دہشتگردی کیا ہے، کیا اس پر مسلمانوں کی اجارہ داری ہے؟ِِ؟؟۔۔۔

حرب نے 'معلومات عامہ' میں ‏مئی 3, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    بحث شروع کر رہا ہوں اس کی تفصیلات میں جانے سے پہلے خود اس لفظ کی تعریف کرنا چاہوں گا لیکن دہشت گردی کی تعریف یا ڈیفائن کرنا انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ اس کی مختلف تعریفیں‌ ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ ان میں کئی اس لفظ کی صحیح تعریف واضح نہیں کرتی اور اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اس لفظ کی تعریف / ڈیفینیشن بہت واضح نہیں‌ ہے۔ جیسے جیسے جغرافیائی مقام تبدیل ہوتا ہے ویسے ویسے اس لفظ کی تعریف تبدیل ہوتی جاتی ہے لیکن آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق:

    ’’سیاسی مقاصد کے حصول یا کوئی بھی سرکاری کام کی پرزور انجام دہی کے لیے پرتشدد طاقت کا استعمال ‘‘

    اس لفظ کا پہلی بار استعمال ١٧٩٠ میں فرانسیسی انقلاب کے دوران کیا گیا تھا اور یہ لفظ ایک برطانوی شخص ایڈمنڈ برک نے فرانس کے جیکوبیئن دور کی حکومت کے لیے استعمال کیا تھا۔ ١٧٩٣ اور ١٧٩٤ کے درمیان اس ہی حکومت کو ’’دہشت کی حکومت‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس حکومت کو میکسیمیلن روبز پیئر چلا رہا تھا۔ جتنا عرصہ بھی اس نے حکومت کی اس نے ہزاروں لاکھوں معصوم لوگوں کو مروایا / گلوٹونائز کیا۔ تاریخی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ روبز پیئر نے تقریباً پانچ لاکھ افراد کو گرفتار کرایا جس میں سے چالیس ہزار کو فوراً مروا دیا، دو لاکھ کو ملک بدر کیا گیا جبکہ دو لاکھ سے زائد کو جیلوں میں تشدد اور اذیتیں دے کر اور بھوکا رکھ کر ہلاک کیا گیا۔ تو بہرالحال لفظ دہشت یا دہشت گردی کا ابتدائی استعمال اس طرح کیا گیا۔

    لیکن آج جب ہمارے پاس بین الاقوامی میڈیا موجود ہے، ایک بہت عام سا بیان اکثر و بیشتر خصوصاً سامنے آتا رہتا ہے یا یہ کہہ لیں کہ اس بیان کی اکثر بمباری کی جاتی ہے اور وہ بیان یہ ہے کہ:

    ’’تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں لیکن تمام دہشت گرد مسلمان ہیں‘‘
    All Muslims are not terrorists but
    All Terrorists are Muslims

    یہ تشریح یا تعریف ایک خاص مقصد سے شرق الاوسط اور دیگر ایشیائی ممالک میں پھیلائی گئی ہے۔ تو آیئے آج دیکھتے ہیں کہ تاریخی ریکارڈز کے مطابق دنیا میں دہشت گردی یا حملوں سے متعلق معلومات ہمیں کیا بتاتی ہے۔

    جب ہم ١٩ویں صدی کی بات کرتے ہیں‌ ہمیں پتا چلتا ہے کہ شاید ہی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہو جس میں مسلمان ملوث ہوں۔
    ١٨٨١ میں روس کے زار الیگزینڈر دوئم کو قتل کردیا گیا۔ وہ سینٹ پیٹرز برگ (سابقہ لینن گراڈ) میں ایک بلٹ پروف گاڑی میں سفر کر رہے تھے کہ اچانک ایک بم پھٹا جس سے معصوم ٢٢ لوگ مارے گئے۔ سر الیگزینڈر اپنی گاڑی سے باہر آتے ہیں کہ اچانک ایک اور بم پھٹا اور وہ مارے گئے۔ انہیں کسی مسلم نے نہیں بلکہ بیلاروس اور پولینڈ سے تعلق رکھنے والے شخص‌ ایگنی ویرچی نامی غیر مسلم شخص نے مارا۔
    ١٨٨٦ میں شکاگو (امریکا) کی ہے مارکیٹ اسکوائر میں لیبر ریلی کے دوران دھماکا ہوا جس میں ایک پولیس اہلکار سمیت ١٢ افراد مارے گئے جبکہ ٧ زخمی ہونے والے پولیس اہلکار اسپتال میں‌ جانبر نہ ہوسکے۔ اس واقعے میں ملوث افراد مسلم نہیں بلکہ غیر مسلم انارکسٹ تھے۔

    اب آتے ہیں ٢٠ ویں صدی کی طرف۔
    ٦ ستمبر ١٩٠١ء کو امریکی صدر ولیم میک کینلی کو ایک غیر مسلم انارکسٹ لیئون زولوگوس نے قتل کردیا۔ اس شخص نے امریکی صدر کو پستول کے دو فائر کرکے قتل کیا۔

    یکم اکتوبر ١٩١٢ء کو امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کی عمارت میں ہوا جس میں ٢١ معصوم افراد مارے گئے۔ اس حملے میں ملوث دو افراد عیسائی تھے جن کے نام جیمز اور جوزف ہیں، دونوں یونین لیڈر تھے۔

    ٢٨ جون ١٩١٤ء کو آسٹریا کے آرک ڈیوک فرانز فرڈیننڈ (رائل پرنس آف ہنگری اینڈ بوہیمیا) کو ان کی اہلیہ سمیت بوسنیا ہرزیگووینا کے دارالحکومت ساراجیوو میں قتل کردیا گیا جس کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی۔ اس قتل میں‌ ملوث‌ افراد کا گروپ خود کو ’’ینگ بوسنیا یا نوجوان بوسنیا‘‘ کہلاتے تھے اور تمام کے تمام غیر مسلم سرب تھے۔

    ١٦ اپریل ١٩٢٥ء کو بلغاریہ کے دارالحکومت سوفیا کے سینٹ نیڈیلیا چرچ میں بم دھماکا ہوا جس میں ١٥٠ سے زائد معصوم افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ ٥٠٠ سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ بلغاریہ کی تاریخ میں سب سے بڑا حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ حملے میں ملوث افراد غیر مسلم تھے اور بلغارین کمیونسٹ پارٹی کے ارکان تھے۔

    ٩ اکتوبر ١٩٣٤ء کو یوگوسلاویہ کے شاہ الیگزینڈر کو ایک بندوق بردار شخص ولاڈا جورجیف نے قتل کردیا جو غیر مسلم تھا۔

    یکم مئی ١٩٦١ کو امریکی تاریخ کا پہلا طیارہ ایک عیسائی ریمریز آرٹیز نے ہائی جیک کیا۔ وہ شخص‌ طیارے کو کیوبا لے گیا جس کے بعد اس نے وہاں پناہ حاصل کرلی۔

    ٢٨ اگست ١٩٦٨ء‌ کو گوئٹے مالا میں امریکی سفیر کو ایک غیر مسلم نے قتل کردیا۔

    ٣٠ جولائی ١٩٦٩ء میں جاپان میں امریکی سفیر کو ایک غیر مسلم جاپانی شخص نے قتل کیا۔

    ٣ ستمبر ١٩٦٩ء کو برازیل میں امریکی سفیر کو اغواء کرلیا گیا جس میں ایک غیر مسلم ملوث‌ تھا۔

    ١٩ اپریل ١٩٩٥ء میں مشہور و معروف اوکلوہاما فیڈرل بلڈنگ میں ہونے والے دھماکے میں دھماکہ خیز اور آتشگیر مواد سے بھرے ایک ٹرک کو عمارت سے ٹکرا دیا گیا تھا، اس واقعے میں ١٦٦ معصوم افراد مارے گئے جبکہ سیکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔ ابتدائی طور پر پریس میں جو بات سامنے آئی وہ تھی ’’مڈل ایسٹ کانسپائریسی‘‘۔ کئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ہفتوں‌تک بریکنگ نیوز چلتی رہی کہ یہ مڈل ایسٹ کانسپائریسی ہے، مسلم ملوث‌ ہی، فلسطینی‌ ملوث ہیں لیکن بعد میں تحقیقات سے پتا چلا یہ حملہ کرنے والے ٢ بائیں بازو کی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد تھے ، دونوں‌ عیسائی تھے اور ان کے نام ٹموتھی اور ٹیری تھے۔ لیکن جب یہ بات پتا چلی کہ حملے میں عیسائی ملوث تھے تو میڈیا میں ایک دو روز تک یہ بات چلی لیکن اس کے بعد غائب ہوگئی۔

    دوسری جنگ عظیم کے بعد ١٩٤١ء سے ١٩٤٨ء تک دنیا میں ٢٥٩ دہشت گرد حملے ہوئے جس میں یہودی دہشت گرد اور کئی دیگر یہودی تنظیمیں جیسا کہ ارگون، اسٹن گینگ اور ہیگنا ملوث تھیں۔

    ٢٢ جولائی ١٩٤٦ء میں آج کے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کے کنگ ڈیوڈ‌ ہوٹل کا بم دھماکا اس حوالے سے بہت معروف ہے اور اس میں‌ یہودی تنظیم ارگون کا رکن مینکم بیگن ملوث تھا۔ واقعہ میں ٩١ معصوم افراد مارے گئے جس میں سے ٢٨ برطانوی، ٤١ عرب، ١٧ یہودی اور ٥ دیگر قومیتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ حملے میں یہودیوں نے جو بدمعاشی کی تھی وہ یہ تھی کہ حملہ آوروں کو عرب شیوخ کے لباس میں بھیج کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حملہ عرب قوم نے (فلسطینیوں) نے کرایا ہے۔ اس وقت تک یہ برطانوی مفادات پر سب سے بڑا حملہ تصور کیا جا رہا تھا۔ اس واقعہ کے بعد برطانوی حکومت نے مینکم بیگن کو اول نمبر کا دہشت گرد قرار دیا تھا۔ بعد میں کچھ سال بعد یہی بیگن اسرائیل کا وزیراعظم منتخب ہوجاتا ہے اور اس کے چند سال بعد اسے امن کا نوبل انعام دیا جاتا ہے۔ ذرا سوچیں! معصوم افراد کا قاتل وزیراعظم بن گیا اور نوبل پیس پرائز لے گیا اور یہی نام نہاد مغربی میڈیا، جو جھوٹے ہولوکاسٹ کو جھوٹا تک ثابت نہیں کرسکتا، بیگن کی تعریفوں کے گن گانے لگا۔ اسرائیلی وزیراعظم ایرئیل شیرون بھی معصوم لوگوں‌ کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ انہوں نے ١٩٨٢ء میں‌ جب وہ اسرائیل کے وزیر دفاع تھے، لبنان کے صابرہ اور شتیلا کیمپ میں تقریباً ٣٥٠٠ فلسطینی پناہ گزینوں‌ کو لبنان کی عیسائی تنظیم لیبنیز میرونائٹ کرسچن ملیشیا کے ہاتھوں‌ اور اسرائیلی فوجی ایجنٹس کے ذریعے مروا دیا۔ یہ ساری سازش فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او)‌ کے ان کارکنوں کو مارنے کے لیے کی گئی تو جو اسرائیل سے اپنی چھینی ہوئی زمین واپس لینے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔

    اگر آپ ١٩٤٥ء سے پہلے کا دنیا کا نقشہ دیکھیں‌ تو پتہ چلے گا کہ اسرائیل کا نام و نشان تک نہیں‌ تھا۔ مذکورہ بالا یہودی جنہیں مسلمانوں نے نہیں بلکہ برطانیہ نے دہشت گرد تنظیم کا نام دیا تھا، یہودی ریاست کے حصول کے لیے لڑ رہی تھیں۔ بعد میں طاقت کے دم پر انہوں نے زمین پر قبضہ کیا، فلسطینیوں کو وہاں سے لات مار کر بھگایا اور اب وہی لوگ جو اپنی زمین کے واپس حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں انہیں‌ اسرائیل نے دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے۔

    ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کرایا، وہ جرمنی سے یہودیوں کو بھگادیتا ہے تو وہ یہودی فلسطین میں کیوں گھسیں۔ یہ تو فلسطینیوں کی مہمان نوازی اور اخلاص تھا جنہوں نے ان یہودیوں کو موسیٰ کی اولاد سمجھ کر گلے لگایا اور رہنے کے لیے جگہ دی۔ اگر ان یہودیوں کو زمین چاہئے تو وہ واپس جرمنی جائیں یا پھر یورپ جائیں جہاں سے انہیں نکالا گیا ہے۔ دنیا میں خود کو انسانی حقوق کا علمبردار ماننے والے فرسٹ ورلڈ ممالک اسرائیل جیسے دہشت گردوں کا ساتھ دے رہے ہیں، اس کے خلاف اقوام متحدہ میں آنے والی قراردادوں کو ویٹو کر رہے ہیں اور جو معصوم ہیں ان کا پابندیوں کے نام پر دانہ پانی بند کرکے انہیں دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ امام خمینی نے امریکا کے لیے بزرگ شیطان کا جو نام رکھا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔

    جرمنی میں ١٩٦٨ء سے لے کر ١٩٩٢ء تک بادر مین ہوف گینگ نامی تنظیم نے کئی معصوم انسانوں کا قتل کیا۔

    اٹلی میں ریڈ بریگیڈ نامی تنظیم نے سیکڑوں معصوم لوگوں کا قتل کیا اور یہی تنظیم اٹلی کے وزیراعظم الڈو مورو کے اغوا میں بھی ملوث تھی اور ٥٥ روز بعد اسے قتل بھی کردیا۔

    جاپان میں بھی ایسی ہی ’’جاپنیز ایٹ آرمی‘‘ نامی تنظیم تھی جس کے ارکان بدھ مت سے تعلق رکھتے تھے۔ اس تنظیم نے ٹوکیو سب وے میں ہزاروں لوگوں کو ایک زہریلی گیس کے ذریعے ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ خوش قسمتی سے ان کی سازش ناکام ہوئی اور صرف ١٢ لوگ مارے گئے لیکن ٥ ہزار افراد زہریلی گیس کے اثرات سے شدید متاثر ہوئے اور کچھ زخمی بھی ہوئے۔

    برطانیہ میں تقریباً ١٠٠ سال تک آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والی کیتھولک عیسائی ارکان پر مشتمل تنظیم آئی آر اے برطانوی مفادات کے خلاف حملے کرتے آئے لیکن انہیں کبھی کیتھولک دہشت گرد نہیں کہا گیا۔ اس تنظیم نے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں‌ دہشت گرد حملے کئے۔

    ١٩٧٢ء میں اس تنظیم نے تین دھماکے کرائے۔ پہلے میں سات، دوسرے میں ١١ جبکہ تیسرے میں ٩ مارے گئے۔ ١٩٧٤ء میں تنظیم نے دو گلفورڈ‌ پب (شراب خانہ) میں دھماکے کرائے ٦ افراد مارے گئے جبکہ ٤٥ سے زائد زخمی ہوئے۔ برمنگہم کے شراب خانے میں کئے جانے والے حملے میں ٢١ افراد مارے گئے جبکہ ١٦٢ زخمی ہوئے۔ ١٩٩٦ء میں لندن میں ہونے والے دھماکے میں ٢ افراد زخمی ہوئے اور ١٠٠ سے زائد زخمی ہوئے۔

    ١٩٩٩٦ء میں ہی مانچیسٹر کے شاپنگ ایریا میں دھماکے سے ٢٠٦ افراد زخمی ہوئے۔ ١٩٩٨ء میں بین برج بم دھماکے، جہاں ایک گاڑی میں ٥٠٠ پائونڈ وزنی دھماکا خیز مواد ایک گاڑی میں رکھ کر تباہ کردیا گیا، جس سے ٣٥ معصوم افراد زخمی ہوئے۔ اس ہی سال کے دوران اوماگ بم دھماکے میں آئی آر اے نے ٥٠٠ پائونڈ وزنی دھماکا خیز مواد کو تباہ کرکے ٢٥ افراد کو موت کی نیند سلادیا جبکہ ٣٣٠ افراد زخمی ہوئے۔ یہ تمام کے تمام واقعات آئی آر اے نامی تنظیم کے کھاتے میں جاتے ہیں جنہیں کسی مسلم مورخ کی کتابوں سے نہیں بلکہ غیر مسلم مغربی میڈیا (ایمنسٹی انٹرنیشنل، بی بی سی وغیرہ وغیرہ۔ تفصیلات انٹرنیٹ پر سرچ کی جا سکتی ہیں) کی رپورٹس سے حاصل کیا گیا ہے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں