حضرت صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ کے بارے میں اہلِ بیت کا نقطۂ نظر

بابر تنویر نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏دسمبر 13, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    حضرت صدیقِ اکبررضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں
    اہلِ بیت کا نقطۂ نظر

    مجموعی طور پر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے بارے میں دونوں نقطہ ہائے نظر بیان کرنے کے بعد اب ہم آپ کو بتائیں گے کہ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالی عنہ، جن کی شان میں اللہ نے فرمایا ’’ثَانِیَ اثْنَیْنِ
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    اِذْھُمَا فِی الْغَارِ‘‘ کے متعلق حضرات اہل بیت کیا نقطہ نظر رکھتے تھے۔

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد، اور آپ کے دونوں نواسوں کے والد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اس وقت کو یاد کرکے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالی عنہ پر بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے اور ایک ہجوم کردیا، آپ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی اس بیعت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں۔ اس موقعہ پر میں ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گیا اور ان کی بیعت کرکے ان حالات میں اٹھا کہ باطل مٹ چکا اور دب چکا تھا۔ اور دین خدا کا بول بالا ہوچکا تھا، ’’وَلَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ‘‘ پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام امور اپنی نگرانی میں لے لیے اور سب امور آسانی، درستگی، میانہ روی اور عمدہ طریقے پر سرانجام دینے لگے، میں خیر خواہانہ طور پر آپ کے ساتھ رہا اور ان امور میں، جن میں وہ اللہ کی اطاعت کرتے، میں پوری طرح اطاعت کرتا رہا۔‘‘ 1
    ----------------------------------------------------------------------
    1 ’’الغارات‘‘ جلد ۱ صفحہ ۳۰۷ زیرِ عنوان ’’رسالۃ علی علیہ السلام الیٰ اصحابہ بعد مقتل محمد بن ابی بکر‘‘
    -----------------------------------------------------------------------

    ایک اور خط میں جسے آپ نے قیس بن سعد بن عبادہ انصاری کے ہاتھ اہلِ مصر کے نام بھیجا، جب انہیں وہاں کا عامل مقرر کیا گیا، لکھتے ہیں ’’اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ خط اللہ کے بندے، علی امیر المومنین کی طرف سے ہر اس مسلمان کے نام ہے جس تک پہنچے، سلامتی ہو تم پر، میں تمہارے لیے اس اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اما بعد! یقینا اللہ نے اپنے اعلیٰ نظام اور بہترین تدبیر و تقدیر کے ساتھ اپنے لیے، اپنے فرشتوں اور رسولوں کے لیے اسلام کو بطورِ دین منتخب کیا، رسولوں کے ذریعہ اپنے بندوں تک پہنچایا اور اپنے برگزیدہ و منتخب بندوں کو عطا کیا، پس سب سے زیادہ فضیلت و بزرگی اور عزت کی جو چیز اللہ نے اس امت کو مرحمت کی، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو کتاب و حکمت اور سنت و فرائض کی تعلیم دی، انہیں ادب سکھایا کہ وہ ہدایت یاب ہوں، انہیں متفق کیا کہ ان میں تفریق نہ رہے، انہیں پاک کیا تاکہ وہ
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    ستھرے اور صاف ہوجائیں۔ جب وہ اپنا فرض پورا کرچکے، جو ان کے ذمہ تھا، تو اللہ نے انہیں اٹھالیا۔ اللہ کی رحمتیں اور سلام ہو ان پر، اللہ انہیں اپنی رحمت و رضا عطا کرے۔ بیشک وہ عزت و بزرگی والا ہے۔
    ان کے بعد مسلمانوں نے ان دو کو اپنا خلیفہ بنایا، جو بہت صالح و پارسا اور اللہ کی کتاب پر عمل کرنے والے تھے، جو بہترین سیرت و کردار کے مالک اور سنت کے مطابق کام کرنے والے تھے، پھر وہ دونوں بھی فوت ہوگئے۔ اللہ کی رحمت ہو ان دونوں پر۔ 1
    ---------------------------------------------------------------------------------------------
    1 ’’الغارات‘‘ جلد ۱ ص ۲۱۰ تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ یہی روایت شرح نہج البلاغۃ لابن ابی الحدید میں بھی موجود ہے نیز ناسخ التواریخ جلد ۳ صفحہ ۲۴۱ مطبوعہ ایران۔ اور ’’بحار الانوار‘‘ للمجلسی۔
    ---------------------------------------------------------------------------------------------


    ایک اور جگہ حضرت صدیقِ اکبر کی خلافت اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسل کے بعد اپنے درمیان میں سے اس آدمی کو چنا، جو کسی خوف کے بغیر جہاں تک ممکن تھا، درست اور ٹھیک راستے پر چلتا رہا۔‘‘ 2
    ------------------------------------------
    2 شرح نہج البلاغۃ للمثیم البحرانی صفحہ ۴۰۰۔
    ------------------------------------------


    مسلمانوں نے کیوں ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین اور اپنا امام منتخب کیا؟
    علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ہم نے دیکھا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہی خلافت کے سب سے زیادہ حق دار ہیں، وہی صاحبِ غار اور دو میں سے دوسرے ہیں۔ ہمیں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر بھی معلوم تھی اور اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ ہی کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا۔‘‘ 3
    ----------------------------------------------------------------
    3’’شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید الشیعی جلد ۱ صفحہ ۳۳۲۔
    ---------------------------------------------------------------


    گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا اشارہ کرگئے تھے۔

    یہی بات دوسرے الفاظ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کے جواب میں اس وقت کہی، جب وہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو خلافت کے مطالبہ پر برانگیختہ کررہے تھے۔ ابنِ ابی
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    الحدید 1 لکھتا ہے
    --------------------------------------------------------------------------------------------
    ! اس کا نام عزالدین عبدالحمید بن ابی الحسن بن ابی الحدید المدائنی ہے۔ نہج البلاغۃ کا شارح ہے، اکابر فضلاء اور عظیم و متبحر علماء میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ اہل بیت کی عصمت و طہارت کا پیروکار ہے۔ دین میں اس کا کتنا بلند مقام ہے اور علی کی ولایت میں کس قدر غالی، اس کے لیے اس کی شرح دیکھ لینا ہی کافی ہے، جس میں اس نے ہر اچھی اور عمدہ چیز کو جمع کردیا ہے۔ اس کی شرح تمام عمدہ اور پاکیزہ چیزوں پر مشتمل ہے۔ ۵۸۶ھ میں ذی الحجہ کے ابتدائی ایام میں پیدا ہوا۔ اس کی تصانیف میں بیس جلدوں پر مشتمل ایک کتاب ’’شرح نہج البلاغۃ‘‘ ہے۔ یہ شرح اس نے وزیر مؤید الدین محمد بن علقمی کی لائبریری کے لیے لکھی۔ جب لکھ چکا تو اپنے بھائی موفق الدین ابی المعالی کے ہاتھ اس کے پاس بھیجی۔ اس نے اس کو ایک لاکھ دینار، خلعت اور گھوڑا بھیجا۔‘‘ (روضات الجنات جلد ۵ صفحہ ۲۰۔۲۱)
    مدائن میں پیدا ہوا۔ زیادہ تر اہلِ مدائن انتہائی غالی شیعہ تھے۔ یہ بھی انہی کی رو میں بہہ گیا اور ان کا مذہب قبول کرلیا۔ اس نے انہی کے طریقہ پر عقائد کو نظم میں بیان کیا ہے ان اشعار میں غلو اور افراط بہت زیادہ ہے۔ ایک نظم میں کہتا ہے:
    ’’غیب کی چیزوں کا علم اس کے پاس بغیر روک ٹوک کے جاتا ہے۔ روشن صبح سفر کرنے والی ہے اسے روکا نہیں جاتا۔ آخرت کے دن اس کے پاس ہمارا حساب ہوگا۔ وہی کل ہمیں لذت دے گا اور ڈرانے والا ہے۔ میں نے دینِ اعتزال کو دیکھا اور میں ہر شیعہ کو تیری وجہ سے چاہتا ہوں۔ میں جان چکا ہوں کہ تمہارے مہدی کے بغیر اس دن چھٹکارا نہیں (میں چھٹکارے) کی توقع رکھتا ہوں۔ بخدا میں حسین اور اس کے جسم کو نہیں بھول سکتا۔ کہ کُھروں کے نیچے ٹکڑے ٹکڑے ننگا پڑا تھا۔ افسوس اس خون پر جو امید کے ہاتھوں ناحق بہا اور ضائع ہوگیا۔‘‘
    ابو العباس انکار کرتا ہے کہ وہ: ’’وہی ہے جس نے اس مصیبت پر ابھارا اور برانگیختہ کیا۔ جب ہر کجی درست ہورہی تھی۔ زبان فرمانبردار اور جوانی آسودہ حال تھی۔ تلوار تیز اور دل پر جوش تھا۔‘‘
    اس کے بعد یہ بغداد چلا گیا اور اعتزال کی جانب مائل ہوگیا۔ اور جیسا کہ صاحب نسخۃ السحرنے کہا ہے، غالی شیعہ ہونے کے بعد یہ پھر معتزلی ہوگیا۔ ۶۵۵ھ میں بغداد میں فوت ہوا۔ آیت اللہ علامہ حلی نے اس کی روایات نقل کی ہیں۔ (الکنیٰ والالقاب جلد ۱ صفحہ ۱۸۵)
    --------------------------------------------------------------------------------------------


    : ابوسفیان حضرت علی علیہ السلام کے پاس آیا اور ان سے کہا آپ نے خلافت قریش کے کمزور ترین گھر کے سپرد کردی۔ بخدا اگر آپ چاہیں تو میں انسانوں اور گھوڑوں کی بہت جمعیت آپ کو فراہم کردوں۔ اس پر علی علیہ السلام نے کہا: عرصۂ دراز تک تم اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دھوکا کرتے رہے، لیکن تم اسلام اور اہلِ اسلام کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ ہمیں تمہارے افراد اور گھوڑوں کی کوئی ضرورت نہیں، اگر ہم ابوبکر کو خلافت کا پوری طرح اہل نہ دیکھتے تو ہم خلافت کبھی نہ چھوڑتے۔‘‘ 2
    -------------------------------------
    2 ’’شرح ابن ابی الحدید‘‘ جلد ۱ صفحہ ۱۳۰۔
    -----------------------------------------------

    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    خود شیعہ حضرات نے اپنی کتابوں میں اس بات کو مختلف پیرایہ ہائے اظہار کے ساتھ متعدد مقامات پر نقل کیا ہے کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ ، صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو اُن کے ان گنت فضائل و مناقب کی وجہ سے صحابہ e میں سے خلافت کا سب سے زیادہ حق دار و مستحق سمجھتے تھے۔ چنانچہ ابنِ ملجم کے نیزہ مارنے کے بعد آپ کی وفات کے قریب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کے بعد امام و خلیفہ کون ہوگا؟ ابووائل اور حکیم علی بن ابی طالب سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ سے پوچھا گیا: کیا آپ کسی کے لیے وصیت نہیں کریں گے؟ اس پر آپ نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت نہیں کی تو کیا میں وصیت کروں گا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت تو نہیں کی) لیکن آپ نے فرمایا: اگر خدا ان کے لیے بہتری چاہتا ہوگا تو انہیں اپنے نبی کے بعد سب سے بہتر فرد پر متفق کردے گا۔‘‘ 1
    --------------------------------------------------------------
    1 ’’تلخیص الشافی‘‘ للطوسی جلد ۲ صفحہ ۳۷۲ مطبوعہ نجف۔
    --------------------------------------------------------------

    اس جیسی ایک اور روایت شیعہ راوی ’’علم الہدی‘‘ 2
    --------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
    2 اس کا پورا نام علی بن حسین بن موسیٰ ہے۔ علم الہدی کے لقب اور السید مرتضیٰ کے نام سے مشہور ہے۔ ۳۵۵ھ میں پیدا ہوا اور ۴۳۶ھ میں وفات پائی۔ مذہبِ شیعہ کے ارکان میں سے ایک رکن اور اس کے بانیوں میں سے ہے۔ شیعہ حضرات نے اس کی تعریف میں بے حد مبالغہ آرائی کی ہے۔ اس کے بھائی شریف رضی صاحب نہج البلاغۃ نے اس کی بے حد تعریف کی ہے۔ خوانساری اس کے بارے میں کہتا ہے: شریف مرتضیٰ علم و فہم اور کلام و شعر کے اعتبار سے اپنے زمانہ میں یکتا تھا۔ وجیہ اور عزت والا تھا۔ جہاں تک اس کی تصانیف کا تعلق ہے تو وہ سب کی سب اصول و تاسیس کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس سے پہلے ان کی کوئی نظیر نہیں۔ بطورِ مثال ’’کتاب الشافی‘‘ امامت میں ایک ایسی کتاب ہے جس کی کوئی نظیر نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ کتاب اپنے نام کی طرح شافی و کافی ہے۔ (روضات الجنات جلد ۴ صفحہ ۲۹۵ ومابعد)
    قمی کہتا ہے، وہ علماء امت کا سردار ہے۔ آثارِ امت کو زندہ کرنے والا ہے۔ اس کو دو شرف حاصل ہیں… اس نے وہ تمام علوم جمع کیے، جنہیں کسی نے جمع نہیں کیا تھا۔ اسے اس بارے میں ایسا شرف حاصل ہے، جس میں وہ واحد و یکتا ہے۔ تمام مخالف و موافق اس کے فضل پر متفق ہیں … اس کی بہت سی مشہور تصانیف ہیں۔ ’’الشافی‘‘ امامت میں ایک ایسی کتاب ہے کہ اس جیسی کتاب نہیں لکھی گئی۔ آیت اور علامہ نے کہا ہے … اس سے امامیہ نے فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ اُن کا رکن اور انہیں جمع کرنے والا ہے۔ (الکنی والا لقاب جلد ۲ صفحہ ۳۹۔۴۰)
    -------------------------------------------------------------------------------------------------------------------


    نے اپنی کتاب شافی میں نقل کی ہے:
    ’’امیر المومنین سے روایت ہے کہ جب آپ سے پوچھا گیا: کیا آپ وصیت نہیں
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


    کریں گے؟ تو آپ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت نہیں کی تو میں بھی نہیں کروں گا، لیکن اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے خیر و خوبی چاہتے ہوں گے تو انہیں لوگوں میں سے بہترین فرد پر متفق و جمع کردیں گے، جیسے اللہ نے لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہترین فرد پر جمع کردیا تھا۔‘‘ 1
    ---------------------------------
    1 الشافی صفحہ ۱۷۱ مطبوعہ نجف۔
    -----------------------------------------

    علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اپنی جماعت اور متبعین کے لیے چاہتے ہیں کہ اللہ انہیں توفیق دے کہ وہ کسی بہتر و پارسا آدمی پر متفق ہوجائیں، جیسا کہ امتِ مسلمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک صالح اور بہترین آدمی پر متفق ہوگئی تھی، یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلمکے بعد ساری مخلوق میں سے بہترین فرد تھے، جنہیں فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا ، کے شوہر علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے امام الہدی، شیخ الاسلام، قریشی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مقتدائے امت کے نام سے موسوم کیا تھا۔ چنانچہ سید مرتضیٰ علم الہدی نے اپنی کتاب میں اس روایت کو نقل کیا ہے، لکھتا ہے: ’’جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ قریش میں سے ایک آدمی امیر المومنین کے پاس آکر کہنے لگا کہ میں نے سنا ہے ابھی ابھی آپ خطبہ میں یہ دعا مانگ رہے تھے؟ خدایا ہماری اصلاح بھی اس چیز سے کرجس سے تونے خلفاء راشدین کی اصلاح کی، وہ دو کون ہیں؟ آپ نے جواب دیا، وہ دو میرے پیارے اور محبوب تھے، وہ دو تیرے چچا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ دونوں امام الہدی، شیخ الاسلام، قریشی اور رسول اللہ صلی اللہ عنہ کے بعد مقتدائے امت ہیں۔ جس نے ان دونوں کی اقتدا کی محفوظ رہا۔ جو ان کے نقشِ قدم پر چلا، صراطِ مستقیم پر چلا۔‘‘ 2
    -------------------------------------------
    2 ’’تلخیص الشافی‘‘ جلد ۲ صفحہ ۴۲۸۔
    ------------------------------------------


    اس کے علاوہ اس کتاب میں بارہا یہ جملہ دہرایا گیا ہے ’’علی علیہ السلام نے اپنے خطبہ میں کہا: اس امت میں نبی کے بعد بہترین افراد ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔‘‘ اگر یہ نہ بھی کہا ہوتا تب بھی ان سے یہ روایت موجود ہے کہ ’’ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حرا پہاڑی پر تھے،اچانک
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    پہاڑی ہلنے لگی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رک جا کہ تجھ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، صدیق اور شہید کھڑے ہیں۔‘‘ 1
    --------------------------------------------------
    1’’الاحتجاج‘‘ للطبرسی وبحار الانوار از مجلسی۔
    --------------------------------------------------

    غور کیجیے! حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے۔ ہاں! حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہمارے چوتھے خلیفۂ راشد اور حضراتِ شیعہ کے پہلے امامِ ’’معصوم‘‘ جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ جس نے ان کی ولایت کا انکار کیا، وہ کافر ہوگیا۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ’’ان کی اتباع کرنے والے ہی کے لیے نجات ہے، ان سے عداوت رکھنے والا کافر اور ہلاک و برباد ہونے والا ہے۔ جو ان کے علاوہ کسی اور کا سہارا پکڑے، مشرک اور گمراہ ہے۔‘‘ 2
    ------------------------------------------------------------------------------------------------------------
    2 ’’فرق الشیعۃ‘‘ للنونجتی صفحہ ۴۱ مطبوعہ نجف ۱۹۵۱ئ۔ ’’تفسیر قمی‘‘ جلد ۱ ص ۱۵۶ بضمن آیت ’’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا‘‘۔
    -----------------------------------------------------------------------------------------------------------


    شیعہ حضرات اپنے ائمہ سے نقل کرتے ہیں کہ ’’خدا نے یہ بات ممنوع کردی ہے کہ قیامت کے دن کوئی قوم اس قوم کی دوست بنے، جس کے اعمال اس قوم کے اعمال سے مختلف ہوں۔ ربِ کعبہ کی قسم، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ 3
    ---------------------------------------------------------
    3’کتاب الروضۃ من الکافی‘‘ للکلینی، جلد ۸ صفحہ ۲۵۴۔
    ---------------------------------------------------------

    اس قوم پر، جو علی رضی اللہ عنہ اور علی کے دو بیٹوں کی پیروی کے بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں، فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوستوں اور ساتھیوں کے بارے میں بھی ان کے خیالات و اعتقادات کی پیروی اور احترام کریں۔ بالخصوص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیقِ غار کے بارے میں، جن کے متعلق ابھی ہم نے سربراہِ اہل بیت، علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے فرمان، ان کی رائے اور عقیدے کو، خود حضراتِ شیعہ کی اپنی کتابوں اور ان کے اپنے الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ اگلی فصل میں ہم ان شاء اللہ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں دیگر اہل بیت کی رائے پیش کریں گے۔
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں