بھینس کی قربانی !

ابن شہاب نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏اکتوبر، 9, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابن شہاب

    ابن شہاب ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 13, 2011
    پیغامات:
    224
  2. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    یہ لنک کهولتے هیں تو اتنا باریک لکها هوا هے کہ پڑها نہیں جارها ایسا کوی طریقہ هے کہ اس کو پڑه سکیں ...
     
  3. اسامہ طفیل

    اسامہ طفیل نوآموز

    شمولیت:
    ‏اگست 5, 2013
    پیغامات:
    198
    جس ویب سائٹ پر اس کو ڈاون لوڈ کرنے کے لئے اپلوڈ کیا ہوا ہے وہ صرف اس کی جھلک Preview دیکھا رہی ہے اور مکمل کتابچہ ڈاون لوڈ کرنے کے لئے اس ویب سائٹ پر آکاونٹ بنانا ضروری ہے اور کتابچہ PDF Format میں ہے
     
  4. ابن شہاب

    ابن شہاب ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 13, 2011
    پیغامات:
    224
    اس کو ڈاونلوڈ کر کے پڑھیں، یہ پی ڈی ایف فائل ہے ۔
     
  5. ابن شہاب

    ابن شہاب ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 13, 2011
    پیغامات:
    224
    بھینس کی قربانی کا حکم

    بھینس کی قربانی جائز ہے یا نہیں، اس بارے میں ایک تحقیق پر مبنی تحریر ملاحظہ فرمائیں :
    قربانی کے جانور

    قرآنِ کریم نے قربانی کے لیے بَھِیمَۃ الْـأَنْعَام کا انتخاب فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ِگرامی ہے :
    [FONT="_PDMS_Saleem_QuranFont"](وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِيْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُومٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْ بَہِیْمَۃِ الْـاَنْعَامِ فَکُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوْا الْبَائِسَ الْفَقِیْرَ) (الحج 22:28)
    [/FONT]''اور وہ معلوم ایام میں بَھِیمَۃ الْـأَنْعَام پر اللہ کا نام ذکر (کر کے انہیں ذبح) کریں، پھر ان کا گوشت خود بھی کھائیں اور تنگ دستوں اور محتاجوں کو بھی کھلائیں۔''
    خود قرآنِ کریم نے الْـأَنْعَام کی توضیح کرتے ہوئے ضَاْن(بھیڑ)، مَعْز(بکری)، اِبِل(اونٹ) اور بَقَر(گائے)،چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا۔اور ان کے مذکر و مؤنث کو ملا کر انہیں ثَمَانِیَۃ أَزْوَاج (جوڑوں کے لحاظ سے آٹھ )کہا۔(الأنعام 6:144-142)
    جانوروں کی نسل کا اعتبار ہو گا،علاقائی ناموں کا نہیں

    انہی چار جانوروں کی قربانی پوری امت ِمسلمہ کے نزدیک اجماعی و اتفاقی طور پر مشروع ہے۔ان جانوروں کی خواہ کوئی بھی نسل ہو اور اسے لوگ خواہ کوئی بھی نام دیتے ہوں، اس کی قربانی جائز ہے۔مثلاً بھیڑ کی نسل میں سے دنبہ ہے۔اس کی شکل اور نام اگرچہ بھیڑسے کچھ مختلف بھی ہے،لیکن چونکہ وہ بھیڑ کی نسل اور قسم میں شامل ہے،لہٰذا اس کی قربانی مشروع ہے۔اسی طرح مختلف ملکوں اور علاقوں میں بھیڑ کی اور بھی بہت سی قسمیں اور نسلیں ہیںجو دوسرے علاقوں والوں کے لیے اجنبی ہیں اور وہ انہیں مختلف نام بھی دیتے ہیں۔اس کے باوجود ان سب کی قربانی بھیڑ کی نسل و قسم ہونے کی بنا پر جائز اور مشروع ہے۔اسی طرح اونٹوں وغیرہ کا معاملہ ہے۔
    قربانی کے جانوروں میں سے ایک ''بقر''(گائے)بھی ہے۔اس کی قربانی کے لیے کوئی نسل قرآن و سنت نے خاص نہیں فرمائی۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰu کی زبانی ان کی قوم کو ''بقر'' ذبح کرنے کا حکم دیا،لیکن قومِ موسیٰ نے اس کی ہیئت و کیفیت کے بارے میں سوال پر سوال شروع کر دیے جس کی بنا پر انہیں سختی کا سامنا کرنا پڑا۔سورہئ بقرہ کی کئی آیات اس کی تفصیل بیان کرتی ہیں۔
    انہی آیات کی تفسیر میں امام المفسرین،علامہ ابوجعفر، محمد بن جریر بن یزید بن غالب، طبریa(310-224ھ)صحابہ و تابعین اور اہل علم کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں
    : [/SIZE][/FONT][FONT="Al_Mushaf"]إِنَّھُمْ کَانُوا فِي مَسْأَلَتِھِمْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مُوسٰی ، ذٰلِکَ مُخْطِئِینَ، وَأَنَّھُمْ لَو کَانُوا اسْتَعْرَضُوا أَدْنٰی بَقَرَۃٍ مِّنَ الْبَقَرِ، إِذْ أُمِرُوا بِذَبْحِھَا، ۔۔۔۔۔، فَذَبَحُوھَا، کَانُوا لِلْوَاجِبِ عَلَیْھِمْ، مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ فِي ذٰلِکَ، مُؤَدِّینَ، وَلِلْحَقِّ مُطِیعِینَ، إِذْ لَمْ یَکُنِ الْقَوْمُ حُصِرُوا عَلٰی نَوْعٍ مِّنَ الْبَقَرِ دُونَ نَوْعٍ، وَسِنٍّ دُونَ سِنٍّ، ۔۔۔۔۔، وَأَنَّ اللَّازِمَ کَانَ لَھُمْ، فِي الْحَالَۃِ الْـأُولٰی، اسْتِعْمَالُ ظَاھِرِ الْـأَمْرِ، وَذَبْحُ أَيِّ بَھِیمَۃٍ شَاءُ وا، مِمَّا وَقَعَ عَلَیْھَا اسْمُ بَقَرَۃٍ .[/FONT]
    ''قومِ موسیٰ،گائے کے بارے میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے سوالات کرنے میں غلطی پر تھی۔جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیاتھا،اس وقت وہ گائے کی کوئی ادنیٰ قسم بھی ذبح کر دیتے تو حکم الٰہی کی تعمیل ہو جاتی اور ان کا فرض ادا ہو جاتا،کیونکہ ان کے لیے گائے کی کسی خاص قسم یا کسی خاص عمرکا تعین نہیں کیا گیا تھا۔۔۔ ان کے لیے ضروری تھا کہ پہلی ہی دفعہ ظاہری حکم پر عمل کرتے ہوئے کوئی بھی ایسا جانور ذبح کر دیتے ،جس پر 'بقر' کا لفظ بولا جاتا تھا۔''(جامع البیان عن تأویل آي القرآن [تفسیر الطبري] : 100/2)
    معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ گائے ذبح کرنے کا حکم فرمائے تو گائے کی کوئی بھی قسم یا نسل ذبح کرنے سے حکم الٰہی پر عمل ہو جاتا ہے اور یہ بات لغت ِعرب میں اور اہل علم کے ہاں طَے ہے کہ جس طرح بختی،اِبِل(اونٹ)کی ایک نسل ہے، اسی طرح بھینس، بقر (گائے)کی ایک نسل و قسم ہے ۔
    اس سلسلے میں ہم ہر دور کے چیدہ چیدہ علمائے لغت ِعرب کے اقوال پیش کرتے ہیں:
    1 لیث بن ابوسلیم تابعی(اختلط في آخر عمرہٖ)(م : 138/148ھ)کا قول ہے :

    [FONT="Al_Mushaf"]اَلْجَامُوسُ وَالْبُخْتِيُّ مِنَ الْـأَزْوَاجِ الثَّمَانِیَۃِ .[/FONT]
    ''بھینس(گائے کی ایک قسم) اور بختی(اونٹ کی ایک قسم)ان آٹھ جوڑوںمیں سے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے۔''(تفسیر ابن أبي حاتم : 1403/5، وسندہ، حسنٌ)
    2 لغت و ادب ِعربی کے امام،ابومنصور،محمدبن احمد،ازہری،ہروی(370-282ھ) فرماتے ہیں :

    [FONT="Al_Mushaf"]وَأَجْنَاسُ الْبَقَرِ، مِنْھَا الْجَوَامِیسُ، وَاحِدُھَا جَامُوسٌ، وَھِيَ مِنْ أَنْبَلِھَا، وَأَکْرَمِھَا، وَأَکْثَرِھَا أَلْبَانًا، وَأَعْظَمِھَا أَجْسَامًا . [/FONT]
    ''گائے کی نسلوں میں سے جوامیس(بھینسیں)ہیں۔اس کی واحد جاموس ہے۔یہ گائے کی بہترین اورعمدہ ترین قسم ہے۔یہ گائے کی سب اقسام میں سے زیادہ دودھ دینے والی اور جسمانی اعتبار سے بڑی ہوتی ہے۔''(الزاھر في غریب ألفاظ الشافعي، ص : 101)
    3 امامِ لغت ،علامہ، ابوالحسن،علی بن اسماعیل،المعروف بہ ابن سیدہٖ(458-398ھ) لکھتے ہیں :

    [FONT="Al_Mushaf"]وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ . [/FONT]
    ''بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔''(المحکم والمحیط الأعظم : 283/7)
    4 عربی زبان کے ادیب اور لغوی ،ابوالفتح،ناصربن عبد السید،معتزلی،مطرزی (610-538ھ)لکھتے ہیں :

    [FONT="Al_Mushaf"]وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ . [/FONT]
    ''بھینس،گائے ہی کی نسل سے ہے۔''(المغرب في ترتیب المعرب، ص : 89)
    5 مشہور فقیہ ومحدث ،علامہ عبد اللہ بن احمدبن محمد،المعروف بہ ابن قدامہ، مقدسی a(620-541ھ)فرماتے ہیں :

    [FONT="Al_Mushaf"] وَالْجَوَامِیسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَالْبَخَاتِي نَوْعٌ مِّنَ الْإِبِلِ .[/FONT]
    ''بھینسیں،گائے کی نوع(نسل)سے ہیںاور بختی،اونٹوں کی نوع(نسل)سے۔''(الکافي في فقہ الإمام أحمد : 390/1)
    6 شیخ الاسلام ابن تیمیہaکے جد امجد،محدث و مفسر،ابوالبرکات،عبد السلام بن عبد اللہ،حرانیa(652-590ھ)فرماتے ہیں:

    [FONT="Al_Mushaf"]وَالْجَوَامِسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .[/FONT]
    ''بھینسیں،گائے کی ایک نوع (نسل) ہیں۔''
    (المحرّر في الفقہ علٰی مذہب الإمام احمد بن حنبل : 215/1)
    7 شارحِ صحیح مسلم،معروف لغوی،حافظ ابوزکریا،یحییٰ بن شرف،نوویa (676-631ھ)،ابواسحاق شیرازی(474-393ھ)کی کتاب التنبیہ في الفقہ الشافعي کی تشریح و تعلیق میں فرماتے ہیں :
    [FONT="Al_Mushaf"]وَیُنْکَرُ عَلَی الْمُصَنِّفِ کَوْنُہ، قَالَ : وَالْجَوَامِسُ وَالْبَقَرُ، فَجَعَلَہُمَا نَوْعَیْنِ لِلبَقَرِ، وَکَیْفَ یَکُونُ الْبَقَرُ أَحَدَ نَوْعَيِ الْبَقَرِ ۔۔۔۔۔، قَالَ الْـأَزْھَرِيُّ : أَنْوَاعُ الْبَقَر، مِنْھَا الجَوَامِیسُ، وَھِيَ أَنْبَلُ الْبَقَرِ . [/FONT]
    ''مصنف کا [وَالْجَوَامِیسُ وَالْبَقَرُ] کہنا قابل اعتراض ہے، انہوں نے گائے اور بھینس کو گائے کی نسلیں قرار دیا ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ گائے ہی گائے کی دو نسلوں(بھینس اور گائے میں سے)ایک نسل ہو؟۔۔۔ازہری کہتے ہیں کہ بھینس،گائے کی ایک نوع ہے اور یہ گائے کی تمام نسلوں سے عمدہ ترین نسل ہے۔ ''
    (تحریر ألفاظ التنبیہ، : 106)
    8 لغت ِعرب میں امام وحجت کا درجہ رکھنے والے علامہ،ابوالفضل،محمدبن مکرم، انصاری،المعروف بہ ابن منظور افریقی(711-630ھ)فرماتے ہیں :

    [FONT="Al_Mushaf"]وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .[/FONT]
    ''بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔''
    (لسان العرب : 43/6)
    9 معروف لغوی،علامہ ابوالعباس،احمدبن محمدبن علی،حموی(م:770ھ) لکھتے ہیں :
    [FONT="Al_Mushaf"]وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .[/FONT]
    ''بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔''
    (المصباح المنیر في غریب الشرح الکبیر : 108/1)
    0 لغت ِعرب کی معروف و مشہور کتاب ''تاج العروس'' میں مرقوم ہے :

    [FONT="Al_Mushaf"]اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ . [/FONT]
    ''بھینس ،گائے کی نسل سے ہے۔''
    (تاج العروس من جواھر القاموس لأبي الفیض الزبیدي : 513/15)
    ! لغت ِعرب کی معروف کتاب ''المعجم الوسیط'' میں ہے :

    [FONT="Al_Mushaf"]اَلْجَامُوسُ حَیَوَانٌ أَھْلِيٌّ، مِنْ جِنْسِ الْبَقَرِ . [/FONT]
    ''بھینس،گائے کی نسل سے ایک گھریلوجانور ہے۔''(المعجم الوسیط : 134/1)
    نیز اسی کتاب میں لکھا ہے :

    [FONT="Al_Mushaf"]اَلْبَقَرُ : جِنْسٌ مِّنْ فَصِیلَۃِ الْبَقَرِیَّاتِ، یَشْمَلُ الثَّوْرَ وَالْجَامُوسَ .[/FONT]
    ''بَقَر،گائے کے خاندان سے ایک جنس ہے جو کہ بَیل(گائے) اور بھینس پر مشتمل ہے۔''(المعجم الوسیط : 65/1)
    اس سے معلوم ہوا کہ چودھویں صدی کے بعض انتہائی قابل احترام اہل علم کا یہ کہنا کہ 'بھینس کاگائے کی نسل سے ہونا اہل علم سے واضح طور پر ثابت نہیں،بلکہ بھینس بعض احکام میں گائے کی طرح تھی اور اس کے لیے لفظکَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ(گائے جیسی)مستعمل تھا۔اور کسی لغوی کو غلطی لگنے کی وجہ سے اس نے کَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ(گائے جیسی)کے بجائے نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَر(گائے کی نسل) لکھ دیا۔۔۔'قطعاًدرست نہیں،کیونکہ غلطی کسی ایک اہل علم یا لغوی کو لگنی تھی یا سارے اہل علم اور لغویوں کو؟بہت سے معروف لغویوں اور اہل علم نے اپنی مشہور زمانہ کتب میں بھینس کے گائے کی نسل ہونے کی تصریح کی اور ہمارے علم کے مطابق تیرہویں صدی ہجری تک کسی ایک بھی لغوی نے اس کی تردید یا انکار نہیں کیا۔اگر یہ بات غلط ہوتی تو ماہرین لغت ِعرب ضرور اس کی وضاحت کرتے۔
    کیا اہل لغت کا کوئی اعتبار ہے؟​
    بعض لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ کیا شریعت میں لغت ِعرب دلیل بن سکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآنِ کریم اور سنت ِرسول کا سارا ذخیرہ عربی زبان میں ہے۔قرآن و سنت پر عمل تب ہی ہو گا،جب اس کا معنیٰ و مفہوم سمجھا جائے گا اور قرآن و سنت کا معنیٰ و مفہوم تب ہی سمجھا جا سکتا ہے،جب لغت ِعرب کو سمجھا جائے گا۔کوئی شخص اگر قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کا ترجمہ کرتا ہے تو وہ لغت ِعرب کو پڑھ اور سمجھ کر ہی اپنی کاوش میں کامیاب ہو سکتا ہے اور اس کے ترجمے کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لیے لغت ِعرب ہی راہنمائی کرے گی۔جو لوگ لغت ِعرب کا اعتبار نہیں کرتے،ان سے سوال ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ ''بقر'' کا معنیٰ ''گائے''کیوں ہے؟
    بھینس کا نام ہی گائے ہے
    بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ گائے اور بھینس کے نام ہی میں فرق ہے۔اگر بھینس ،گائے کی نسل سے ہوتی تو اس کا نام گائے ہوتا،نہ کہ کچھ اور۔جب عرف میں اسے کوئی گائے کہتا اور سمجھتا ہی نہیں تو یہ گائے ہے ہی نہیں۔ان کے لیے عرض ہے کہ بھینس کے لیے عربی میں لفظ ِ''جاموس''استعمال ہوتا ہے جو کہ فارسی سے منتقل ہو کر عربی میں گیاہے۔فارسی میں یہ نام ''گاؤمیش''تھا۔عربی زبان کی اپنی خاص ہیئت کی بنا پر اس کا تلفظ تھوڑا سا بدل گیا اور یہ ''جاموس'' ہو گیا۔اس بات کی صراحت لغت ِعرب کی قریباً تمام امہات الکتب میں لفظ ''جاموس'' کے تحت موجود ہے۔اس فارسی نام میں واضح طور پر لفظ ''گاؤ''(گائے) موجود ہے۔اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھینس اصل میں گائے ہی کی ایک نسل ہے۔چونکہ گائے کی یہ نسل(بھینس)عربی علاقوں میں موجود نہیں تھی،بلکہ عجمی علاقوں میں ہوتی تھی،عربوں کے ہاں معروف نہ تھی،اسی لیے اس کا نام فارسی سے عربی میں لانا پڑا۔
    اس کی وضاحت کے لیے ہم معروف عرب عالم ومفتی،شیخ محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ (1421-1347ھ) کا قول نقل کرتے ہیں۔ان سے بھینس کی قربانی کے بارے میں سوال ہوا اور پوچھا گیا کہ جب بھیڑ اور بکری دونوں کا ذکر قرآنِ کریم نے کیا ہے (حالانکہ یہ ایک ہی نسل [غنم] سے ہیں)تو بھینس اور گائے دونوں کا ذکر کیوں نہیں کیا(اگر یہ بھی ایک ہی نسل ہیں)؟تو انہوں نے فرمایا :

    [FONT="Al_Mushaf"] اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَاللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذَکَرَ، فِي الْقُرْآنِ، الْمَعْرُوفَ عِنْدَ الْعَرَبِ الَّذِینَ یُحَرِّمُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَیُبِیحُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَالْجَامُوسُ لَیْسَ مَعْرُوفًا عِنْدَ الْعَرَبِ . [/FONT]
    ''بھینس،گائے ہی کی نسل ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں صرف ان جانوروں کا ذکر کیا ہے،جو عربوں کے ہاں معروف تھے۔(دور جاہلیت میں)عرب اپنے پسندیدہ جانوروں کو حلال اور اپنے ناپسندیدہ جانوروں کو حرام قرار دےتے تھے۔بھینس تو عربوں کے ہاں معروف ہی نہ تھی(اور مقصد حلت و حرمت بتانا تھا،نہ کہ نسلیں)۔''
    (مجموع فتاوی ورسائل فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین : 34/25)

    تنبیہ :

    بعض لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں کہ چونکہ نبی اکرمeاور صحابہ کرام نے بھینس کی قربانی نہیں کی،لہٰذا اس کی قربانی سے احتراز بہتر ہے اور یہ احوط واولیٰ ہے۔ہمارا ان اہل علم سے مؤدبانہ سوال ہے کہ ان کی یہ احتیاط صرف گائے کی ایک نسل ''بھینس''ہی کے بارے میں کیوں ہے؟ان کو چاہیے کہ گائے کی جو جو نسلیں نبی اکرمeاور صحابہ کرام نے قربانی میں ذبح کیں،صرف انہی کی اجازت دیں۔کیا بھینس کے علاوہ موجودہ دور میں پائے جانے والی گائے کی تمام نسلیں نبی اکرمeاور صحابہ کرام نے قربانی میں ذبح کی تھیں؟ اس طرح تو دیسی،ولائتی،فارسی،افریقی،تمام قسم کی گائے کی قربانی سے احتراز کرنا ہو گا اور اسی طرح بھیڑ و بکری اور اونٹ کا بھی معاملہ ہو گا۔پھر ہر شخص قربانی کے لیے عربی گائے،عربی اونٹ،عربی بھیڑ اور عربی بکرا کہاں سے لائے گا؟اگر کوئی عربی نسل سے کوئی جانور تلاش بھی کر لے تو اسے تحقیق کرنا پڑے گی کہ یہ بعینہٖ اسی نسل سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے قربانی کی تھی یا بعد میں پیدا ہونے والی کوئی نسل ہے!!!
    پھر یہ احتیاط والی بات اس لیے بھی عجیب سی ہے کہ اگر بھینس،گائے نہیں تو اس کی قربانی سرے سے جائز ہی نہیںاور اگر یہ گائے ہے تو اس کی قربانی بالکل جائز ہے۔اس میں کوئی درمیانی راستہ تو ہے ہی نہیں۔

    الحاصل :

    بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔اس کی قربانی بالکل جائز ہے۔اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں۔
    [FONT="4 UTHMAN TAHA NASKH 2.01 (www.m"]واللّٰہ أعلم بالصواب وعلمہ أبرم وأحکم ![/FONT]

    [/COLOR]
     
  6. ابن شہاب

    ابن شہاب ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 13, 2011
    پیغامات:
    224
    اپنی بساط کے مطابق میں نے کوشش کی ہے، لیکن مارمیٹ میں ابھی خامیاں ہیں، کوئی بھائی اس کو درست کر دے۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء
     
  7. اسامہ طفیل

    اسامہ طفیل نوآموز

    شمولیت:
    ‏اگست 5, 2013
    پیغامات:
    198
    بھینس کی قربانی کا حکم،حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا فتوی

    بھینس کی قربانی کا حکم
    حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا فتوی

    اونٹ،گائے،بھیڑ اور بکری کی قربانی کتاب و سنت سے ثابت ہے اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ
    بھینس گائے کی ایک قسم ہے،اس پر ائمہ اسلام کا اجماع ہے
    امام ابن المنذر فرماتے ہیں:’’ واجمعوا علی ان حکم الجوامیس حکم البقر‘‘ اور اس بات پر اجماع ہےکہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا ہے۔(الاجماع کتاب الزکاۃ ص۴۳حوالہ:۹۱)
    ابنِ قدامہ لکھتے ہیں:’’ لا خلاف فی ھذا نعلمہ‘‘ اس مسئلے میں ہمارے علم کے مطابق کوئی اختلاف نہیں۔(المغنی ج۲ص۲۴۰مسئلہ:۱۷۱۱)
    زکوۃ کے سلسلے میں،اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی جنس میں سے ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے۔ تا ہم چونکہ نبی کریمﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے صراحتا بھینس کی قربانی کا کوئی ثبوت نہیں لہذٰا بہتر یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ صرف گائے،اونٹ،بھیڑ اور بکری کی ہی قربانی کی جائے اور اسی میں احتیاط ہے۔واللہ اعلم
    ( فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام جلد دوم ص181)

    بھینس کی قربانی کا حکم،حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا فتوی | محدث فورم [Mohaddis Forum]
     
  8. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    اس ساری بحث میں بھینس کی قربانی پر کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے ۔
    صرف لفظ بقر کو جاموس یعنی بھینس پر صادق کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اور اسکے لیے بھی اہل عرب کے اقوال پیش کیے گئے ہیں ۔ جبکہ اہل عرب کا قول اس میدان میں حجت نہیں ہے ۔ کیونکہ عرب میں گائے ہی پائی جاتی تھی بھینس موجود نہ تھی ۔ بھینس بعد میں وہاں پہنچی تو انہوں نے اسے گائے کی ہی جنس سمجھ لیا ۔
    جبکہ برصغیر پاک وہند میں گائے اور بھینس دونوں جانور مدتوں سے موجود ہیں اور یہ لوگ عرب کی نسبت ان دونوں جانوروں کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ۔ اور ماہرین دونوں کو الگ الگ جانور قرار دیتے ہیں نہ کہ ایک ہی جانور کی دو نسلیں ۔
    دونوں جانوروں میں بہت سے بنیادی فرق ہیں ۔
    اہل عرب کو بھینس کا تعارف کرایا گیا اور بآسانی انہیں سمجھانے کے لیے لفظ " گائے کی قسم " استعمال کیا گیا ۔
    جیسا کہ لومڑی ‘ کتا اور گیدڑ تینوں الگ الگ جانور ہیں ۔ لیکن ظاہری طور پر کافی حدتک ملتے جلتے ہیں , اور عام آدمی گیدڑ اور کتے کے درمیان فرق نہیں کر پاتا ۔
    اور جس شخص کو گیدڑ کے بارہ میں معلوم نہ ہو کہ وہ کیا ہوتا ہے اسے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ بھی ایک قسم کا کتا ہی ہے ۔ بس یہ یہ فرق ہے ۔
    یہی حال گائے اور بھینس کا ہے ۔
    خوب سمجھ لیں ۔
     
  9. اسامہ طفیل

    اسامہ طفیل نوآموز

    شمولیت:
    ‏اگست 5, 2013
    پیغامات:
    198
    پر ﺣﺎﻓﻆ ﺯﺑﯿﺮ ﻋﻠﯽ ﺯﺋﯽ ﺣﻔﻈﮧ تو عرب نہیں انہوں نے بھینس کو گائے کی نسل قرار دیا اور تاج العروس کا مصنف بھی غیر عرب ہے ...
     
  10. ابن شہاب

    ابن شہاب ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 13, 2011
    پیغامات:
    224
    کیا گائے کی قربانی شریعت سے ثابت نہیں؟ اگر ہے اور یقینا ہے تو بھینس کے گائے کی نسل ثابت ہو جانے سے کیا اس کی قربانی شریعت سے ثابت نہیں ہو جاتی؟ یہ تو ایسے ہی ہے کہ کوئی کہہ دے کہ دنبے کی قربانی پر کوئی شرعی دلیل نہیں،کیونکہ شریعت میں تو صرف بھیڑ کی قربانی کا ذکر ہے،اس کی بھیڑ سے مشابہت ایسے ہی ہے ، جیسے لومڑی ‘ کتا اور گیدڑ تینوں الگ الگ جانور ہیں ۔ لیکن ظاہری طور پر کافی حدتک ملتے جلتے ہیں , اور عام آدمی گیدڑ اور کتے کے درمیان فرق نہیں کر پاتا ۔اور جس شخص کو گیدڑ کے بارہ میں معلوم نہ ہو کہ وہ کیا ہوتا ہے اسے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ بھی ایک قسم کا کتا ہی ہے ۔ بس یہ یہ فرق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یہ عبارت یا تو عدم توجہ کا نتیجہ ہے یا زبردست مغالطہ آفرینی کا شاہکار ہے،کیونکہ ہم نے اہل عرب کے نہیں بلکہ ماہرین لغت عرب کے اقوال پیش کیے ہیں۔ اہل عرب ہونا اور بات ہے اور ماہرین لغت عرب ہونا اور بات۔ ماہرین لغت عرب میں عربی اور عجمی دونوں‌ طرح کے لوگ شامل ہیں۔
    اور مزے کی بات یہ ہے کہ سب سے پہلے جس اہل لغت کا حوالہ دیا گیا، وہ لغت و ادب ِعربی کے امام،ابومنصور،محمدبن احمد،ازہری،ہروی(370-282ھ) ہیں جو کہ خراسان میں پیدا ہوئے اور یہیں فوت ہوئے، چنانچہ وہ فارسی ”عجمی'' ہیں، عربی نہیں۔
    اس کے بعد امامِ لغت ،علامہ، ابوالحسن،علی بن اسماعیل،المعروف بہ ابن سیدہٖ(458-398ھ) کا حوالہ دیا گیا ، وہ بھی اندلسی تھے جو کہ یورپ کا علاقہ ہے۔ یوں‌ ابن سیدہ بھی عربی نہیں تھے، بلکہ غیر عربی تھے، لیکن لغت عرب کے ماہر تھے۔
    اسی طرح ابواسحاق شیرازی(474-393ھ) بھی اہل عرب نہیں تھے، بلکہ ایرانی تھے۔ علامہ نووی ، ابن منظور افریقی بھی اہل عرب نہیں تھے۔ ان سب کی تصریحات کے باوجود یہ کہنا کہ یہ اہل عرب کا قول ہے اور اہل عرب اس بارے میں مغالطہ کا شکار ہو گئے تھے، از خود ایک بہت بڑا علمی مغالطہ ہے۔
    پھر تعجب تو یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے کے کچھ لوگوں کو یہ بات سمجھ آئی کہ اہل لغت کو اس سلسلے میں غلطی لگی ہے، ہمارے علم کے مطابق تیرہویں‌ صدی تک کسی عربی یا عمجی لغوی نے یہ بات نہیں بتائی کہ اس سلسلے میں‌ اہل عرب کو مغالطہ ہوا ہے؟ اس کی وجہ آخر کیا ہے؟؟؟
    کیا افریقی، فارسی اور ایرانی و خراسانی اہل لغت کے ہاں بھی بھینس نہیں پائی جاتی تھی اور وہ بھی مغالطے میں پڑ گئے تھے؟؟؟
    کیا ان ماہرین میں سے چند ایک کے نام علمی افادے کے لیے بتائے جا سکتے ہیں، جنہوں نے بھینس اور گائے کے ایک ہی جانور کی دو نسلوں کی نفی کرتے ہوئے ان کو الگ الگ جانور قرار دیا ہے؟؟؟
     
  11. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    یہی بات تو میں نے کہی ہے کہ اہل عرب کو بتانے والے عجم ہی ہیں ‘ لیکن کیا عجم اہل لغت یا ماہرین لغت جنہوں نے ان دو جانوروں کو ایک ہی جانور قرار دیا ہے وہ ماہرین حیوانات بھی تھے ؟
    کیونکہ لغوی تو محض لغت بتاتا ہے ۔
    جبکہ حیوانات کی بات اسکی معتبر ہوگی جو اس علم کا ماہر ہوگا ۔
    کسی ماہر حیوانا ت نے ان دو جانوروں کو ایک ہی جانور کی دو نسلیں آج تک قرار نہیں دیا ۔
    حتى کہ وہ لوگ جو ان جانوروں کے دودھ ‘ گھی ‘ گوشت وغیرہ سے واقف ہیں وہ بھی ان دونوں کو ایک نہیں قرار دیتے ۔
     
  12. ابن شہاب

    ابن شہاب ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 13, 2011
    پیغامات:
    224
    یعنی کوئی لغوی ماہر حیوانات نہیں‌ ہو سکتا؟؟؟
    پھر یہ بات بھی مسلم کہ کسی بھی فن کا ذمہ دار مصنف جب ضمنا کسی دوسرے فن کی بات ذکر کرتا ہے تو اسی فن کے معتبر مآخذ سے استفادہ کر کے ذکر کرتا ہے، مثلا آپ بھی ماہر حیوانات نہیں ہیں، لیکن ضرورت پڑنے پر آپ نے ''نامعلوم'' ماہرین حیوانات سے یہ نقل کر دیا کہ وہ بھینس کو گائے کی نسل نہیں سمجھتے،بلکہ الگ الگ دو جانور بتاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اسی سلسلے میں نے پوچھا تھا کہ :
    کیا ان ماہرین میں سے چند ایک کے نام علمی افادے کے لیے بتائے جا سکتے ہیں، جنہوں نے بھینس کے گائے کی نسل ہونے کی نفی کرتے ہوئے ان کو الگ الگ جانور قرار دیا ہے؟؟؟
    اس کا کوئی جواب؟؟؟
    نیز دنیا میں‌ موجود گائے، اونٹ اور بھیڑ کی تمام اقسام کے دودھ ، گھی اور گوشت میں باہمی کوئی فرق نہیں؟؟؟
    جانوروں کے ماہرین کی زبانی بیان فرمائیں۔۔۔۔ شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اگر ہے اور یقینا ہے تو پھر گائے کی کون سی قسم آپ کے نزدیک حقیقی گائے ہے، اونٹ کی کون سی نسل آپ کے نزدیک حقیقی اونٹ ہے اور بھیڑ کی کون سی نسل آپ کے نزدیک حقیقی بھیڑ ہے؟؟؟
    کیا ماہرین لغت آپ جتنے بھی ذمہ دار نہیں تھے؟؟؟
    یہ بھی فرما دیں کہ جانوروں کے کس ماہر نے لکھا ہے کہ عجمیوں نے اہل عرب کو سمجھانے کے لیے بھینس کو گائے کی نسل کہہ دیا تھا اور اہل عرب اسی سے مغالطہ کھا گئے اور اسے گائے ہی سمجھ بیٹھے؟؟؟
    تیرہویں صدی تک کوئی مصلح پیدا نہ ہوا کہ اہل عرب کی اصلاح‌ کر دیتا؟؟؟
    اہل عرب اور اہل لغت عرب کی اصلاح کا شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابتسامہ
     
  13. ابن شہاب

    ابن شہاب ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 13, 2011
    پیغامات:
    224
    کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی لغوی ماہر حیوانات بھی ہو؟؟؟
    پھر اگر بفرض محال یہ ثابت بھی کر دیا جائے کہ مذکورہ ماہرین لغت میں سے کوئی بھی ماہر حیوانات نہیں تھا تو بھی یہ بات قابل غور ہے کہ کسی بھی فن کا ذمہ دار مصنف جب ضمنا کسی دوسرے فن کی بات ذکر کرتا ہے تو اسی فن کے معتبر مآخذ سے استفادہ کر کے ذکر کرتا ہے، مثلا آپ بھی ماہر حیوانات نہیں ہیں، لیکن ضرورت پڑنے پر آپ نے ''نامعلوم'' ماہرین حیوانات سے یہ نقل کر دیا کہ وہ بھینس کو گائے کی نسل نہیں سمجھتے،بلکہ الگ الگ دو جانور بتاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اسی سلسلے میں نے پوچھا تھا کہ :
    کیا ان ماہرین میں سے چند ایک کے نام علمی افادے کے لیے بتائے جا سکتے ہیں، جنہوں نے بھینس کے گائے کی نسل ہونے کی نفی کرتے ہوئے ان کو الگ الگ جانور قرار دیا ہے؟؟؟
    اس کا کوئی جواب؟؟؟
    کیا ماہرین لغت آپ جتنے بھی ذمہ دار نہیں تھے؟؟؟
    نیز دنیا میں‌ موجود گائے، اونٹ اور بھیڑ کی تمام اقسام کے دودھ ، گھی اور گوشت میں باہمی کوئی فرق نہیں؟؟؟
    جانوروں کے ماہرین کی زبانی بیان فرمائیں۔۔۔۔ شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اگر ہے اور یقینا ہے تو پھر گائے کی کون سی قسم آپ کے نزدیک حقیقی گائے ہے، اونٹ کی کون سی نسل آپ کے نزدیک حقیقی اونٹ ہے اور بھیڑ کی کون سی نسل آپ کے نزدیک حقیقی بھیڑ ہے؟؟؟
    یہ بھی فرما دیں کہ جانوروں کے کس ماہر نے لکھا ہے کہ عجمیوں نے اہل عرب کو سمجھانے کے لیے بھینس کو گائے کی نسل کہہ دیا تھا اور اہل عرب اسی سے مغالطہ کھا گئے اور اسے گائے ہی سمجھ بیٹھے؟؟؟
    تیرہویں صدی تک کوئی مصلح پیدا نہ ہوا کہ اہل عرب کی اصلاح‌ کر دیتا؟؟؟
    اہل عرب اور اہل لغت عرب کی اصلاح کا شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابتسامہ
     
  14. اسامہ طفیل

    اسامہ طفیل نوآموز

    شمولیت:
    ‏اگست 5, 2013
    پیغامات:
    198
    یہ وکی پیڈیا کا گائے جس نسل سے تعلق رکھتی ہے اس کا صفحہ ہے جو ماہر حوانیات کے مضامین و کتب اور حکومتی اداروں کی تحقیق پر مبنی ہے حوالہ جات صفحہ کے آخر میں موجود ہیں اس میں بھینس کو گائے کے خاندان سے بتایا ہے
    ar.m.wikipedia.org/wiki/بقريات
     
  15. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    جاموس الماء (باللاتينية: Bubalus bubalis) تعيش في قارتي أفريقيا وآسيا في جميع أنواع السافانا وبالقرب من مصدر للماء ، تعيش في قطعان كبيرة.

    فالجاموس موجود في مصر والسودان والهند وباكستان وفي جنوب العراق حيث تعيش في الأهوار الجنوبية.

    الصفات

    ضعيف البصر والسمع ولكن حاسة الشم لديه قوية جداً
    الذكر يبلغ وزنه من 680-750 كلغ
    الأنثى أكبر حجماً 750-820 كلغ
    تعيش لفترة طويلة تصل إلى 23 عاماً وتتغذى على الأعشاب والنباتات والأوراق وفي مصر يعد نبات البرسيم غذاءه المفضل، فهو يساعد على كثرة إدرار الحليب.
    حليب الجاموس كثيف وغني بالدهن مما يساعد في إنتاج القيمر (القشطة) منه، والقيمر وجبة أساسية في الفطور صباحاً في العراق.

    يختلف الجاموس عن البقر في أنه :

    اللبن البقري لونه أبيض مصفر نتيجة لوجود صبغة البيتاكاروتين.
    إدرار الأبقار للألبان أكثر من إدرار الجاموس.
    تستطيع بعض سلالات الأبقار أن تربى في المناطق الشبه صحراوية الجافة ، أما الجاموس فلا يعيش إلا في الأراضي الكثيفة الخضرة الكثيرة المياه،
    ولذلك فهو يكثر في الريف المصري وأهوار العراق على سبيل المثال

    جاموس الماء - ويكيبيديا، الموسوعة الحرة
     
  16. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    اس میں تو ہرن کو بھی شامل کیا گیا ہے!
    پھر اسکی قربانی کے بارہ میں کیا خیال ہے؟
    أنواع البقريات: البقرة المدجنة, البيسون bison, جاموس الماء, الظبي, الغزال, الخروف, الماعز و المسكوس
    muskox

    در اصل آپ نے جاموس کے بجائے بقریات والا صفحہ دیکھا ہے ۔
     
  17. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    وکی ہی کے ایک صفحہ پر گائے کو بھینس کے مشابہ حیوان قرار دیا گیا ہے جو اسکے ایک الگ حیوان ہونے پر دلالت کرتا ہے :
    البقرةُ اسم جنس البَقَرَةُ من الأَهلي والوحشي، يكون للمذكر والمؤنث ويقع على الذكر والأُنثى، وإِنما دخلته الهاء على أَنه واحد من جنس والجمع البَقَراتُ وصغيرهما يعرف بالعجل ويشبه حيوان الجاموس ولكنه يختلف في اللون والحجم. اشتق الاسم من بقر إذا شق لأنها تشق الأرض بالحراثة، من الحيوانات.
    بقرة - ويكيبيديا، الموسوعة الحرة
     
  18. اسامہ طفیل

    اسامہ طفیل نوآموز

    شمولیت:
    ‏اگست 5, 2013
    پیغامات:
    198
    یہ گائے،بھینس وغیرہ کے کس خاندان سے تعلق ہے اس کا صفحہ ہے میں نے جاموس کے صفحہ کے تور پر نہیں دیا کیونکہ اس صفحہ میں تمام ربط موجود ہے اور کسی کو سب فیملی میں شامل کیا گیا ہے جب کے بھینس کو مین فیملی میں لکھا ہے انگریزی صفحہ میں مزید تفصیل ہے یہ بقریات کا صفحہ ہے کیونکہ اس میں تمام گائے کے خاندان اور دوسری پشت سے تعلق رکھنے والوں کا تزکرہ ہے

    میں نے حوالہ بقریات کا ہی دیا کیونکہ یہ بھینس کے خاندان کا نام بھی ہے جاموس کے لنک جہاں تزکرہ آیا اسی میں موجود ہیں
    en.m.wikipedia.org/wiki/Bovidae

    مشابہ کا مطلب یہ تو نہیں ہمیشہ کے دو الگ ہیں جب کے صاف تور پر جس صفحہ میں مشابہ کہا اسی کے چارٹ میں اس کی فیملی گائے والی لکھی ہے

    خود بھیڑ، دنبہ،گائے کی کافی اقسام ہیں جو دیکھنے میں مشابہ پر اصل میں مختلف حتا چکی اور بغیر چکی کے دنبہ پر خاندان سب ایک..
     
  19. ابن شہاب

    ابن شہاب ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 13, 2011
    پیغامات:
    224

    یہ کس ماہر حیوانات کی تحقیق ہے۔ اکلوتا حوالہ دیا ہی ہے تو وہ بھی ایسے ماخذ،یعنی وکی پیڈیا سے جہاں ہر کوئی ہر طرح کی بات لکھ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ابتسامہ
    ہمارے سوال ابھی تک جوابات کے منتظر ہیں۔۔۔۔۔
     
  20. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    یہ حوالہ آپکو نہیں [mention=17281]اسامہ طفیل[/mention] صاحب کو دیا ہے ۔
    وکی کو وہی درمیان میں لے کر آئے ہیں ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں