مسجد الاقصیٰ 1967ء کے بعد ایک بار پھر بند کر دی گئی۔محمود عباس نے اسرائیلی اقدام اعلانِ جنگ سے تعب

توریالی نے 'خبریں' میں ‏اکتوبر، 30, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    انتہا پسند یہودی راہب یہودا گلک (مسجد الاقصیٰ کی جگہ ہیکل سوم کی تعمیر کا نقشہ دکھاتے ہوئے نیلے حروف کے ربط پر) Yehuda Glickپر ملالہ اور حامد میر کی طرز پرگولیاں کس نے چلائیں؟ ڈرامہ کیا ہے؟ پردہ اٹھتا ہے اگلی نشست میں
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    اسرائیلی وزیر اعظم کا فلسطینیوں کے گھر مسمار کرنے کا حکم
    بڑی خونریزی کا خدشہ ہے، یورپی یونین، بیت المقدس میں تشدد ناقابلِ برداشت ہے، اردن
    [​IMG]
    اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یا ہو نے فلسطینیوں کے گھر مسمار کرنے کا ایک اور حکم نامہ بروز جمعرات 6 نومبر کو جاری کردیا ہے، جس کے بعد اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے ترجمان نے خبر رساں اداروں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم نیتن یاہو نے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کا فیصلہ اعلیٰ فوجی حکام کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں کیا۔اسرائیلی ترجمان نے بتایا کہ اجلاس میں مقبوضہ بیت المقدس میں امن قائم کرنے سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات پر بھی غور کیا گیا۔

    دوسری جانب یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فیدیریکا موگیرینی Federica Mogherini نے خبر دار کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے لیے اگر کوئی بڑی مذاکراتی پیش رفت نہ ہوئی تو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بڑی خونریزی کی نئی لہر دیکھنے میں آ سکتی ہے۔مقبوضہ بیت المقدس میں آنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے موگیرینی نے کہا کہ نئی یہودی بستیوں کی تعمیر جیسا قدم امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

    دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم نے اردنی فرمان روا شاہ عبداللہ کو یقین دلایا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں مسجدِالاقصیٰ کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھا جائے گا، یہودیوںکو وہاں عبادت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔اسرائیل مسجد الاقصیٰ کے تحفظ کے حوالے سے اردن کی نگرانی کے فیصلے پر قائم ہے۔ اردنی شاہی دیوان سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ شاہ عبد اللہ دوم نے واضح کیا ہے کہ اردن مسجد الاقصیٰ کی حرمت اور تقدس پر کسی قسم کے حملے برداشت نہیں کرے گا۔اسرائیلی حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجد الاقصیٰ کی بندش اور مقدسات اسلامیہ کے خلاف ہونے والی پر تشدد کاروائیوں کو سختی سے روکنا چاہیئے۔

    روزنامہ جسارت، پاکستان، بی بی سی
     
  3. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    انتہا پسند یہودی راہب یہودا گلک پر ملالہ اور حامد میر کی طرز پرگولیاں کس نے چلائیں؟ ڈرامہ کیا ہے؟

    دائیں بازو کے انتہا پسند یہودی راہب یہودا گلک پر چلائی گئی گولیوں کے ضمن میں اسرائیلی حکومت کا بیانیہ بہت سے سوالات اٹھاتا اور شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ تاہم اسرائیلی حکومت کا بیانیہ، دائیں بازو کے انتہا پسند یہودی راہب یہودا گلک کے خودکھینچے اور ترتیب دیے گئے اس خاکے پر پورا اترتا ہے ،جس میں یہودا گلک نے بیان کیا تھا کہ یہودیوں کے خلاف ایک بہت ہی بڑا دہشت گردانہ حملہ ،اس کی (یہودا گلک) کی اس شدید خواہش کے پورا کرنے کے منصوبے کو آگےبڑھانے کا سبب بنے گا جس کے تحت مسجد الاقصیٰ کی جگہ تیسرے یہودی ہیکل کا وجود عمل میں آئے گا۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہودا گلک مسجد الاقصیٰ کے خاتمے کی تحریک چلا کر فلسطینیوں کو تشدد پر اتر آنے پر مجبور کرتے ہوئے خود اپنے ہی دام میں آکر خود کو مجروح کروا بیٹھا۔ اس ضمن میں کوئی تعجب نہیں کہ انتہا پسند یہودیوں بشمول یہودا گلک کو ،مسجد الاقصی ٰ کی تباہی اور مکمل انہدام کے لیے اسرائیلی حکومت کا تعاون اور پشت پناہی حاصل ہے۔ لہٰذا انتہا پسند یہودیوں اور اسرائیلی حکومت کے مسجد الاقصیٰ کو ختم کرددینے پر کمر بستہ یہودی صیہونی منصوبوں کے خلاف، امتِ مسلمہ اور بالخصوص القدس کے فلسطینیوں کے بڑھتے ہوئے ردِ عمل کے نتیجے میں، ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت پیدا کیا جانے والا بڑھتا ہوا تشدد ، صیہونی عزائم کے منصوبے کا ایک اہم جزو ہے۔


    اگر صیہونی عزائم، ہیکلِ سوم کی تعمیر کے لیے مسجد الاقصیٰ کی مسماری کے ضمن میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو وہ یہودی انتہا پسند جو یہودی ہیکلِ سوم کے پر جوش حامی ہیں ، کا یقین ہے کہ اس سے خطے میں نہ صرف شدید کشیدگی پیدا ہو گی بلکہ ایک عالمی جنگ کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔

    گزشتہ کئی مہینوں سے فلسطینی مسلمانوں کی املاک پر بزورِ قوت قبضہ کرنے کے لیے اسرائیلی آباد کار وں کو اُکسانے اور ان کی حوصلہ افزائی پر کمر بستہ نیو یارک کے پیدائشی انتہا پسند یہودی راہب یہودا گلک اور موشے فے لن Moshe Feiglin جو اسرائیلی حکومت کی پارلیمان کے نائب معتمد (ڈیپیوٹی سپیکر Deputy Speaker) ہیں ، مسجد الاقصیٰ کی حدود میں آئے روز کی چڑھائی کے ذریعے بیت المقدس کے فلسطینیوں کے خلاف تشدد کو ہوا دیتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ واضح رہے کہ موشے فے لِن ، انسانیت سے عاری وہ درندہ ہے جس نے غزہ کی بجلی کاٹ دینے کی اسرائیلی حکومت کو تجویز و سفارشات پیش کی تھیں، جس کی وجہ سے غزہ کے کئی شہری، جو گردے کی بیماری میں مبتلا تھے، خون کی صفائی کی طبی سہولت و علاج کی عدم موجودگی کے باعث جاں بحق ہو گئے جو موشے کا مقصود تھا۔

    ذرائع ابلاغ کے مطابق 29 اور 30 اکتوبر 2014ء کی درمیانی شب ، جب یہودا گلک ، ایک کانفرنس، جس کا عنوان ، ’’یہودیوں کی جبلِ صیہون کی جانب واپسی‘‘[واضح رہے کہ یہودی ، مسجد الاقصیٰ اور اس کے احاطے کو جبلِ صیہون یا ٹیمپل ماؤنٹ Temple Mount کے نام سے موسوم کرتے ہیں] کے اختتام پر ، گھر روانہ ہونے کے لیے جا رہے تھے کہ ان کا سامنا ایک قاتل سے ہو گیا جس نے یہودا گلک پر آتشیں اسلحہ سے گولیاں داغیں، جس کے نتیجے وہ شدید طور پر مجروح ہو گئے اور ہسپتال لے جائے گئے اور ان کی طبی صورت حال اسرائیل کی جانب سے مخدوش بتائی گئی۔

    اسرائیلی حکومت کی پارلیمان کے نائب معتمد موشے فے لن نے ذرائع ابلاغ کو بہ حیثیت عینی شاہد بتایا گیا کہ یہودا گلک کی جانب پہنچ کر ، قتل پر کمر بستہ ایک فرد نے عربی لہجہ میں عبرانی زبان میں آتشیں اسلحہ کے استعمال سے قبل سوالات پوچھ کر اس بات کا تعین کیا کہ قتل کیا جانے والا شخص یہودا گلک ہے۔ یہودا گلک کے قتل پر کمر بستہ فرد نے یہودا گل پر آتشیں اسلحہ سے گولیاں چلانے کے بعد ایک موٹر سائیکل پر راہِ فرار اختیار کیا۔

    اسرائیل کی حکمران سیاسی جماعت لیکود کے رُکن، موشے فیلن ، کے مطابق، یہودا گلک پر حملہ اُس وقت کیا گیا جب وہ میناہم بینگن (سابقہ اسرائیلی سربراہ) کے یادگار مرکز سے ، کانفرنس کے اختتام پر اپنی گاڑی میں سامان رکھتے ہوئے فلسطینی دہشت گرد کی گولیوں کا نشانہ بنے۔

    موشے فے لِن نے کہا کہ وہ ، ’’یہودا گلک پر قاتلانہ حملے کے باعث کسی حد تک حیرت کا شکار ہیں ، لیکن وہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک ایسا دہشت گردی پر مبنی واقعہ کسی وقت بھی وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ موشے فے لِن نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت دہشت گردی کے خلاف اپنے اقدامات میں کمزوری اور نا اہلی کی مرتکب رہی ہے جس کے باعث یہودا گلک پر قاتلانہ حملے کے کوشش واقع ہوئی اور اس کے علاوہ ہم ان رعایتوں پر بھی احتجاج کا حق رکھتے ہیں ، جس کے باعث جبل صیہون اور الاقصیٰ کے احاطے پر عبادت کے لیے پابندیاں عائد کی گئیں، جس سے یہودی عبادت گزار اور دیوارِ گریہ کے یہودی زائرین شدید طور پر متاثر ہوئے ہیں۔


    فلم میں دکھائی گئی دیوار گریہ کے عین پرلی طرف مسجد الاقصیٰ ہے
    ایک اسرائیلی اخبار کا کہنا ہے کہ اس قسم کے واقعے کا ظہور ہر حالت میں متوقع تھا ، چاہے اس کی توقع یہودا گلک کرتے یا نہ کرتے۔ یاد رہے کہ یہودا گلک پر حملے سے ایک ہفتہ قبل، یہودا گلک نے کہا تھا کہ جبل صیہون پر صورت حال میں تبدیلی، صرف اُسی وقت آئے گی کہ جب تک کسی یہودی، یا یہودیوں کے خلاف دہشت گردانہ عمل وقوع پذیر نہیں ہو پاتا۔ اسرائیلی اخبار حاریتز سے گفتگو کے دوران یہودا گلک نے ، ایک سوال کے جواب میں، کہ مسجد الاقصی کی جگہ یہودیوں کے تیسرے ہیکل کے قیام سے متعلق صورت حال میں کب تبدیلی واقع ہوگی، کے جواب میں یہودا گلک نے کہا تھا کہ ، عربوں کی جانب سے جوں ہی ، جبل صیہون (مسجد الاقصیٰ اور اس کا احاطہ) پر کسی یہودی کو نقصان پہنچایا جائے گا، تو اسرائیل کا وزیر اعظم خواب (نیند) سے بیدار ہو کر دیر ہونے سے پہلے یہودیوں کے حق میں اقدام کرے گا۔

    سطورِ بالا میں مذکور کردہ ، یہودا گلک، اور اسرائیلی پارلیمان کے نائب معتمد موشے فے لِن ، اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ اور اسرائیلی حکومت کے مسجد الاقصیٰ کی بندش سے متعلق بیانات، چند سوالوں کو جنم دیتے ہیں۔ اگر، اسرائیلی پارلیمان کے نائب معتمد موشے فے لَن کے بیان کے مطابق، جس میں وہ خود کو یہودا گلک پر حملے کے دوران عینی شاہد بیان کرتے ہیں، اور یہودا گلک پر حملے کے وقت، یہودا گلک کے اس قدر قریب تھے ، کہ حملہ آور کے عربی لہجے کا تعین بھی کر سکتے تھے، تو ان پر بھی یہودا گلک کے ساتھ ساتھ قاتلانہ حملہ کیوں نہ کیا گیا؟ جب کہ موشے فے لِن کو فلسطین کا بچہ بچہ بھی جانتا ہے، جس کی وجہ فے لن کی فلسطینیوں سے از حد دشمنی ہے اور فے لن نے یکم اگست 2014ء کو اپنے فیس بک کے صفحے پر ایک بیان تحریر کیا تھا جس میں فلسطینیوں کو نازی جرمنی کی طرح کے کیمپوں میں بند کرنے اور ان کی نسل مٹا ڈالنے کی تجاویز پیش کی تھیں۔ فے لن کے عبرانی زبان میں جاری کردہ بیان پر نہ صرف فلسطینیوں کی جانب سے بلکہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے لوگوں نے شدید تنقید کی تھی اور اسے جنگی جرائم اور نشل کش قرار دیا گیا تھا۔ اس حقیقت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے موشے فے لن پر قاتلانہ حملے کا زیادہ جواز بنتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اسرائیلی حکومت کا ایک اہم رکن ہے جب کہ یہودا گلک ایک انتہا پسند یہودی ضرور ہے لیکن اتنا مشہور نہیں جتنا کہ موشے فے لن۔

    موشے فے لن کا یہودا گلک پر حملے کا عینی شاہد ہونے کا بیان من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی ہے، وہ اس لیے کہ موشے فے لن نے خود اپنے فیش بک کے صفحے پر بار بار لکھا ہے کہ اسے قتل کر دینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، جب کہ یہودا گلک کو کسی نے بھی قتل کی دھمکی نہیں دی اور نہ ہی یہودا گلک نے کوئی ایسا بیان دیا ہے۔

    اسرائیلی اخبار حاریتز نے عینی شاہد کے مطابق خبر دی ہے کہ یہودا گلک پر حملہ کرنے والے نے یہودا پر تین گولیاں چلانے سے پہلے اُس سے عربی زدہ لہجے کی عبرانی زبان میں پوچھا کہ، کیا تم یہودا گلک ہو؟ علاوہ ازیں یہودا کے حملہ آور نے حملے کے بعد عبرانی میں کہا کہ، یہودا تم نے مجھے بہت تنگ کر رکھا ہے۔ اس بیان پر عبرانی اور عربی زبان کے لہجوں کے ماہرین نے گہرے شک کا اظہار کیا ہے۔نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ماہر لسانیات اور عربی زبان کے نائب پروفیسر اوری ہوریش Uri Horesh کا کہنا ہے ، کیونکہ حملہ آور کی تمام تر عبرانی گفتگو میں صرف ایک مقام پر اور وہ بھی اگر، ’’عین‘‘ کی ادائیگی عربوں کی طرح حلقوم سے ادا کی گئی ہے تو یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ بولنے والا عرب ہے اور اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہودا کو بولے گئے جملے والے کا تعلق عرب نژاد اسرائیلی یہودی کا بھی ہو سکتا ہے۔ موشے فے لن کے مبینہ بیان کے مطابق حملہ آور نے عربی زدہ لہجی کی عبرانی میں جو الفاظ ادا کیے وہ یوں ہیں:

    پہلا جملہ: ہائیم اتا یہودا گلک؟ کیا تم یہودا گلک ہو؟ یہاں عبرانی لفظ ہائیم کا مطلب ’’کیا‘‘ ہے اور’’ اتا‘‘ کا مطلب تم ہے۔ اور صرف اس جملے میں اتا کی ادائیگی میں عربوں کی طرح حلقوم سے ادا کیے گئے ’’عین‘‘ کے امکان پر اسرائیلی ماہر لسانیات نے بحث کی ہے جس کے مطابق عربی نژاد یہودی بھی ’’عین‘‘ کو حلقوم سے ہی ادا کرے گا۔

    دوسرا جملہ: یہودا اتسبنتا اوتی۔ یہودا تم نے مجھے ستایا ہے۔اس جملے میں کہیں پر بھی ’’عین‘‘ کی موجودگی یا ادائیگی کا امکان نہیں ہے۔ کیوں کہ دونوں جملوں میں صرف ایک مقام کے علاوہ کہیں پر بھی عبرانی زبان کی رو سے حروفِ صوامت نہیں آتے۔ یہودی پروفیسر ہوریش کا کہنا ہے کہ اشکنازی یہودیت سے متاثرہ نئی عبرانی زبان میں حروفِ صوامت کے علاوہ بھی دیگر عوامل درکار ہیں جو نئی عبرانی زبان اور عربی زبان کے لہجوں میں تمیز دلا سکیں۔ پروفیسر ہوریش کا مزید کہنا ہے کہ حملہ آور کے بارے میں موشے فے لن کے بیان کے مطابق عبرانی میں ادا کیے گئے جملے اس قدر مختصر ہیں کہ ایک عام فرد کے لیے یہ تعین کرنا ناممکن ہے کہ حملہ آور کا لہجہ اس کے عرب ہونے کو ثابت کرسکے۔

    لہٰذا موشے فے لن کا بیان قطعی طور پر مشکوک ہے اور اس کا اصل مقصد فلسطینیوں کے خلاف نفرت اور اسرائیلیوں کی جانب سے بہی طورِ جواز شدید اقدام پر ابھارنا ہے۔ اس بارے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ موشے فے لن جو فلسطینیوں کی نسل کُشی کا علی الاعلان حمایتی ہے، فلسطینیوں کو یہودا گلک پر حملے میں ملوث کرنے کے لیے جھوٹ سے کام نہ لے۔ واضح رہے کہ اب تک اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے، نہ تو حملہ آور کی کوئی تصویر جاری کی ہے اور نہ ہی اسرائیلی حکام کی طرف سے حملہ آور کا حلیہ جاری کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گولیاں لگنے سے زخمی ہونے والے یہودا گلک کی بھی زخمی حالت کی کوئی تصویر وغیرہ جاری نہیں کی گئی ہےجس کا علاج یروشلم کے شارے زےدیک میڈیکل سینٹر میں بتایا جا رہا ہے۔

    یہودا گلک پر مبینہ حملہ آور کو یہودا گلک پر حملے کے چند ہی گھنٹوں بعد جس سُرعت سے دھونڈ لیا گیا اور جس بہیمانہ انداز میں اسے ماورائے عدالت گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا ، یہ ظاہر کرتا ہے کہ تمام تر مذموم ناٹک پہلے سے طے شدہ تھا۔

    32سالہ معاز حجازی کے ماورائے عدالت قتل سے متعلق جاری کی گئی دو خبروں کے بیانیے میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ پہلی خبر اسرائیلی اخبار حاریتز کے مطابق بتایا گیا کہ ، اسرائیلی پولیس اور اسرائیل کی شین بیت نامی سیکیوریٹی ادارے نے بتایا کہ مشتبہ شخص گرفتاری سے بچنے کے لیے مکان کی چھت پرچڑھ کر شمسی توانائی کے تختوں (سولر پینلز) کے پیچھے جا چھپا۔ جب اسرائیلی پولیس کے افراد نے چھت پر پہنچ کر اس کے گرد گھیرا تنگ کیا تو مشتبہ حجازی نے اسرائیلی پولیس پر گولیاں چلانا شروع کر دیں اور اسرائیلی پولیس کی جانب سے جوابی گولیاں لگنے سے مشتبہ مارا گیا۔

    اسرائیلی اخبار حاریتز کے برعکس معان نیوز ایجنسی کی خبر کے مطابق اسرائیلی سپیشل فورسز نے الثوری کے علاقے سلوان میں رات کے ڈھائی بجے مکانات کی چھتوں کی تلاشی شروع کر دی اور گولیوں کے تبادلے کے نتیجے میں 32سالہ معاذ حجازی گولیاں لگنے سے مارا گیا۔ تاہم عینی شاہدین کے مطابق، حجازی گولیاں لگنے کے باعث نقل و حرکت یا جوابی حملے سے سے محروم ہو چکا تھا جس کے بعد اسرائیلی مسلح دستے حجازی کے گھر زبردستے داخل ہو گئے اور مکان کی چھت پر جا چڑھے۔ جس کے بعد اسرائیلی مسلح دستے کے افراد نے ، گولیاں لگنے کے باعث بے تحاشا خون بہنے سے مرتے ہوئے حجازی کے جسم پر پانی کی ایک وزنی ٹینکی دے ماری۔ ایک مقامی سپورٹس کلب کے مالک ہانی غیث نے معان نیوز ایجنسی کو بتایا کہ اسرائیلی مسلح دستے حجازی کے گھر میں اس وقت داخل ہوئے جب انہیں یقین ہو گیا کہ حجازی گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو چکا ہے اور کسی مزاحمت کے قابل نہیں رہا۔

    مڈل ایسٹ آئی Middle East Eye کے ایک صحافی ڈین کوہنDan Kohen نے حجازی کے مارے جانے کے بعد اس کے گھر جا کر اسرائیلی حکام کے بیانیے کے ضمن میں حقیقی صورت حال کا انکشاف کیا۔ صحافی ڈین کوہن کو معاذ حجازی کے ایک پڑوسی نے بتایا کہ وہ تمام تر واقعے کا براہِ راست اور عینی شاہد ہے۔ پڑوسی نے بتایا کہ میں نے سب کچھ ہوتے دیکھا۔ حجازی کے پاس کوئی ہتھیار یا بندوق نہیں تھی۔ وہ اپنے مکان کی چھت پر تھا اور پولیس اسے با آسانی حراست میں لے سکتی تھی لیکن اسرائیلی پولیس ایسا ہرگز نہیں چاہتی تھی۔ اسرائیلی پولیس اسے قتل کر نے پر تلی ہوئی تھی۔

    ایک اور پڑوسی 23 سالہ بلال برقان کے مطابق، وہ ایک قریبی مکان کی چھت ، جہاں سے معاذ حجازی کے مکان کی چھت بخوبی نظر آتی تھی، نے صحافی ڈین کوہن کوبتایا کہ اس نے اسرائیلی پولیس کی جانب سے وسیع پیمانے پر برپا کیے جانے والے تشدد اور بے تحاشا گولیاں چلائے جانے کی کاروائی دیکھی۔ برقان نے بتایا کہ جب حجازی گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو گیا تو اسرائیلی پولیس نے اس کے سر میں انتہائی قریب سے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ سر میں انتہائی قریب سے گولی مارنے کا عمل ، حریف کی موت کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے اور انگریزی میں Confirming the kill کہلاتا ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والی مقتول معاذ حجازی کی تصویر میں صاف نظر آنے والے برقی برمے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے افسردگی اور طنزیہ انداز میں برقان نے صحافی کوہن کو کہا کہ ،یہی وہ واحد ہتھیار ہے جس سے معاذ حجازی لیس تھا۔ صحافی ڈین کوہن نے ٹوئٹر پر ایک تصویر جاری کی جس کے ساتھ یہ بیان کیا گیا ہے کہ، میں گزشتہ رات کے حملے میں مشتبہ قرار دیے جانے والے معتاذ حجازی کے گھر کی چھت پر ہوں جسے آج صبح اسرائیلی مسلح دستوں نے ہلاک کر دیا۔ صحافی کوہن نے ٹوئٹر پر اپنے دوسرے تصویری بیان میں وہ تصویر جاری کی ہے جس میں معتاذ حجای کے مکان کی چھت کے فرش پر پڑا برقی برما دکھایا گیا ہے اور کوہن نے لکھا ہے کہ ، عینی شاہدین کے مطابق یہ ہے وہ ہتھیار، جس سے حجازی لیس تھا۔ صحافی کوہن کا کہنا ہے کہ حجازی خاندان کو متنبہ کر دیا گیا ہے کہ ان کا مکان مسمار کر دیا جائے گا۔

    [​IMG]
    مقتول، مرحوم حجازی کی چھت پر ٹوٹی ہوئی الیکٹرک ڈرل مشین
    مرحوم حجازی کی چھت پر پڑی نعش کا منظر
    دریں اثنا، عالمی ذرائع ابلاغ نے نے یہودا گلک کے مذموم منصوبے اور اصل عزائم کی حسبِ معمول پردہ پوشی کی ہے۔ مثال کے طور پر نیو یارک ٹائمز نے یہودا گلک کے بارے میں نرم الفاظ استعمال کرتے ہوئے اُسے ایک تحریک کار کے طور پر بیان کیا ہے جو محض یہودیوں کے لیے یروشلم میں عبادت کے لیے مزید حقوق اور یہودیوں کے مقدس مقامات تک رسائی میں اضافہ چاہتا ہے۔ تاہم حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ یہودا گلک کی گرفتاریوں اور تشدد پر اُکسانے کی ایک طویل فہرست ہے۔ یہودا گلک ایک ایسی تحریک کا کلیدی رکن ہے، جن کے مقاصد میں مسجد الاقصیٰ کے مکمل خاتمے اور اس کی جگہ ایک تیسرے یہودی ہیکل کی تعمیر ہے اور یہودا گلک کو اس ضمن میں اسرائیلی حکومت کی اعلیٰ ترین سطح تک مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہودا گلک، ایک تنظیم جس کا نام، دی ٹمپل ماؤنٹ انسٹیٹیوٹ ہے ، کا بانی اور ڈائریکٹر ہے اور اس تنظیم کو اسرائیلی حکومت کی مکمل حمایت ، امداد و تعاون حاصل ہے۔ ٹمپل ماؤنٹ اور اس سے ملتی جلتی تنظیمیں، جو تیسرے یہودی ہیکل کی تعمیر کی تحاریک چلاتے رہتے ہیں ، اسرائیلی حکومت سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں اور اپنی کاروائیوں کو جاری رکھنے، انہیں آگے بڑھانے کے لیے اسرائیلی حکومت سے مالی امداد بھی پاتے رہتے ہیں۔

    ستمبر 1996ء میں ، پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہونے والے بن یامین نیتن یا ہو نے ٹمپل ماؤنٹ جیسی تنظیموں سے ساز باز کر کے، مسجد الاقصیٰ کے احاطے کے نیچے اثار قدیمہ کی تلاش کے بہانے ایک سرنگ کھودنے کا منصوبہ قائم کیا۔ اس پر مسلمانوں نے یہ مؤقف قائم کیا کہ اسرائیلی اقدام مسجد الاقصیٰ کو نقصان پہنچانے کے در پے ہے اور حالات نے سنگینی اختیار کر لی جس کے نتیجے میں درجنوں فلسطینی جاں بحق اورپندرہ اسرائیلی مارے گئے۔ اس کے بعد 2000ء میں اسرائیلی حزبِ اختلاف کے نمائندہ ایریل شیرون نے سینکڑوں یہودی قابض قوتوں کے ساتھ الاقصیٰ کے احاطے پر چڑھائی کر دی۔ اس کی وجہ سے فلسطین کی دوسری بڑی مزاحمتی تحریک انتفاضہ دوم کا آغاز ہو گیا تو دوسری جانب ٹمپل ماؤنٹ اور اس سے ملتی جلتی تنظیموں کی مسلمانوں، فلسطینیوں اور الاقصیٰ کے خلاف ہمت اور بڑھ گئی۔

    یہودیوں کی جانب سے ٹمپل ماؤنٹ جیسی تحاریک، جنہیں اسرائیلی حکام کی حمایت حاصل ہے، 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے خاتمے کے بعد اسرائیل پر عائد عالمی سمجھوتے کی خلاف ورزی ہے، جس کے تحت اسرائیل بیت المقدس اور مسجد الاقصیٰ کی صورت جوں کی توں، جیسی کہ 1967ء میں تھی، رکھنے کا پابند ہے۔

    جاری ہے . . .
     
  4. عبدالرؤف

    عبدالرؤف رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 4, 2014
    پیغامات:
    55
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کو جزائے خیر سے نوازتا رہے آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نہیں حضرت ! میرے ایک دوست محمد رفیق خان صاحب (شہید ان شاءاللہ) نے چھہ سال پہلے اردو مجلس کا تعارف کرایا تھا ان کا اپنا یہاں کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے مگر دینی ودنیاوی مسائل میں وہ ہماری راہنمائی اسی فورم کے ضریعے سے کیا کرتے ۔ اللہ تعالیٰ قبول کرے ۔۔۔
    ---------------------------------------------------
    علم امیر کیلئے زینت اور غریب کیلئے دولت کی سی حیثیت رکھتا ہے
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  5. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    فلسطینی مسلمانوں کی شدید مزاحمت کے باعث اسرائیل نے مسجد الاقصیٰ میں نوجوان مسلمانوں کے داخلے سے پابندی واپس اٹھا لی
    45ہزار مسلمانوں نے مسجدالاقصیٰ میں صلاۃ الجمعہ کی ادائیگی کی
    مختلف علاقوں میں فلسطینیوں اور صیہونی فوجیوں میں جھڑپیں ۔کئی افراد زخمی
    اسرائیلی وزیر خارجہ کے قتل کا منصوبہ ناکام بنانے کا اسرائیلی دعویٰ۔4فلسطینی گرفتار

    فلسطینی مسلمانوں کی جانب سے شدید مزاحمت کے بعد اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ میں نوجوان فلسطینیوں کے ادائیگی صلاۃ پر پابندی کے فیصلے سے پسپائی اختیار کرلی، جس کی وجہ سے گزشتہ روز صلاۃ الجمعہ میں کثیر تعداد میں فلسطینی مسلمانوں نے شرکت کی۔ مختلف علاقوں میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 10 فلسطینی زخمی ہو گئے۔ الخلیل میں فلسطینیوں اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئین۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز قبلہ اول مسجد اقصیٰ میں 45 ہزار سے زائد فلسطینی مسلمانوں نے صلاۃ الجمعہ ادا کی۔

    ذرائع کے مطابق اسرائیلی فوج نے فلسطینی نوجوانوں کے مسجد اقصیٰ میں داخلے کی پابندی کے فیصلے سے پسپائی اختیار کی، جس کی وجہ سے کثیر تعداد میں نوجوانوں نے بھی جمعہ میں شرکت کی۔ علاوہ ازیں دائیں بازو کے یہودیوں کی جانب سے مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنے کے مطالبے کی وجہ سے مقبوضہ مغربی کنارے میں کشیدگی برقرار رہی اور مختلف علاقوں میں فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی فوج میں جھڑپیں ہوئیں۔ دریں اثنا اسرائیلی خفیہ ادارے نے اسرائیلی کے وزیر خارجہ کو راکٹ کے حملے میں ہلاک کرنے کا منصوبہ ناکام بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں چار فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

    اسرائیلی خفیہ محکمے شِن بیت کے مطابق اس گروپ نے اس سال جولائی ، اگست میں غزہ اور اسرائیل کے مابین لڑائی کے دوران اسرائیل کے وزیر خارجہ آویگڈور لی برمین Avigdor Lieberman کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔اسرائیلی خفیہ محکمے کے دعوے کے مطابق، اسرائیلی وزیر خارجہ پر بکتر بند شکن گولے کے ذریعے ان کی گاڑی پر اس وقت حملہ کیا جانا تھا جب وہ فلسطین کے مغربی کنارے پر واقع یہودی تجاوزات میں اپنی رہائش گاہ کو جانے والے تھے۔ شِن بیت کا کہنا ہے کہ ان افراد کا تعلق حماس سے ہے، تاہم خبر رساں ایجنسی رایٹرز کے مطابق حماس کے ترجمان سامی ابو زہری کا کہنا ہے کہ حماس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں اور اس ضمن میں ان کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔حماس کے ترجمان نے مزید کہا کہ یہ اسرائیلی دعویٰ بے بنیاد اور حماس اور فلسطینیوں کو دباؤ میں رکھنے کی ایک چال ہے کیوں کہ گرفتار شدہ فلسطینیوں کا تعلق غزہ سے نہیں بلکہ اسرائیلی وزیر خارجہ کی رہائش گاہ کے قریب نوکدیم کے علاقے سے ہے جو فلسطینی مغربی کنارے میں یہودیوں کی ناجائز تجاوزات میں شامل ہے۔حماس کے ترجمان سامی ابو زہری نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکام جائز ہدف ہیں۔

    واضح رہے کہ مسجد اقصیٰ پر سرائیلی حکومت کی پابندی کے بعد فلسطینیوں کی جانب سے شدید احتجاج اور مظاہرے کیے گئے جو تا حال جاری ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی بندش اور اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے نتیجے میں اسرائیلیوں کے خلاف حملوں میں کچھ روز قبل گاڑی سے کچل دینے کے واقعہ میں دو اسرائیلی ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے تھے جب کہ یہودیوں کے ایک معبد پر دو فلسطینی نوجوانوں غسان اور اودے ابو جمل نے ایک بندوق اور بغدے سے حملے کے دوران چار یہودی راہبوں کو ہلاک اور کئی افراد کو زخمی کر دیا تھا۔ یہودی راہبوں کی ہلاکت نے نہ صرف اسرائیل بلکہ اسرائیل نوازامریکیوں کے دل دہلا کر رکھ دیے تھے۔ جس کے نتیجے میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری، اردن کے بادشاہ اور اسرائیلی حکومت کی باہمی مشاورت کے بعد اسرائیلی حکومت نے قبلہ اول مسجد اقصیٰ سے پابندی کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔

    روزنامہ امت، پاکستان و دیگر ذرائع

    الحمد اللہ رب العالمین

     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں