میڈیکل پروفیشن۔۔۔زہر آلود خنجر بن چکا ہے

ابومصعب نے 'حالاتِ حاضرہ' میں ‏جولائی 7, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    السلام علیکم

    مضمون کا ٹاپک دیکھ کر ہی قارئیں سمجھ چکے ہونگے کہ۔۔۔میں اس میں کوئی بھلی بات شئیر کرنے نہیں‌جارہا۔۔سب سے پہلے تو دو حقائق پر نظر ڈالتے چلیں جسکی وجہ سے ہی میں‌یہ ٹاپک پر اسقدر گرم ہوکر۔۔کچھ لکھنا چاہتا ہوں (یہ نیچرل ہے) اس کے بعد پھر ہم‌جنر ل حقائق شئیر کرسکتے ہیں۔

    ایک واقعہ:ایک ہائی پروفائیل پڑھی لکھی خاتون اپنے ہسبنڈ کے ساتھ۔۔۔راستے سے گذر رہی تھی۔۔راستے ہی میں انکے ہسبنڈ کو ہارٹ اٹیک آگیا۔۔۔وہ خاتون نے موقعہ کی نزاک کو دیکھ ، خود ہی کار ڈرائیو کرکے اپنے ہسبنڈ کو ہاسپٹل پہنچایا۔۔۔(اتفاق کی بات ہے۔۔کہ اس سے کچھ ہی لمحات پہلے انکے ہسبنڈ نے شیو کرایا تھا۔۔یہی اس واقعہ کی گتھی کو سلجھانے کا ذریعہ بنا)۔۔۔
    یہ ایک سوپر اسپیشیالیٹی ہاسپٹل تھا۔۔جیسا ہی یہ ہاسپٹل پہنچے انکے ہسبنڈ کو۔۔آئی سی یو میں اڈمٹ کردیا گیا۔۔پہلا دن گذرا۔۔اور خاتوں بے چین رہییں‌لیکن ڈاکٹرز نے یہ کہہ کر کہ۔۔حالت بہت نازک ہے۔۔۔آپ مل نہیں‌سکتے۔۔خاتوں کو ان سے ملنے نہیں‌دیا۔۔۔ایسی ہی پورے 5 پانچ دن گذر گئے۔۔اور بالآخر۔۔۔چھٹے دن۔۔ڈاکٹرز نے صدمے کی حالت میں انے سے معذرت کرلی کہ آپ کے ہسبنڈ انتقال فرماچکے ہیں۔۔وی آر ساری۔۔۔! لیکن نعش کو لیجانے سے پہلے یہ بل ادا کردیجیئے۔۔جو کہ لگ بھگ۔۔۔40 ہزار ریال ( 6 لاکھ انڈین روپیز بنتے تھے)۔خاتون نے تحمل سے کام لیا۔۔۔حالانکہ انکی زندگی لٹ چکی تھی۔۔۔!انہوں‌نے کہا کہ وہ نعش دیکھنا چاہتے ہیں۔۔اس سے بھی ہاسپٹل اونرز انکار کرتے رہے۔۔لیکن بالآخر انہیں اسکا موقعہ دے دیا گیا۔۔۔خاتوں کی حیرت کی انتہا ن رہی کہ۔۔۔انکے ہسبنڈ کا شییو بنے ہوا۔۔۔چہرہ۔۔جیسا کا ویسا تھا۔۔اگر انتقال پانچ دن بعد ہوا ہوتا تب۔۔شیو بڑھا ہوا ہوتا۔۔اور انتقال کے بعد۔۔تو شیو جیسا کا ویسا ہی رہنا تھا۔۔یعنی جس دن انہوں نے شریک کروایا اسی دن انکے ہسبنڈ اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے۔۔لیکن محض انکی نعش رکھ کر۔۔5 دن کا بل۔۔۔بنانے کے لئے یہ قبیح حرکت اس میڈیکل ٹیم نے کی۔۔۔خاتوں نے فوری حرکت میں آکر قانونی داو پیچ دلے۔۔اور پھر نہ صرف انہیں‌بل ادا کرنا نہ پڑا بلکہ ہرجانہ کے طور پر اس خاتون نے قریب دس لاکھ ریال (ایک لاکھ انڈین روپیز) بھی وصول کئے عدالت کے فیصلے کے بعد اور پھر ہاسپٹل کے خلاف کاروائی بھی کی گئی ( جو بھی ذمہ دار تھے۔۔)
    ایک حقیقی واقعہ۔۔۔!
    ایسے کتنے واقعات ہمارے آس پاس نہیں‌ہوتے۔۔۔!

    میں دوسرا واقعہ کچھ دیر بعد۔۔۔یہاں‌پیش کرونگا۔۔۔
     
    Last edited by a moderator: ‏جولائی 7, 2010
  2. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    دوسرا واقعہ:یہ ایک واقعہ نہیں‌ بلکہ یہ ایک ٹینڈنسی یا پرائکٹیس کہ لیں۔۔۔(کچھ کو اس سے اختلاف بھی ہوگا اور کچھ کو اتفاق ۔۔اگر ایسے حالات سے گذرے ہوں تو)
    بے بی ڈیلیوری ایک نارمل فینامینا ہے۔پریگنیسی کے آغاز سے لیکر بے ڈیلیور ہونے تک یہ سب۔۔ایک قدرتی نظام کا حصہ ہے۔۔لیکن آج کل کی میڈیکل سائینس نے اسکو بالکل ہی آرٹیفیشیل انداز میں ڈائرکٹ کردیا ہے (میرے اپنے احساسات ہیں‌یہ)۔۔آج سے چند سال قبل تک۔۔۔یہ سب کچھ دایا وغیرہ کی مدد سے بڑی اور بوڑھی عورتیں سارے کام انجام دے لیا کرتی تھیں اور عام طور پر 15-5 ڈیلیوریز بھی نارمل ہوجایا کرتی تھیں۔۔۔اور دوران پریگنینسی بہت ہی عام گھریلو دوائیں دے دی جاتی تھیں۔۔وغیرہ۔۔
    اب اس معاملہ کو اسقدر پیچیدہ بنادیا گیا ہے (یا پھر ہوسکتا آج کل کی غذارئیں رول پلے کر رہی ہوں‌یا واللہ اعلم) کہ ی فینامینا اب میڈیکل ٹیم کی تجربہ گاہ بن گیا ہے۔
    آغاز کے وقت ہی پہلے ٹسٹ کیا جاتا ہے کہ ۔۔پاسیٹیو ہے یا نیگیٹیو۔۔۔! (میری نظر میں ایک فالتو اور بیکار محض پرائیکٹیس ہے یہ)۔
    پھر جیسے ہی معلوم ہوجائے کہ ہاں مثبت ہے۔۔وہاں سے ہاسپٹلس کے چکر شروع کہ پریگنیسی کیسے محفوظ رکھی جائے۔۔(خداکی پناہ یہ ایک نیچرل فینا مینا تھا۔۔جسکو کہ۔۔خالق کائنات کی کارفرمائی ہی کافی تھی) اب ہاسپٹلز چلینگے تو کیسے۔۔پہلے ماہ سے ہی۔۔انجیکشنز کے ذریعہ (بیکار محض اکٹیویٹی ) پریکنینسی سیونگ انجکشن کے ذریعہ رحم مادر میں۔۔۔ریسسٹنس کی قوت کم سے کم کردی جاتی ہے۔۔اور یہ آرٹیفیشیل دواووں کا نتیجہ ہے۔۔پھر
    بات یہاں‌تک ہوتی تو کوئی بات نہ تھی۔۔اب یہاں‌سے قوت کی دواووں کا اژدھام۔۔کہ نیچرلی جو چیز ڈیولپ ہونی ہے۔۔اسکو اتنا آرٹیفیشل طریقے سے کمزور کردیا جاتا ہے کہ تم سب کچھ دواووں پر ڈیپند رہو (اور نیچرل ریسسٹنس اور قوت پیدا کرنے کا عمل بیچارہ بس آہ کر کے رہ جاتا ہے)
    پھر ہر ماہ کی اسکاننگ کے بچہ کی پوزیشنز کیسی ہے۔۔۔استغفراللہ یہ اسکاننگز اور اس دوران دئے جانیوالی دوائیں وغیرہ۔۔کسقدر بے بی پر اثر انداز ہوتی ہونگی ہم اندازہ ہی ن ہیں‌لگا سکتے۔۔کہ کیسے خود مان کی سائیکالوجی تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔۔کبھی یہ چیز کی کمی اسکی دواکبھی یہ چیز کی زیادتی اسکی دوا۔۔وغیرہ۔۔۔
    اس دوران سب سے پہلے ہاسپٹل کا کارڈ بنا کر ( جو کہ بنیادی طور پر ہاسپٹل والوں‌کے لئے تو اے ٹی ایم کارڈ ہوتا ہے) اور مریض‌کے لئے اور انکے رشتہ داروں کے لئے یہ ایک تازیانہ کہ اب تم مریض ہو۔۔اور یہ دوسرے معنوں‌ میں نفسیاتی کچوکہ سے کم نہیں۔۔۔
    پھر آخری تین ماہ میں ہاسپٹلز کی اکٹنگ شروع ہوجاتی ہے کہ۔۔ایسا کرو ویسا کرو یہ نہ کرو وہ کرو۔۔۔وغیرہ۔۔پھر نویں ماہ سے۔۔یہ کہنا شروع کردیا جاتا ہے کہ۔۔۔ہم کوشش کرینگے لیکن ایسا لگتا ہے کہ آپریشن کے ذریعہ ڈیلیوری ہو
    درمیان میں ایک اور اندوہناک واقعہ کی زد میں سارا خاندان آسکتا ہے وہ یہ کہ۔۔۔دواووں اور انجیکشنز کی تاب نہ لاکار۔۔۔بننے والا بے 3 ماہ کے اندر ہی دم توڑ دیتا ہے۔۔جسکو مس کیریج یا حمل ساقط ہوجانے کی ایک ماڈرن اصطلاح دے دی گئی ہے۔۔لیکن اسکے اصل ذمہ دار تو ڈاکٹرز ہیں (واللہ اعلم ، جنہوں‌نے دواووں اور عجیب و غریب انداز سے مریض کی نفسیات کو جنازہ نکال دیا ہواہوتا ہے)
    پھر بالآخر۔۔ڈیٹ آنے سے پہلے ہی مریض کو ذہنی طور پر تیار کردیا جاتا ہے کہ بھائی ہم نے بہت کوشش کی تھی۔۔لیکن وی آر ساری (اوپر کے واقعہ میں اور اس میں‌بہت مماثلت ہے) کہ سب کچھ کردیتے کے بعد فائنلی اب کوئیر راستہ نہیں‌ہے۔۔آپ آپریشن کروالیں ورنہ یہ ذمہ داری آپکی ہوگی۔۔آپ ایک پیپر سائن کردیں۔۔
    الف سے لیکر واالسلام سب کچھ جھانسہ اور بیسویں‌صدی کی ترقیوں‌میں ایسی ترقی جسنے جینا آسان کرنے کے ساتھ ساتھ میں جینا حرام کردیا ہے۔۔!اور ایک دفعہ آپریشن ہونے کے بعد پھر رحم مادر اس قابل نہیں‌چھوڑا جاتا کہ پھر سے نارمل ڈیلیوریز ہوں اور ہوں‌بھی تو اسکو کمزور تر کردیا جاتا ہے۔۔۔! یعنی چند پیسوں‌کی خاطر میڈیکل پریفیشن کسطرح کمرشیل بنکرنسلوں‌کی نسلوں‌کی کمزور بنادیتا ہے۔۔یہ ہم نے دیکھا۔۔۔
    (حقائق اس سے بہت مختلف ہوسکتے ہیں۔۔۔کچھ شواہد اور کچھ حقائق کولیکر میرے تجربات آپکی خدمت میں پیش ہیں)
    مزید کچھ حقائق پر میں روشنی نہ ڈالونگا۔۔جو کہ بیٹوین دی لایننز پیش ہیں۔۔
    بلوغت کے بعد سے لیکر شادی تک کا معاملہ بھی غیری ضروری تجربوں کی نظر رہکر۔۔۔پہلے سے ہی میڈکیکل تجربہ گاہیں ، عام فزیکل باڈیز کو یہ باور کرادیتی ہیں‌کہ ہاسپٹلز کے چکر وں‌کے بغیر اب تم جی نہیں‌سکتے ، دوسرے معنوں‌‌میں بالغ ہوجانا دوسرے معنوں‌ میں خود کو جدید میڈیکل پروفیشنل ٹیم کے حوالے کردینا ہے۔۔۔حقائق سے سب واقف ہیں۔
    پھر جیسے ہی ڈیلیوری ہوگئی۔۔۔اوہ یہاں سے نیا سلسلہ چائلڈ اسپیشلسٹ کے حوالہ معصوم جان،اور ماں‌جو کہ پہلے ہی میڈیکل ٹیم کے تجربوں کی قربان گاہ پر بلی چڑھ چکی ہے۔۔ماہانامہ چیک اپس اور دواووں کے نام پر۔۔۔ایک لامتنا ہی سلسلہ ۔۔۔اور یہی سلسلوں اور معاملوں سے تنگ آگر۔۔۔نئی ٹینڈینسی نے جنم لیا جسکو ماڈ لینگویج میں‌فیملی پلاننگ کہا جاتا ہے۔۔۔جو کہ عام حالات میں‌مجھے قطعی حرام لگتا ہے۔۔۔
     
    Last edited by a moderator: ‏جولائی 7, 2010
  3. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    ہماری جنرل نفسیات:
    اب یہ تمام واقعات اور شواہد اپنی جگہ ہوں۔
    خود ہماری نفیسات بھی کسقدر مجروح ہوگئی یا کردی گئی ہے، ہم خود جانتے ہیں۔۔
    کہ تھوڑی سی صحت کی خرابی پر ہم۔۔۔اپنے اندر ریسسٹنس محسوس نہیں‌کرتے اور بخار کھانسی اور سردرد کے لئے ہاسپٹلس کے چکر شروع کردیتے ہیں۔۔جہاں ہر چھوٹی چیز کے لئے ٹسٹس کے ذریعہ لوٹنے کی چمچماہٹ والی دکان میں میڈیکل ٹیم ہر لمحہ بھوکے شیر کی طرح تیار بیٹھی ہوئی ہوتی ہیں۔
    ہم خود کے لئے ، ہمارے فیملی اور بچوں کے لئے ہر چھوٹی چیز پر فوری ہاسپٹلز بھاگنے کے اٹی ٹیوڈ نے میڈیکل ٹیم کو بہتر سے بہتر قصاب بننے میں‌بہت مدد دیا ہے۔
    پھر۔۔ہم خود میڈیکل ٹریٹمنٹ کے بنا مطمئن نہیں‌ہوپاتے تب میڈیکل ٹیم کیا کرے۔۔۔!
    اب وہ معاملہ سر درد یا بخار کا ہو۔
    سردی زکام کا ہو۔
    پریگنینسی سے لیکر ولادت ہو۔
    ہر چھوٹی بری بیماری ہو۔۔۔
    سب کچھ قدرتی نظام میں ریسسٹنس اور نیچرل فینامیناز موجود ہیں لیکن ترقیوں نے جہاں ہمیں سہولت بہم پہچائی ہے وہیں ہمیں‌ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچایا ہے۔۔۔
    مزید تفصیلات اور کچھ حقائق وشواہد کے ساتھ۔۔۔پھر سے حاضر ہونگا۔۔۔
    (پہلے واقعہ میں ہرجانہ کی اماونٹ ایک لاکھ نہیں ایک کروڑ انڈین روپیز ہے) سہو کے لئے معذرت)
    فی الوقت تمام شد
    والسلام
     
    Last edited by a moderator: ‏جولائی 7, 2010
  4. معصوم

    معصوم -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏مئی 5, 2010
    پیغامات:
    84
    حالات ہی ایسے ہیں کہ بنا ڈاکٹرس کے کام نہیں چلتا
    اگر شوہر نہ چاہے تو بیوی کہے گی کہ پیسے بچا رہے ہو، میرے ہی لیے ساری بندشیں مجھ پر ہی خرچ کرتے وقت یہ ساری باتیں یاد آتی ہیں؟
    باقی ہمارے ملکوں میں تعلیم اور بالخصوص ڈاکٹری تعلیم اتنی مہنگی کردی گئی ہے کہ بیچارہ جو جیسے تیسے کرکے ڈاکٹر بن گیا ہے ہمیشہ اسی فراق میں رہتا ہے کہ کیسے پیسوں کی ریکوری ہو
    اس پیشے کو نوبل پیشہ کہتے ہیں مگر ڈاکٹرس اب پروفیشنل ہو گئے ہیں اور موجودہ زمانے کا پروفیشنل ورڈ کمینوں کے لیے استعمال ہوتا ہے
    میرے مامو اسپتال میں تھے اس وقت میں نے خود اپنے کانوں سے سناتھا سینئر ڈاکٹر اپنے جونئر سے کہہ رہا تھا
    پیشنٹ کو ڈرا کر رکھا جاتا ہے انہیں بس دواوں سے ریلکس کرنے دو باقی دلاسہ دینا تمہارا کام نہیں
     
  5. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    شکریہ
    آپ میری تحریر کا کنسرن سمجھ چکے ہیں۔
    میں‌خود یہ جانتا ہوں‌کہ ہم ڈیپینڈینٹ ہیں۔۔لیکن اس ڈپینڈینسی کی بھی کوئی حد ہو، ورنہ میرے دی گئی مثالوں‌کو ایک نظر دیکھیں‌تو رونکھٹے نہ کھڑے ہوجائیں۔۔۔جو کہ سب کچھ عین حقائق ہے۔۔۔!
     
  6. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    ایک اور بات بھی ہے- میرے بہت سے دوست ڈاکٹر ہیں اور اکثر کا یہ کہنا ہے کہ انہیں سب سے زیادہ مشکل کام تیمارداروں کو مطمئن کرنا لگتا ہے۔ ایسے ہی فضول میں دماغ کھاتے ہیں۔ خواہ مریض کا مسئلہ چھوٹا سا ہو۔
    شاید اسی وجہ سے ڈاکٹرز کا دل اچاٹ ہو جاتا ہے اور وہ مریض پر بھی پوری توجہ نہیں دیتے۔
    اگرچہ سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتال کا فرق اپنی جگہ نمایاں ہے۔
     
  7. sajidkamboh

    sajidkamboh -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 10, 2008
    پیغامات:
    18
    Pur-khulus بھائی۔ بہت خوب۔ حقیقت یہی ہے
     
  8. ابو عبداللہ صغیر

    ابو عبداللہ صغیر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏مئی 25, 2008
    پیغامات:
    1,979
    ----------------------------------------
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
    آپکی بات بالکل درست ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں کی نسبت سرکاری ہسپتالوں میں اکثر ڈلیوری کیسز نارمل ہوتے ہیں۔ لیکن ہم لوگ سرکاری ہسپتال نزدیک ہوتے ہوئے بھی دور کے پرائیویٹ ہسپتال میں جاتے ہیں کہ اگر سرکاری ہسپتال میں گئے تو لوگ کیا کہیں گے۔
    شکریہ
     
  9. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    السلام علیکم
    آپکی یہ بات ایک حد تک درست ہے کہ کہ گورمنٹ ہاسپٹلس اور اسکولز میں پڑھانا ہم باعث شرم محسوس کرتے ہیں، جبکہ یہ سب جیب گرم ہونے کے بعد سمجھ آنے اور اپنانے والے فتنے ہیں (معذرت کے ساتھ) ورنہ کچھ زمانے پہلے گورنمنٹ ہاسپٹلز اور اسکولز ہی تو ہوا کرتے تھے قابل بھروسہ، اب ٹیکنالوجی نے کیا (جھانسہ) دینے والی ترقی کرلی کہ۔۔اللہ کی پناہ۔۔!
    میں‌نے تبھی تو بس۔۔۔ڈیلیوری کیسس پر بات کی ہے۔۔!
    اس سے ہٹکر یہ سوال تو سبھی سے ہے کہ ہم اپنے اپنے گھروں میں میڈیکل کے نام سے ہر ماہ کتنے پیسے پھونک رہے ہیں۔۔؟ اور کیا یہ سب 25 یا 50 سال پہلے ہوتا تھا۔۔اور کیا اس وقت اتنی سہولتیں نہیں‌رہنے کی وجہ سے جینا محال ہوجاتا تھا۔۔؟
    یہ سوال ہم سب کے لئے نہایت آسان ہے۔
    دوسری بات۔۔۔فیملی پلاننگ کی سب سے بڑی وجہ لو گ سمجھتے ہیں‌جکہ بھوک اور افلاس کے ڈر سے ہم اس قبیح راستے پر چل پڑتے ہیں۔۔لیکن اسکولزا ور ہاسپٹلز کے سوتیلے رویے نے بھی ننھے منے چراغوں کو اس دنیا میں آنے سے روکنے میں‌بڑا کردار ادا کیا ہے۔کہ کیسے ہم۔۔انکی تعلیم اور ہاسپٹلز کے خرچ پورا کرینگے۔
    مزید کئی اہم پہلو زیر بحث آسکتے ہیں۔
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں