مشورہ درکار ہے -2

بابر تنویر نے 'گپ شپ' میں ‏جون 2, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    محترم قارئین کرام السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
    آج پھر چند امور پر آپ سب کے مشورہ اور راۓ کا طالب ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ معزز اراکین مجلس مشورہ دینے میں کنجوسی نہیں کریں گے۔ میں نے گپ شپ کا زمرہ اس لیے چنا ہے کہ تمام اراکین اس میں راۓ دے سکیں۔ تو آیے چلتے ہیں موضوع کی طرف۔

    ا - دین کا مآخذ کیا ہے۔

    1- قران و سنت
    2- اکابر کے اقوال۔

    ب ) ایک مسلمان ہونے کے ناطے دین ہو یا دنیا میرے لیے اسلامی اقدار اور احکامات کی پر عمل پیرا ہونا لازمی ہے۔ آج سے 25 تیس سال پہلے جب انٹرنیٹ اتنا عام نہیں تھا تو ہمیں مطالعے کے اتنے مواقع میسر نہیں تھے۔ لیکن فی زمانہ انٹر نیٹ کے ذریعے ہر قسم کے ادبی، سائنسی، دینی وغیرہ کے لٹریچر تک ہماری رسائ بہت آسان ہے۔
    اس صورت حال میں ہمیں اپنے دین کو سمجھنے کے لیے قران، حدیث وغیرہ کا مطالعہ کرنا چاہیے یا دین کو صرف علماء کی ذمہ داری سمجھنا چاہیے۔

    ج) کوئ دینی مسئلہ پیش آنے کی صورت میں ہمیں کس عالم کے پاس جانا چاہیے۔

    1- وہ جو کہتا ہے کہ میں اپنی فقہ اور اپنے امام کے قول پر فتوی دوں گا۔
    2- دوسرے کا کہنا ہے کہ دیکھو قران و حدیث کی رو سے اس مسئلہ کا حل یہ ہے۔

    ج) میں کس عالم کی پیروی کروں۔

    1- ایک کہتا ہے کہ دین کو صرف علماء ہی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ آپ صرف اپنے فرقہ کے عالم کی پیروی کرو
    2- دوسرا کہتا ہے کہ دین کو علماء بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک عام آدمی کو بھی اپنے دین کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ تاکہ وہ خود بھی صحیع اور غلط کا فیصلہ کرنے کے قابل ہوسکے۔

    ہ) کسی ایک مسئلہ میں دو علماء کے درمیان اختلاف کی صورت میں میں کیا کروں۔

    1- اپنے فرقہ کے عالم کی بات کو آنکھیں بند کرکے مان لوں۔
    2- دونوں علماء کے نقطہ نظر کو قران و حدیث کی کسوٹی پر پرکھوں اور جس کا نقطہ نظر قران و حدیث کے موافق نظر گے اس کے قول پر عمل کروں۔

    آپ سب کی آراء کا انتظار رہے گا۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. azharm

    azharm -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏مئی 28, 2012
    پیغامات:
    449
    ا - دین کا مآخذ کیا ہے۔

    1- قران و سنت
     
  3. azharm

    azharm -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏مئی 28, 2012
    پیغامات:
    449
    ج) کوئ دینی مسئلہ پیش آنے کی صورت میں ہمیں کس عالم کے پاس جانا چاہیے۔

    2- دوسرے کا کہنا ہے کہ دیکھو قران و حدیث کی رو سے اس مسئلہ کا حل یہ ہے۔
     
  4. azharm

    azharm -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏مئی 28, 2012
    پیغامات:
    449
    ج) میں کس عالم کی پیروی کروں۔

    2- دوسرا کہتا ہے کہ دین کو علماء بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک عام آدمی کو بھی اپنے دین کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ تاکہ وہ خود بھی صحیع اور غلط کا فیصلہ کرنے کے قابل ہوسکے۔
     
  5. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
    1- دین کا ماخذ قرآن سنت هونا چاهیئے ..
    2- دین کو سمجهنے کے لیئے همارا مطالعہ اتنا وسیع هونا چاهیئے کہ اس قدر فتنے کے دور میں هم کو اتنی پہچان هونی چاهیئے کہ جو بهی کو دین اسلام کے بارے میں بات کررها هے وہ قرآن وسنت کے عین مطابق هے..
    3- اگر همیں اسلام کے بارے میں کوئ مسلہ هوتا بے شک همیں ایسے علماء کے پاس جانا چاهیئے جو همیں قرآن وسنت سے هی مسلہ بتایئں اس کے ساته ساته پهر بهی کچه شک هو تو مزید تحقیق ضرور کریں آنکهیں بند کرکے کسی کی بات پر یقین نہ کریں سب علماء بهی انسان هیں غلطی کا امکان هو سکتا هے جب همارے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے غلطیں هویئں بے شک ان کی غلطیاں انجانے میں هویئں همارے شیخ بهی جان بوجه کر نہیں انجانے میں کسی سے بهی غلطی هو سکتی هے ..
    4- بےشک علماء هم سے زیادہ جانتے هیں لیکن جو لوگ یہ کہتے هیں کہ کہ عام آدمی کے سمجهنے کے بس بات نہیں یہ سراسر غلط هے جو بهی انسان سیکهنا چاهے جتنی کوشش کرے گا اتنا هی دین کو زیادہ سمجهے گا اس کا مطالعہ اتنا وسیع هونا چاهیئے کہ غلط اور صیح کی پہچان هم خود بهی کر سکیں .
    5- جو بهی قرآن اور حدیث کے مطابق بتاے اس کی بات کو لے باقی سب کی بات کو چهوڑ دو
    جیسا کہ سب نے چار امام بناے هوے هیں حالانکہ چار هی کیوں جس نے بهی دین کی خدمت کی همارے امام هیں .. هر انسان یہ چاهتا هے کہ وہ اسی امام کی بات کو مانے جس کو اس نے پکڑا هوا هے حالانکہ ان سب امام کا قول هے کہ جہاں هماری بات کے مقابلے میں قرآن حدیث مل جاے تو هماری بات کو دیوار پر مار دو ... کسی بهی امام کے علاوہ کسی صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بات کے سامنے قرآن اور حدیث آجاے تو هم ان کی بات بهی قرآن اور حدیث کے مقابلے میں چهوڑ دیں گے باقی ساری دنیا کی بات تو ایک طرف هے ....
     
  6. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک اللہ خیرا وبارك اللہ فیک
    بہت اچها موضوع چنا هے هم نے اپنی سمجه کے مطابق تهوڑا بہت لکها هے . صیح فیصلہ تو همارے علماء هی کر سکتے هیں
     
  7. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
    وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

    ا - دین کا مآخذ کیا ہے۔
    1- قران و سنت

    ب ) ایک مسلمان ہونے کے ناطے دین ہو یا دنیا میرے لیے اسلامی اقدار اور احکامات کی پر عمل پیرا ہونا لازمی ہے۔ آج سے 25 تیس سال پہلے جب انٹرنیٹ اتنا عام نہیں تھا تو ہمیں مطالعے کے اتنے مواقع میسر نہیں تھے۔ لیکن فی زمانہ انٹر نیٹ کے ذریعے ہر قسم کے ادبی، سائنسی، دینی وغیرہ کے لٹریچر تک ہماری رسائ بہت آسان ہے۔
    اس صورت حال میں ہمیں اپنے دین کو سمجھنے کے لیے قران، حدیث وغیرہ کا مطالعہ کرنا چاہیے -

    ج) کوئ دینی مسئلہ پیش آنے کی صورت میں ہمیں کس عالم کے پاس جانا چاہیے۔
    2- دوسرے کا کہنا ہے کہ دیکھو قران و حدیث کی رو سے اس مسئلہ کا حل یہ ہے۔

    د) میں کس عالم کی پیروی کروں۔
    2- دوسرا کہتا ہے کہ دین کو علماء بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک عام آدمی کو بھی اپنے دین کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ تاکہ وہ خود بھی صحیع اور غلط کا فیصلہ کرنے کے قابل ہوسکے۔

    ہ) کسی ایک مسئلہ میں دو علماء کے درمیان اختلاف کی صورت میں میں کیا کروں۔
    2- دونوں علماء کے نقطہ نظر کو قران و حدیث کی کسوٹی پر پرکھوں اور جس کا نقطہ نظر قران و حدیث کے موافق نظر گے اس کے قول پر عمل کروں۔
     
  8. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

    ا - دین کا مآخذ کیا ہے۔
    1- قران و سنت

    ب ) ایک مسلمان ہونے کے ناطے دین ہو یا دنیا میرے لیے اسلامی اقدار اور احکامات کی پر عمل پیرا ہونا لازمی ہے۔ آج سے 25 تیس سال پہلے جب انٹرنیٹ اتنا عام نہیں تھا تو ہمیں مطالعے کے اتنے مواقع میسر نہیں تھے۔ لیکن فی زمانہ انٹر نیٹ کے ذریعے ہر قسم کے ادبی، سائنسی، دینی وغیرہ کے لٹریچر تک ہماری رسائ بہت آسان ہے۔
    اس صورت حال میں ہمیں اپنے دین کو سمجھنے کے لیے قران، حدیث وغیرہ کا مطالعہ کرنا چاہیے -

    ج) کوئ دینی مسئلہ پیش آنے کی صورت میں ہمیں کس عالم کے پاس جانا چاہیے۔
    2- دوسرے کا کہنا ہے کہ دیکھو قران و حدیث کی رو سے اس مسئلہ کا حل یہ ہے۔

    د) میں کس عالم کی پیروی کروں۔
    2- دوسرا کہتا ہے کہ دین کو علماء بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک عام آدمی کو بھی اپنے دین کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ تاکہ وہ خود بھی صحیع اور غلط کا فیصلہ کرنے کے قابل ہوسکے۔

    ہ) کسی ایک مسئلہ میں دو علماء کے درمیان اختلاف کی صورت میں میں کیا کروں۔
    2- دونوں علماء کے نقطہ نظر کو قران و حدیث کی کسوٹی پر پرکھوں اور جس کا نقطہ نظر قران و حدیث کے موافق نظر گے اس کے قول پر عمل کروں۔
     
  9. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جن محترم قارئین نے اپنی راۓ کا اظہار کیا ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
    امید کرتا ہوں کہ مزید اراکین بھی اپنی راۓ کا اظہار فرمائیں گے۔
     
  10. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    وعلیکم اسلام و رحمته الله
    بیشک دین کا ماخذ قران و سنت هی هے.
    میرے خیال میں هر مسلمان کے لیے دین کا علم اس حد تک ضروری هے که وه مختلف علماء کی رائے کو جان سکے که کس کی رائے قرآن و سنت کے مطابق هے یا قریب تر هے.
    یه اس وقت هی ممکن هو کا جب فرد کا دینی مطالعه وسیع هو. اور کم سے کم ضروری اسلامی عقاید کا علم هو.
    ایک حقیقت یه بهی هے که هر شخص کا فهم مکمل بهی نهی هو سکتا. لهذا علماء کی راهنمائی کی ضرورت پڑتی هے. اور اگر ایسا نه هو تو قرون اولی سے لے اب تک علماء کی ضرورت نه رهتی.
    الله هم سب کو سیدهی راه پر چلائے. آمین
     
  11. حرف خواں

    حرف خواں -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏مئی 3, 2014
    پیغامات:
    162
    وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

    شکریہ محترم برادر آپ نے اس مجہول کو بھی اس قابل سمجھا کہ یہاں مدعو فرمایا۔۔برادر محترم آپ کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا مشکل تو نہیں مگر مجھے یہ خدشہ ضرور ہے کہ میرے جوابات پر کوئی صآحب علم آکر فتوی دے کہ میں عوام الناس کو گمراہ کر رہا ہوں اور نتیجتا'' آپ یا کوئی اور آکر میرے پوسٹس کو ڈیلیٹ کر دیں تو ایسی صورتحال شاید کچھ زیادہ خوشگوار ثابت نہ ہوگی۔۔میری محنت اکارت چلی جائے گی۔۔ جسطرح ابھی کچھ دیر پہلے میرے پوسٹس کو ضائع کر دیا گیا۔۔

    آپ ماشاءاللہ خود صآحب علم اور طویل تجربہ رکھتے ہیں آپ کو مشورہ دینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔۔دوسری بات علمائے دین فرماتے ہیں کہ بحث و مباحثوں سے پرہیز کرنا چاہیئے اس واسطے میں نے آپکے اک ذاتی پیغام کا جواب نہیں دیا کہ بحث و مباحثہ میں عام طور سے سمجھنے سمجھانے کا جذبہ مغلوب ہوجاتا ہے اور اپنی اپنی بات منوانے کا جذبہ غالب آجاتا ہے۔۔خصوصا’’ جب کہ آدمی علوم شرعیہ سے پورے طور پر واقف نہ ہو وہ حدود شرعیہ کی رعائت کرنے سے قاصر رہتا ہے بسا اوقات ایسا ہوگا کہ ایک چیز غلط اور ناحق ہوگی مگر وہ اسے حق ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔۔بسا اوقات اس بحث و مباحثہ میں وہ اللہ تعالٰی کے مقبول بندوں کی عیب جوئی کرے گا اور ان پر زبان طعن دراز کرکے اپنا اعمال نامہ سیاہ کرے گا۔۔اور یہ ساری چیزیں مل کر اسے نہ صرف جذبہ عمل سے محروم کریں گی بلکہ اس کی ذہنی ساخت میں قبول حق کی استعداد کم سے کم تر ہوتی جائے گی۔۔۔

    اس لئے میری طرف سے معذرت قبول فرمائیں۔۔۔۔
    والسلام علیکم
     
  12. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    بھائ یہاں تو بحث و مباحثہ کے محل ہی نہیں ہے۔ میں دونوں اختیارات کا ذکر کیا ہے۔ اگر آپ چاہتے تو مختصرا لکھ سکتے تھے کہ آپ کے نزدیک کونسا طریقہ درست ہے ۔ اور کیوں۔ بہرحال۔
    اور پھر میں نے کسی بہن یا بھائ کو تبصرہ کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ آپ تبصرہ نہیں کرنا چاہتے تو نہ سہی۔ اور بھی بہت سے بہن بھائیون نے تبصرہ نہیں کیا۔ ذاتی تبصرہ کا جواب بھی آپ نے نہیں دیا تو اس میں میرے لیے کوئ ناراضگی کی بات نہیں ہے۔
    اس موضوع کے بارے میں ایک عام مسلمان کے ہوتے ہوۓ میں اپنے خیالات کا بھی اظہار کروں گا۔ ان شاء اللہ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں