اونٹ: ایک انوکھی تحقیق

توریالی نے 'مطالعہ' میں ‏مارچ 13, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    اونٹ: ایک انوکھی تحقیق
    پہلی قسط
    محمد ولی رازی


    پچھلے رمضان کی بات ہے۔ میرے پاس ایک فون آیا۔ آواز آئی کہ میں ڈاکٹر سید صلاح الدین قادری بول رہا ہوں، میرے لیے یہ نام اجنبی تھا۔ پھر خود ہی انھوں نے اس کی تصدیق یہ کہہ کر، کر دی کہ آپ مجھے نہیں جانتے ہوں گے۔ پھر فرمایا: کہ میں نے قرآن کریم کی ایک آیت پر کچھ کام کیا ہے، اس کا مسودہ آپ کو دکھانا چاہتا ہوں اور اس پر آپ کی رائے درکار ہے۔

    اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں خیال آیا کہ یہ بھی کوئی ایسے ہی محقق ہوں گے، جو ریٹائرڈ ہونے کے بعد قرآن کریم کو تختہ مشق بناتے ہیں۔ عربی نہیں جانتے۔ اصول تفسیر اور حدیث سے ناواقف اور اپنے ‘‘ورک’’ میں یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ اب تک قرآن کو مفسرین نے صحیح نہیں سمجھا تھا۔ یہ ایسا ہی کہ کوئی شخص انگریزی نہ جانتا ہو، انگریزی ادب سے ناآشنا ہو اور یہ دعویٰ کرے کہ اب تک شیکسپیئر کو کسی نے صحیح نہیں سمجھا۔

    چنان چہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے ادب کے ساتھ اپنا عذر کر دیا، کیوں کہ کسی مسودے پر رائے یا تبصرہ اس کو پورا پڑھے بغیر کر دینا میں امانت کے خلاف سمجھتا ہوں۔ پھر رمضان المبارک کی اپنی ہی مصروفیات کافی ہوتی ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے بھی بے جا اصرار نہیں کیا۔

    لیکن چند ہی روز بعد میرے ایک شاگرد کا فون آیا، مجھے ان کا شاگرد ہونا، ان ہی سے معلوم ہوا تھا، مانامہ گلوبل سائنس کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ ان کا یہ ماہنامہ سائنس پر شاید پاکستان میا شائع ہونے والا اردو کا سب سے بڑا رسالہ ہے۔ وپ شروع ہی سے ہر شمارہ مجھے اعزازی بھیجتے ہیں اور میں نے اس شمارے سے کمپیوٹر کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ (اس طرح میرے شاگرد میرے استاد بھی ہیں) انہوں نے فون کر کے کہا کہ ڈاکٹر سید صلاالدین کا یہ کام قابل مطالعہ ہے۔ آپ کو پسند آئے گا۔ میں اسے آپ کے پاس لا رہا ہوں ۔ اس طرح وہ مسودہ میرے پاس آیا۔

    مطالعہ شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ تو اردو زبان میں ایک انوکھے موضوع ہر نہایت دلچسپ اور نہایت سنجیدہ تحقیق ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق کے لئے اونٹ کو منتخب کیا۔ اس مسودے کا عنوان تھا‘‘حیران کن اونٹ’’مسودے کو میں نے بڑی دلچسپی سے شروع سے آخر تک پڑھا۔ اونٹ میں موجود اللہ تعالیٰ شانہحیران کر دینے والے عجائبات پڑھ کر میرے ایمان اور حق تعالیٰ شانہ کی قدرت و عظمت کے احساس میں نمایاں اضافہ ہوا، بلکہ اللہ تعلایٰ کا شکریہ ادا کیا کہ یہ مسودہ میرے پاس آگیا، ورنی اس علمی ذخیرے سے میں محروم رہ جاتا۔

    مسودہ میں نے اپنے چند مشوروں کے بعد ان کو واپس کر دیا۔ پھر کافی عرصے تک مجھے یہ انتظار رہا کہ یہ کتابی صورت میں آجائے تو میری مختصر لائبریری میں ایک قیمتی چیز کا اضافہ ہو جائےگا۔ کچھ روز پہلے ڈاکٹر صاحب کا فون آیا اور خوشخبری سنائی کہ کتاب چھپ کر آ گئی ہے اور وہ یہ کتاب لے کر آنا چاہتے ہیں۔ میں تو مشتاق ہی تھی۔ وہ علیم احمد صاحب کے ساتھ آئے اور یہ تحفہ دے کر چلے گئے۔

    اس سے پہلے کہ میں اونٹ کے عجیب اوصاف بیان کروں، یہ عرض کر دوں کہ اس کتاب کے مؤلف ڈاکٹر صلاح الدین قادری شعبہ حیوانات کے ماہر پروفیسر ہیں۔ قرآن کریم میں مختلف جانوروں کے نام آئے ہیں۔ مثلاً ہاتھی، بجھڑا یا گائے، خنزیر، اونٹ، ہدہد، مکڑی، چیونٹی وغیرہ اور مختلف محققین نے ان میں سے تقریباً ہر ایک کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا ہے۔ لیکن یہ تحریریں زیادہ تر انگریزی میں ہیں اور مختصر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اونٹ کو اپنا موضوع بنایا اور آٹھ سال کی عرق ریزی اور محنت کے ساتھ تحقیق و جستجو کے بعد اونٹ پر پوری کتاب 288 صفحات پر مشتمل لکھ کر اردو میں ایک انوکھا اضافہ کیا ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ جل شانہ کو ان سے یہ کام لینا تھا۔

    چناں چہ ڈاکٹر صاحب اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
    ‘‘جب سے اس کتاب کے کام کا آغاز کیا ہے، ہر طرف اونٹ کے حوالے سے کوئی نہ کوئی بات علم میں آتی گئی۔ بار بار میرے رب کی طرف سے اونٹ پر غور کرنے کی یاد دہانی کرائی جاتی رہی، تلاش کسی اور چیز کی ہو رہی ہے ۔ سامنے انٹ کی معلومات آرہی ہیں۔ نماز میں ہوں تو سورۃ الغاشیہ کی تلاوت ہو رہی ہے۔ (اس سورۃ کی آیت 17 میں اونٹ پر نظر کرنے (یعنی غور کرنے ) کی دعوت دی گئی ہے۔’’

    چنان چہ یہ کتاب اسی آیت میں غور وتدبر کے حکم کی تعمیل ہے۔ عربوں کی زندگی میں تین چیزیں بہت محبوب تھیں۔ اونٹ، گھوڑا اور تلوار۔ ان کے یہاں اونٹوں اور گھوڑوں کے شجرۂ نسب تک محفوظ رکھے جاتے تھے اور مختلف خصوصیات کے مطابق ان کے نام بھی مختلف ہوتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایسے ایفاظ جو اوںت کے لئے عربی میں رائج ہیں، ان کی فہرست دی ہے جو 107 (ایک سو سات) الفاظ پر محیط ہے۔ مثلاً ایسی انٹنی جس کا بچہ چھ مہینے کا ہو، اس کو الخلفہ کہتے ہیں۔ ایسی اونٹنی جو نر سے قد میں لمبی ہو، وغیرہ وغیرہ۔

    قرآن کریم میں اونٹ کے 13 مختلف نام آئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے قرآن کریم کی آیات اور ترجمے کے ساتھ ان تیرہ ناموں کو جمع کر دیا ہے اور قرآنی آیات کے حوالے بھی دیے ہیں۔ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لئے یہ تیرہ نام اور ان کے معانی دئے جاتے ہیں۔

    (1)اِبل: یہ واحد اور جمع دونوں معنوں میں اونٹ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ دو جگہ استعمال ہواہے۔ سورۃ الانعام آیت 144 اور سورۃ الغاشیہ آیت 17 ۔ یہ لفظ لُغت میں بادل کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
    (2)بحیرہ: اہل عرب بحیرہ اس جانور یا اونٹنی کو کہتے ہیں جو پانچ مرتبہ جن چکی ہو اور آخری بار اس نے نر بچہ جنا ہو۔ اس اونٹنی کے کان چیر کر کھلا چھوڑ دیا جاتا تھا۔ یہ ان کے بتوں کے نام پر ہوتی تھی۔ اس لئے اس کا دودھ، گوشٹ اور اون وغیرہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ اور نہ کوئی اس پر سواری کرتا تھا۔ اس کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ المائدہ میں 103 ویں آیت میں آیا ہے اور ایک ہی مرتبہ ذکر آیا ہے۔
    (3 )بُدن: یہ لفظ بھی قرآن کریم میں ایک ہی مرتبہ سورۃ الحج کی 36 ویں آیت میں آیا ہے۔ عرب میں بُدن ایسے اونٹ یا جانور کے لئے استعمال ہوتا ہے جو قربانی کے لئے بیت اللہ لے جائے جاتے ہیں۔
    (4) بعیر: یہ لفظ قرآن کریم کی سورۃ یوسف میں دو مرتبہ آیا ہے۔ عربی میں بعیر ان اونٹوں کے لئے بولا جاتا ، جو باربرداری کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ لفظ بھی واحد اور جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ سورۃ یوسف کی آیات 25 اور 72 میں اس کا ذکر موجود ہے۔
    (5) جمل: اس کا ذکر عربی زبان میں عموماً اونٹ کے لئے استعمال ہوتا ہے اور ضرب المثل کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ سورۃ ا لاعراف میں یہ لفظ ضرب المثل ہی کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ (سورۃ الاعراف آیت 4 )
    (6) جِمٰلٰت: یہ لفظ جمل کی جمع ہے۔ سورۃ المرسلٰت میں تشبیہ کے طور پر دوذک کی آگ کی لپٹ کے لئے استعمال ہوا ہے۔
    (7) حام: یہ لفظ بی سورۃالمائدہ کی 103 ویں آیت میں استعمال ہوا ہے۔ اہل عرب حام اس اونٹ کے لئے استعمال کرتے تھے، جس کا پوتا سواری دینے کے قابل ہو جاتا۔ یا جس اونٹ کے نطفے سے دس بچے پیدا ہو جاتے، اس قسم کے بوڑھے اونٹوں کو معبود کے نام پر کھلا چھوڑ دیا جاتا تھا۔
    (8) رکاب: اس کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ الحشر آیت 2 میں استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ ایسے اونٹوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، جو سواری کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
    (9) سائبہ: یہ لفظ بھی سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 103میںبحیرہ اور حام کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ اہل عرب سائبہ ایسی اونٹنی کو کہتے ہیں، جو کسی منت کے پورا ہونے،بیماری سے شفا پانے یا کسی خطرے سے بچ جانے پر شکرانے کے طور معبودوں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ یہ لفظ ایسی اونٹنی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، جس نے دس مرتبہ بچے جنے ہوں اور ہر بار مادہ ہی جنی ہو۔ یہ لفظ بھی سورۃ المائدہ کی 103 آیت میں آیا ہے۔
    (10) ضامِر: یہ لفظ سورۃ الحج کی آیت نمبر 2 میں استعمال ہوا ہے۔ ضامِر عربی زبان میں کمزور سواری کے جانور یا اونٹ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
    (11) عِشار: قرآن کریم کی سورۃ التکویر کی آیت نمبر 4 میں استعمال ہوا ہے۔ عِ شار جمع کا صیغہ ہے۔ اس کا واحد عشراء ہے۔ یہ لفظ عربی میں دس ماہ کی حاملہ اونٹنیوں کے لئے رائج ہے اور جمع ہی کے لئے استعمال ہوا ہے۔
    (12) ناقہ: اس کا ذکر قرآن کریم میں سات مرتبہ مختلف سورتوں میں ہوا ہے۔ اس سورتوں کے نام اور حوالے بالترتیب یہ ہیں: سورۃ الاعراف73، سورۃالاعراف 77، سورۃ الہود64 ، سورۃ بنی اسرائیل59 ، سورۃ الشعرا2، سورۃ القمر2 ، سورۃ الشمس

    اونٹ کے حوالے سے ناقہ کا لفظ سب سے زیادہ استعمال ہوا ہے۔ لفظ ناقہ بطور خاص حضرت صالح علیہ السلام کی اس اونٹنی کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جو قوم ثمود کے مطالبے پر بطور معجزہ پہاڑی سے نکل آئی تھی۔ قوم ثمود نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ایسی اونٹنی پیدا کر کے دکھاؤجو جسامت کے لحاظ سے بڑی ہو۔ پہاڑی سے نکل آئے اور آتے ہی بچہ جن دے۔ اس معجزہ کی تفصیل قرآن کریم میں موجود نہیں۔ تفاسیر میں اس کی پوری تفصیل آئی ہے۔ البتہ سورۃ الشمس میں یہ ذکر ہے کہ قوم ثمود نے اس اونٹنی کو قتل کر دیا تھا، جس کے نتیجہ میں ان پر عذاب آیا۔
    (13) ہیمہ: اس کا ذکر سورۃ الواقعہ آیت 55 میں دو ذخیوں کے پانی پینے کی حالت کو پیاسے اونٹ سے تشبیہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ہیمہ عربی زبان میں اس اونٹ کو کہتے ہیں جس کو ہبانہ، یعنی ایک خاص بیماری لاحق ہو۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اونٹ پانی پیتا ہی چلا جاتا ہے ۔مگر اس کی پیاس نہیں بجھتی۔ اس بیماری کو استسقاء بھی کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں دوزخیوں کے لئے فرمایا گیا ہے کہ‘‘پس وہ کھولتا ہو پانی تونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پئیں گے۔’’(سورۃ الواقعہ88۔از ‘‘اونٹ’’ صفحہ35 تا صفحہ 47)

    سبحان اللہ! یہ اونٹ کی مختلف حالتوں کے اعتبار سے دیئے گئے وہ الفاظ ہیں جو قرآن کریم میں اس عجیب الخلقت جانور کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ عربوں کی زندگی میں اونٹ کتنا اہم، کتنا دخیل اور کتنا محبوب ہے۔ وہ کس طرح ہر اونٹنی کا یہ حساب محفوظ رکھتے ہیں کہ کتنے مہینوں کی حاملہ ہے۔ اس نے کتنے بچے جنے ہیں، کس نے صرف نرت بچے جنے ہیں اور کس نے مادہ۔ اور کس اونٹنی کا قد نر سے بڑا ہے۔ یہ تو اونٹ کے صرف نام ہیں، جو بذات خود عجیب ہیں۔ اونٹ کی حیرت انگیز خسوصیات کا ذکر نہیں ہو سکا۔ جو ان شاء اللہ بشرط حیات اگلی قسط میں بیان کروں گا۔
    (جاری ہے)

    بصد شکریہ: روزنامہ امت ، کراچی/حیدرآباد، پاکستان مورخہ ۱۲ مارچ ۲۰۰۱۴


    آج بروز جمعہ مورخہ 14مارچ 2014 کو روزنامہ جسارت نے مضمون سے متعلق ذیل میں دی گئی تصحیح جاری کی ہے:


    [​IMG][/URL][/IMG]​
     
    Last edited by a moderator: ‏مارچ 14, 2014
  2. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    اونٹ: ایک انوکھی تحقیق (دوسری قسط)

    اونٹ : ایک انوکھی تحقیق (دوسری قسط)
    محمد ولی رازی

    اس موضوع کی پہلی قسط پڑھ کر راقم کی ہمت افزائی کے لیے کئی فون آئے۔ اور اگلی قسطوں کے انتظار کے بارے میں ان کا شوق معلوم ہوا۔ مگر تھر میں قحط کے سانحے کی تفصیلات نے قلم کو چلنے نہیں دیا۔ اس لیے یہ قسط مؤخر کر دی گئی۔ پچھلے مضمون میں اونٹ کے ان ناموں پر گفتگو ہوئی تھی، جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔ جس سے عربوں کی زندگی میں اس کی اہمیت اور اس کی محبوبیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اونٹ کی ایک منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی ایک نشانی کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ اس لیے سورۃ غاشیہ کی ان آیات کا ترجمہ پڑھ لیجیئے۔

    أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ وَإِلَى السَّمَاء كَيْفَ رُفِعَتْ وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ
    (ترجمہ): ‘‘کیا یہ لوگ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے پیدا کیا گیا؟ اور آسمان کو کیسے بلند کیا ؟ اور پہاڑوں کو کہ انہیں کس طرح گاڑا گیا؟ اور زمین کو کیسے بچھایا گیا؟’’

    سورۂ غاشیہ کی ان چار آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چار بڑی نشانیوں کا ذکر فرمایا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آسمان، پہاڑوں اور زمین جیسی نشانیوں کو بعد میں بیان فرمایا۔ اور اونٹ کو ان نشانیوں پر مقدم کیا۔ بظاہر آسمان، پہاڑوں اور زمین کے ساتھ اونٹ کا ذکر اور وہ بھی اس اہمیت کے ساتھ اس سے پہلے افلا ینظرون ‘‘کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے’’ کہہ کر اس میں غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ گویا اس بات پر توجہ کرنے کا حکم ہے کہ اونٹ کا ذکر ہم نے یہاں بے وجہ نہیں کیا۔ جب اس پر غور کرو گے تو دوسری نشانیوں کے ساتھ اس میں بھی تمہیں عجیب دلائل قدرت نظر آئیں گے۔ چناں چہ مفسرین نے اس نکتے کو ذہن میں رکھ کر اونٹ کے عجائبات بھی بیان کئے ہیں۔ علامہ شبیر احمد عثمانی نے لکھا ہے کہ، تفسیر عزیزی میں اس کے عجائب دیکھنے کے قابل ہیں۔

    ڈاکٹر صلاح الدین قادری صاحب نے بھی اپنی توجہ کا مرکز اسی نکتے کو بنایا ہے کہ قرآن کریم میں بہت سے جانوروں کا ذکر آیا ہے۔ ان میں سے کسی کی مثال کیوں نہیں دی ہے؟ نہ ہاتھی کا ذکر ہے، جس پر پوری سورت قرآن میں موجود ہے۔ وغیرہ۔ حق تعالیٰ شانہ کے اس حکم کی تعمیل کئی زاویوں سے ہو سکتی ہے۔ یعنی اونٹ پر غور کرنے کا عمل کئی پہلوؤں سے ہو سکتا ہے۔

    ۱ ۔ اس کی ظاہری اور نظر آنے والی خصوصیات۔
    ۲ ۔ اس کی تخلیق میں حق تعالیٰ شانہ کی قدرت کے دلائل۔
    ۳ ۔ انسانوں کے لئے اس جانور میں کیا کیا فوائد ہیں، جو دوسرے جانوروں میں نہیں ہیں؟
    اونٹ کی کوہان: اونٹ کی کوہان بھی ایک منفرد چیز ہے۔ دوسرے جانوروں مثلاً گائے بھینس وغیرہ میں کوہان جسم کے اگلے حصے میں ہوتی ہے۔ جب کہ اس کی کوہان پیٹھ کے وسط میں ہوتی ہے۔ اس کے تخلیقی اور سائنسی فوائد بے شمار ہیں۔ اس کے خالص سائنسی اور کیمیائی فوائد چونکہ سائنس کے طلباء کے لیے بہت اہم ہیں، مگر عام قارئین کے لیے مشکل الفہم ہیں۔ اس لیے ان تفصیلات کو حذف کر دیا گیا ہے۔ اونٹوں کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً بعض اونٹ دو کوہان والے ہوتے ہیں۔ جو اونٹ کو صحرائی علاقوں میں دوسرے جانوروں کے مقابلے میں زیادہ فعال اور زندہ رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

    ۲ ۔ وزن اٹھانے کی صلاحیت۔ صحراؤں میں گرم ترین موسم میں کام کرنا اونٹ کی خاص پہچان ہے۔ اس کے بوجھ اٹھانے کی صلاحیت نہ صرف گھوڑے بلکہ ہاتھی سے بھی زیادہ ہے۔ جسمانی وزن کے لحاظ سے بوجھ اٹھانے کی صلاحیت میں کوئی دوسرا حیوان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ چناں چہ اگر ہاتھی کا وزن ۲۹۰۰ کلو گرام ہے تو یہ زیادہ سے زیادہ ۵۸۰ کلو گرام وزن اٹھا سکتا ہے۔ یہ اس کے وزن کا بیس فیصد ہے۔ گھوڑا اگر ۳۵۰ کلو گرام وزنی ہے ، تو یہ صرف ۵۵ کلو گرام وزن اٹھا سکتا ہے۔ یہ اس کے وزن کا چالیس فی صد ہے۔ بختیاری اونٹ عام اونٹوں سے زیادہ بڑا اور وزنی ہوتا ہے۔ وہ ۲۵۰ کلو گرام وزن اٹھا سکتا ہے۔
    بار برداری کے سلسلے میں اونٹ کی ایک یہ خصوصیت بھی صاف نظر آتی ہے کہ وہ دوسرے جانور جو باربرداری کے لیے استعمال ہوتے ہیں، مثلاً گائے بھینس وغیرہ، ان پر آپ صرف اس وقت بوجھ لاد سکتے ہیں جب وہ کھڑے ہوں۔ بیٹھنے کی حالت میں ان پر نہ سوار ہوا جاتا ہے اور نہ ہی بوجھ لادا جا سکتا ہے۔ جب کہ اونٹ پر آپ بیٹھنے کی حالت میں بھی بوجھ لاد سکتے ہیں۔

    ۳ ۔ ٹانگیں اور کھر: اونٹ کے پورے جسم کے مقابلے میں اس کی ٹانگیں کافی پتلی ہوتی ہیں۔ تمام کھر دار جانور وں کی انگلیوں پر کھروں کا خول چڑھا ہوا ہوتا ہے۔ اور ان کی انگلیاں نظر نہیں آتی ہیں۔ یہ انگلیوں کی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں۔ اور یہ جانور اپنے ان کھروں کے بل پر چلتے ہیں۔ اونٹ اس معاملے میں بھی دوسرے جانوروں سے مختلف ہے۔ اس کے کھر تو ہوتے ہیں، مگر اس کی انگلیوں کا اگلا حصہ ناخن کی صورت میں کھلا ہوتا ہے۔ بہت سے جانور پنجوں کے بل پر چلتے ہیں ، جیسے کتا، بلی، وغیرہ۔ اونٹ نہ انگلیوں کے بل چلتا ہے ۔ اور نہ پنجوں کے بل پر۔ اس لیے اس کی چال دوسرے جانوروں سے مختلف ہے۔

    ۴۔ اونٹ کی چال: دوسرے چوپائے، گائے، بھینس، بکری وغیرہ جب چلتے ہیں تو جب ان کی اگلی دائیں ٹانگ اٹھتی ہے تو اس وقت پچھلی بائیں ٹانگ بھی اٹھتی ہے اس طرح ان کا توازن اگلی بائیں اور پچھلی دائیں ٹانگ کی مدد سے قائم رہتا ہے۔ اونٹ اس معاملے میں بھی منفرد ہے۔ اس کی اگلی اور پچھلی ٹانگیں بیک وقت ایک ہی طرف کی اٹھتی ہیں۔
    اس کے علاوہ گائے بھینس وغیرہ جسم کے پچھلی جانب ٹانگیں زیادہ طاقت سے چلا سکتے ہیں۔ آگے کی طرف یہ جانور اتنی طاقت سے ٹانگ نہیں چلا سکتے۔ اونٹ کی منفرد خصوصیت ہے کہ وہ آگے پیچھے یکساں طاقت کے ساتھ حرکت دے سکتا ہے،۔ اس لیے اس کی ٹانگیں جسم کے عین نیچے کی جانب مڑ سکتی ہیں۔ جب وہ بیٹھتا ہے تو اس کا جسم زمین سے تھوڑا اٹھا ہوا رہتا ہے۔ اور سیدھا ہوتا ہے۔ جب کہ گائے بھینس گدھا وغیرہ کروٹ پر بیٹھتے ہیں، سیدھے نہیں بیٹھ سکتے۔ اس کے علاوہ جسے لوگ اونٹ کا گھٹنا سمجھتے ہیں وہ اس کا ٹخنہ ہے۔ اس ٹخنے کا فاصلہ پیروں سے کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا گھٹنا اس کے پیٹ کے قریب ہوتا ہے۔
    سوال یہ ہے کہ یہ سب تفصیلات اپنی جگہ درست ۔ مگر ان کی وجہ کیا ہے؟ اور اونٹ کی تخلیق میں یہ اہتمام کیوں کیا گیا ہے؟ اور اس کے کیا فوائد ہیں؟ اس کا جواب اس کتاب کے ۲۸۸ صفحات میں دیا گیا ہے۔ اور مختصر جواب یہ ہے کہ اونٹ کی یہ انفرادی خصوصیات، اس کی بقائے حیات، بغیر کچھ کھائے پیئے طویل عرصہ تک انسان کی خدمت کرنے میں خاص کردار ادا کرتی ہیں۔جس کی بعض مثالیں سامنے آ رہی ہیں۔

    ہونٹ: اونٹ کے ہونٹ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص نشانیوں میں سے ہیں۔ اوپر کا ہونٹ بیچ میں سے کٹا ہوا ہوتا ہے۔ یعنی دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ اور خاص بات یہ ہے کہ وہ ہونٹ کے ان دونوں حصوں کو اوپر نیچے حرکت دے سکتا ہے۔
    ریگستانی علاقوں میں دور دور تک درخت اور پودے نہیں ہوتے۔ اور اگر ہوتے ہیں تو کانٹے دار جھاڑیاں یا کانٹوں والے کیکر جیسے درخت ہوتے ہیں۔ اونٹ کے کٹے ہوئے ہونٹوں کا فایدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہونٹوں کو کانٹوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے ہونٹوں پر ایک گدی نما موٹی کھال ہوتی ہے جس پر چھوٹے بال ہوتے ہیں۔ اور ان کو سخت کانٹوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔(وہ اپنے کٹے ہوئے ہونٹوں سے پتوں اور ٹہنیوں کو ضرورت کے مطابق پکڑنے اور ہٹانے کا کام بھی لیتا ہو گا)

    راقم کا خیال ہے کہ اونٹ چوپایوں کا صوفی جانور ہے۔ جس طرح اللہ والے ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ روکھی سوکھی غذا کھا کر سخت مجاہدے کرتے ہیں ۔ دوسروں کو تکلیف سے بچانے کی فکر میں خود تکلیف اٹھا لیتے ہیں ۔ کھانے پینے میں جو مل جاتا ہے اس پر شکر کرتے ہیں۔ اسی طرح اونٹ بھی ایک معصوم اور بے ضرر جانور ہے۔ دوسرے جانوروں کے سر پر سینگ ہوتے ، جس سے وہ اپنا دفاع بھی کرتے ہیں اور لوگوں کو نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔ اس بے چارے کے سر پر سینگ ہی نہیں ہوتے۔ یہ دوسروں کو ضرر پہنچانے سے گریز کرتا ہے۔
    لمبی گردن: دوسرے جانوروں میں صرف زرافہ ایسا جانور ہے جس کی گردن اونٹ سے بھی (شاید) زیادہ لمبی ہوتی ہے۔ لیکن سخت ریگستانی علاقوں میں اونٹ کی طرح وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ نہ وہ انسان سے مانوس ہوتا ہے۔ نہ اس سے بار برداری کا کام لیا جا سکتا ہے۔ اونٹ کو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی انسان کی خدمت کے لیے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹا سا بچہ اس کی رسی پکڑ کر جہاں چاہے لے جاتا ہے۔ آپ اس پر سوار ہونا چاہیں تو یہ اپنی لمبی گردن آگے جھکا دیتا ہے کہ آپ زینے کی مدد سے اس کی پشت پر پہنچ جائیں۔
    اس کے چرنے کا انداز بھی دوسرے جانوروں سے نرالا ہے۔ دوسرے حیوانات جہاں کہیں کوئی درخت یا پودا دیکھتے ہیں، وہ اس کے سارے پتے اور ٹہنیاں تک کھا جاتے ہیں، اگر ان پودوں کو پانی نہ ملے تو یہ مرجھا کر ختم ہو جاتے ہیں۔ اونٹ کے چرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی لمبی گردن سے درختوں کے کچھ پتے کھا کر آگے چل دیتا ہے۔ اور پھر دوسرے پودے یا درخت کے چند پتے کھا کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح یہ کئی کلو میٹر کے علاقے کو چرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
    اس کا ایک فائدہ تو خود اونٹ کو ہوتا ہے کہ وہ زہریلے پودوں کے مضر اثرات سے محفوظ رہتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ چرنے کے اس طریقے سے درختوں اور پودوں کو نقصان نہیں ہوتا۔ اور نباتات ختم نہیں ہونے پاتیں۔ اونٹ کا یہ طریقہ بھی صوفیانہ ہی ہے کیوں کہ وہ اپنے ماحول کو نقصان نہیں پہنچاتا۔
    ریگستان میں جب ریت کا طوفان آتا ہے تو اس کی شدت اور قوت کا اندازہ عام آبادیوں میں رہنے والے نہیں کر سکتے۔ ریت کے پہاڑ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں۔ چھوٹے قد کے حیوانات کو تو ریت میں دب کر زندہ رہنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ اونٹ ریت کے اس طوفان کا مقابلہ کرنے میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس کا جسم جب ریت میں دب جاتا ہے تو اس کی لمبی گردن کی وجہ سے اس کا سر ریت سے باہر رہتا ہے۔ اس طرح اگر اس پر بیٹھے ہوئے زیادہ بوجھ لاد دیا جائے تو اس کی لمبی گردن کے آہنی پٹھے اس کو کھڑا کرنے میں مدد دیتے ہیِ اونٹ آپس میں لڑائی کے دوران بھی ٹانگوں کے بجائے گردن ہی کے ذریعے ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔
    (جاری ہے)


    بشکریہ: روزنامہ امت، کراچی، پاکستان
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    بہترین شیئرنگ
    جزاک اللہ خیرا
     
  4. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    اللہ تبارک و تعالیٰ نے بے شک اونٹ کو ایسی صفات سے متصف کیا ہے جو اور جانوروں میں نہیں اور نہ ہی ایسا مقام عطا فرمایا ہے جو اونٹ کو حاصل ہے۔ برصغیر ہند و پاک کے شعرا نے بھی اونٹ سے متعلق مضامین باندھے ہیں اور خیال آارئی فرمائی ہے۔ اس ضمن میں دو امثال پیش کرنے کی اجازت چاہی جاتی ہے۔
    کلیات اکبر الہ آبادی اور کلیاتِ اقبال میں شائع شدہ ظریفانہ کلام سے چند گوہر پارے نظرِ اراکین ہیں:

    مغربی ذوق ہے اور وضع کی پابندی بھی
    اونٹ پر چڑھ کے جو تھیٹر کو چلے ہیں حضرت
    (اکبر الٰہ آبادی)

    تعلیمِ مغربی ہے بہت جرأت آفریں
    پہلا سبق ہے، بیٹھ کے کالج میں  مار ڈینگ
    بستے ہیں  ہند میں  جو خریدار ہی فقط
    آغا بھی لے کے آتے ہیں  اپنے وطن سے ہینگ
    میرا یہ حال، بوٹ کی ٹو چاٹتا ہوں میں
    ان کا یہ حکم، دیکھ! مرے فرش پر نہ رینگ
    کہنے لگے کہ اونٹ ہے بھدّا سا جانور
    گائے ہے خوب ، رکھتی ہے کیا نوک دار سینگ

    اونٹ اور گائے دونوں استعارے ہیں؛ اونٹ مسلم طرزِ ثقافت کے لئے اور گائے ہندوانہ اور یہودیانہ طرز کے لئے۔ مسلم ثقافت کو بھدا کہنے کا فیشن تب بھی تھا، اب تو خیر سے ہر برائی کو مسلم ثقافت سے منسوب کرنے کا چلن بن گیا ہے۔ تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے۔ اس شعر میں سینگ کی معنویت بہت نرالی ہے اور بڑی آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔
     
  5. abrarhussain_73

    abrarhussain_73 --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اپریل 6, 2009
    پیغامات:
    371
    السلام علیکم، ایڈمن سے گزارش ہے کہ پہلی قسط کا لنک مضمون میں لگادیجئیے۔شکریہ
     
  6. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
  7. abrarhussain_73

    abrarhussain_73 --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اپریل 6, 2009
    پیغامات:
    371
  8. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    و علیکم السلام

    نہایت مفید تجویز کا شکریہ ۔ آئندہ میں بھی از خود اس کا خیال رکھوں گا۔ ان شاء اللہ

    اور بھائی بابر تنویر کا بھی بہت شکریہ انھوں نے پہلی قسط کا لنک لگا دیا۔

    جزاک اللہ خیرا
     
    Last edited by a moderator: ‏مارچ 19, 2014
  9. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    اونٹ ایک انوکھی تحقیق (آخری قسط)

    اونٹ ایک انوکھی تحقیق(آخری قسط)
    محمد ولی رازی

    اس موضوع کی دوسری قسط میں ایک ضروری تصحیح کے طور پر دو الفاظ‘‘ھیمہ’’ اور ‘‘ھبانہ’’ کے باے میں وضاحت کی گئی ہے کہ ھیمہ اور ھبانہ عربی کے الفاظ نہیں ہیں۔ پہلا لفظ‘‘ھیم’’ہے۔ اس تصحیح پر شکریے کے ساتھ عرض ہے کہ سورۃ الواقعہ آیت 55 میں لفظ ھیم ہی استعمال ہوا ہے۔ چناں چہ قرآن کریم میں یہ الفاظ آئے ہیں:‘‘فَشٰرِبُوۡنَ شُرۡبَ الۡهِيۡمِؕ ترجمہ یہ لکھا گیا تھا‘‘پس وہ کھولتا ہوا پانی تونس لگے اونٹ کی طرح پئیں گے’’۔ اس بیماری کو مصنف نے ھیمہ کر کے لیا ہے۔

    ظاہر ہے کہ کسی بھی دوسری زبان سے جب کوئی لفظ لیا جاتا ہے تو اس میں کچھ تبدیلی کر کے لیا جاتا ہے۔ جیسے عربی میں دوسری زبانوں سے لیے گئے الفاظ کو معرب کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ فارسی میں لیے گئے الفاظ کو مفرس کہتے ہیں۔ لہٰذا لفظ ہبانہ راقم کے لیے بھی نیا لفظ تھا۔ اس لیے اس کا متبادل استسقاء بڑھا دیا گیا تھا۔ پھر بھی راقم شکر گزار ہے کہ الحمد اللہ، ہمارے اخبارات اور خاص طور پر روزنامہ اُمت میں مضامین کو پوری طرح پڑھ کر اس میں پائی جانے والی کوتاہیوں کی نشاندہی کر دی جاتی ہے۔

    اونٹ کا پانی پینے کا انداز:
    اونٹ کے پانی پینے کی رفتار اور مقدار بھی حیرت انگیز ہے۔ وہ اپنے جسمانی وزن کے تہائی حصے کے برابر پانی پی لیتا ہے۔ اس کے پانی پینے کی رفتار دس سے ستائیس لیٹر فی منٹ ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ڈیڑھ لیٹر پانی کی سات سے اٹھارہ بوتل پانی ایک منٹ میں پی لیتا ہے۔ پانی پینے کے عمل میں یہ تیز رفتاری اونٹ کی لمبی ناک کی بدولت ہی ممکن ہوتی ہے، کیوں کہ اس کو پانی پینے کے دوران(سانس لینے میں) کوئی دقت نہیں ہوتی۔ یہ تو پانی پینے کی رفتار کا عجیب معاملہ تھا۔ایک وقت میں اونٹ پانی کی کتنی مقدار پی سکتا ہے، یہ بھی اونٹ کی حیرت انگیز خصوصیات میں سے ہے۔ چناں چہ وہ ایک وقت میں ایک سو چھ لیٹر پانی پینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ مقدار ڈیڑھ لیٹر پانی کی ستر بوتلوں کے برابر ہے۔ یہ ایک وقت میں پانی پینے کی مقدار ہے۔ اب ایک دن میں پانی پینے کی زیادہ سے زیادہ مقدار ایک سو ستر( 170 ) لیٹر ہے۔ جو ڈیڑھ لیٹر والی ایک سو تیرہ (113) بوتلوں کے برابر ہے۔

    ایک انگریز مصنف یاگیل(Yagil) نے دو سو لیٹر پانی تین منٹ میں پینے کا تذکرہ کیا ہے۔ اونٹ کی یہ دونوں صلاحیتیں
    غیر معمولی اور منفرد ہیں، دوسرے چوپائے نہ اس رفتار سے پانی پی سکتے ہیں اور نہ ہی اتنی مقدار میں پانی اپنے بدن میں جمع رکھ سکتے ہیں۔

    پانی کے بغیر اونٹ کی زندگی:
    صحارا ریگستان میں اونٹ کی نہایت حیرت انگیز خصوصیت یہ ہے کہ سردموسم میں جب درج حرارت بہت کم ہوتا ہے، اس دوران اونٹ چھ سے سات مہینوں تک پانی پیئے بغیر گزارہ کرتے دیکھا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سردیوں میں اونٹ کو پانی کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ اس کو بھی زندگی کی بقا کے لیے دوسرے حیوانات کی طرح پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اس عرصے میں اونٹ اپنی جسمانی ضروریات کا پانی اپنی خوراک سے حاصل کرلیتا ہے۔صاف ظاہر کہ اونٹ کی یہ صلاحیت دوسرے حیوانات کی نسبت زیادہ ہے۔ (اس کے بعد مصنف نے حرارت کے مختلف درجوں پر اونٹ کی پانی کی ضروریات کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے، اختصار کے لیے وہ تفصیل یہاں غیر ضروری معلوم ہوتی ہے۔راقم) ان حالات میں دوسرے حیوانات کو پانی کی ضرورت روزانہ یا چند گھنٹوں میں ہو جاتی ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں پانی کی کمی کی وجہ سے ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔(اونٹ ص 70-69)

    راقم عرض کرتا ہے کہ اونٹ کی مذکورہ بالا خصوصیات بھی صوفیانہ ہیں۔ اس کی تخلیق میں ماحول کی مناسبت سے سخت اور پیش آنے والی شدید مشکلات سے نمٹنے کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اس کا سر، اس کی آنکھیں، اس کے کان، اس کی ناک، اس کا پیٹ اور وہ اعضاء جن کا ذکر ہو چکا ہے، سب منفرد خصوصیات کے حامل ہیں اور یہ ان مشکل حالات میں بھی اپنے فرائض اور اپنی خدمات سے خوشی کے ساتھ انسان کی خدمت پر کمر بستہ رہتا ہے۔ اب اونٹ کی جسمانی ساخت اور اس کے اکثر اعضاء کی خصوصیات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

    اونٹ کا سر اور چہرے کے اعضاء:
    اونٹ کے عظیم جثے کے مقابلے میں اس کا سر چھوٹا ہوتا ہے۔ چونکہ اس کا سر براہ راست سورج کی شعاعوں کی زد میں رہتا ہے۔ گرمی میں اس بات کے امکانات ہیں کہ اس کے دماغ کے خلیات متاثر ہو جائیں۔ اس کا دماغ والا حصہ اس کی کھوپڑی کی گولائی میں ہوتا ہے، اس کی کروی ساخت کی وجہ سے دماغ والا حصہ کبھی بھی مکمل طور پر سورج کی شعاعوں کی زد میں نہیں رہتا۔(چھوٹی سطح اس کی وجہ ہو سکتی ہے)

    اونٹ کے سر کے اوپر دو چھوٹے چھوٹے کان ہوتے ہیں۔ اگر کان لمبے ہوتے تو کانوں کی بڑی سطح بھی حرارت کو جذب کرتی۔ اگر کان کا رخ جیسا ہے ویسا نہ ہوتا۔ یعنی کان کھڑے ہوتے تو ریت کے ریلوں کو نہ روک سکتے۔ کانوں کے اندرونی حصے میں بالوں کے گچھے ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ریت اور گرمی کی وجہ سے اس کی سماعت متاثر ہو سکتی تھی۔

    اونٹ کی آنکھیں بھی قدرت کا عجوبہ ہیں۔ کانوں سے ذرا آگے اس کی دو بڑی بڑی آنکھیں ہوتی ہیں۔ آنکھیں ہر جاندار کا بڑا ہی نازک حصہ ہیں۔ ان کی حفاظت کا قدرت نے یہ انتظام کیا ہے کہ اس کی کھوپڑی کے آگے کی ہڈی آنکھوں کے آگے چھجے کا کام کرتی ہے۔ اس ہڈی کے اوپر گہری گھنی بھنویں ہوتی ہیں۔ اس چھپر کی وجہ سے آنکھیں ہمیشہ سائے میں رہتی ہیں۔ ریت سے بھی آنکھوں کی حفاظت ضروری ہے۔ یہ حفاظت اس کی پلکیں کرتی ہیں۔ اس کی پلکیں بھی منفرد بنائی گئی ہیں۔ اونٹ کی پلکیں لمبی ہوتی ہیں، اس کے بال جھکے ہوئے اور دو قطاروں میں ہوتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ آنکھ کے بند ہونے سے پہلے ہی اس کی پلکوں کے اوپر اور نیچے کے خمیدہ بال آپس میں مل کر ایک جال سا بنا لیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے آنکھ کے اندر ریت جانے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

    اونٹ کی آنکھ کی ایک منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس کی آنکھ کے اندر ایک باریک اور شفاف جِھلی ہوتی ہے، جو ریت کے طوفان میں آنکھ کو مکمل طور پر ڈھانپ لیتی ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اونٹ اس بندجھلی کے اندر سے دیکھ بھی سکتا ہے۔ آنکھ کو گرم اور خشک موسم میں نمی کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ آنکھ خشک ہو کر سوکھنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک غدہ(غدود کا واحد) رکھ دیا ہے، جو اس کی آنکھوں کو نمی مہیا کرتا ہے۔ (سبحان اللہ)

    اونٹ کی ناک بھی کچھ کم حیرت ناک نہیں ہے۔ اس کی ناک لمبی ہوتی ہے۔ اس کے نتھنوں میں بند اور کھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ناک کی لمبی نالی کا فائدہ یہ ہے کہ گرم ہوا کی بڑی مقدار کو نتھنے بند کر کے مقید کیا جا سکتا ہے۔ اس میں آبی بخارات کی مدد سے گرم ہوا کا درجہ حرارت کم کر کے اس کو نم کیا جاتا ہے۔ اس کی ناک کے نتھنے سامنے کی جانب سیدھے نہیں ہوتے بلکہ ترچھے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے کھلے نتھنوں میں بھی ریت براہ راست اندر داخل نہیں ہو سکتی۔ اونٹ کے ہونٹ بھی خاص ساخت کے ہوتے ہیں۔ اوپر کے ہونٹ کٹے ہوئے ہونے اور اس کے فوائد کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ اونٹ کے ہونٹ لٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔(ہم بچپن میں سنا کرتے تھے کہ):
    اونٹ رے اونٹ تیرے ہونٹ بڑے
    کیا کروں بی بی لٹک پڑے

    گال کے اندرونی جانب انگلی نما ابھار ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے منہہ کانٹوں سے زخمی نہیں ہوتا۔ اونٹ کے دانت تعداد میں 34ہوتے ہیں۔ اوپر کے جبڑے میں کترنے والے دانت نہیں ہوتے، اس کے دانت مستقل بڑھتے رہتے ہیں۔ اس لیے اونٹ ان کو مسلسل رگڑتا رہتا ہے تاکہ ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھیں۔

    قوت ہاضمہ:
    اونٹ کا ہاضمہ بھی نہایت قوی ہوتا ہے۔ خشک سالی کے دوران یہ سوکھے پودے، درختوں کی ٹہنیاں، یہاں تک کہ چمڑا، خیمے اور ہرن وغیرہ کی ہڈیاں تک کھا لیتا ہے۔ ان چیزوں کو ہضم کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ ہاضمے کی اس قوت کی ایک وجہ اس کے جگالی کرنے کا منفرد انداز ہے۔ یہ جگالی کے دوران نوالے کو پچاس ساٹھ مرتبہ چباتا ہے اور نوالے کو دائیں بائیں گھماتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے لعاب دہن مسلسل غذا میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے اونٹ ان اشیا کو بھی ہضم کر لیتا ہے، جن میں غذائیت کم ہوتی ہے۔ ان کو عام حیوانات ہضم نہیں کر سکتے۔

    اونٹ کا سینہ خاصہ تنگ سا ہوتا ہے۔ سینے کے نیچے کی جانب کافی دبیز ابھار ہوتا ہے۔ جسے کنب(callus) کہتے ہیں، یہ سخت اور موٹا ہوتا ہے۔ اونٹ جب بیٹھتا ہے تو یہی کنب زمین سے لگتا ہے۔ اس وجہ سے بیٹھنے کی حالت میں اس کا جسم زمین سے کچھ اوپر رہتا ہے۔

    آخر میں اس کی وہ صلاحیت ملاحظہ کیجیئے، جس کا نعم البدل سائنس بھی اس وقت تک دریافت نہیں کر سکی تھی، جب تک موٹر کار ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ اب تو سائنس نے گرمی، سردی اور ریگستان میں سفر کے لیے ایئر کنڈیشن کاریں، ہیٹر وغیرہ ایجاد کر لی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اونٹ کی ایک خاص صفت ایسی ہے جس کے آگے پہیوں والی گاڑیاں اور مشینیں بھی اپنی ہار ماننے پر مجبور ہیں۔

    یہ خصوصیت اونٹ کے پاؤں کے تلوے ہیں۔ یہ موٹے، نرم اور مضبوط پیڈ ہیں۔ ریگستان میں جہاں ریت کے تودے اور پہاڑ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں ، جہاں ریت کی دبیز تہیں میدان میں بچھی ہوتی ہیں۔ وہاں ایک حد تک تو ٹینکر اور ٹرک وغیرہ کام کرتے ہیں، لیکن گرمی میں ریگستان کی آگ کی تپتی ہوئی ریت میں ربڑ کے ٹائر جواب دے جاتے ہیں، وہاں صرف یہ صحرائی جہاز ہی اپنا سفر بھی جاری رکھتا ہے اور اپنی زندگی بھی قائم رکھتا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دیتا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر پیدا کیا ہے اور میرے اندر غور کرنے والوں کے لیے حق تعالیٰ شانہ کی قدرت کے عجیب نمونے ہیں۔

    راقم نے ان تین قسطوں میں بہت اختصار کے ساتھ اونٹ کی جسمانی ساخت پر منتخب تفصیل پیش کی ہے۔ ورنہ یہ موضوع بہت وسیع ہے۔ ہم نے اس کے گوشت، اس کے دودھ اور اس کے پیشاب کے خواص بیان نہیں کیے۔ مثلاً اونٹ کے دودھ مین وٹامن کی مقدار گائے کے دودھ سے تین گنا زیادہ ہے۔

    آخر میں حدیث عرینہ کی وضاحت کا بھی مختصر ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور نسائی میں اس حدیث کا معمولی رد و بدل کے ساتھ ذکر آیا ہے۔ حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ منورہ آکر مسلمان ہوئے اور وہیں رہنے لگے۔ وہ لوگ وہاں بیمار ہو گئے۔ ایک روایت کےے مطابق ان کے رنگ زرد پڑ گئے اور پیٹ بڑھ گئے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
    ترجمہ: ‘‘اگر تم ہمارے اونٹوں میں جا کر رہو اور ان کے دودھ پیئو اور (دوا کے طور پر) پیشاب کو استعمال کرو تو تمہاری صحت درست ہو جائے گی۔ اس حدیث کی بنیاد پر آنحضرتﷺ کی ذات مقدس پر رکیک اور نا قابل برداشت حملے کیے گئے۔ بعض لوگوں نے تو حدیث ہی سے انکار کر دیا۔ بعض نے اس کو پیشاب کے بجائے وہ دودھ قرار دیا جو حیوان بچہ جننے کے بعد دیتا ہے اور کچھ لوگوں نے اس حدیث سے پہلو تہی کرنے کو ہی بہتر سمجھا۔ لیکن حدیث میں پیشاب کا لفظ ہے اور کسی تاویل کا محتاج نہیں۔ اب طبی تحقیقات کے نتیجے میں اونٹ کے پیشاب سے دنیا کو کینسر کی ایک مؤثر دوا بھی حاصل ہوئی اور جگر کے کینسر کے لیے تو اس کو ایک اکسیر نسخے کی حیثیت حاصل ہے۔ جو لوگ خنزیر جیسے غلیظ جانور کا گوشت، چربی اور دوسرے ناپاک اجزا استعمال ہیں، یہ حدیث ان کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے۔ (ماخوز از اونٹ، مؤلفہ ڈاکٹر صلاح الدین قادری) و ما توفیقی الا باللہ۔

    روزنامہ اُمت، پاکستان


    محترم اراکین مجلس!

    نشان دہی کی جاتی ہے کہ مضمون نویس محمد ولی رازی صاحب نے اس مضمون میں ایک بار پھر اونٹ کو صوفی سے تشبیہ دی ہے اور وضاحت کی جاتی ہے کہ ریووین یاگیل(Reuven Yagil) انگریز نہیں بلکہ مشرقی یورپ کا یہودی النسل اسرائیلی شہری ہے لہٰذا وہ انگریز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس کے نام کے دونوں حصے عبرانی زبان سے ہیں۔ جس کے مصدقہ معانی آپ فضیلۃ الشیخ الجوجل سے اخذ کر سکتے ہیں۔ وہ اسرائیل کی بن گوریان یونیورسٹی کا ایک پروفیسر ہے ۔ پیشے کے اعتبار سے ماہر طب برائے حیوانات ہے۔ یہودی پروفیسر یاگیل، اونٹ ، اونٹ کے دودھ، گوشت اور اونٹ کی افزائشِ نسل وغیرہ پر تحقیق کے حوالے سے امتیاز رکھتا ہے۔ اسے 2007 میں اونٹ پر امتیازی تحقیق کے اعتراف میں بھارت کے قومی تحقیقاتی ادرہ برائے اونٹ جو بیکانیر، راجستھان میں واقع ہے، نے اونٹ کے بارےمیں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں اعزاز سے نوازا تھا۔ قبل ازیں وہ 1983 میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے، ایف اے او(فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن) کے لیے ایک کتاب‘‘ اونٹ کا دودھ بطور غذا’’ انگریزی اور عربی زبان میں مرتب کر چکا ہے۔ پروفیسر یاگیل، اونٹ سے متعلق ان تمام معلومات سے مکمل آگاہی رکھتا ہے جو عربی تہذیب و تمدن کے ساتھ ساتھ دیگر تمام تہذیبوں جہاں اونٹ پائے جاتے ہیں اور جو قرآن و احادیث نبویہﷺ میں وارد ہوئی ہیں ۔ پروفیسر یاگیل اور اس کی تحقیق کی تفصیلات یہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
     
  10. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا محترم توریالی صاحب۔ بہت اچھی اور معلوماتی شئرنگ ہے۔
     
  11. abrarhussain_73

    abrarhussain_73 --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اپریل 6, 2009
    پیغامات:
    371
    مہربانی جناب۔
     
  12. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    اچھی تحقیق ہے ـ اگرچہ ابھی مکمل نہیں پڑھی ـ محمد ولی رازی بہت اچھا لکھتے ہیں ـ میں نے کافی عرصہ تک ان کو پڑھا ہے ـ
     
  13. حرف خواں

    حرف خواں -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏مئی 3, 2014
    پیغامات:
    162
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ۔۔
    سبحان اللہ ،آللہ پاک نے اونٹ کو کیسے عجیب پیدا فرمایا ہے۔۔۔اونٹ کے بارئے میں ایک اور بات بہت مشہور ہے کہ اونٹ کینہ پرور بہت ہوتا ہے ،جب مالک اس کو مارتا ہے تو یہ اس مار کو یاد رکھتا ہے اور جب کبھی اس کو موقع ملتا ہے اپنا بدلہ چکاتا ہے ایک ایسے اونٹ کے بارئے میں میں خود جانتا ہوں‌ کہ اپنے مالک کو جان سے مار دیا تھا۔۔

    جزاک اللہ خیرا'' برادر توریالی،اونٹ کے بارئے میں بہت تخلیقی مضمون شیئر کیا ہے۔۔گو پیٹ یا کوہان میں پانی جمع کرنے والی کوئی بات مجھے اس مضمون میں‌ نظر نہیں‌ آئی شاید یہ بات غلط ہو ورنہ اس کا تذکرہ ضرور کیا جاتا ہے۔۔۔برادر اگر ممکن ہو تو ہرن سے مشک نکالنے والی کوئی تحقیق بھی شیئر فرمائیں۔۔۔۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں