اسامہ بن لادن ہلاک ہوگئے، صدر باراک اوبامہ کا اعلان

ابوعکاشہ نے 'حالاتِ حاضرہ' میں ‏مئی 2, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. فاروق

    فاروق --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏مئی 13, 2009
    پیغامات:
    5,127
    سورة الرعد
    لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ (11)
     
  2. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department



    اسامہ بن لادن کی موت کے بعد جس طرح کچھ راۓ دہندگان نے تمام عالمی مسائل کو "کفار بمقابلہ مجاہدين اسلام" کے سانچے ميں ڈھال کر اپنے جذبات کا اظہار کيا ہے اس سے يہ واضح ہے کہ کچھ افراد دہشت گردی کو مذہبی جدوجہد کے تناظر ميں ديکھتے ہيں۔ ليکن حقائق اس سے بالکل مختلف ہيں۔

    پہلی بات تو يہ ہے کہ "شيخ اسامہ بن لادن" کو امريکی رپورٹوں کی وجہ سے دنيا دہشت گرد تسليم نہيں کرتی بلکہ اس کی وجہ سينکڑوں کی تعداد ميں اس کے اپنے آڈيو اور ويڈيو پيغامات ہيں جو القائدہ سے منسلک درجنوں ويب سائٹس پر 24 گھنٹے بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے کا درس ديتے ہيں۔ ان پيغامات ميں متعدد بار نا صرف يہ کہ دہشت گردی کے ان "کارناموں" کا اعتراف کيا گیا ہے بلکہ ديگر مسلمانوں کو بھی اس "کار خير" ميں شامل ہونے کی تلقين کی جاتی ہے۔ مذہب کے نام پر دہشت گردی کو فروغ يہی نام نہاد مسلمان دے رہے ہيں۔

    کسی بھی بے گناہ انسان کی جان کا ضياع اس کے مذہب سے قطع نظرانتہاہی قابل مذمت فعل ہے۔ يہ درس تو خود اسلام سميت دنيا کے تمام مذاہب ميں موجود ہے۔ ليکن اگر آپ اسامہ بن لادن سميت دیگر دہشت گردوں کی ويڈيو انٹرويوز ديکھيں تو يہ واضح ہے کہ تخريب کاری کی کاروائيوں کے ليے مذہب کو استعمال کيا جا رہا ہے۔

    کيا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب خودکش حملہ آور کسی پرہجوم مقام پر بغير کسی تفريق کے بے شمار بے گناہوں کی جان ليتے ہيں تو اس کا کيا مقصد ہوتا ہے؟ اسامہ بن لادن اور اسلام کے دفاع کے يہ دعوے دار ہميشہ يہ کہتے ہيں کہ ان کی جنگ اسلام کے دشمنوں کے خلاف ہے۔ پچھلے چند سالوں ميں پاکستان ميں دہشت گردی کے نتيجے ميں جو بے گناہ ہلاک ہوۓ ہيں تو اس میں کتنے غير مسلم تھے؟

    امريکہ فوج کو بے گناہ افراد کے قتل سے سياسی، انتظامی اور فوجی لحاظ سے کوئ فائدہ حاصل نہيں ہوتا ليکن اس کے برعکس انتہا پسند دہشت گرد تنظيموں ايسے ہی واقعات کے ذريعے جذبات کو بڑھکا کر اسے مذہبی رنگ دے کر اپنے مقاصد حاصل کرتی ہيں۔ دہشت گردی کے تو معنی ہی يہ ہيں کہ خوف کے ذريعے لوگوں پر اپنا تسلط قائم کيا جاۓ۔ جو لوگ اسامہ بن لادن کو اپنی دانست ميں "مسلمان مجاہد" قرار دے رہے ہيں انکے کارناموں کی لسٹ بھی ديکھيں۔ چاہے وہ 11 ستمبر 2001 کا واقعہ ہو، 2002 ميں بالی کا واقعہ ہو، 2005 ميں امان بم دھماکہ يا 2007 ميں تيونس کا بم دھماکہ – اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں نے ہميشہ دانستہ طور پر مسلم اور غير مسلم کی تفريق کے بغير بے گناہوں کا خون بہايا ہے۔ آپ امريکہ کی بے شمار خارجہ پاليسيوں کو تنقيد کا نشانہ بنا سکتے ہيں۔ بلکہ يہ تنقید تو خود امريکہ کے اندر بھی کی جاتی ہے۔ ليکن دانستہ بے گناہ انسانوں کا قتل امريکہ کی خارجہ پاليسی کا حصہ نہيں ہے۔ کيا آپ "شيخ" اسامہ بن لادن اور انکی تنظيم القائدہ کے بارے ميں يہ دعوی کر سکتے ہیں؟

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
     
  3. مشتاق احمد مغل

    مشتاق احمد مغل -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 6, 2007
    پیغامات:
    1,216
    جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء
    شکریہ وردۃ الاسلام
    فواد صاحب تو بے چارے آٹو سیٹ ہیں، ہمیں حیرت ہے کہ ان کے خیالات اس دھاگے میں بڑی دیر میں وارد ہوئے۔شائد بیٹری چارج ہونے میں دیر ہوگئی ہوگی غالباً۔کیونکہ ان دنوں میں انہیں کچھ زیادہ ہی ایکٹیو رہنا پڑا ہوگا۔ جگہ جگہ منہ دکھائی کرانی پڑ رہی ہوگی۔ظاہرہے بیٹری نے تو ڈسچارج ہونا ہی تھا۔
    لگے رہیئے فواد صاحب۔آپ کو آپ کی محنت کا پھل پینٹاگون سے خوب مل رہا ہوگا۔
     
  4. مشتاق احمد مغل

    مشتاق احمد مغل -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 6, 2007
    پیغامات:
    1,216
    قومی اسمبلی میں اسامہ کو شہید قراردے کر فاتحہ خوانی کرادی گئی ​

    اسلام آباد(ثناء نیوز) قومی اسمبلی میں اسامہ بن لادن کو شہید قرار دے کر فاتحہ خوانی کرادی گئی ۔جمعیت علمائے اسلام (نظریاتی) کے سربراہ مولوی عصمت اللہ نے منگل کواسامہ بن لادن کے لیے فاتحہ خوانی کرائی ۔ چند ارکان نے ساتھ دیا ۔ قائم مقام اسپیکر فیصل کریم کنڈی فاضل رکن کا منہ تکتے رہ گئے وہ دعاکی وجہ سے خاموش ہوگئے تاہم انہوں نے فاضل رکن کو دعا کی اجازت نہیں دی تھی۔ مولوی عصمت اللہ نے متاثرہ خاندان کے ساتھ تعزیت کا اظہار بھی کیا۔ گزشتہ روز نجی کارروائی کے دن کے موقع پر جے یو آئی(نظریاتی) کے سربراہ مولوی عصمت اللہ نے نکتہ اعتراض پرکہاکہ امریکا نے کہاہے کہ اسلامی رسومات ادا کرنے کے بعد اسامہ بن لادن کی میت کو سمندر بردکردیا تھا امریکا نے اسامہ بن لادن کی اسلامی حیثیت کو تسلیم کیا ہے ہم متاثرہ خاندان سے تعزیت کا اظہارکرتے ہیں ۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اسامہ بن لادن کے لیے دعا کرنا چاہئے۔
     
  5. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    يہ دليل ميں نے اکثر اردو فورمز پر ديکھی ہے کہ چونکہ 80 کی دہائ ميں امريکہ نے عالمی برادری کے ساتھ مل کر افغان کے عوام کی مدد کی تھی اس ليے اسامہ بن لادن کے عفريت اور دنيا بھر ميں جاری دہشت گردی کے ليے امريکی حکومت اور سی آئ اے کو ہی مورد الزام قرار ديا جانا چاہیے۔

    فورمز پر اکثر راۓ دہندگان انتہائ جذباتی انداز ميں مجھے بے شمار پرانی تصاوير، خبروں اور بيانات کے ريفرنس ديتے ہیں اور پھر اس بات کا چيلنج بھی پيش کرتے ہيں کہ ان "ثبوتوں" کا جواب دوں۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ اس ضمن ميں جو مواد فورمز پر پيش کيا جاتا ہے وہ اکثر تناظر سے ہٹ کر اور مسخ شدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اکثر راۓ دہندگان يہ پرجوش دعوی کرتے ہيں کہ 80 کی دہائ ميں امريکی اور طالبان ايک ہی صف میں کھڑے تھے، باوجود اس کے کہ طالبان کی تحريک قبائلی تنازعات کے باعث اس وقت پروان چڑھی تھی جب روسی افواج افغانستان سے نکل چکی تھيں اور ان کو اقتدار افغانستان ميں 1994 کے بعد اس وقت ملا تھا جب امريکہ کی جانب سے افغانستان کی مالی اور لاجسٹک امداد بند ہوۓ کئ برس گزر چکے تھے۔

    ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی حکومت نے افغانستان ميں طالبان حکومت کو نہ ہی کبھی تسليم کيا اور نہ ہی اس کی حمايت کی۔ اس لیے يہ دليل اور دعوی بالکل بے بنياد ہے کہ امريکہ کو دہشت گردی کی اس لہر کے لیے موردالزام ٹھہرايا جا سکتا ہے جس کا آغاز اور اس ميں وسعت القائدہ اور اس سے منسلک تنظيموں کی جانب سے طالبان حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھی۔

    امريکی حکام کی طرف سے پاکستانی حکام کو طالبان کی جانب سے مسلح دہشت گرد گروپوں کی پشت پناہی کے نتيجے ميں اس خطے ميں بالخصوص اور دنيا بھر ميں بالعموم دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے مسلسل آگاہ کيا گيا۔ قریب 30 سے زائد رپورٹوں ميں جس امر پر سب سے زيادہ زور ديا گيا اس کی بنياد دہشت گردی کے ضمن میں ممکنہ خطرات اور خدشات تھے۔ ہم نے حکام کو تنبہيہ کی تھی کہ وہ آگ سے کھيل رہے ہيں۔

    اگر يہ دعوی مان ليا جاۓ کا طالبان کے وہ ليڈر جنھوں نے اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھيوں کو افغانستان ميں پناہ گاہيں دی، وہ وہی ہيں جنھيں 80 کی دہائ ميں امريکہ اور عالمی برادری کی جانب سے مدد فراہم کی گئ تھی تو پھر تو امريکی حکومت اور امريکی شہريوں کو اس مدد کا تفصيلی حوالہ دے کر ان طالبان ليڈروں سے يہ سوال کرنا چاہيے کہ ان کی جانب سے اس شخص کو محفوظ ٹھکانہ کيوں فراہم کيا گيا جو کئ ہزار امريکی شہريوں کا قاتل تھا باوجود اس کے کہ افغانستان پر جب سويت يلغار کے دوران برا وقت آيا تو امريکہ ہی کی جانب سے مدد فراہم کی گئ تھی؟

    حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ
    "جس پر احسان کرو۔ اس کے شر سے بچو"

    امريکہ اور عالمی برادری کی جانب سے مدد کا کبھی بھی يہ مقصد نہيں تھا کہ دہشت گردی کو پھيلا کر دنيا کے سٹيج پر اس عفريت کو روشناس کروايا جاۓ۔ اس ضمن میں حتمی ذمہ داری اسامہ بن لادن اور ان کے حمايتيوں کی ہے جنھوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے دنيا بھر ميں بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنايا۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
     
  6. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    اس قول کی حقیقت تو علماء‌بیان کر دیں‌گے لیکن اگر یہ سچ ہوا تو
    یہاں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وہ بات یاد آ جاتی ہے

    کلمۃ حق ارید بھا الباطل
     
  7. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954
  8. قاسم

    قاسم -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 29, 2011
    پیغامات:
    875
    اچھی شیرنگ کی ہے
     
  9. وردۃ الاسلام

    وردۃ الاسلام -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 3, 2009
    پیغامات:
    522
    اسامہ اور ہمارا میڈیا

    صورتِ خورشید جیتے ہیں!

    محترمہ عامرہ احسان



    شیخ اسامہ بن لادنؒ .... احیائے اسلام، احیائے خلافت، احیائے جہاد فی سبیل اللہ کا آفتابِ جہاں تاب ہمارے افق سے غروب ہو کر افقِ جاوداں پر طلوع ہوگیا! اقبالؒ کے اشعار کو انسانی پیکر میں ڈھلتا دیکھنا ہو تو عشق ِ بلاخیز کے قافلہ ٔ سخت جاں کا سرخیل دیکھئے۔انگشت بدندان دیکھئے! تما م اشعار اس قَامت پر راست (فِٹ ) آئیں گے اور کم و بیش اس قافلے کے ہر سپاہی پر۔!
    خاکی و نوری نہاد بندۂ مولی صفات
    ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
    اسکی امیدیں قلیل اسکے مقاصد جلیل
    اس کی ادا دلفریب اسکی نگہ دل نواز
    نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو
    رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز
    وہ جس کی زبان سے قرآن و حدیث بہتے شفاف چشموں اور پھوٹتے جھرنوں کا حُسن اور نرمی لئے ہوئے جس کی آواز پر پہرے بٹھائے گئے تھے جاتے ہوئے بلند آہنگ ضربِ کلیمی کا پیغام دے گیا!
    ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے
    خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر
    جابجا اسامہ بن لادنؒ کی ’طلسماتی شخصیت ‘ کے تذکرے رہے۔ ایسی شخصیت جو اپنے گرد اسرار کا ایک ہالہ لیئے ہوئے ہے۔ آخر کیوں نہ ہو۔ وہ وہی تو تھے:
    یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
    جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
    دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
    سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
    ڈالروں‘ ریالوں‘پاؤنڈوں سے چندھیائی عبدالدینار و عبدالدرھم نما انسانوں کی آنکھیں اُس شخص کو دیکھ کر حیرت سے دنگ کیوں نہ ہوں جس کے قدموں تلے دنیا رُلتی رہی اور اُس نے اُسے جوتے کی نوک پر رکھا ہو۔سیدنا عثمان غنیؓ اور سیدنا عبدالرحمان بن عوفؓ کے راستے کے راہی۔ ساری دولت تمام اسباب و وسائل جنت خریدنے میں لگادیے۔
    1979ءمیں جب یکایک افغانستان کے پہاڑوں سے اُحد کے پہاڑوں جیسی جنت کی خوشبو پھوٹنے لگی۔ حضرت انسؓ بن نضر کے وارث نوجوان دیوانہ وار اس خوشبو کی طرف لپکے۔ روسی ٹینکوں،‘ توپوں سے اُگلتے شعلے، راکٹوں میزائیلوں کی گھن گرج اس موسیقی کا ذوق رکھنے والوں کو کھینچ لائے۔
    صدائیں کرب و بلا کی گھاٹی سے گھن گرج کی جو آرہی ہیں
    یہ نغمہ ٔ حور جنتاں ہے یہ ساز تم کو بلا رہا ہے
    محاذ تم کو بلا رہا ہے!
    ہر وہ پاکیزہ نوجوان جس کی قوتِ شاّمہ ‘ باربی کیو‘ نسوانی خوشبوؤں کے پیچھے لپکتے شل نہ ہوئی تھی جس نے اپنے کانوں کو پاپ اور راک موسیقی سے بچا بچا کر رکھا تھا وہ لپکا شوقِ جہاد، شوقِ شہادت کی دیوانگی میں لپکا۔ انہی قدسی نفوس میں سے ایک نوجوان اسامہؒ بن لادن تھے۔ وہ جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا تھا اس سے عظیم تر تجارت کا سوداگر بن کر نکلا۔ ہل ادلکم علی تجارة....(الصف) لوگ دنیا کے دُکھوں عذابوں سے بچنے کے لئے قطرے برابر دنیا میں ٹائی ٹینک (Titanic) بھر مال مہیا کرتے ہیں(پوری امت مسلمہ الا ما شاءاللہ ۔۔۔ اسی دیوانگی میں گرفتار ہے) اور آخرت کے سمندر میں اترنے کےلئے کاغذ کی ناؤ بھی پاس نہیں ہوتی! شیخ اسامہؒ کے قبیلے کے لوگوں نے موت میں زندگی تلاش کی۔ ۲ مئی کو انہوں نے زندگی پا لی جس کے تعاقب کا طویل سفر انہوں نے افغانستان کے پہاڑوں چٹانوں، برف پوش وادیوں، غاروں سے شروع کیا۔ ان کے روئیں روئیں نے اس راہ کی صعوبتیں اپنی جان پر لیں۔ اس کی راہ میں ہجرت گھروں سے نکالا جانا (شہریت سے محرومی) اس راہ کی آبلہ پائی کے دُکھ اور تکلیفیں، اپنوں کی بے وفائیاں، مار ہائے آستین مسلمانوں کا ڈسنا، وہ معالج جو اپنے مریض کے ہتڑ کھاتا جاتا ہے اور علاج سے ہاتھ نہیں اُٹھاتا۔ دورِ اول کو زندہ کرنے میں جو لازوال بے مثال قربانیاں شیخ اسامہؒ نے دیں وہ احیائے جہاد کے باب کے زرّیں اوراق ہیں۔ ہر سنت کا احیاءانہوں نے کیا۔ ان کے خاندان ‘ بیویوں ‘ بچوں نے بھی کیا۔ جہاد ِ افغانستانِ اول تو آسان تھا۔ ساری دنیا ہمنوا تھی۔ روس کافر تھا ۔ مجاہدین تو خالص تھے۔ (پشت پناہی کے لئے میدان میں بعد ازاں اترنے والے اداکاروں نے جہاد کے ثمرات لوٹنے کی کوشش کی۔) جب ثمراتِ جہاد امارت اسلامیہ افغانستان کا روپ دھار گئے تو کافروں منافقوں کی سٹی گم ہونے لگی۔ خلافت اسلامیہ کا احیاء’امن عالم‘ کےلئے بہت بڑے خطرے کی علامت تھا! اصل امتحان کا وقت اب تھا۔ شجرہ طیبہ پر بہار آنے کے امکانات روشن ہوئے تو دنیا لرز اُٹھی۔ جہاد ِ افغانستان دوئم کا منظر عجب تھا۔ وہی افغانستان تھا۔ جنت کی خوشبو تیز تر تھی۔ لیکن سفر ہلکا اور فائدہ سہل الحصول نہ تھا! (عرضاً قریباً وسفراً قاصداً....)ساری دنیا چھٹ گئی۔ جہاں سے طیارے بھر بھر کے مجاہدین کے آتے تھے، جس مسلم دنیا میں ترغیبات ِ جہاد کے خطبے جاری ہوتے تھے، وہاں جہا د بحکمِ امریکہ دہشت گردی قرار پاگیا۔ مجاہدین کے لئے دعا کرنا، قنوت نازلہ پڑھنا مسلم دنیا کی مساجد میں ممنوعات میں سے ہوگیا۔ وہ تاریک، ہیبت ناک رات جب امارت اسلامیہ کے ذبیحے کے لئے امریکی فوجیں افغانستان میں اتریں۔ امت پر چھا جانے والی طویل سیاہ رات میں پہلے سے ریکارڈ شدہ پیغام ِ زندگی، پیغامِ انقلاب، پیغام جہاد کس کا تھا....؟(1)
    پہاڑوں کے سنگلاخ پس منظر میں آہنی عزم رکھنے والے شیخ اسامہؒ اپنے ساتھی کے ساتھ کفر کی مہیب قوتوں کے ساتھ ٹکرا جانے کا حوصلہ دے رہے تھے۔ گزشتہ دس سالوں میں امت پر چھائے سناٹے میں پوری دنیا کفر کو للکارنے والی وہ ایک بے خوف آواز کس کی تھی؟ جب مسلم ممالک کی قیادت دور دور تک ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو لئے ویٹی کن اور چرچ آف انگلینڈ کی مسیحی خلافت کی صلیبی فوجوں کے شانہ بشانہ ’ مسلمانوں ‘ ہی کا شکار کھیل رہی تھی۔ (دہشت گردی ۔ جہاد کا دوسرا نام تھا۔ دہشت گرد ’ مجاہد‘ ہی تھا)۔ ایسے میں ظالم، بدمعاش، عیاش، خونخوار درندوں کے اُس غول کا جوافغانستان اور عراق پر پوری دنیا کا موجود اسلحہ لے کرٹوٹ پڑا تھا، مقابل کون آیا۔؟ ابو مصعب زرقاویؒ کون تھا۔؟ اسامہ بن لادن ؒ کون تھا۔؟پوری دنیا کو مطلوب دہشت گرد۔؟ عراق اور افغانستان میں اتنی بھاری بھرکم عسکری شان و شوکت والی قوتوں کو شکست فاش کس نے دی۔؟ اس ملین ڈالر سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا۔ نہ کوئی میڈیا۔ نہ کوئی سیاست دان ۔ نہ دانشور۔ نہ عالم۔! یہ وہ جہاد ہے جس میں ایک نئی نرالی نسبت قائم ہوئی ہے۔ وہ ایک اور دس کی بھی نہیں ۔ ایک اور ۳۳ (جنگ مؤتہ) کی بھی نہیں ۔ وہ مٹھی بھر طالبان اور مجاہدین صورتِ ابابیل ہاتھیوں کے لشکر کا بھوسہ بنانے والے ہیں ! ملّا عمر کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا مجاہدین کا سرخیل۔ اسامہؒ بن لادن۔!
    حضرت مصعبؓ بن عمیر کی سنت پر عیش و راحت تج کر نکلنے والا، حضرت خبیبؓ کی طرح گھِر کر شہید کیا گیا۔ وہ (خبیبؓ) بلیع الارض تھے۔ صحابہؓ جب ان کا جسد خاکی مشرکین کی دست برد سے نکال لے جانے کو آئے تو زمین حیرت انگیز طور پر انہیں نگل گئی ۔ اسامہؒ ’بلیع البحر‘ ہوگئے۔ آفتاب سمندر میں ہی ڈوبا کرتا ہے۔! انہوں نے قومیت ‘ عربیت‘ جمہوریت پہ لڑتے جان نہیں دی۔ انہوں نے معرکہءبدر الثانی میں حیاتِ جاوداں پائی ہے۔
    میڈیا نے مسلم دنیا کو گمراہ کرنے، شہادت سے گرم ہوتے لہو کو سرد کرنے کو ابھی بہت غلغلے اٹھانے ہیں ۔ جھوٹ کے طومار باندھنے ہیں۔ عین اسی پیرائے میں جس کی منظر کشی قرآن نے کر رکھی ہے۔ ’ ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا۔ ‘ (بنی اسرائیل۔64) لہٰذا بلیسی میڈیا من مانی منتخب تصاویر من گھڑت بیانات، آواز کی گھن گرج، اینکرز کے لاؤ لشکر (یاد کیجئے عراق پر حملے سے قبل اسی ’آواز‘ کے واویلے۔ بعد ازاں مکمل جھوٹ ثابت ہوا) دجل و فریب، منہ میں الفاظ ڈال کر سیاق و سباق کی ہیرا پھیری (لال مسجد، سوات آپریشن کی تیاری میں میڈیا کی یلغار۔ ویڈیو سوات کا جھوٹا پلندہ ) یہ سب ہوگا۔ شروع ہوچکا ۔ ’ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کے درمیان پیسے پر تنازعہ، جھگڑا‘.... سبحان اللہ ! عبادالدینار‘ اور عبادالدراھم کو چہار جانب پیسہ ہی پیسہ اور جھگڑا ہی جھگڑا نظر آتا ہے۔ ہر آئینے میں اپنی ہی صورت دکھتی ہے! لہٰذا اب جھوٹ اور ڈس انفارمیشن کے نئے طومار بندھنے کو ہیں۔ قرآن کھول لیجئے۔ ٹیلی ویژن کے دہانے بند کردیجئے۔ یہ وقت سجدوں کی طوالت اور اللہ کا دامن تھام لینے کا ہے۔ امت اُس دور میں داخل ہوگئی ہے جب فیصلہ کن جنگیں شروع ہونے کو ہیں۔ سبھی کچھ داؤ پر لگے گا۔ صرف اقصیٰ نہیں۔ صرف ایٹمی پاکستان نہیں۔حرمین شریفین بھی۔ اللہ کو طیب و خبیث کو تو الگ کرنا ہی ہے۔ چھلنیاں لگ چکیں۔ شارٹ لسٹنگ ہورہی ہے۔ اپنے مقام کا تعین کرنا ہے۔ ایمان وکفر، کعبہ و کلیسا میں سے یعنی دنیا و آخرت میں سے انتخاب کرنا ہوگا۔ آخرت کوچ کرچکی اور آرہی ہے۔ دنیا کوچ کرچکی اور جارہی ہے۔اپنی قوتیں، صلاحیتیں، اموال اسباب تیار کرلیجئے۔ قطرے کے طلبگار ہیں (دنیا)۔؟ یا سمندر کے۔؟(آخرت!)
    تاہم دنیائے کفر شیخ اسامہؒ کی شہادت پر زیادہ بغلیں نہ بجائے ۔ اُسے یہ یاد ہوگا (کیونکہ گورا مسلمانوں سے زیادہ قرآن اور تاریخ پڑھتا ہے!) کہ نبی ﷺ کے وصال سے بڑا کوئی غم مسلمانوں پر نہیں ٹوٹ سکتا تھا۔ جس دن سینے میں دل ہانڈیوں کی طرح پک رہے تھے ۔ وقتی طور پر شدت ِ غم سے مسلمان ہوش کھو بیٹھے تھے لیکن پھرتمہارے رومی اجداد نے دانتوں تلے انگلی دبا کر یہ دیکھا کہ انہیں دو خبریں اکٹھی ملیں ۔ وصال نبویﷺ اور لشکر اسامہ بن زیدؓ کی شام کی طرف رومیوں سے جنگ کےلئے روانگی! اور رومی مقابلے پر آنے کی ہمت نہ کرسکے۔ لشکر اسامہ ؓ غنیمتوں سے لدا سلامتی سے لوٹا! سیدنا ابوبکرؓ کے انتقال پر اسی طرح سیدنا عمرؓ نے فوری لشکرِ مثنیٰؓ عراق روانہ کر دیا تھا۔ ہمارے قافلے شہادتوں ‘ رحلتوں سے رُکا نہیں کرتے ۔ تیز تر ہو جاتے ہیں۔ شیخ اسامہؒ کے لشکر بھی تھمے نہیں رُکے نہیں۔ افغانستان کا ہر مجاہد کفر کےلئے موت کا پیغام ہے۔ اور اب تو یہ موت عین ان کے درمیان (افغان پائلٹ کی صورت ) یوں پھوٹتی ہے کہ ہوش لینے نہیں ملتے۔ شیخ اسامہؒ نے جہاد فی سبیل اللہ کو جس طرح منظم کردیا وہ رواں دواں ہے۔ وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل....محمد ﷺ صرف رسول ہی ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول ہوچکے ہیں کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا یہ شہید کردیئے جائیں تو تم اسلام سے الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا‘ عن قریب اللہ شکرگزاروں کو نیک بدلہ دے گا بغیراللہ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مرسکتا‘ مقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے۔(آل عمران ۔ 144۔145)
    ہماراقرآنی میڈیا ہمیں لمحہ لمحہ رہنمائی دیتا ہے۔ جس دن کی تمنا میں وہ جئے وہ لمحہ اللہ کے حکم سے آن پہنچا۔ خدائی کے لہجے میں ’ امریکہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے‘ کا دعویٰ کرنے والا اوباما.... 12 سال سرپٹختے رہے وہ اور اس کے حواری؟ سارے سیٹلائیٹ، پوری سی آئی اے، اللہ کے مقرر شدہ وقت سے پہلے ’فعالٌ لما یرید‘ (عیاذًا باللہ) کیوں نہ بن پائی! اب شیخ ؒ جس دنیا میں ہیں وہاں ہمارے تمہارے اینکر پرسنز اور گماشتوں سے پوچھ کر مقام کا تعین نہیں ہوتا۔ وہ استقبال (انشاءاللہ ۔ نحن نحسبہ کذلک واللہ حسیبہ ولانزکی علی اللہ احدا) ہمارے دل کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔ ’ اے نفس مطمئنہ لوٹ چل اپنے رب کی طرف اس طرح کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے خوش۔ بس داخل ہو جا میرے خاص بندوں میں اور جا جنت میں‘
    اللہ نے مومن کے لئے پوری روئے زمین مسجد بنادی ۔ اسے عملاً مسجد بنانا ہمارے ذمے تھا۔ یہی شیخؒ کا مشن تھا!
    الا لہ الخلق والامر.... ان الحکم الا للہ.... ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ۔ حتیٰ لا تکون فتنة۔۔۔۔ حتیٰ یعطوا الجزیة عن یدوھم صاغرون۔۔۔ ان آیات پر دنیا کو قائم کرنے کےلئے جینے والے اور اسی پر جان دینے والے سے بڑھ کر بھی کوئی خوش نصیبی ان گھور اندھیروں میں ممکن ہے۔؟ فالذین ھاجروا و اخرجوا من دیارھم و اوذوا فی سبیلی کا حرف حرف جن پر صادق آتا ہو اُن سے بڑا ہیرو (وھن کی ماری اس امت کو) نصیب ہوا ہے۔؟
    اب ایمان کا کمزور ترین درجہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ شیخ اسامہؒ کے خاندان کا تحفظ ہمارا فریضہ ٔ اولین ہے۔ عرب کی نازو نعم میں پلی شہزادیاں جنہوں نے مصعبؓ بن عمیر کے نقش قدم پر چلنے والے شوہر کا ساتھ دینے کےلئے ۔ حضرت عمرؒبن عبدالعزیز کی شہزادی بیوی حضرت فاطمہؒ کا سا کردار اپنایا۔ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔
    حضرت بریرہ ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔’ مجاہدین کی عورتوں کی حرمت جہاد سے پیچھے رہنے والوں کےلئے ایسی ہے جیسی ان کی ماؤں کی حرمت۔ اور جو شخص جہاد سے پیچھے رہ کر مجاہدین کے اہل و عیال کی خبر گیری کرے اور پھر اس میں خیانت کرے تو وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد اس کے عمل سے جو چاہے گا لے لے گا۔ پس تمہارا کیا خیال ہے؟ (مسلم)
    اسامہؒ بن لادن شہادت کے بعد امریکہ کےلئے اور بھی خطرناک ہوچکے ۔ ایبٹ آباد‘ اسامہ آباد اور بلال ٹاؤن بن لادن ٹاؤن بننے کو ہے۔مقامِ شہادت۔ مقامِ عقیدت بننے چلا ہے۔ مارے خوف کے جسدِ خاکی سمندر میں بہا دیا۔ گھر مسمار کرنے گرا دینے کو ہیں! مگر جو دلوں میں گھر کر جائے ‘ دماغوں میں بس جائے اس کا کیا علاج ہو۔؟ تاہم عقیدتوں کا عملی اظہار مشن سے وابستگی اور خاندان کے تحفظ کے ذریعے کیجئے۔
    ابابیلیں ہیں ہم بس اس قدر ہی فرض ہے ہم پر
    کوئی پتھر کوئی کنکر
    ذرا ان ہاتھیوں کے لشکروں پر پھینک دیں اور پھر
    افق کے پار جا پہنچیں جہاں ساروں کو جانا ہے
    ہمیں لیکن محض زخمِ جگر اپنا دکھانا ہے
    پھر اس کے بعد کی دنیا کا ہر منظر سہانا ہے
     
  10. وردۃ الاسلام

    وردۃ الاسلام -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 3, 2009
    پیغامات:
    522
    بہت خوب فواد صاحب بہت خوب ! آپ نے کیا شاندار انداز میں امیرکیو‌ں کا کیس پیش کیا اس پر تو یقینا دشمنان اسلام آپ کو مبارکباد ہی پیش کرتےہوں گے ۔جناب آپ کو اسامی کے جرائم نظر آتے ہیں‌مگر کیا امریکہ کی دہشت گردی اور اسلام دشمنی دکھائی نہیں دیتی ۔میرا آپ سے یہی کہنا ہے کہ آپ اللہ سے ڈرو ! اپنی قبر کی فکر کرو ۔جہاں‌میں نے بھی جانا ہے اور آپ نے بھی ۔اسامہ کے حق پر ہونے کے لیے کیا اتنا ہی کافی نہیں آج اس کی شہادت پر بش ،اوباما ،ٹونی بلیر اور منافقین خوش ہیں‌۔اور اہل ایمان غمزدہ ہیں‌۔امت مسلمہ جس سے محبت کرتی ہے اور امت کفر جس سے عداوت رکھتی ہے یقینا وہ حق پر ہے ۔اور جو قرآن کے خلاف امت کو امریکہ کی محبت کا سبق پڑھاتے ہیں‌یقینا وہ باطل پر ہیں‌

    فواد یاد رکھو کہ امت مسلمہ کے علما کا اس بات پر اتفاق ہے جو کوئی مسلمانوں‌کے مقابلے پر کفار کا ساتھی بنا اور ان کا تعاون کرے چاہے یہ تعاون زبان دے ہی کیوں نہ کیا جائے وہ کافر و مرتد ہے ۔اآُپ اپنے بارے میں علمائے کرام سے فتویٰ لو ۔ویسے اآُ پ کو اس کی ضرورت نہیں ہے ۔کیوں‌آپ کے مفتی مسلم دنیا میں‌نہیں کہیں‌اور ہی رہتے ہیں‌/۔محمد بن عبدالوہاب کے نواقض اسلام آپ کے لیے لمحہ فکریہ ہیں‌

    والقتال الذي انتهى بموته هو من الصنف الأول فهو يقاتل أعداء الإسلام المحتلين، ولم يقتل في معركة مع المسلمين.
    باجی جی :آنکھیں‌کھول کر پڑھو کیا لکھاہے آپ نے :
    ’’وہ قتال جس پر اسامہ کی موت اآئی ہے وہ پہلی صنف سے ہے جو کہ اللہ کے اعدائ کے ساتھ قتال ہے جنہوں‌نے اسلامی ممالک پر قبضہ کر رکھا ہے ۔اسامہ مسلمانوں کے ساتھ کسی معرکہ میں قتل نہیں‌کیے گئے ۔‘‘
    عربی سیکھ لیں
     
  11. قاسم

    قاسم -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 29, 2011
    پیغامات:
    875
    کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
    مومن ہے تو بے تیغ لڑتا ہے سپاہی ۔۔۔
     
  12. مشتاق احمد مغل

    مشتاق احمد مغل -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 6, 2007
    پیغامات:
    1,216
    جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء
    اچھی تحریر
    شکریہ
     
  13. مشتاق احمد مغل

    مشتاق احمد مغل -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 6, 2007
    پیغامات:
    1,216
    شکریہ وردۃ الاسلام۔بہت اچھی نشاندہی فرمائی
    یہی تو رونا ہے۔
    میڈیا کے پروپیگنڈوں نے اچھے اچھوں‌ کی مت ماردی ہے۔
    اللہ رب العزت سب کو ایمان کی حلاوت نصیب فرمائیں۔حق وسچ سے آشنائی فرمائیں۔اور حق و سچ ببانگ دہل کہنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائیں۔
    آمین ثم آمین
     
  14. مشتاق احمد مغل

    مشتاق احمد مغل -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 6, 2007
    پیغامات:
    1,216
    آؤ غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں!
    خاتون بہت پریشان تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ نارتھ ناظم آباد کراچی کے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر ہیں اور آج کل ان کی ساتھی تمام ٹیچرز اسامہ بن لادن کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔ یہ سن کر مجھے سخت حیرت ہوئی۔ خاتون کہہ رہی تھیں کہ 2مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے بعد سے ہر جماعت کی طالبات ہر ٹیچر سے ایسے سوالات پوچھتی ہیں جن کے ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ لہٰذا ہم ٹیچرز نے باہم مشورے سے فیصلہ کیا کہ آپ سے رابطہ قائم کیا جائے اور طالبات کے سوالات آپ کے سامنے رکھے جائیں اور آپ سے جواب لئے جائیں۔ خاتون نے کہا کہ انہوں نے فون پر رابطے کی کوشش میں اپنا بیلنس تقریباً ختم کر لیا ہے۔ لہٰذا اب مجھے ان کے اسکول کے لینڈ لائن نمبر پر فون کرنا ہے جہاں دیگر ٹیچرز بھی میری گفتگو نوٹ کریں گی۔ میں نے ان سے نمبر لے کر فون کر دیا۔
    پہلا سوال یہ پوچھا گیا کہ اکثر طالبات پوچھتی ہیں اگر اسامہ بن لادن دہشت گرد ہے تو پھر کراچی، راولپنڈی اور کئی دیگر شہروں میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ کیوں ادا کی گئی اور جن لوگوں نے نماز جنازہ ادا کی ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ میں نے جواب دیا کہ 1979ء سے 1989ء تک اسامہ بن لادن ہمارے ہیرو اور محسن تھے کیونکہ وہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے اور ہماری حکومت کے خیال میں یہ مزاحمت پاکستان کے دفاع کی جنگ تھی لیکن جب امریکا نے انہیں دہشت گرد قرار دیدیا تو پھر ہماری حکومت نے بھی انہیں دہشت گرد کہہ دیا۔ خاتون ٹیچر نے جھٹ سے کہا کہ حکومت کو چھوڑیں یہ بتائیں کہ کیا آپ انہیں دہشت گرد سمجھتے ہیں؟ میرا جواب یہ تھا کہ کسی کے دہشت گرد ہونے کا فیصلہ تو صرف کوئی عدالت کر سکتی ہے لیکن انہوں نے میرے سامنے کچھ ایسے حملوں کا اعتراف ضرور کیا تھا جن میں کئی بے گناہ لوگ بھی مارے گئے تھے۔ ابھی میرا جواب مکمل نہ ہوا تھا کہ ایک اور سوال آیا کہ طالبات پوچھتی ہیں اگر اسامہ بن لادن نے بے گناہوں کو مارا تو کیا امریکا بے گناہوں کو نہیں مارتا؟ کیا امریکا بھی ایک دہشت گرد نہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ چند دن پہلے شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں امریکی ڈرون حملے سے قبائلی جرگے کے 40ارکان مارے گئے یہ کھلی دہشت گردی ہے۔ سوال کیاگیا کہ ہماری حکومت اسامہ بن لادن کو تو دہشت گرد کہتی ہے امریکا کو دہشت گرد کیوں نہیں کہتی؟ میں نے جواب دیا کہ ہم امریکا سے امداد لیتے ہیں اس لئے اسے آنکھیں نہیں دکھا سکتے۔ ایک غصے سے بھری آواز ابھری اور کہا گیا کہ یہ امداد ہمیں تو نہیں ملتی یہ امداد تو حکومت کو ملتی ہے پھر ہم حکومت کی پالیسی کو درست کیسے مان لیں؟ ایک اور ٹیچر کہنے لگیں کہ بھائی ہم سب بہت پریشان ہیں۔ طالبات پاکستان کے بارے میں ایسی باتیں کرنے لگی ہیں کہ رونے کو دل چاہتا ہے آپ سوچیں کہ اگر طالبات میں اتنا غصہ ہے تو بوائز اسکولز اور کالجز میں کیا صورتحال ہوگی؟ پہلی دفعہ ہماری نئی نسل کا ریاست سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ کراچی کے ایک اسکول کی ان ٹیچرز سے ٹیلیفون پر گفتگو کے بعد میں بھی خاصا پریشان مغموم رہا کیونکہ ایک طرف عام پاکستانیوں میں امریکا کے خلاف نفرت بڑھی ہے تودوسری طرف ریاستی اداروں کے بارے میں سوالات کئے جا رہے ہیں اور بدقسمتی سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کسی بھی سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ وزیر داخلہ رحمن ملک اور وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے مسلم لیگ ن اور اسامہ بن لادن کے درمیان تعلقات کا الزام لگانا شروع کر دیا۔ رحمن ملک صاحب کو پتہ نہیں کس نے بتا دیا ہے کہ اسامہ بن لادن کو سوڈان سے نواز شریف پاکستان لائے تھے۔ رحمن ملک صاحب کو چاہئے کہ ریکارڈ درست کر لیں۔ اسامہ بن لادن مئی 1996ء میں خرطوم سے پاکستان نہیں بلکہ افغانستان کے شہر جلال آباد آئے تھے۔ اس وقت پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی جو طالبان کی حمایت کر رہی تھی اور اسامہ بن لادن کو انہی طالبان نے پناہ دی تھی۔
    اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی بجائے اور ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے کی بجائے اتحاد پیدا کریں۔ امریکا کو صاف صاف بتائیں کہ القاعدہ اور اسامہ بن لادن تمہاری پالیسیوں کا ردعمل تھا اگر اسامہ نے امریکا کے خلاف کارروائیاں کیں تو جواز تم نے مہیا کیا۔ خود اسامہ بن لادن نے امریکیوں کو کئی مرتبہ مخاطب کرکے کہا کہ تم سے میری نفرت کا آغاز 1982ء میں ہوا جب تمہاری مدد سے اسرائیل کی فوج نے لبنان کے شہر بیروت میں فلسطینی مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا۔ پھر افغانستان میں روسی فوج کی شکست کے بعد امریکا نے افغان مجاہدین پر دباؤ ڈالا کہ وہ کمیونسٹ حکمران ڈاکٹر نجیب اللہ کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں۔ یہ مجاہدین کی توہین تھی۔ اگست 1990ء میں صدام حسین نے کویت پر قبضہ کیا تو امریکا نے سعودی عرب کو ڈرایا کہ صدام آپ پر بھی حملہ کرے گا۔ سعودی حکمران شاہ فہد نے دباؤ میں آ کر امریکی فوج کو مسلمانوں کی مقدس سرزمین پر اڈے بنانے کی اجازت دیدی۔ اسامہ بن لادن نے اپنے ملک میں امریکی اڈوں کی مخالفت کی اور حکومت کو پیشکش کی کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اپنے وطن کا دفاع کرے گا۔ جواب میں شاہ فہد نے انہیں نظر بند کر دیا۔ یہ ایک ایسے شخص کی توہین تھی جس نے دس سال افغانستان میں روسی فوج کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔ آخرکار اسامہ افغان حکومت میں اپنے دوستوں کی مدد سے رہا ہوئے اور سوڈان چلے گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے کچھ علماء کے ساتھ مل کر سعودی عرب میں امریکی افواج کی موجودگی کے خلاف کفر کا فتویٰ دیدیا۔ 1994ء میں ان کی سعودی شہریت منسوخ کر دی گئی اور پھر امریکا نے انہیں سوڈان سے بھی نکلوا دیا۔ 1996ء میں جب وہ افغانستان آ گئے تو سعودی عرب نے امریکا کی اجازت سے طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا اور طالبان پر دباؤ ڈالا کہ وہ اسامہ کو امریکا کے حوالے کریں۔ طالبان کے انکار کے بعد قندھار میں اسامہ بن لادن پر ایک تاجک نوجوان نے حملہ کیا۔ حملہ آور گرفتار ہوگیا۔ اس نے بتایا کہ اسے سی آئی اے نے بھیجا ہے۔ اسامہ نے اس نوجوان کو معاف کر دیا لیکن اس کے بعد انہوں نے امریکا کے خلاف ایک ایسی جنگ کا آغاز کیا جس کی انتہا گیارہ ستمبر 2001ء کے حملے تھے اور اس جنگ میں امریکا کا بہت سا اقتصادی نقصان ضرور ہوا لیکن جانی نقصان مسلمانوں کا زیادہ ہے۔ ہمیں اس جنگ سے اب علیحدہ ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں سوائے خودکش حملوں، ڈرون حملوں اور ذلت و رسوائی کے کچھ نہیں ملا۔ ہمیں چاہئے کہ 2مئی کے واقعات کی اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات کرائیں، ڈرون حملے روک کر ریاستی اداروں پر قوم کا اعتماد بحال کریں اور اگر امریکا ہمیں سزا دینے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اس کا مقابلہ کریں۔ غلام کی زندگی سے ظالم کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہو جانا زیادہ بہتر ہے۔ ہمیں پاک افغان سرحد پر سیکورٹی کو بڑھانا چاہئے کسی کو اجازت نہ دیں کہ وہ قبائلی علاقوں میں اپنی ریاست قائم کرے۔ قبائلی علاقوں پر صرف پاکستانی ریاست کا کنٹرول قائم ہونا چاہئے۔ ہماری جنگ پاکستان کیلئے ہونی چاہئے امریکا کیلئے نہیں۔ امریکا کی اقتصادی و سیاسی غلامی سے آزادی کے بغیر نئی نسل کا پاکستان پر اعتماد بحال نہیں ہوگا۔ پاکستانیوں کو صرف پاکستان کیلئے جینا ہے امریکا کیلئے نہیں۔ پاکستانیوں کو صرف اپنے دشمنوں سے لڑنا ہے امریکا کے دشمنوں سے نہیں لڑنا آؤ امریکی غلامی کی زنجیروں کو اب توڑ ڈالیں۔

    .....قلم کمان …حامد میر
     
  15. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    السلام علیکم محترمہ وردۃ الاسلام صاحبہ!
    سب سے پہلے تو آپ کو اسامہ بن لادن اور القائدہ کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کرنی چاہیے کہ وہ کون تھے اور ان کے اصل مقاصد کیا تھے؟
    اسامہ کی موت سے یقینن آپ کو شدید صدمہ پہنچا ہوگا جس کا ممجھے دل طور پر افسوس ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ حقائق سے منہ موڑ لیں۔
    میں اس بارے میں کوئی روشنی ڈالنا پسند نہیں کروں گا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ جو روپ آپ نے اسامہ کا دیکھا ہے یا جو دکھایا جارہا ہے وہ اصل میں نہیں ہے۔
    اس لیے اسامہ کا معاملہ اللہ تعالی پر چھوڑیں اور اپنی فکر کریں کہ ہر بندہ نے اللہ کے ہاں اپنا جواب دینا ہے۔ ان شاءاللہ

    اسامہ کا اتنا ہی قصور کافی ہے کہ اس نے مملکت اسلامیہ پاکستان کے خلاف جہاد کا فتوای دیا تھا اور ھزاروں معصوم مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کیے تھے۔

    والسلام علیکم
     
  16. فرقان خان

    فرقان خان -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 4, 2010
    پیغامات:
    208
    جی جی بالکل کیوں نہیں !!! پاکستان تو الحمد للہ خلافت راشدہ کے نظام کا منہ بولتا ثبوت ہے... تازہ ترین اسلامی قانون کے نفاذ کا مبارک موفع حضرت العلام ریمنڈ ڈیوس کی باعزت و توقیر ابائی وطن امریکہ شریف روانگی تھی... اقتدار اعلیٰ بھی اللہ کو حاصل ہے ، امریکہ کی نیابت ہے، اسلامی جہاد کے لیے لشکر روزانہ وحشی قبائل کو :راہ راست: پر لانے کے لیے بھیجے جا رہے ہیں تو کہیں ذرائع ابلاغ پر اخلاق حسنہ کے تعلیم دی جا رہی ہے...

    پاکستان زندہ باد

    کافی ہے؟؟؟
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  17. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    فرقان صاحب!
    لگتا ہے آپ جذباتیت کی رو میں بہ گئے ہیں، اسامہ ہلاک کیا ہوا ہے آپ لوگوں کا تو شیعوں کی طرح سوگ ہی ختم نہیں ہورہا ہے۔
    بھائی لگتا ہے آپ پاکستان میں ہی رہ رہے ہیں توپھر فارغ ہوکر کیا کررہے ہیں، آپ بھی اپنے امیر کے ناجائز نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک دھماکہ کرکے ان کی لاش کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے جام شھادت (بے نظیر والی) نوش فرمائيں۔

    اب آپ لوگوں کو قبر سے اسامہ گائیڈ کرے گا۔
    اللہ کے بندے کچھ تو سمجھ بوجھ سے کام لیں۔
    پہلے اسامہ اور القائدہ کے اوپر اسٹڈی کریں پھر آکر بات کیجیے گا۔ ان شاءاللہ
    آپ سے تو اچھا فواد ہے کم از کم جھوٹ پر تو اسٹڈی کرتا ہے۔
    والسلام علیکم
     
    Last edited by a moderator: ‏مئی 14, 2011
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  18. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    اس تھریڈ میں میں نے اپنے اردو مجلس کے ایک بھائی کے کہنے پر لکھنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ کچھ لوگوں نے جہالت کی بناء پر اپنے بھائیوں پر ہی فتوے لگانا شروع کر دیے تھے ، اس لیے فتن میں‌ دور رہنا ہی بہتر ہوتا ہے میرے نبی نے اس لیے دعا سکھائی تھی ۔ اللھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ۔
    برادر عتیق ، آپ صحیح فرماتے ہیں ۔ جانے والے جا چکے ۔ ان کے لیے دعا کرنی چاہے ۔ یہ کئی دنوں سے سوگ منا رہے ہیں‌۔ اس طرح تو شیعہ بھی نہیں‌کرتے ۔ کیا یہ مسلمانوں کے دشمن کو خوش نہیں کر رہے ۔

    میرے عزیزو !؀ اب کچھ اور سوچو ! کہ کرنا کیا ہے ۔ ختم کرو یہ سوگ ووگ ، اللہ اسلام اور مسلمانوں‌کے دشمنوں کو تبارہ و برباد کرے ۔ آمین
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  19. ام ھود

    ام ھود -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 17, 2007
    پیغامات:
    1,198
    والسلام وعلیکم ورحمۃ اللہ
     
  20. فرقان خان

    فرقان خان -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 4, 2010
    پیغامات:
    208
    سوگ کسی نے نہیں منایا نہ ہی ایسی کوئی بات ہے، اور غصی آپ لوگوں کے عقل و فہم پر آتا ہے جس پر بندہ جذباتی ہو جاتا ہے..........

    والسلام
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں