غیر مسلم کی وراثت اور فرقہ مسعودیہ

کارتوس خان نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏ستمبر 11, 2007 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. کارتوس خان

    کارتوس خان محسن

    شمولیت:
    ‏جون 2, 2007
    پیغامات:
    933
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    غیر مسلم کی وراثت اور فرقہ مسعودیہ

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

    صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہما میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ!۔
    لا یرث المسلمُ الکافر ولا الکافر المسلم۔
    مسلم، کافر کا وارث نہیں ہوتا اور نہ کافر مسلم کا (وارث ہوتا ہے)
    (صحیح بخاری جلد ٢ صفحہ ١٠٠ ح ٦٧٦٤، صحیح مسلم جلد ٢ صفحہ ١٦١٤)۔۔۔

    اس حدیث کی تشریح میں امام نووی ( متوفی ٦٧٢ھ) لکھتے ہیں کہ!۔
    واما المسلم فلا یرث الکافر ایضا عند جماھیر العلماء من الصحابۃ والتابعین ومن یعدھم
    جمہور صحابہ، تابعین اور ان کے بعد والوں کے نزدیک مسلم، کافر کا وارث نہیں ہوتا۔
    (شرح صحیح مسلم للنووی ٢\٣٣)۔۔۔

    صحیح بخاری میں ہے کہ!۔
    وکان عقیل ورث ابا طالب ھو وطالب ولم یرثہ جعفر ولا علی شیئا لآتھما کانا مسلمین وکان عقیل وطالب کافرین فکان عمر ابن الخطاب یقول! لایرث المؤمن الکافر۔
    اور ابو طالب ( جو کہ غیر مسلم فوت ہوا تھا) کے وارث عقیل اور طالب بنے کیونکہ اُس وقت وہ دونوں کافر تھے اور علی اور جعفر وارث نہیں بنے کیونکہ وہ اس وقت مسلمان تھے۔ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ کافر کا مومن وارث نہیں بن سکتا۔(بخاری جلد ١صفحہ ٢١٦ ح ١٥٨٨)۔۔۔

    امام عبدالرزاق الصنعافی (متوفی ٢١١ھ) نے صحیح سند کے ساتھ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ!۔
    لا یرث المسلم الیھودی ولا النصرانی۔۔۔ الخ
    مسلم، یہودی یا نصرانی کا وارث نہیں ہوتا۔
    (مصنف عبدالرزاق جلد ٦ ص ١٨ ح ٩٨٦٥)۔۔۔

    سنن ابی داؤد وغیرہ میں حسن سند کے ساتھ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ!۔
    لا یتوارث اھل ملتین شئی۔
    وہ مختلف ملتوں والے آپس میں (کسی چیز میں بھی) وارث نیہں ہیں۔
    (کتاب الفرائض باب ھل یرث المسلم الکافر، ح ٢٩١١)۔۔۔

    والحدیث دلیل علٰٰی انہ لاتوراث بین اھل ملتین مختلفین بالکفر او بالاسلام و الکفر وذھب الجمہور الی ان المراد بالملتین الکفر والاسلام فیکون کحدیث! لا یرث المسلم الکافر۔۔۔ا لخ
    یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ دو مختلف ملتوں والے باہم وارث نہیں بن سکتے چاہے وہ دونوں کافر یا ایک مسلم اور دوسرا کافر ہو اور جمہور اس طرف گئے ہیں کہ دو ملتوں سے مراد کفر اور اسلام ہے پس یہ اس حدیث کی طرح ہو جاتی ہے جس میں ہے کہ مسلم کافر کی وراث نہیں ہوتا۔۔۔۔

    جماعت التکفیر (فرقہ مسعودیہ) کے امیر دوم محمد اشتیاق صاحب یہ روایت پیش کر کے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلم کافر کا وارث ہوسکتا ہے۔ (انا اللہ وانا الیہ راجعون) اس کے بعد وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول پیش کرتے ہیں کہ!۔
    ہم (یعنی مسلمان) اُن (یعنی کفار) کے وارث ہوں گے۔۔۔ الخ
    (تحقیق مزید میں تحقیق کا فقدان صفحہ )١٥

    کیا جماعت المسلمین رجسٹرڈ کے نزدیک مرفوع حدیث اور جمہور آثار صحابہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں صرف ایک صحابی کا قول حجت بنا لینا جائز ہے؟؟؟۔۔۔ اس کے بعد اشتیاق صاحب نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا ایک فتوٰی بحوالہ ابن ابی شیبہ جلد ١١ صفحہ ٣٧٤ نقل کر کے لکھا ہے کہ وسندہ قوی۔۔۔

    اسے کہتے ہیں کہ کان کو اُلٹی طرف سے پکڑنا جب یہ اثر سنن ابی داود (ح ٣٩١٣، ٣٩١٢) وغیرہ میں موجود ہے تو ابن شیبہ کا حوالہ کیا معنی رکھتا ہے؟؟؟۔۔۔

    کان اُلٹی طرف سے ہاتھ لمبا کر کے پکڑنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ابوداود وغیرہ کی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اثر ابوالاسود نے سیدنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے نہیں سُنا بلکہ [رجل] ایک (آدمی) سے سنا ہے امام بہیقی فرماتے ہیں کہ!۔
    ھذا رجل مجھول فھو منقطع۔
    یہ آدمی مجہول ہے پس یہ روایت منقطع ہے۔
    (السنن الکبرٰی ح ٢ صفحہ ٢٠٥،٢٥٤،٢٥٥)۔۔۔

    حافظ ابن حزم الظاہری فرماتے ہیں کہ!۔
    معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ یحٰیی بن یعمر، ابراہیم اور مسروق سے مروی ہے کہ مسلمان کافر کا وارث ہوسکتاہے اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔
    (المحلی جلد ٩ صفحہ ٣٠٤)۔۔۔

    اشتیاق صاحب یہ عبارت سمجھ نہیں سکے اور لکھ دیا کہ!۔
    حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت یٰحیی بن یعمر وابراہیم ومسروق نے اس واقعہ کو روایت کیا ہے۔
    (المحلی ابن حزم ٩\٣٠٤)۔۔۔

    اس کے بعد موصوف نے السنن الکبرٰٰی للبہیقی (جلد ٦ صفحہ ٢٥٤ سے علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک اثر نقل کیا ہے جس کی سند میں سلمان الاعمش ہیں جو کہ مشہور مدلس ہیں۔
    (دیکھئے کتاب المدلسین للعراقی صفحہ ٥٥ وعام کتب المدلسین)۔۔۔

    اعمش یہ روایت [عن] کے ساتھ بیان کر رہے ہیں موصؤف نے متعدد روایات پر تدلیس کی وجہ سے جرح کی ہے (دیکھئے تحقیق صلاۃ بجواب نماز مدلل صفحہ ٧٢، ١٠٠، ١٠٨) اس مضمون کے شروع میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اثر بحوالہ صحیح بخاری (١٥٨٨) گزر چکا ہے کہ وہ اپنے غیر مسلم پاب کے وارث نہیں بنے۔

    اشتیاق صاحب نے شرح السنۃ ( جلد ٥ صفحہ ٣٦٥) سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ کے آثار نقل کئے ہیں جو کتاب مذکورہ میں بلاسند ہیں علمی میدان میں بلاسند حوالوں کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔

    اس کے بعد [ امیر دوم ] صاحب مصنف ابن ابی شیبہ (جلد ١١ صحفہ ٣٧١) سے ایک اثر نقل کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اشعت بن قیس رضی اللہ عنہ (مسلم) کی پھوپھی مرگئی اور وہ یہودہ (کافر) تھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کواشعت وارث قرار نہیں دیا بلکہ عورت کے خاندان کو وارث قرار دیا۔

    عورت کے خاندان سے مراد اس کے کافر ورثاء ہیں مصنف کے مذکورہ بالا صفحہ پر عمر رضی اللہ عنہ کا قول درج ہے۔
    یرثھا اھل دیھنا۔
    اس عورے کے وارث اس کے ہم مذہب (یہودی ہی) ہیں

    ان آثار کے غلط مفہوم غلط استدلال کی بدولت اشیاق صاحب مرفوع صحیح حدیث کی مخالفت کرتے ہوئے مسلم کو غیر مسلم کا وارث قرار دینا چاہتے ہیں ( انا اللہ وانا الیہ راجعون) آخر میں اشتیاق صاحب نے متکبرانہ اعلان کرتے ہیں کہ!۔

    اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ جماعت المسلمین کا مسئلہ ہے اور جماعت المسلمین اس مسئلہ سے نمٹنا اچھی طرح جانتی ہے لہٰذا وقار صاحب آپ پریشان نہ ہوں۔
    (تحقیق کا فقدان صفحہ ٤٦)۔۔۔

    اچھی طرح جاننے سے مراد صحیح مرفوع حدیث کو غیر ثابت آثار و اقوال سے رد کرنا ہے۔۔۔

    اشتیاق صاحب کے مستدلات کا مردود ہونا اظہر من الشمس ہوگیا لہذا یہ اعتراض اُن پر اور اُن کی جماعت پر قائم ودائم ہے کہ جب آپ غیر مسعودیوں کی تکفیر کر کے اُنھیں جماعت المسلمین سے خارج قرار دیتے ہیں اور عملا انہیں غیر مسلم ہی سمجھتے ہیں تو اُن کی وراثت کا حصول کیا معنی رکھتا ہے۔۔۔

    یہ کون سا منزل من اللہ اسلام ہے؟؟؟۔۔۔

    وما علینا الالبلاغ۔

    وسلام۔۔۔
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں