کرونا وائرس کے خوف سے گھروں میں نماز ادا کرنا

مقبول احمد سلفی نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏مارچ 18, 2020 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    871
    کرونا وائرس کے خوف سے گھروں میں نماز ادا کرنا
    تحریر: مقبول احمد سلفی
    اسلامک دعوۃ سنٹر طائف (مسرہ)

    بعض خلیجی ممالک جن میں سعودی عرب بھی شامل ہےوہاں حکومت کی جانب سے مساجد میں پنچ وقتہ اور نماز جمعہ پر پابندی لگانے سے عوامی حلقہ میں اکثر یہ سوال گردش کررہاہے کہ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے ، کیا قرآن وحدیث کی روشنی میں مسجد بند کرنے اور فرائض گھروں میں ادا کرنے کی گنجائش ہے ؟
    عوام کے درمیان مذکورہ سوال کا گردش کرنا فطری امرہے کیونکہ یہ عبادت کا معاملہ ہے۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی تحریر پڑھنے کو ملی ، پاکستان کے چند علماء کی متقفہ قرار دادبھی نظر سے گزری، ان سب باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس مسئلے کو کتاب وسنت کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کررہا ہوں ، اللہ تعالی مجھے حق کی توفیق دے۔
    اسلامی تعلیمات میں مشقت کے وقت آسانی اختیار کرنے اورخطرات ونقصانات کے وقت احتیاطی تدابیر اپنانے کا حکم دیا گیا اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں بہت ساری دلیلیں ہیں جو عموما مسلمانوں کومعلوم ہیں بالخصوص ایسا کوئی بھی راستہ اختیار کرنا جس سے ہلاکت کا اندیشہ بھی ہو ممنوع ہے ۔ سعودی عرب کی فتوی کمیٹی "هيئة كبار العلماء"نے مشاورت کے بعد فتوی جاری کیا ہے کہ کرونا وائرس کے اندیشے کے پیش نظر یہاں کی مساجد پنج وقتہ اور نماز جمعہ کے لئے بند رکھی جائے گی ۔ اس فیصلہ کی وجہ سے عرب کے مشائخ اور حکومت عرب پر کچھ لوگ واویلہ اورنامناسب باتیں کرتے نظر آرہے ہیں حالانکہ اس فتوی کا تعلق صرف سعودی عرب سے ہے ، اس کا ہندوپاک یا دنیا کے کسی ملک سے تعلق نہیں ہے،پھر لوگوں کا اس فتوی پر واویلہ کرنا خصوصا مقلدوں کا (جن کے فتاوے کی بنیاد عرب نہیں اپنے متعین امام کے اقوال ہیں)قابل افسوس ہے ۔ آپ اپنے علاقے میں کرونا وائرس سے محفوظ ہیں تو اپنی مساجد کھلی رکھیں ، سعودی حکومت آپ کو اپنی مساجد بند کرنے کا حکم نہیں دیتی ہے ۔
    رہا مسئلہ شرعی نقطہ نظر سے کیا وبائی امراض کے خوف سے مساجد کی بجائے گھروں میں فرائض ادا کرسکتے ہیں کہ نہیں ؟
    اس کا جواب یہ ہے کہ متعدد احادیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شدید بارش یا تیز آندھی طوفان کی وجہ سے لوگوں کو اپنے گھروں میں نماز کا حکم دیا جاسکتا ہے چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی، پھر یوں پکار کر کہہ دیا «ألا صلوا في الرحال‏» کہ لوگو! اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو پھر فرمایا:
    إنَّ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كانَ يَأْمُرُ المُؤَذِّنَ إذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ ذَاتُ بَرْدٍ ومَطَرٍ، يقولُ: ألَا صَلُّوا في الرِّحَالِ(صحيح البخاري:666)
    ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔
    اسی طرح صحیح بخاری (668) میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے جمعہ کے دن خطبہ سنایا اور بارش وکیچڑ کی وجہ سےموذن کو یہ حکم دیا کہ اذان میں آج «حى على الصلاة‏» کی جگہ یوں پکار دو «الصلاة في الرحال» کہ نماز اپنی قیام گاہوں پرہی ادا کر لو۔
    جب لوگوں نے آپ کے اس عمل پر تعجب کیا تو انہوں نے کہا:
    كَأنَّكُمْ أنْكَرْتُمْ هذا، إنَّ هذا فَعَلَهُ مَن هو خَيْرٌ مِنِّي، - يَعْنِي النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ - إنَّهَا عَزْمَةٌ، وإنِّي كَرِهْتُ أنْ أُحْرِجَكُمْ۔
    ترجمہ: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاید اس کو برا جانا ہے۔ ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا۔ بیشک جمعہ واجب ہے مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ «حى على الصلاة‏» کہہ کر تمہیں باہر نکالوں (اور تکلیف میں مبتلا کروں)
    اور حماد عاصم سے، وہ عبداللہ بن حارث سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، اسی طرح روایت کرتے ہیں البتہ انہوں نے اتنا اور کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
    كَرِهْتُ أنْ أُؤَثِّمَكُمْ فَتَجِيئُونَ تَدُوسُونَ الطِّينَ إلى رُكَبِكُمْ.
    ترجمہ:مجھے اچھا معلوم نہیں ہوا کہ تمہیں گنہگار کروں اور تم اس حالت میں آؤ کہ تم مٹی میں گھٹنوں تک آلودہ ہو گئے ہو۔
    صحیح بخاری کی ان دونوں احادیث پر غور کریں تو معلوم ہوتا کہ بارش اور کیچڑ کی وجہ سے بستی اور محلے کے سارے لوگ مسجد کی بجائے اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کرسکتے ہیں ، یہ اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے آسانی ہےتاکہ مشقت سے بچا جا سکے، اسلام آسانی کا نام ہے ۔ان احادیث سے ایک اہم نقطہ یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ جب محض جسمانی مشقت کی وجہ سے شریعت ہمیں شدیدبارش کے وقت گھروں میں نماز ادا کرنے کی اجازت دیتی ہے تو جہاں جان کا خطرہ ہو وہاں گھروں میں نماز ادا کرنا بدوجہ اولی جائز ہوگابلکہ ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے عمل کو دیکھا کہ انہوں نےبارش کی وجہ سے نماز جمعہ سے بھی لوگوں کو روکا اور اپنے گھروں میں نماز ادا کرنے کا حکم دیا اور اس عمل کو سنت رسول بتایا۔
    جان تو بڑی چیز ہے، اس کو ہلاکت میں ڈالنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے اور کرونا وائرس سے جان کا خطرہ ہے ۔ اس وجہ سے سعودی عرب کا یہ قدم سنت کے خلاف نہیں ہے ۔ مزید چند باتیں سطور ذیل میں درج کرتا ہوں ۔
    ٭ کرونا وائرس کے خوف سے محض انہیں مقامات کے لوگ اپنے گھروں میں نماز ادا کریں جہاں اس کا خطرہ ہے اور جوعلاقے مامون ہیں وہاں والے مساجد میں فرائض کا اہتمام کریں ۔
    ٭ جو لوگ یہ اشکال پیدا کررہے ہیں کہ کروناوائرس کے مریض کو مساجد سے دور رکھا جائے لیکن مساجد بند نہ کی جائے ۔ پیاز کھاکر مسجدآنے والے یا بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹوں سے دور رکھنے کی دلیل پیش کرتے ہیں ۔ اس بات کے لئے میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کرونا وائرس ابتدائی طور پر چودہ دن تک اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں ایسے میں ایک مریض بھی خود کو اچھا ہی سمجھے گا اور چودہ دنوں میں کتنوں کو مرض کی لپیٹ میں لے لے گا، نیز کچھ لوگ عداوت میں جان بوجھ کر وائرس پھیلابھی سکتے ہیں ،اس لئے خصوصا سعودی عرب جو پوری دنیا کے مسلمانوں کا مرکز ہے اس کو تمام خدشات وخطرات سے محفوظ رکھنا ازحد ضروری ہے ۔
    ایک شخص جس کے متعلق حتمی طور پر معلوم ہے کہ اس کو وہائی مرض ہے اس سے دوری اختیار کی جاسکتی ہے جیساکہ نبی ﷺ نے ایک مجذوم سے بیعت نہیں کی لیکن جب لوگوں کے بارے میں معلوم ہی نہ ہو کہ کون مریض ہے اور کون نہیں وہاں مسئلے کا حل یہی ہے کہ لوگوں کو جمع ہونے سے روکا جائے ۔
    ٭جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کرونا کے خوف سے مساجد بند کرنا اور گھروں میں نماز پڑھنا ایمان کی کمزوری ہے اور یہ اللہ پر توکل کے خلاف ہے ان سے عرض ہے کہ جہاں ہلاکت کا اندیشہ ہو وہاں ہلاکت سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اپنانا نہ تو ایمان کی کمزوری ہے اور نہ ہی توکل کے خلاف ہے ۔ اس سے نہ تو نماز کی اہمیت گھٹتی ہے اور نہ ہی یہ فریضہ ساقط ہوتا ہے ، نماز تو کسی حال میں معاف ہی نہیں ہے ، پھر نماز پڑھنے والا خود کو کمزورایمان والا کیسے کہہ سکتا ہے اور اس کا توکل اللہ پر کیسے برقرار نہیں رہ سکتا ؟ کیا تدبیر اختیار کرنا توکل کے منافی ہے اور کیا وقتی طور پر چند ایام گھروں میں نماز ادا کرنے سے ایمان کمزور ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں ۔ دراصل کوڑھی سے بھاگنے کا حکم نبوی تدبیر ہی ہے جو توکل کے خلاف نہیں ہے اور "صلوا فی الرحال "عذر کےوقت صحابہ کا عمل ہے جو ایمان کی کمزوری نہیں ہے ۔

    اللہ تعالی ہمیں ہرقسم کے مرض سے بچائے خصوصا آج کے پرفتن دور میں ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ایمان پر ہی خاتمہ نصیب فرمائے ۔آمین
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں