زرداری کے لیے آخری موقع

کنعان نے 'حالاتِ حاضرہ' میں ‏نومبر 17, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. کنعان

    کنعان محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2009
    پیغامات:
    2,852
    زرداری کے لیے آخری موقع




    صدر زرداری کو یہ ڈر کہ سترہویں ترمیم کے خاتمے کے بعد میاں نواز شریف کے وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہوگی اور وہ انہیں چاروں شانوں چت کرنے میں دیر نہیں کریں گے، اب ختم کرنا ہوگا اور ان پر بھروسہ کرنا پڑے گا

    پاکستان پیپلز پارٹی اور سکیورٹی اسٹیبلشمینٹ کی لڑائی کی کہانی تقریباً تین عشروں پر محیط ہے اور اس لڑائی میں تاحال نقصان پیپلز پارٹی کو ہی اٹھانا پڑا ہے۔ چاہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہو یا ان کے دو بیٹوں مرتضیٰ اور شاہنواز یا پھر ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کی ’سٹیٹ آف دی آرٹ‘ منصوبہ سازی سے قتل کی کہانیاں۔

    لیکن تاحال ایک بات ضرور ہوئی ہے کہ اس ملک کی ’غریب، بھوکی اور ان پڑھ‘ عوام نے پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا اور پانچ مرتبہ اس جماعت کو اقتدار کے ایوانوں میں اپنے کندھوں پر بٹھا کر پہنچایا۔

    گلگت سے گوادر اور کشمیر سے کراچی تک ملک کے کونے کونے میں اس جماعت کے حامی آج بھی نمایاں طور پر پائے جاتے ہیں اور ایسی سیاسی حمایت آج تک کسی جماعت کو نصیب نہیں ہوسکی۔

    ویسے تو پیپلز پارٹی کی قیادت پر بھی الزام لگتا ہے کہ وہ بھی سٹیبلشمینٹ کے گھوڑے پر سوار ہوکر اقتداری ایوانوں میں پہنچے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے ساتھ ان کا نبھاؤ زیادہ دیر تک نہیں ہوسکا اور جیسے ہی پیپلز پارٹی ایک عوامی جماعت بنی تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیشہ سے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی اتحاد بنا کر اس جماعت کا راستہ روکنا پڑا اور اس عمل میں انہیں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ جیسے گروہوں کو بھی تخلیق کرنا پڑا۔

    عین وقت پر متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے ’این آر او‘ کے معاملے پر جس طرح صدر آصف علی زرداری کو جھٹکا دیا گیا ہے اس سے ان کی آنکھیں کھل جانی چاہیں اور ان کے ساتھ کوئی مہنگا سودا کرنے کے بجائے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اپنی مرحومہ لیڈر کے وعدے وفا کرنا زیادہ سود مند ثابت ہوگا۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے جن کو بوتل میں بند کرنے کا اگر یہ موقع گنوایا گیا تو شاید ہی انہیں مستقبل میں ایسا موقع نصیب ہو
    جب وقت کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) سیاسی قوتیں بنیں تو انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو ’بلینک چیک’ دینا بند کیا تو ان کے خالق نے انہیں توڑنے کی کوشش کی لیکن دونوں جماعتوں کی قیادت کی بالغ نظری کی وجہ سے یہ جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کے تمام مراحل طے کرنے کے بعد بھی ملک کی قابل ذکر سیاسی قوتیں بنیں۔ جس کے بعد سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو مسلم لیگ (ق) کو اپنے بدن سے جنم دینا پڑا۔

    دو بڑی عوامی حمایت رکھنے والی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جلاوطن ہو گئے اور جلا وطنی میں بیٹھ کر اُن دونوں زیرک سیاستدانوں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔ میثاق جمہوریت سے پاکستان میں ایک نئے سیاسی کلچر پنپنے کی امید پیدا ہوئی کیونکہ دونوں نے محسوس کیا کہ انہیں پاکستان کی اسٹیبلشمینٹ نے ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کے اصول کے تحت استعمال کیا ہے۔

    میثاق جمہوریت پر دونوں بڑی جماعتوں کے اتفاق نے اسٹیبلشمینٹ کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں کیونکہ اس دستاویز کی بنیادی روح یہ ہے کہ پاکستان میں پارلیمان کو بالادست ادارہ بنانا ہے اور دنیا کے مہذب ممالک کی طرح فوج سمیت تمام اداروں کو پارلیمان کا ماتحت بنانا ہے۔ ساٹھ سال سے پاکستان میں سیاہ و سفید کی مالک اسٹیبلشمینٹ یہ کیسے قبول کرتی اور انہوں نے اپنی چالیں چلنا شروع کیں۔

    اس دوران بینظیر بھٹو کا قتل ہوگیا جس کا الزام پرویز مشرف کی حکومت نے بیت اللہ محسود پر عائد کیا۔ جس کے بعد انتخابات ہوئے اور اس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اکٹھے حکومت بنائی اور میثاق جمہوریت کے جذبے کے تحت مسلم لیگ (ن) کے وزراء نے پرویز مشرف کے ہاتھوں حلف اٹھایا۔ دونوں جماعتوں نے مل کر پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور راستہ صاف ہوتے ہی آصف علی زرداری کے صدر بننے کی خواہش اور پرویز مشرف کے برطرف کردہ ججوں کو بحال نہ کرنے پر دونوں جماعتوں میں اختلافات شروع ہوگئے۔

    دونوں میں اختلافات کی چنگاری کو اسٹیبلشمینٹ نے پھونکیں مار مار کر اس نہج پر پہنچایا کہ فروری میں اقتدار کے نشے میں چُور صدر آصف علی زرداری نے میاں برادران کو نا اہل قرار دلوا کر پنجاب میں گورنر راج نافذ کر دیا۔ ایسے میں اسٹیبلشمینٹ کو یقین ہوچلا ہے کہ اب دونوں میں دوبارہ رفاقت ممکن نہیں۔

    اب کی بار کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صدر زرداری کے لیے یہ آخری موقع ہے کہ وہ کوئی چال چلنے کے بجائے سترہویں ترمیم کے خاتمے اور میثاق جمہوریت پر اس کی روح کے مطابق فوری عمل کریں تو وہ ایوان صدر کی مسند پر آئندہ بھی بیٹھے رہیں گے
    اس دوران کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمینٹ کو پارلیمان کے طابع کرنے کے لیے صدر آصف علی زرداری نے ملک کی ایک مقبول جماعت مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر امریکہ پر انحصار کیا۔

    جس سے اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ (ن) میں قربت کی راہ ہموار ہوئی۔ لیکن تاحال مسلم لیگ (ن) نے اپنے پتے بڑی سمجھداری سے کھیلے ہیں اور کیری لوگر بل کی مخالفت سمیت کچھ معاملات میں محدود پیمانے پر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہوئے بھی اپنا بھرم برقرار رکھا ہے اور ججوں کی بحالی سمیت بعض معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کو استعمال سے فائدہ زیادہ حاصل کیا ہے۔

    بینظیر بھٹو کے قتل کی جانچ اقوام متحدہ سے کرانے پر پیپلز پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ سے اب کی بار شروع ہونے والے اختلافات اب اس نہج پر پہنچے ہیں جہاں آئین کے مطابق جمہوری انداز سے منتخب ہونے والے صدر کو ایک سال میں نکالنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی میں فریق تو مسلم لیگ (ن) بھی تھی جسے صدر آصف علی زرداری نے خود ہی دور کردیا۔ لیکن آج انہیں اس بات کا احساس یقین ہوا ہوگا کہ یہ لڑائی پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن) دونوں اکیلے طور پر شاید ہی لڑ سکیں۔

    اس بات کا اداراک مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بھی بخوبی ہے اور وہ نا اہلی کے گھاؤ کے بعد بھی بظاہر ان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔ جس کی ایک اہم وجہ بعض مبصرین کی نظر میں تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی ختم کرانا بھی ہوسکتا ہے۔

    لیکن صدر زرداری کو جو یہ ڈر ہے کہ سترہویں ترمیم کے خاتمے سے جیسے ہی میاں نواز شریف کے وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہوگی تو وہ انہیں چاروں شانوں چت کرنے میں دیر نہیں کریں گے، وہ اب ختم کرنا ہوگا اور ان پر بھروسہ کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ان کے پاس اور کوئی پائیدار ’آپشن‘ بھی نہیں بچا۔

    صدر آصف علی زرداری نے اپنے ’نجومیوں‘ کے کہنے پر اب تک جو بھی تِرک تالیاں کی ہیں اس سے وقتی طور پر تو وہ مستفید ہوئے ہیں لیکن اب کی بار کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان کے لیے یہ آخری موقع ہے کہ وہ کوئی چال چلنے کے بجائے سترہویں ترمیم کے خاتمے اور میثاق جمہوریت پر اس کی روح کے مطابق فوری عمل کریں تو وہ ایوان صدر کی مسند پر آئندہ بھی بیٹھے رہیں گے۔ کیونکہ اب ان کے گرد گھیرا تنگ ہوچکا ہے، وقت بہت کم ہے اور غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ملٹری، مُلا، مسلم لیگیں اور میڈیا کے بعض مجاہدین ان کے خلاف متحد ہوچکے ہیں۔

    بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عین وقت پر متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے ’این آر او‘ کے معاملے پر جس طرح صدر آصف علی زرداری کو جھٹکا دیا گیا ہے اس سے ان کی آنکھیں کھل جانی چاہیں اور ان کے ساتھ کوئی مہنگا سودا کرنے کے بجائے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اپنی مرحومہ لیڈر کے وعدے وفا کرنا زیادہ سود مند ثابت ہوگا۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے جن کو بوتل میں بند کرنے کا اگر یہ موقع گنوایا گیا تو شاید ہی انہیں مستقبل میں ایسا موقع نصیب ہو۔


    ‭‬ ‮ ‮زرداری کے لیے آخری موقع ‬
     
  2. دانیال ابیر

    دانیال ابیر محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2008
    پیغامات:
    8,415
    شاندار تجزیہ پر مبارکباد قبول کیجئے
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں