حدیث کی تصحیح وتضعیف میں اختلاف ! عام آدمی کیا کرے ؟

ابوعکاشہ نے 'حدیث - شریعت کا دوسرا اہم ستون' میں ‏جولائی 17, 2021 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    حدیث کی تصحیح وتضعیف میں اختلاف ! عام آدمی کیا کرے ؟

    ✿ ✿ ✿

    علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    الناس في هذا العلم وعلي غيره علي ثلاثة أنواع.
    ● عالم مجتهد
    ● طالب متبع
    ● جاهل مقلد
    ◈ فالأول : يجتهد فيما اختلف فيه الناس ، لأنه باستطاعته أن يعرف صوابه من خطئه .
    ◈ والثاني : يتبع من يثق بعلمه وتقواه وصلاحه ، ويحاول وأن يتعرف به علي الصواب ، ليکون علي بصيرة من دينه ، ولا يتنطع و يدعي العلم کما فعل الداراني.
    ◈ والثالث : يقلد عالما ويحاول أن يکون من النوع الثاني ۔
    وهذا کمبداء عام . والا فمثله لايحتاج أن يسائل مثل هذا السؤال الذي يترتب عليه تصحيح الحديث أو تضعيفه کما هو ظاهر.
    [صحيح موارد الظمآن للعلامہ الالبانی : ص 53 , 54].
    .
    ترجمہ :
    علم حدیث اوردیگرعلوم کے معاملے میں لوگوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں:
    ● مجتہد عالم (اجتہاد کرنے والا عالم)
    ● متبع طالب علم (اتباع کرنے والاطالب علم)
    ● مقلد جاہل (تقلیدکرنے والاجاہل)
    .
    ◈ جو شخص پہلی قسم والوں میں سے ہو وہ ان امور میں اجتہاد کرے گا جن میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے کیونکہ وہ صحیح و غلط میں فیصلہ کرنے پر قادرہے ۔
    ◈ اورجو دوسری قسم والوں میں سے ہوگا وہ ان مجتہدین کی پیری کرے گا جن کے علم ، تقوی اوردینداری پر اسے اعتماد ہوگا ، اورکوشش کرے گا کہ ان کے ذریعہ صحیح بات تک پہونچے، تاکہ بصیرت کے ساتھ اپنے دین پر عمل پیراہو۔ لیکن یہ شخص بڑی بڑی باتیں نہ بولے اورعلم کا دعوی نہ کرے ، جیسے دارانی وغیرہ نے کیا ۔
    ◈ اورجوشخص تیسری قسم والوں میں سے ہوگا وہ کسی عالم کی تقلید کرے گا اورکوشش کرے گا کہ دوسری قسم والوں میں سے بنے ۔
    یہ عمومی اصول ہے ورنہ جاہل جیسے لوگوں کا یہ کام نہیں کہ وہ اس جیساسوال کریں جس پر حدیث کی تصحیح وتضعیف کا دارومدارہو ، جیساکہ واضح ہے۔
    [صحيح موارد الظمآن للعلامہ الالبانی : ص 53 ,

    يشكريه : كفايت الله سنابلي
     
  2. عامر اعوان

    عامر اعوان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏جنوری 24, 2022
    پیغامات:
    7
    اذا صح الحدیث فھو مذہبی کا اصول ہی غلط ہے جس نے بھی کہا ہو۔ مسئلہ صرف یہ نہیں کہ احادیث صحیح ہیں یا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا سب قابل عمل و اتباع ہیں یا نہیں۔ جواب یہ یے کہ نہیں۔ اور اسکی وجہ یہ ہے کہ عمل واتباع کیلئے صرف صحیح یونا کافی نہیں حدیث کا صریح اور غیر معارض یونا بھی ضروری ہے۔ تبھی اس پر براہ راست عمل ہو سکتا یے اگر ایک بھئ شرط مفقود یے تو مسئلہ اجتہادی ہے اور مجتہد کی تقلید ضروری ہے
    اور ہرکس وناکس کو حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اجتہاد کرے اسکے لئے خیرالقرون کا ہونا اور علمائے امت میں عمومی تلقی بالقبول ہونا بھی ضروری یے اور یہ بات صرف چار آئمہ میں پائی جاتی ہے البتہ ان سے بھی مسئلہ حل نا یو تو جمہور فقیہہ شاگرد علما کی طرف رجوع کیا جائیگا متفرد آرا اور خودرائی کو ترک کردیا جائیگا۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں