سربراہ مملکت وقائدین سے عدالتی بازپرس اور اسلام

زبیراحمد نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏دسمبر 6, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    4/اکتوبر ۲۰۰۷ء کو جنرل پرویز مشرف کا جاری کردہ نام نہاد ’قومی مفاہمتی آرڈیننس‘ NRO ان دنوں قومی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ اس سے قبل ۳/نومبر ۲۰۰۷ء کو اعلیٰ عدلیہ کے ۵۵ کے قریب جج حضرات کو فارغ کرکے جنرل مشرف نے جس نئی عدلیہ کو متعین کیا تھا، عدالتی حلقوں میں گذشتہ چند ماہ سے ان جج حضرات سے باز پرس بھی کی جارہی ہے اور ان میں سے کئی جج حضرات یا تو سبک دوش کردیے گئے ہیں یا وہ عدالت ِعظمیٰ سے معافی کی درخواستیں پیش کر رہے ہیں۔ ۲۸/ نومبر ۲۰۰۹ء این آر او سے مستفید ہونے والوں کے تحفظ کی آخری تاریخ تھی جس دن حالیہ صدر نے درجنوں آرڈیننس جاری کرکے حکومت کی زمامِ کار بظاہر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سونپ دی ہے۔ ظاہر ہوتا ہے کہ ان آرڈیننسوں کے اجرا میں سابقہ تحفظ کی توسیع کو نئی قانونی شکل دینے کے لئے کئی مزید اقدامات بھی کئے گئے ہوں گے۔ ایک طرف صدر زرداری کے خصوصی معتمدین جنیوا سے سوئس منی لانڈرنگ کیس کے مستند ریکارڈ اپنے قبضہ میں کررہے ہیں جس کی لمحہ بہ لمحہ تفصیل روزنامہ جنگ میں یکم دسمبر۲۰۰۹ء کو شائع ہوچکی ہے تو دوسری طرف عدالت ِعظمیٰ نے بھی این آر او کا مسئلہ ۷ دسمبر کو اپنے ہاں طلب کرلیا ہے۔

    این آر او میں ۹ ہزار کے قریب ممتاز سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی بدعنوانیوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے جن میں سے ۷۷۹۳ افراد کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔ اس بدنام صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ایک کھرب اور ۶۵ ارب روپے کی دولت قومی خزانے سے ہضم کی جارہی ہے۔ بدعنوان سیاستدان ایک دوسرے کے تحفظ کے لئے سیاسی سمجھوتے اور مخالفانہ بیان بازی کے خاتمہ کے سمجھوتے کررہے ہیں۔ ملک میں ان دنوں بازپرس اور احتساب کی فضا طاری ہے۔ سیاست اور عدالت کے ایوان تطہیر کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔

    اسی تناظر میں یہ مسئلہ بھی خصوصیت سے زیر بحث آرہا ہے کہ کیا سربراہِ مملکت قانون سے بالاتر ہے؟ اور عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ ہے؟ یا عدالت اسے بھی طلب کرسکتی ہے اور اسے بھی قانون کا سامنا کرناپڑسکتا ہے؟ گفتگو کا یہ سلسلہ اس وقت جاری ہوا جب سپریم کورٹ بار کے سابق صدر بیرسٹر اعتزاز احسن نے جیو ٹی وی کے مقبول پروگرام ’میرے مطابق‘ میں این آر او کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کو بتلایا کہ دنیا کے تمام ممالک کا یہ قانون ہے کہ جب تک کوئی شخص مملکت کا سربراہ ہے، اس وقت تک وہ کسی بھی قانون کی گرفت سے بالاتر ہے اور وہ عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ ہے، چونکہ وہ عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ ہے، لہٰذا عدالت میں اپنا دفاع نہیں کرسکتا اور اس وجہ سے اس پر مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا۔ اِعتزازاحسن صاحب کے اس انکشاف پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود نے پوچھا: سربراہِ مملکت اگر اپنے بیوی، بچوں کو قتل کردے، بندوق اُٹھا کر لوگوں پر گولیاں برسانا شروع کردے تو کیا تب بھی وہ قانون کی گرفت میں نہیں آئے گا اور اس پر مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا ؟

    بیرسٹر اعتزاز احسن کا جواب اب بھی یہی تھاکہ ہاں ! جب تک کوئی شخص سربراہِ مملکت یا صدر کے عہدے پرفائز ہے، اس وقت تک وہ کسی بھی قانون کی گرفت سے بالاتر ہے اور عدالت اسے طلب نہیں کرسکتی، البتہ پارلیمنٹ اس کا موٴاخذہ کرسکتی ہے اور اگر اس موٴاخذے میں وہ اپنا دفاع کرنے میں ناکام ہوکر منصب سے علیحدہ ہوجاتا ہے تو تب عدالت میں اس پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔

    ڈاکٹر شاہد مسعود کی یہ حیرت بالکل فطری تھی کیونکہ سربراہِ مملکت کو یہ تحفظ اور قانون سے استثنیٰ دینا قانونِ فطرت اور عدل و انصاف کے اُصولوں کے سراسر منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام جو دین فطرت ہے، اس میں سربراہِ مملکت سمیت کسی بھی عہدیدار کو عدالت کی حاضری سے مستثنیٰ نہیں کیا گیا بلکہ اسلامی معاشرے میں ہر فرد کا محاسبہ کیا جاتا ہے۔

    صدر مملکت کے علاوہ سیاسی قائدین اور جمہوری رہنماوٴں کے بھی قانون کی گرفت میں آنے کے امکانات پیدا ہورہے ہیں۔ حکومت نے این آر او سے مستفید ہونے والوں کی جو فہرست شائع کی ہے او رقرضے معاف کرانے والوں کی فہرست کو منظر عام پر لانے کا جو عوامی مطالبہ کیا جارہا ہے، اس پر ایک نظر ڈالنے کے ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا ملکی قانون اس سلسلے میں کیا رجحان رکھتا ہے اور کیا ہم اس موقعہ پر انصاف کے تقاضے پورے کرسکیں گے۔

    اسلام ہمارا دین ہے اورزمین کا یہ خطہ اسلام کے لئے ہی حاصل کیا گیا تھا۔کتاب وسنت کو دستور میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ ہمیں اس موقع پر یہ دیکھنا ہے کہ ہمارا دین ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے اور مسلم اُمہ کی تاریخی روایات کس رویہ کی علمبر دار رہی ہیں۔

    اسلام کی نظر میں تمام انسان مساوی ہیں اورکسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، سوائے تقوی کے۔ اسلام کی نظر میں سربراہِ مملکت اور ایک عام مزدور آدمی دونوں برابر ہیں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

    ﴿يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّأنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ﴾ (الحجرات:۱۳)

    ”اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔“

    تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ

    اسلامی عدالتوں نے نہ صرف وقت کے حکمرانو ں کو عدالت میں طلب کیا، بلکہ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ان کے خلاف فیصلے بھی صادر فرمائے۔ جن کو اُنہوں نے نہ صرف خندہ پیشانی سے قبول کیا بلکہ اسلامی عدالتوں کے ان عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں کی توصیف و تعریف بھی فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ ان اسلامی عدالتوں کے عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں سے متاثر ہونے والے متعدد لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اسلامی نظامِ عدالت اور اسلامی عدالتوں کے عدل و انصاف پر مبنی شاندار فیصلے تاریخِ حق و صداقت کی پیشانی کا جھومر ہیں۔



    قرآن مجید میں جابجا اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کرنے اور حق کا ساتھ دینے کا حکم دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ، اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ﴾ (المائدة:۴۲)

    ”اور اگر آپ ان لوگوں کے درمیان کوئی فیصلہ کریں تو انصاف کے ساتھ کریں، بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ ایک اور سورت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

    ﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِيْنَ للهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا هُوَ أقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوْا اللهَ اِنَّ اللهَ خَبِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (المائدہ:۸)

    ”اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کے لیے حق پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے ہو، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہی بات تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ بے شک تم جو عمل کرتے ہو، اللہ اس سے خوب آگاہ ہے۔“

    سورة الشوری میں ارشاد ہوتا ہے:

    ﴿وَقُلْ آمَنْتُ بِمَا أنْزَلَ اللهُ مِنْ کِتَابٍ وَّ اُمِرْتُ لأعْدِلَ بَيْنَکُمْ﴾ (الشوریٰ:۱۵)

    ”اور کہہ دیجئے! اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے، میں اس پر ایمان لایا ہوں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل کروں۔“ مزید برآں

    ﴿إنَّ اللهَ يَامُرُ بِالْعَدْلِ وَالاِحْسَانِ﴾ (النحل:۹۰) ” بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔“

    مذکورہ آیاتِ کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فیصلہ کرتے وقت حکمران، قاضی یا ثالث پر عدل و انصاف کرنا فرض ہے جس میں ذاتی پسند و ناپسند کو دخل نہیں ہونا چاہئے۔ خواہ وہ فیصلہ اپنے کسی قریبی، رشتہ دار، دوست وغیرہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ نیز فریقین میں سے، جو حق پر ہو، اس کے حق میں فیصلہ کردیا جائے اور کسی قسم کے دباؤ یا مصلحت کو قبول نہ کیا جائے۔ خواہ وہ فیصلہ سربراہِ مملکت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اسلامی نظامِ عدل میں تمام انسان برابر ہیں۔ سربراہِ مملکت اور ایک عام مزدور میں کوئی فرق نہیں ہے۔

    سربراہِ مملکت تو کجا، دنیا میں سب سے عظیم ہستی سید الاولین والآخرین محمدرسول اللہ ﷺ کی ہے، اور اسلام نے عدل وانصاف کے تقاضوں کی خاطر ان کو بھی شریعت سے بالاتر قرار نہیں دیا اور بذاتِ خود نبی کریمﷺ نے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس نظام عدل سے بالاتر نہیں سمجھا بلکہ ایک موقع پر اپنے آپ کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا: اگر کوئی شخص مجھ سے بدلہ لینا چاہتا ہے تو لے لے؟ صحابہ کرام میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا: یارسول اللہﷺ! ایک بار آپ نے مجھے چھڑی ماری تھی، میں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔نبی کریمﷺ نے اسے بدلہ لینے کی اجازت دے دی۔ اس صحابی نے کہا: یارسول اللہﷺ! جب آپ نے چھڑی ماری تھی تو اس وقت میرے جسم پر کپڑا نہیں تھا جبکہ آپ کے جسم پر قمیص ہے۔ نبی کریمﷺ نے اپنی قمیص اتاری اور فرمایا کہ اب بدلہ لے لو۔تب وہ صحابی آپ کے جسم کے ساتھ چمٹ گیا اور بوسے لینے لگا اور کہا کہ یارسول اللہﷺ! میرا تو یہ مقصد تھا۔ (السنن الکبریٰ از امام بیہقی:۸/۴۸)

    نبی کائنات کو اپنی صاحبزادی بہت محبوب تھیں، لیکن آپ نے عدل وانصاف کے قیام میں بطورِ خاص ان کی مثال دے کر یہ بات بیان فرمائی جو تاریخ عدل کا ایک درخشندہ فرمان ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کرلی اور اس کا جرم ثابت ہوگیا۔ چنانچہ نبی کریمﷺ نے اس عورت کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم جاری کردیا۔ قبیلے والوں نے سوچا کہ اگر اس عورت کا ہاتھ کٹ گیا تو ہماری ناک کٹ جائے گی اور ہم تمام قبائل میں رُسوا ہوجائیں گے۔ چنانچہ اُنہوں نے نبی کریمﷺ کے محبوب سیدنا اُسامہ بن زید کو سفارشی بناکر بھیجا کہ اس عورت کا جرم معاف کردیا جائے۔ جب سیدنا اُسامہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے سفارش کی تو آپ نے فرمایا:

    ((أتشفع في حد من حدود الله ثم قام فاختطب ثم قال إنما أهلک الذين قبلکم إنهم کانوا إذا سرق فيهم الشريف ترکوہ وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد وأيم الله لو أن فاطمة بنت محمد ﷺ سرقت لقطعتُ يدها)) (صحیح بخاری:۳۴۷۵، مسلم:۱۶۸۸)

    ”کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو! پھر نبی کریمﷺ کھڑے ہوگئے اور خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں کو اس چیز نے تباہ و برباد کردیا کہ جب ان میں کوئی شریف آدمی چوری کرلیتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی ضعیف (کمزور) آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کردیتے۔ اور اللہ کی قسم اگر فاطمہرضی اللہ عنہا بنت ِمحمدﷺ بھی چوری کرلیتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔“

    اسلام کی نامور ہستیاں اور عشرہ مبشرہ بھی اپنے آپ کو قانون سے بالا تر خیال نہیں کرتے تھے، حتی کہ جب انہیں خلافت راشدہ کے مناصب پر فائز کیا گیا ، تب بھی ان کا یہ رویہ برقرار رہا اور خلفاے راشدین نے اپنے آپ کو اس نظام عدل سے کبھی بالاتر نہ سمجھا اور اپنی ذات کو قانون وشریعت سے مستثنیٰ نہ رکھا کیونکہ قرآن و سنت میں اس کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ ایک موقع پر امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نمازِ جمعہ کے لیے کپڑے

    پہن کر جارہے تھے۔ جب سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس سے گزرے تو راستے میں لگے ان کے گھر کے پرنالے سے گرنے والے پرندوں کے خون سے ان کے کپڑے خراب ہوگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پرنالے کو اُکھاڑنے کا حکم دے دیا اور گھر واپس لوٹ گئے اور متبادل کپڑے پہن کر آئے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ، امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: ((والله إنه للموضع الَّذي وضعه النبي))

    ”اللہ کی قسم! یہ پرنالہ نبی کریمﷺ نے اس جگہ لگایا تھا۔“

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سنتے ہی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو قسم دیتے ہوئے کہا : تم لازماً میری کمر پر چڑھ کر اس پرنالے کو وہیں نصب کردو جہاں سے اُکھاڑا گیا ہے۔ چنانچہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔ (مسنداحمدبن حنبل:۱۷۹۰، قال الارنوؤط:حسن)

    ایک موقع پر امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:اے لوگو! تم اتنے زیادہ حق مہر کیوں مقرر کررہے ہو، حالانکہ نبی کریمﷺ اور ان کے صحابہ چار سو درہم یا اس سے کم حق مہر مقرر کیا کرتے تھے۔ اگر زیادہ حق مہر مقرر کرنا عزت و تکریم کا باعث ہوتا تو تم ان سے سبقت نہ لے جاسکتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کس نے چار سو درہم سے زیادہ حق مہر مقرر کیا ہو۔ یہ کہہ کرآپ منبر سے نیچے اُتر آئے۔ ایک قریشی عورت کھڑی ہوگئی اور کہا: اے امیرالمؤمنین! کیا آپ عورتوں کا حق مہر مقرر کرنا چاہتے ہیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں! تو اس عورت نے کہا: کیا آپ نے قرآنِ مجید کی یہ آیت نہیں سنی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

    (﴿واٰتَيْتُمْ اِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاخُذُوْا مِنْهُ شَيْئًا﴾) (النساء:۲۰) ”خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔“

    یہ سنتے ہی سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے استغفار کیا اور کہا کہ ہر شخص عمر سے زیادہ فقیہ ہے۔ دوبارہ منبر پر چڑھے اور فرمایا: میں نے تمہیں چار سو درہم سے زیادہ حق مہر دینے سے منع کیا تھا۔ اب جو جتنا چاہے، اپنے مال سے حق مہر دے سکتا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ((امرأة أصابت ورجل أخطا)) ”عورت نے درستگی کو پالیا جبکہ مرد نے خطا کی ہے۔“ (تفسیر ابن کثیر بر سورة النساء:۲۰)

    معروف واقعہ ہے کہ ایک دفعہ امیر الموٴمنین سیدنا عمررضی اللہ عنہ اور سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے درمیان کسی شے پراختلاف ہوگیا۔ ان دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو منصف مقرر کرلیا کہ جو وہ فیصلہ کریں گے وہ ہمیں قبول ہے۔ چنانچہ دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہما سیدنا زید بن ثابت کے گھر گئے اور ان کے سامنے اپنا کیس رکھا۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے امیرالمؤمنین سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے احترام میں اُنہیں اپنے ساتھ بستر پر بٹھانا چاہا۔ مگر انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ میں اپنے فریق کے ساتھ ہی بیٹھوں گا۔ چنانچہ دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہما (مدعی اور مدعا علیہ) سیدنا زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ گئے۔سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اپنا دعویٰ پیش کیا جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اس دعویٰ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ امیرالمؤمنین سے درگزر فرمائیں اور اپنا دعویٰ واپس لے لیں۔ شرعی ضابطے کے مطابق حضرت زید رضی اللہ عنہ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے قسم لینی چاہیے تھی لیکن اُنہوں نے احتراماً اس سے احتراز و تامل کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خود قسم اُٹھائی اور فرمایا: اللہ کی قسم! زید رضی اللہ عنہ اس وقت تک منصب ِقضا کے لائق نہیں ہوسکتے جب تک ان کے نزدیک امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ اور ایک عام مسلمان برابر نہ ہو۔ (السنن الکبری از بیہقی:۱۰/۱۳۶)

    خلفاے راشدین جہاں اپنے آپ کو کسی آئین و قانون سے بالاتر نہ سمجھتے تھے، وہیں تمام مسلمانوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتے۔ شرفا اور عام مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اگر کسی حکومتی عہدیدار کے خلاف کوئی شکایت ملتی تو فوراً اس کی تحقیق کرتے اور ذمہ داران کو سزا دیتے۔ حتیٰ کہ اگر کسی حکومتی عہدیدار پر کوئی تہمت ہی لگ جاتی تو فوراً اسے معزول کردیتے تاکہ عدل کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکے اور اس کا عہدہ عدل کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔

    ایک موقع پر امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تمام گورنروں کو حج کے موقع پر طلب کیا اور مجمع عام میں کھڑے ہوکر اعلان فرما دیا کہ اگر کسی مسلمان کو ان کے خلاف ظلم کی کوئی شکایت ہو تو وہ پیش کرے۔ مجمع میں سے ایک شخص اُٹھا اور اس نے کہا کہ آپ کے گورنرعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مجھے ناحق سو کوڑے لگوائے ہیں، میں ان سے بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ خلیفہ و قت نے کہا کہ اُٹھو اور اپنا بدلہ لے لو۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیرالمؤمنین: آپ گورنروں کے خلاف یہ راستہ نہ کھولیں۔ مگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے خود نبی کریمﷺ کو اپنے آپ سے بدلہ لیتے دیکھا ہے۔ اے شخص اُٹھ اور اپنا بدلہ لے۔ آخر کار حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو ہر کوڑے کے بدلے میں دو، دو اشرفیاں دے کر جان بچانا پڑی۔

    (کتاب الخراج از امام ابویوسف)

    امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ اہل کوفہ نے امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی عدالت میں کوفہ کے گورنر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ (جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں) کی شکایت کی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعدرضی اللہ عنہ کو معزول کرکے ان کی جگہ حضرت عماررضی اللہ عنہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کردیا۔ اہل کوفہ نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ کے خلاف شکایت یہاں تک کی تھی کہ وہ نماز بھی اچھی طرح سے نہیں پڑھاتے۔

    حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور پوچھا: اے ابواسحق! یہ کوفہ والے شکایت کرتے ہیں کہ آپ اچھی طرح سے نماز نہیں پڑھا سکتے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصرضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں اُنہیں رسول اللہﷺ کی نماز پڑھایا کرتا تھا اور اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کرتا تھا۔ عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں قراء ت لمبی کرتا ہوں اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورئہ فاتحہ پڑھتا ہوں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابواسحق! آپ کے بارے میں میرا یہی گمان ہے۔

    پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک آدمی کوفہ روانہ کیا۔ اُنہوں نے ساری مسجدوں میں گھوم کر اہل کوفہ سے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا اور سب نے ان کے متعلق تعریفی کلمات کہے۔ لیکن بنو عبس کی مسجد میں ابوسعد، اسامہ بن قتیبہ نامی شخص نے کہا: جب آپ ہمیں قسم دیتے ہیں تو ہماری شکایت ہے کہ سعد جنگ میں نہیں جاتے تھے، مالِ غنیمت برابر تقسیم نہیں کرتے تھے اور انصاف کے سا تھ فیصلہ نہیں کرتے تھے۔

    حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اس کی بات سن کر کہا: اللہ کی قسم! تم نے تین جھوٹی شکایتیں کی ہیں، میں بھی تجھے تین دعائیں دیتا ہوں:

    اللهم إن کان عبدک هٰذا کاذبًا قام رياء وسمعة فأطل عمرہ وأطل فقرہ وعرضه للفتن

    ”اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور اس نے ریا کاری اور شہرت کے لیے میری شکایت کی ہے تو اس کی عمر لمبی کر، اس کو فقر میں مبتلا کر اور اسے فتنوں میں مبتلا کردے۔“

    (اس آدمی کو حضرت سعد کی بددعا لگ گئی) جب اس سے پوچھا جاتا تو وہ کہتا: بوڑھا آدمی ہوں، آزمائش میں ڈالا گیاہوں۔ سعد کی بددعا مجھے لگ گئی ہے۔ عبدالملک (ایک راوی) کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں نے اس آدمی کو دیکھا۔ بڑھاپے کی وجہ سے اس کی آنکھوں کی پلکیں گر چکی تھیں اور وہ راستوں میں لڑکیوں کو آنکھیں مارتا تھا۔ (بخاری:۷۵۵)

    مذکورہ واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کوفہ کے گورنر سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بالکل بے قصور تھے اور ان پر لگائی تہمت جھوٹی تھی۔ لیکن اس کے باوجود سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے عدل کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اُنہیں معزول کردیا اور حضرت سعد کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کے باوجود اس تہمت کی تحقیق کروائی۔

    * ایسا ہی ایک اور واقعہ عہد عمررضی اللہ عنہ میں پیش آیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مسجد ِنبوی میں تشریف فرما تھے، ان کے پاس سے ایک آدمی گزرا جو کہہ رہا تھا۔ ویل لک یا عمر من النار ”اے عمر! تمہارے لیے جہنم کا ’ویل‘ ہے۔“ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے حاضرین میں سے کچھ لوگوں کو کہا کہ اس آدمی کو میرے پاس لاؤ۔ جب اس آدمی کو لایا گیا تو سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے پوچھا۔ تم نے یہ بات کیوں کہی ہے، وہ کہنے لگا۔ آپ حکام مقرر کرتے وقت اس سے شرائط قبول تو کرواتے ہیں مگر ان کا محاسبہ نہیں کرتے کہ اُنہوں نے شرائط پوری کی ہیں یا نہیں۔ امیرالمؤمنین نے پوچھا بات کیا ہے۔ اس نے بتایا : آپ کے مصری گورنر نے ان شرائط کو فراموش کردیا ہے اور آپ کے منع کردہ اُمور کا ارتکاب کیا ہے۔ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے شکایات سننے کے فوراً بعد دو انصاری صحابہ کو مصر روانہ کیا کہ وہاں جاکر تفتیش کرو۔ اگر اس آدمی کی بات درست نکلے تو اسی وقت اسے گرفتار کرکے میری خدمت میں پہنچو۔ چنانچہ اُنہوں نے مصر کے گورنر کو گرفتار کرلیا اور امیرالمؤمنین سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے آئے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اسے پہچاننے سے انکار کردیا کیونکہ مصر کا حاکم بن کر جانے سے قبل وہ گندمی رنگ کا تھا مگر جب مصر کی سرسبزی و شادابی اسے راس آئی تو وہ گورا چٹا اور بھاری بھر کم انسان بن چکا تھا۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا: تیرا ستیاناس ہو۔ جس بات سے تجھے منع کیا گیا اس کو تو نے گلے لگالیامگر جس بات کا حکم دیا گیا تھا اس کو فراموش کربیٹھا۔ اللہ کی قسم! میں تجھے ضرور عبرتناک سزا دوں گا۔

    پھر امیرالمؤمنین نے اون کا ایک پھٹا ہوا لباس، ایک لاٹھی اور صدقے میں آئی ہوئی تین سو بکریاں منگوا کر اس ’حاکم مصر‘ سے فرمایا۔ یہ لباس پہنو، میں نے تمہارے باپ کو اس سے بھی ردّی لباس پہنے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ لاٹھی اُٹھاؤ جو تمہارے باپ کی لاٹھی سے بہتر ہے اور فلاں چراگاہ میں جاکر ان بکریوں کو چراؤ۔

    وہ آدمی فوراً زمین پر گر گیا اور کہنے لگا۔ اے امیرالمؤمنین! یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکتا، چاہے آپ میری گردن اُڑا دیں۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا: فإن رددتک فأي رجل تکون؟ ”اگر میں تمہیں گذشتہ منصب پر بحال کردوں تو پھر تم کس طرح کے آدمی ہوگے؟ اس نے کہا: والله! لا یبلغک بعدھا إلا ما تحب

    ”اللہ کی قسم! اب اس کے بعد آپ کو وہی رپورٹ ملے گی جو آپ پسند کریں گے۔“

    چنانچہ اس کے بعد وہ آدمی مصر کا ایک مثالی گورنر بن گیا اور اپنی ذمہ داریاں خوف و تقویٰ اور اخلاص و للہیت کے ساتھ انجام دینے لگا۔ (قصص العرب:۳/۱۶، ابن ابی الحدید:۳/۹۸ بحوالہ ’سنہرے فیصلے‘ از عبدالمالک مجاہد:۱۸)

    اسلامی عدالتوں کا عدل و انصاف پر مبنی ایسا ہی ایک واقعہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں پیش آیا۔ جس میں سربراہِ حکومت سیدنا علی رضی اللہ عنہ بطورِ ایک فریق عدالت میں حاضر ہوئے اور گواہ پیش نہ کرنے کی صورت میں ان کے خلاف فیصلہ صادرکردیا گیا جس کو اُنہوں نے برضا و خوشی قبول کرلیا۔

    ہوا یوں کہ ایک دن امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زرہ گم ہوگئی۔ آپ نے وہ زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی اور اس یہودی کوکہا کہ یہ میری زرہ ہے، فلاں دن گم ہوگئی تھی جبکہ یہودی نے مسلمانوں کے خلیفہ امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ درست ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ اس کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور وہ یہودی دونوں فیصلے کے لیے قاضی شریح کی عدالت میں پہنچے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنا دعویٰ پیش کیا کہ یہودی کے پاس زرہ ، میری ہے جو فلاں دن گم ہوگئی تھی۔

    قاضی نے یہودی سے پوچھا: آپ نے کچھ کہنا ہے۔

    یہودی نے کہا: میری زرہ میرے قبضے میں ہے اور میری ملکیت ہے۔

    قاضی شریح نے زرہ دیکھی اور یوں گویا ہوئے۔ اللہ کی قسم! اے امیرالمؤمنین! آپ کا دعویٰ بالکل سچ ہے۔ یہ زرہ آپ ہی کی ہے لیکن قانون کے تقاضوں کو پورا کرنا آپ پر واجب ہے۔ قانون کے مطابق آپ گواہ پیش کریں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بطورِ گو اہ اپنے غلام قنبر کو پیش کیا۔ پھر آپ نے اپنے دو بیٹوں حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کو عدالت میں پیش کیا۔ اُنہوں نے بھی آپ کے حق میں گواہی دی۔ قاضی شریح نے کہا: میں آپ کے غلام کی گواہی تو قبول کرتا ہوں مگر ایک گواہ مزید درکار ہے ، کیونکہ آپ کے حق میں آپ کے بیٹوں کی گواہی ناقابل قبول ہے۔

    حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو رسول اللہﷺ کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ ((إن الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة)) ”حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ نوجوانانِ اہل جنت کے سردار ہیں۔“

    قاضی شریح نے کہا: اللہ کی قسم! یہ بالکل حق ہے۔

    حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو پھر آپ ان کی گواہی قبول کیوں نہیں کرتے؟

    قاضی شریح نے کہا: یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں اور باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قبول نہیں۔ یہ کہہ کر قاضی شریح نے امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف یہودی کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور زرہ یہودی کے حوالے کردی۔

    یہودی نے تعجب سے کہا: مسلمانوں کا حکمران مجھے اپنے قاضی کی عدالت میں لایا اور قاضی نے اس کے خلاف میرے حق میں فیصلہ صادر فرمایا دیا، اور امیرالمؤمنین نے اس کا فیصلہ بلا چوں و چرا قبول بھی کرلیا۔ واللہ یہ تو پیغمبرانہ عدل ہے۔ پھر یہودی نے امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہنے لگا۔ امیرالمؤمنین! آپ کا دعویٰ بالکل سچ ہے۔ یہ زرہ یقینا آپ ہی کی ہے۔ فلاں دن یہ آپ کے اونٹ سے گر گئی تھی تو میں نے اسے اٹھا لیا۔ چنانچہ و ہ یہودی اس عادلانہ فیصلے سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگیا۔ (حلیة الأولیاء از ابن الجوزی، کنز العمال: رقم ۱۷۷۹۰ )

    حکمرانوں اور رعایا کے درمیان نظامِ عدل اور قانونی مساوات کا یہ سلسلہ خلافت ِراشدہ کے بعد دورِ ملوکیت تک پوری آن بان کے ساتھ جاری رہا۔ حکمران عدالتوں میں پیش ہوتے رہے اور قانون کا سامنا کرتے رہے۔

    * عتیبیکہتے ہیں کہ میں اُموی خلیفہ ہشام بن عبدالمالک کے قاضی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں قاضی کی عدالت میں دو آدمی حاضر ہوئے۔ ایک ابراہیم بن محمد تھا اور دوسرا خلیفہ ہشام کا درباری سپاہی۔ دونوں عدالت میں پہنچ کر قاضی کے سامنے بیٹھ گئے۔ درباری سپاہی بولا: قاضی صاحب! امیرالمؤمنین اور ابراہیم کے درمیان ایک تنازعہ ہے۔ امیرالمؤمنین نے مجھے اپنی نیابت کے لیے بھیجا ہے۔ قاضی نے کہا: تمہاری نیابت پر دو گواہ مطلوب ہیں۔ درباری سپاہی بولا: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں امیرالمؤمنین کی طرف سے کچھ جھوٹ بولوں گا، حالانکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی دور کا فاصلہ نہیں ہے۔ میں ان کا قریبی سپاہی ہوں۔ قاضی نے کہا: شہادت کے بغیر نہ تمہارے حق میں مقدمہ ہوسکتا ہے اور نہ تمہارے خلاف۔

    قاضی کا دو ٹوک کلام سن کر درباری سپاہی عدالت سے نکل گیا اور خلیفہ کی خدمت میں پہنچ کر پوری داستان کہہ سنائی۔ خلیفہ اُٹھ کھڑا ہوا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ عدالت کے باہر موجود تھا۔ عدالت کا دروازہ کھلتے ہی درباری سپاہی آگے بڑھا اور بولا: قاضی صاحب! یہ دیکھیں امیرالمؤمنین حاضر ہیں۔ خلیفہ ہشام کو دیکھتے ہی قاضی صاحب استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے مگر خلیفہ نے انہیں بیٹھنے کا حکم دیا۔ پھر قاضی نے ایک مصلیٰ بچھایا، اس پر خلیفہ اور اس کا مقابل ابراہیم بن محمد بیٹھ گئے۔

    عتیبی بیان کرتے ہیں کہ ہم حاضرین اس قضیے سے متعلق ہونے والی گفتگو صاف صاف نہیں سن رہے تھے۔ البتہ کچھ باتیں ہمیں سمجھ آرہی تھیں۔ فریقین نے اپنے اپنے دلائل پیش کئے۔ قاضی نے مفصل گفتگو سننے کے بعد خلیفہ ہشام کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ (قصص العرب:۳/۴۷، القصد الفرید:۴/۴۴۷)

    فضل بن ربیع، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد قاضی ابویوسف کے پاس خلیفہ ہارون الرشید کی طرف سے بحیثیت ِگواہ حاضر ہوا لیکن قاضی نے اس کی گواہی مسترد کردی۔ خلیفہ ہارون الرشید نے پوچھا: فضل کی گواہی کو آپ نے کیوں ردّ کردیا ہے؟ قاضی ابویوسف نے کہا: میں نے اسے ایک دن آپ کی مجلس میں یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ وہ آپ کا غلام ہے۔ چنانچہ اگر وہ اپنے قول میں صادق ہے تو اس کی شہادت ناقابل قبول ہے، کیونکہ بقول خود وہ غلام ہے اور اگر وہ اپنے قول میں جھوٹا ہے تو اس صورت میں بھی اس کی گواہی ناقابل قبول ہے۔ کیونکہ جب وہ آپ کی مجلس میں جھوٹ بولنے کی پرواہ نہیں کرتا، تو بدرجہ اولیٰ وہ مجلس قضا میں بھی جھوٹ کی پرواہ نہیں کرے گا۔

    خلیفہ نے جب قاضی ابویوسف کا یہ مدلل کلام سنا تو اُنہیں معذور جانا اور اس فیصلے پر ان کی تائید کی۔ (تاریخ بغداد:۱۲/۳۴۳،۳۴۴)

    ایک موقعہ پر اہل سمرقند نے اسلامی لشکر کے سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کے خلاف اسلامی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ قاضی نے مسجد کے ایک کونے میں اپنی نشست سنبھالی اور کارروائی کا آغاز کردیا۔ قاضی کا غلام اس کے سر پر کھڑا ہے۔ بغیر کسی لقب کے امیر لشکر کا نام لے کربلایا جارہا ہے کہ وہ حاضر ہو۔ امیر لشکر فاتح سمرقند قتیبہ بن مسلم حاضر ہوا۔ عدالت نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر اہل سمرقند کے سردار کاہن کو بلوایا اور فریق اول کے ساتھ بٹھا دیا۔ عدالت کی کارروائی شرو ع ہوتی ہے۔

    قاضی اپنی نہایت پست آواز میں کاہن سے مخاطب ہے: بتاؤ تم کیا کہتے ہو؟

    اس نے کہا: آپ کا کمانڈر قتیبہ بن مسلم ہمارے ملک میں دھوکے سے داخل ہوا ہے۔ اعلانِ جنگ نہیں کیا اور نہ ہی ہمیں اسلام کی دعوت دی ہے۔ قاضی نے امیر کی طرف دیکھا اور پوچھا: تم کیا کہتے ہو؟

    امیر لشکر نے قاضی سے کہا: لڑائی تو دھوکہ ہوتی ہے۔ یہ ملک بہت بڑا ملک ہے اس کے باشندوں کو اللہ تعالیٰ نے ہماری وجہ سے شرک و کفر سے محفوظ فرمایا ہے اور اسے مسلمانوں کی وراثت اور ملکیت میں دے دیا ہے۔

    قاضی نے پوچھا: کیا تم نے حملے سے پہلے اہل سمرقند کو اسلام کی دعوت دی تھی یا جزیہ دینے پر آمادہ کیا تھا یا دونوں صورتوں میں انکار پر لڑائی کی دعوت دی تھی۔

    سپہ سالار نے کہا: نہیں ایسا تو نہیں ہوا۔ قاضی نے کہا: تو گویا آپ نے اپنے قصور کا اعتراف کرلیا۔ اب آگے قاضی صاحب کے الفاظ پر غور کریں، فرمایا:

    ”اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کی مدد اس لیے کی ہے کہ اس نے دین کی اتباع کی اور دھوکہ دہی سے اجتناب کیا۔ اللہ کی قسم! ہم اپنے گھروں سے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلے ہیں۔ ہمارا مقصود زمین پر قبضہ جمانا نہیں اور نہ حق کے بغیر وہاں حکومت کرنا مقصود ہے۔ میں حکم دیتا ہوں کہ مسلمان اس شہر سے نکل جائیں اور شہر اس کے اصل باشندوں کے حوالے کردیں۔ ان کو دعوتِ دین دیں،جنگ کا چیلنج کریں اور ان سے لڑائی کا اعلان کریں۔“

    اہل سمرقند نے اس فیصلے کوسنا۔ اُن کے کانوں اور آنکھوں نے جو سنا اور دیکھا، اس پر یقین نہیں آرہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں قاضی کے فیصلے پر عمل درآمد شروع ہوچکا تھا اور فوجیں واپس جارہی تھیں۔ وہ اَفواج جن کے سامنے مدینہ سے لے کر سمرقند تک کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی۔ جنہوں نے قیصر و کسریٰ اور خاقان کی قوتوں کو پاش پاش کرکے رکھا دیا۔ جو رکاوٹ بھی راستے میں آئی، اسے خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئے۔ مگر آج اسلامی فوج ایک کمزور، نحیف و نزار جسم کے مالک قاضی کے فیصلے کے سامنے دست بردار ہوگئی۔ آج صبح کی بات ہے کہ ایک شخص جس کے ساتھ صرف ایک غلام ہے۔ اس نے مقدمے کی سماعت کی، چند منٹوں کی سماعت، عدالت میں دو طرفہ بیانات سنے، سپہ سالار کا اقرار اور دوتین فقروں پر مشتمل فیصلہ۔

    اس عادلانہ فیصلے کو دیکھ کر اہل سمرقند نے اسلامی فوج کے راستے روک لئے، گھوڑوں کی باگیں پکڑ لیں کہ ہمارے اس ملک سے واپس مت جائیں۔ ہمیں اسلامی عدل و انصاف کی ضرورت ہے۔ پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ سمرقند کی گلیاں اور چوک اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھے۔ لوگ جوق درجوق مسلمان ہونے لگے اور اس طرح سمرقند کی زمین اسلام کی دولت میں داخل ہوگئی۔ (قصص من التاریخ از شیخ علی طنطاوی)

    عہد ِاسلام کے اس زرّیں دور میں بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ سربراہِ مملکت اورحکمران عدالت میں بطورِ گواہ حاضر ہوتا ہے مگر اس کی گواہی کو مسترد کردیا جاتا ہے۔ اسی دور کی ایک عدالت کا نقشہ کچھ یوں ہے :

    قسطنطنیہ مسلمانوں کی سلطنت ِعثمانیہ کا دارالحکومت، آج کل استنبول کہلاتا ہے، جہاں عدالت لگی ہوئی ہے۔ قاضی شمس الدین محمد حمزہ کرسئ عدالت پر براجمان ہیں۔ مقدمہ پیش ہوا۔قاضی نے گواہان کی فہرست دیکھی۔ اس کے اندر حاکم وقت سلطان بایزید کا نام بھی شامل ہے۔ سامنے دیکھا تو وہ گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔

    اچانک قاضی نے فیصلہ سنا دیا۔ سلطان بایزید کی گواہی کو مسترد کیا جاتاہے کیونکہ گواہ قابل اعتبار نہیں ہے۔ عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ حاکم وقت کی گواہی ناقابل قبول، لوگ حیران و ششدر رہ گئے۔

    سلطان بایزید نے آگے بڑھ کر قاضی کو مخاطب کیا :

    کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ مجھے گواہی کے قابل کیوں نہیں سمجھاگیا ہے؟

    قاضی نے حاکم کی حیثیت اور ہیبت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا”گواہ باجماعت نماز ادا نہیں کرتا، اس لیے اس کی گواہی ناقابل قبول ہے۔“

    قاضی نے حاکم وقت کی گواہی کو مسترد کرتے ہوئے اسلام کے عدالتی نظام کو وقار اور مزید جلا بخشی اور ثابت کردیا کہ کرسئ عدالت پر بیٹھ کر چھوٹے اور بڑے میں تمیز نہیں کی جاتی۔

    حاکم نے فیصلہ سنا اور اس کے سامنے گردن جھکا دی۔ اپنی کمزوری کا اعتراف کیا اور حکم دیا کہ فی الفور میرے محل کے سامنے ایک خوبصورت سی مسجد بنائی جائے۔ اس مسجد کی اگلی صف میں اپنے لیے جگہ مخصوص کی اور اس کے بعد نمازِ باجماعت سے غفلت کا کبھی مرتکب نہیں ہوا۔ (انسا ئیکلو پیڈیا تاریخ عالم:۱/۶۱،۶۲)

    تاریخ اسلامی ایسے روشن اور عدل و مساوات پر مبنی فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ جہاں حکمران، وزرا، گورنر اور عسکری کمانڈر عدالت میں پیش ہوتے اور قانون و شریعت کا سامنا کرتے اور ان فیصلوں کے سامنے اپنا سرجھکا لیتے تھے۔ یہ اسلام کا ہی امتیاز ہے کہ اس میں قانونی طور پر تمام انسان برابر ہیں۔ سربراہِ حکومت اور ایک عام مسلمان کے حقوق میں کوئی فرق نہیں ہے۔

    نبی کریم ﷺکے فرامین،صحابہ کرام کے ارشادات اور تاریخ اسلامی کے اس سرسری مطالعے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اسلام میں اصل حیثیت اللہ کی شریعت کو حاصل ہے۔ شریعت ِاسلامیہ کی یہ حاکمیت حکمران وعہدیدار سے بڑھ کر رسول اوران کی آل اولاد تک کو شامل ہے۔اس میں کوئی استثنا نہیں ، کیوں کہ اللہ کی نظر میں سب انسان اس کی مخلوق اور برابر ہیں۔ مسلمانوں نے اپنے کردار وعمل سے ہر مرحلہ پر اس کا ثبوت پیش کیا ہے، آج کا دورِ زوال اس لئے امہ پر طاری ہوا ہے کہ ہم نے اپنے زرّیں اصول طاق نسیاں کردیے ہیں اور اسلام پر عمل کرنا ترک کردیا ہے۔ جب کہ انسانوں کا بنایا ہوا نظامِ سیاست جمہوریت، جس کا آج خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، اس میں یہ حاکمیت اللہ کی بجائے عوام کے نمائندوں کو حاصل ہے، اسی لئے وہ قانون سے بالا تر ہیں۔ اسلام اس تصور کو تسلیم نہیں کرتا، یاد رہے کہ اسلامی تاریخ میں حکمرانوں سے بازپرس کی جو مثالیں ملتی ہیں، وہ جمہوریت کے عوامی استحقاق کی بجائے دراصل خلافِ شریعت عمل کرنے کی کوتاہی ہے، جس کی نشاندہی کوئی فرد بھی کرسکتا ہے، اگر کوئی نہ بھی کرے تب وہ شخص اللہ کے ہاں مجرم اور سزا وار ہوگا۔ اسلام میں اللہ کی شریعت اور قانون سب سے بالا تر ہیں، جس کا اطلاق مسلم قاضی حضرات مسلم خلفا سمیت ہرفرد پر یکساں طورپر کرتے رہے ہیں۔

    ہمارے آئین کے اندر موجود سربراہ مملکت کو حاصل یہ تحفظ اور استثنیٰ عدل و انصاف کے سراسر منافی ہے اور قوانین الٰہیہ کا صریحاً مذاق ہے۔ مسلمان کے لئے ملکی آئین سے بڑھ کر اللہ کی شریعت یعنی کتاب وسنت ہے ، مرتے دم تک جس کی غیر مشروط اطاعت کا اس نے اقرار کیا ہے تو وہ مسلمان ٹھہرا ہے۔ اہل حل و عقد اور ارباب ِاقتدار کو عدل و انصاف کے منافی اس قانون کے بارے میں سنجیدگی سے غوروفکر کرنا چاہئے اور اسے تبدیل کیا جانا چاہئے۔ جیسا کہ ہمارا دعویٰ ہے ہم ایک اسلامی مملکت کے باشندے اور ہمارا آئین اسلامی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ہمیں اس عدل و انصاف کے منافی، امتیازی قانون کو جلد از جلد ختم کردینا چاہئے تاکہ ہم اپنے دعویٰ میں سچے ثابت ہوں۔ مملکت میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو اور ملک امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکے۔

    مشہور مقولہ ہے کہ فسق و فجور سے تو حکومت قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم سے نہیں!!
    سربراہ مملکت وقائدین سے عدالتی بازپرس اور اسلام
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    جزاک اللہ خیرا یا مسلم العالمین
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں