لڑکیوں کو برا سمجھنا زمانہ جاہلیت کی گندی اور ناپسندیدہ عادت ہے

محمد اکبر فیض نے 'گوشۂ نسواں' میں ‏جون 28, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. محمد اکبر فیض

    محمد اکبر فیض -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 23, 2007
    پیغامات:
    1,393

    لڑکیوں کو برا سمجھنا زمانہ جاہلیت کی گندی اور ناپسندیدہ عادت ہے
    حقیقت یہ ہےکہ اولاد کے معاملہ میں انسان قطعی بے بس ہے۔ اگر وہ صرف اسی ایک معاملہ پر غور کرے تو اس حقیقت کو پالے گا کہ کائنات میں صرف ایک اللہ ہی کا حکم چل رہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اولاد کے معاملے میں نہ کسی کی بزرگی اور کرامت کام دیتی ہے ، نہ تعویذ گنڈے اور نہ ہی کوئی تدبیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسروں کو اولاد دلانا، یا لڑکی کے بجائے لڑکا پیدا کرنا تو درکنا، خود کوئی بڑے سے بڑا روحانی پیشوا اپنے یہاں بھی اپنی خواہش کے مطابق اولاد پیدا نہیں کرسکتا اور اگر اولاد سے محروم ہے تو یہ ممکن نہیں کہ اپنی کوششوں سے ایک بچہ بھی پاسکے!
    اولاد اللہ کا انعام ہے ۔ لڑکی بھی اسکا انعام ہے اور لڑکا بھی ، انعام پانے والے کا کام یہ ہے وہ انعام کی قدر کرے اور اپنے محسن کا شکر بجالائے۔ مؤمن کو ہرگز زیب نہیں دیتا کہ وہ مالک کے انعام کی ناقدری کرے اور ناشکری کی روش اختیار کرے ۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کس نعمت سے نوازے اور وہی اپنے علم اور اپنی قدرت کے تحت حکیمانہ فیصلے فرماتا رہتا ہے۔ اسکے فیصلوں پر راضی رہنا اور اس کو اپنے حق میں بہتر سمجھنا مؤمن کی شان ہے۔
    اسلام کُلی مساوات اور عدل کی دعوت دیتا ہے، اور بچوں پر رحم وشفقت کے سلسلہ میں اسلام نے مرد و عورت ، مذکر و مؤنث اور نر و مادہ میں کوئی تفریق نہیں کی ہے تاکہ اللہ تعالٰی کے اس فرمان مبارک پر عمل ہو : ٌٌ اِعدِلُوا ھُوَ اَقرَبُ لِلتَّقویٰ ( سورۃ المائدۃ آیت ۸ )
    ترجمہ : ۔ " عدل کرو یہی بات تقوٰی سے نزدیک ہے ۔ "
    اور تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ حکم نافذ ہو جو آپ نے اس حدیث کے ذریعہ دیا ہے
    اِعدِ لُوا بَینَ أَو لَا دِ کُم ، اِعدِ لُو ا بَینَ أَو لَا دِ کُم۔
    (کنز العمال جلد ۱۶ صفحہ ۱۷۵ رقم ۴۵۳۴۶ )
    ترجمہ : ۔ " تم اپنی اولاد کے درمیان عدل و مساوات کرو ، تم اپنی اولاد میں عدل سے کام لو۔
    چنانچہ قرآن کرم کے اس حکم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ ولسم کی اس رہنمائی کی بموجب تاریخ کی ابتدا اور ہر زمانے میں والدین نے اپنی اولاد کے سلسلہ میں اس بنیادی نقطہ نظر کو سامنے رکھا ، جس نے عدل و مساوات ، محبت والفت ، شفقت ورحم اور برابری کا سبق دیا، تاکہ لڑکے اور لڑکیوں میں کوئی امتیازی تفریق نہ برتی جائے۔اگر کسی اسلامی معاشرہ میں کچھ ایسے والدین نظر آتے ہیں جو لڑکی کی نسبت لڑکے سے امتیازی سلوک روارکھتے ہیں تو اس کا سبب وہ گندہ اور فاسد معاشرہ ہے جس کی گھٹی میں انہیں وہی عادات ملی ہیں جن کا دین سے دور کا بھی واسطہ نہیں بلکہ وہ محض زمانہ جاہلیت کی عادات ورواج ہیں اور ناپسندیدہ اور مبغوض رسمیں ہیں جن کی کڑی اس دور جاہلیت سے جاملتی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے :
    وَ اِ ذَ ا بُشَّرَ اَ حَدُ ھُم بِالاُنثٰی ظَلَّ وَجھُہ مُسوَدَّا وَّ ھُوَ کَظِیم ۔ یَتَوَا ریٰ مِنَ القَو مِ مَن سُوٓ ءِ مَا بُشِّرَ بِہِ ؕ اَیُمسِکُہ عَلٰی ھُو نِ اُم یَدُ سُّہ فِی التُّرَابِ ؕ اَ لَا سَآ ءَ مَا یَحکُمُون ۔ ( سورۃ النحل آیت۸ ۵،۵۹ )
    ترجمہ : ۔ اور جب ان میں کسی کو بیٹی کی خبر دی جائے تو سارے دن اس کا چہرہ بے رونٹ رہے اور دل ہی دل میں گٹھتا رہے جس چیز کی اس کو خبر دی گئی ہے اس کی عار سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرے آیا اس ( مولود) کو ذلت ( کی حالت ) پر لئے رہے یا اس کو مٹی میں گاڑ دے خوب سن لو ان کی تجویز بہت بری ہے ۔ "
    ( معارف القرآن جلد ۵ صفحہ ۳۵۵)
    اس کا اصل سبب ایمان کی کمزوری اور یقین کا عدم استحکام ہے اس لئے کہ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کے اس فیصلہ سے خوش نہیں جو اللہ تعالٰی نے انہیں لڑکی دے کرکیا ہے، ان کو یہ بات خوب ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ وہ اور ان کا خاندان اور تمام مخلوق مل کر بھی اللہ کے فیصلہ کو نہیں بدل سکتے ، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، کیا انکے کانوں میں اللہ تعالٰی کے اس فرمان مبارک کی آواز نہیں پڑی ، جس میں اللہ تعالٰی نے لڑکوں اور لڑکیوں کے سلسلہ میں اپنی تد بیر محکم اور ازلی فیصلے کو مشیت مطلقہ اور اٹل حکم کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :
    لِلّٰہِ مُلکُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ ؕ یَخلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ یَھَبُ لِمَن یَّشَآ ءُ اِنَا ثًا وَّ یَھَبُ لِمَن یَّشَآ ءُ الذُّکُو رَ ۰ اَو یُزَوِّ جُھُم ذُکرَا نًا وَّ اِ نَا ثًا ج وَّیَجعَلُ مَن یَّشَآ ءُ عَقِیمًا ؕ اِنَّہ عَلِیمٌ قَدِیرٌ ۰ (سورۃ شوری آیت ۴۹،۵۰ )
    ترجمہ : ۔ " اللہ ہی کی ہے سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے عطا فرماتا ہے یا ا ن کو جمع کردیتا ہے ( کہ ) بیٹے بھی (دیتا ہے ) اور بیٹیاں بھی اور جس کو چاہیے بے اولاد رکھتا ہے بے شک وہ بڑا جاننے والا بڑی قدرت والا ہے ۔ "
    ( معارف القرآن جلد ۷ صفحہ ۷۱۱ )
    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمزور نفوس اور ضعیف ایمان والوں سے زمانہ جاہلیت کی ان رسوم کی جڑیں اکھاڑنے اور ان کی بیخ کنی کرنے کے لیئے لڑکیوں کا خصوصی تذکرہ کیا ، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
    مَن عَا لَ ثَلَا ثَ بَنَا تِ فَاَ دَّ بَھُنَّ وَ اَ حسَنَ اِلَیھِنَّ فَلَہ الجَنَّۃُ ۔ ( کنز العمال جلد ۱۶ صفحہ ۱۸۶)
    ترجمہ : ۔ " کہ جس کی تین بیٹیاں ہوں اور اس نے ان کو اچھا ادب سکھایا اور ان کی اچھی تربیت کی تو اس شخص کے لئے جنت ہے ۔ "
    اور والدین اور تربیت کرنے والوں کو ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی ترغیب دی۔
    ( ماخوذ مثالی ماں )
     
  2. فرحان دانش

    فرحان دانش -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 3, 2007
    پیغامات:
    434
  3. زاہد محمود

    زاہد محمود -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 5, 2007
    پیغامات:
    179
    اسلامُ‌علیکم! بالکل صحیح لکھا ہے آپ نے۔
     
  4. محمد اکبر فیض

    محمد اکبر فیض -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 23, 2007
    پیغامات:
    1,393
    وعلیکم وسلام بھائی شکریہ
     
  5. mafaiz_98

    mafaiz_98 -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏جون 22, 2009
    پیغامات:
    151
    اسلام علیکم اکبر بھائی بہت خوب بہت اچھی شئیرنگ ہے ۔ بہت شکریہ
     
  6. محمد اکبر فیض

    محمد اکبر فیض -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 23, 2007
    پیغامات:
    1,393
    وعلیکم وسلام
    بھائی آپ کا بھی شکریہ ۔ جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں