ہے)

    ۱۹۷۹ء میں افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کی طرف سے افغان مسلمانوں پر ظلم و ستم کے واقعات رونما ہوئے تو وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور حکومت کے خلاف جہاد کااعلان کردیا۔ اس موقع پر مولانا سے دریافت کیا گیا کہ آیا پاکستان سے مسلمانوں کو افغان بھائیوں کی مدد کے لیے سرحد پار جانا چاہیے؟ مولانا نے فرمایا:

    ’’کوئی شک نہیں کہ ہمارے افغان بھائی اس وقت نہ صرف صدی کے بہت بڑے جہاد میں مصروف ہیں، بلکہ جن مشکلات کا انہیں سامنا ہے، دوسروں کو ان کا اندازہ بھی نہیں ہوسکتا۔… لیکن جب تک کابل حکومت ریاست پاکستان کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کرتی یا حکومت پاکستان اس سے تمام تعلقات توڑ کر اعلانِ جنگ نہیں کرتی، آپ پاکستانی شہریوں کو سرحد پار کرکے میدانِ جنگ میں نہیں اترنا چاہیے۔ یہ نہ صرف اسلامی قانون بین الاقوام کی نگاہ میں مناسب نہیں ہوگا بلکہ پاکستان کے لیے بھی مشکلات کا باعث بنے گا۔ البتہ قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے آپ کے کارکنان جاسکتے ہیں، مگر زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ وہ بھی اسی پالیسی کو اختیار کریں جسے حکومت پاکستان اور آپ کا نظم طے کرے۔… اگر حالات بہت ہی زیادہ خراب ہو جائیں اور وہاں پر جہاد میں مصروف مجاہدین کی قیادت یہ چاہے کہ دوسرے مسلم ممالک سے انہیں افرادی قوت بھی درکار ہو، تب ایسے مسائل کا مرکزی سطح پر حل تلاش کیجیے، مگر یہ چیز انفرادی یا مقامات کی سطح پر نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ (تصریحات، ص ۴۵۷۔۴۵۸)

    مولانا کی ان تمام تصریحات سے واضح ہے کہ ان کی نظر بصیرت معاملات کو کس قدر گہرائی سے اور کتنی دور تک دیکھ رہی تھی۔ یہ بات اس تناظر میں خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کی اہمیت و ضرورت کو اجاگر کرنے اور اس کے لیے عملی جدوجہد کو منظم کرنے کے حوالے سے مولانا مودودی کا شمار دورِ حاضر کے ممتاز ترین مسلم مفکرین اور قائدین میں ہوتا ہے، تاہم مولانا کے زاویۂ نظر میں نظری اور فلسفیانہ بحث و مباحثہ اور عملی اجتہادی ضروریات اور تقاضوں کے مابین فرق کا بھرپور ادراک دکھائی دیتا ہے، جبکہ معاصر جہادی تحریکوں کے ہاں اصولی اور نظری بحث اور عملی و معروضی حالات کے تقاضوں کے مابین حکیمانہ امتیاز کا شدید فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصولی اور نظریاتی اشتراک کے باوجود جہادی عناصر نے بحیثیت مجموعی تشدد اور تصادم کی راہ اختیار کرلی ہے، جبکہ مولانا مودودی نے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کو اپنی تحریک کا بنیادی پتھر قرار دیا۔ اس لیے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ مولانا کی پیش کردہ تعبیرات اور افکار کے مختلف پہلوؤں سے اختلاف کے تمام تر امکانات کے باوجود دورِ جدید میں دینی جدوجہد کے لیے ایک متوازن حکمت عملی کے اصول اور خد و خال واضح کرنے کے حوالے سے مولانا کی یہ خدمت بے حد غیر معمولی ہے اور درحقیقت اسی میں ان کی فکری عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔

    البتہ یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ فکری قیادت کی سطح پر اتنے واضح اور دوٹوک اندازِ نظر کے ہوتے ہوئے وہ صورت حال کیسے پیدا ہوگئی، جس کا اب ہمیں سامنا ہے۔ یقیناً اس کے بہت سے عملی و واقعاتی اسباب بھی ہیں، لیکن اس کا فکری پہلو بھی کسی طرح نظراندازنہیں کیا جاسکتا۔ آئندہ کسی نشست میں ان شاء اللہ ہم اس پر بھی اپنی معروضات پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

    (بشکریہ: ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘۔ لاہور۔ اگست ۲۰۱۶ء)
     
    • قدیم قدیم x 1
  19. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    عمار خاں ناصر صاحب کا یہ دفاعی مضمون ایک بار نہیں کئی بار پڑھ چکا ہوں. تفصیل کا بلکل وقت نہیں. جب آپ کسی کی فکر کا دفاع کرنے جارہے ہیں تو لازم ہے کہ شریعت و حدیث کا حوالہ بھی دینا چاہیے. شریعت کا تو ایک ہی واسطہ سلف صالحین صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہے.جن کے ذریعے دین ہم تک پہنچا الحمد للہ.تاویلات سے اچھا مضمون تیار ہو سکتا ہے. مگر برات نہیں ہوسکتی. صرف یہ دیکھیے کہ اللہ کی عبادت جو کہ جن وانس کی تخلیق کا اصل مقصد ہو اس کے لئے کس طرح پوجا پاٹ جیسا متکبرانہ، استہزاء سے بھرا لفظ استعمال کیا گیا ہے. کیا یہ کلام الہی کو غلط معنی دینا یا گستاخی کرنا نہیں ہے.؟ یہ اللہ کی عبادت پوجا پاٹ محض ٹریننگ ہے.توحید کی دعوت کی اہمیت کو کم کرنا ہے. یہی الفاظ سید قطب نے مولانا سے ادھار لیے. اس گمراہ کن فکر پر اچھی گرفت سلفی اہل حدیث عالم دین محدث گوندلوی رحمہ اللہ نے کی تھی. فرصت میں پڑھ لیجیے گا. مکمل رسالہ بھی گوگل کر لیں. مل جائے گا ان شاء اللہ.
    http://www.urdumajlis.net./threads/تنقید-المسائل-رد-جماعت-اسلامی-محدث-گوندلوی-رحمہ-اللہ.31286/
     
    • متفق متفق x 1
  20. ابن عادل

    ابن عادل -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 17, 2008
    پیغامات:
    79

    میں نے یہاں یہ تحریر اس لیے پیش کی تھی کہ جس طرح مولانا مودودی کے بارے میں شیخ ازہر کی رائےپیش کی گئی ہے (یاد رہے کہ ازہر کا مزاج کی ہمارے ہاں بریلوی مکتبہ فکر سے زیادہ مناسبت ہے ۔ ) اسی طرح دوسرے مکتبہ فکر کی رائے بھی پیش کردی جائے ۔ مجھے حیرت ہے کہ یہاں کا ماحول مناظرانہ ہے ایک عرصہ ہوا یہ کوچہ باعث اطمینان قلب تھا کہ ظلمات انٹرنیٹ میں جو چند قندیلیں ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے ۔ قندیل تو خیر اب بھی ہے لیکن اس کی روشنی کا زاویہ صرف ایک جانب ہی ہے ۔ اللہ اس کوچے سے دین کا کام لے لے ۔ آمین. اس جملہ معترضہ کے بعد یہ عرض کرنا ہے کہ عمار خان ناصر معروف شخصیت ہیں ۔اور شیخ ازہر یا عمار خان ناصر دونوں فکر مودودی سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے ۔ان دونوں کی رائے ایک دوسرے کے متضاد ہے ۔ اور ذرا سی تحقیق کی جائے تو خود ازہر کا سابقہ مؤقف اور دیوبند مکتبہ فکر کا مؤقف موجودہ مؤقف سے مختلف ہے ۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ مختلف آراء کو ملاحظہ کرلیں اور پھر جہاں محسوس کریں مولانا مودودی کی فکر کا مطالعہ کرکے خود کسی نتیجے تک پہنچ جائیں ۔

    دوسری بات یہ ہے کہ عمار خان ناصر نے مولانا مودودی کا دفاع نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنا حاصل مطالعہ پیش کیا ہے کہ مولانا مودودی نے ان کے بقول " زمینی حقائق" کا کس حد تک خیال رکھا ہے ۔ اب اگر اس حاصل کی زد میں شیخ ازھر کا مؤقف آگیا ہے تو اسے دفاع مودودی سے تعبیر نہ کیا جائے ۔

    تیسری بات یہ کہ آپ نے اقتباس دیا اور پھر اس جملے میں کچھ لفظوں کو سرخ بھی کردیا ۔ اس بات یا پھر پورے جملے میں ایک بدیہی حقیقت بیان کی گئی ہے جس سے ایک عام مسلمان بھی اتفاق کرے گا ۔ اس کے اثبات کے لیے بھی کسی آیت یا حدیث کی ضرورت ہو تو پھر ہمیں اللہ خالق و مالک ہے لکھنےکے ساتھ بھی آیات قرآنیہ ذکر کرنا پڑیں ۔

    چوتھی بات یہ کہ مولانا مودودی نے خود بھی اس بات کو پسند نہیں کیا کہ ان کی شخصیت کا یا ان کی فکر کا دفاع کیا جائے ۔ بلکہ میری معلومات کی حد تک انہوں نے لوگوں کو اس سے منع کیا اور انہیں کسی اور تعمیری کام پر اپنی صلاحتیں صرف کرنے کو کہا ۔ لہذا دفاع مودودی میں مصروف لوگ میرے خیال میں کار لاحاصل میں مصروف ہیں ۔ مولانا مودودی نے جو کچھ پیش کیا ہے اگر اس میں وزن ہوگا ، حق ہوگا اور اسلام کا معروف مفہوم ہوگا تو وہ خود لوں میں اپنی جگہ بنا لے گا ورنہ بہت سے لوگ آئے چلے گئے اور نسیا منسیا ہوگئے ۔ مولانا مودودی بھی گردِ زمانہ میں گم ہوجائیں گے اور ان کی فکر بھی ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں