خالد بن یزید بن معاویہ، دنیا اسلام کا پہلا سائنسدان اور کیمیادان

علی رضوان نے 'اسلام ، سائنس اور جدید ٹیکنولوجی' میں ‏اپریل 20, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. علی رضوان

    علی رضوان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏دسمبر 28, 2014
    پیغامات:
    18
    علامہ خالد بن امیرالمومنین یزید : (مسلمانوں میں سب سے پہلے سائنسدان اور بابائے کیمیا)

    امیرالمومنین معاویہ رضی اللہ عنہ اور امیر یزید کے علمی ذوق کی بدولت دمشق میں یوں تو علماء اور فضلاء کی اچھی جماعت موجود تھی، لیکن خود بیت معاویہ "بیت الخلافہ" کے ساتھ ساتھ "بیت الحکمہ" بھی بن گیا تھا، ان ہی پوتے اور امیر یزید کے صاحبزادے ، علامہ خالد بن یزید تھے، جو علم حدیث و تفسیر و لسانیات کے علاوہ دیگر علوم و فنون میں بہرہ وافر رکھتے تھے، علوم طبیعہ، فنون طب اور کیمیا سے انکو خاص شغف تھا۔
    صاحب ضاحۃ الطرب فی تقدمات العرب نیز بن خلکان (ص 211) نے انکے بارے میں لکھا ہے کہ:
    سحان اول من اشتھر فی الطب بین الاسلام خالد بن یزید بن معاویہ الاموی۔ کان اعلم القریش بفنون الحلم ولہ کلام فی صنعۃ الکیمیاء والطب ورسائلہ فیھما دالۃ علی معرفتہ و براعتہ (مطبوعہ یورپ۔ ص 435)
    ترجمہ: زمانہ اسلام میں سب سے پہلے علم طب میں جو شخص مشہور ہوا وہ خالد بن یزید بن معاویہ اموی تھا جو قوم قریش میں فنون علمیہ کا بڑا عالم تھا۔ کیمیا اور طب کے رموز اس نے بیان کئے ہیں اور اس پر اسکے جو رسائل ہیں ان سے انکی معرفت علمی اور ذکاوت ذہنی کا پتہ چلتا ہے۔
    ایک اور کتاب سے علامہ ابن خلکان کے حوالہ کا پتہ چلتا ہے، جسکا اسکین بھی آپ لوگ ملاحظہ کررہے ہیں، کتاب کا نام ہے "امام ابوحنیفہ: عہدحیات، فقہ و آراء"اسکے مصنف، مشہور مصری عالم دین محمد ابوزہرہ ہیں جنکی عربی کی اس کتاب کا ترجمہ رئیس احمد جعفری نے کیا ہے، وہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 378 پر لکھتے ہیں:
    ابن خلکان لکھتے ہیں کہ "بیشک خالد بن یزید بن معاویہ تمام قریش میں علم و فن کا زیادہ ماہر تھا، چنانچہ فن کیمیا اور طب پر اسکے بیانات ملتے ہیں وہ ان دونوں میں پورا ماہر تھا۔ اور اس نے ان دونوں پر رسائل لکھے ہیں جو اسکی مہارت اور وقفیت کا ثبوت ہیں، اس نے یہ فن مریانوس رومی اہب سے حاصل کیا تھا، اور اسی پر تین رسالے لکھے ہیں ایک رسالے میں مریانوس کے ساتھ اپنا ماجرا بیان ہے کہ یہ علم اس سے کس طرح حاصل کیا، پھر اسکے رموز کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (دیکھئے اسکین نمبر 1)
    الفہرست ایک کیٹیلاگ یا انسائیکلوپیڈیا ٹائپ کی اولین کتاب ہے جو مسلم دنیا میں اس وقت شائع ہوئی جب یورپ علم اور فن کے لحاظ سے ایک تاریک خطہ مانا جاتا تھا، اسکے مصنف ایک مشہور شیعہ عالم "محمد بن اسحق ابن ندیم وراق" ہیں ۔ اس کتاب میں انہوں نے اس وقت مسلم دنیا کی چند نامور ہستیوں اور چند مصنفوں کی بہترین کتب کے بارے میں آراء پیش کی ہیں اور انکے اہم اہم کاموں کے بارے میں بہت تفاصیل دی ہے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ
    خالد بن یزید بن معاویہ کو حکیم آل مروان کہا جاتا ہے۔ وہ بذات خود ایک فاضل آدمی تھا اور علوم سے اہتمام و تعلق رکھتا تھا۔ اسکے دل میں کیمیاگری کے خیال نے کروٹ لی تو ان یونانی فلاسفہ کے ایک گروہ کو بلابھیجا جو مصر میں اقامت پذیر تھے اور عربی میں فصیح اللسان مانے جاتے تھے، انہیں کیمیا گری کے موضوع پر مشتمل کتابوں کو یونانی اور قطبی زبان سے عربی کے قالب ڈھالنے پر مامور کیا۔ عہد اسلامی میں یہ پہلا ترجمہ تھا جو ایک زبان سے دوسری زبان میں ہوا۔ (صفحہ 178) ۔دیکھئے اسکین نمبر 2
    ایک اور جگہ ابن ندیم لکھتے ہیں
    محمد بن اسحاق کاکہنا ہے کہ صنعت کیمیا کے موضوع سے متعلق قدماء (یونانی ، مصری) کی تصنیفات کو پردہء خمول سے نکالنا اور منظر عام پر لانا خالد بن یزید کے مقاصد میں سے تھا۔ خالد بن یزید خطیب، شاعر ، فصیح اور صاحب رائے تھا، یہ پہلا شخص ہے جسکے لئے طب، نجوم اور کیمیا کے موضوع سے متعلق کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔ یہ فیاص آدمی تھا، اس سے کہا گیا۔
    "تم نے اپنے آپ کو کیمیا کی طلب و جستجو کے لئے وقف کررکھا ہے؟" ۔ خالد نے کہا "ہاں ۔ اس سے میرا مقصد صرف یہ ہے اپنے دوستوں اور بھائیوں کی دولت کے معاملہ میں بے نیاز کردوں۔ میں خلافت کا متمنی تھا، لیکن اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اسکے بجائے میں نے فن کیمیا کو حد کمال تک پہنچادیا۔تاکہ کوئی ایسا شخص جسکو میں جانتا ہوں، یا جو مجھے جانتا ہے، طوعا یا کرہا یا جب شاہی پر حاظری دینے کے لئے مجبور نہ ہو"۔ واللہ عالم
    کہتے ہیں کہ خالد بن یزید فن کیمیا گری میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اس موضوع سے متعلق یہ متعدد و کتب و رسائل کا مصنف ہے۔ اس باب میں اس نے بہت سے شعر بھی کہے جنکے تقریبا پانچ سو اوراق میری نظر (مصنف ابن ندیم) سے گزرے ہیں۔ میں (ابن ندیم) نے اسکی تصنیفات میں سےیہ کتابیں دیکھی ہیں
    کتاب الحرارات کتاب الصحیفۃ الکبیر، کتاب الصحیفہ الصغیر، کتاب وصیتہ الی البنہ فی الصنعۃ۔ (دیکھئے اسکین نمبر 3 اور 4)
    البیرونی نے علامہ خالد کو اسلام کا سب سے پہلا حکیم بتایا ہے۔ (آثار الباقیہ البیرونی ص 303)
    علم طب سے فن کیمیا کا بہت قریب کا تعلق ہے اور یہ ان اکتسابات علمیہ میں سے ہے جسکو عربوں نے سب سے پہلے اول حاصل کیا تھا۔ خالد بن یزید کو روایت میں اسلام کا سب سے پہلا سائنٹسٹ اور فلاسفر (حکیم) بتایا گیا ہے۔ اسمیں کوئی شبہ نہیں کہ موجود کیمسٹری کے بانی مبانی یہی صدر اول کے مسلمان عرب تھے جورجی زیدان، جو ایک شامی النسل عیسائی فاضل تھا، تاریخ التمدن الاسلامی میں اس کا اعتراف کرتا ہے، اور لکھتا ہے
    لاخافت فی ان العرب ھم الذین اسوالکیمیا ء الحدیثۃ تجاربھم استحضراتھم۔ تاریخ التمدن السلامی ج 3 ص 84
    ترجمہ: اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ عرب ہی تھے جنہوں نے موجودہ فن کیمیاکی اپنے تجربات اور ذہنی قابلیتوں سے بنیاد ڈالی۔
    جملہ مورخین و محقیقن کا اتفاق ہے کہ ان عرب فاضلوں میں ان کے (علامہ خالد) علمی اور فنی کدوکش سے کیمیا کو عملی درجہ حاصل ہوا ۔ خالد بن یزید ہی پہلے عرب فاضل ہیں جنکو اس علم میں حد درجہ انہماک تھا۔ صاحب کتاب الاغانی شیعہ، خالد کے اس شغف و انہماک کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتا ہے۔
    خالد بن یزید معاویہ بن انی سفیان ۔ کان من رجلات قریش سخاء و عارضۃ و فصاحتہ و کان شغل نفسہ بطلب الکیمیاء فافنی بذالک عمرہ واسقط نفسہ۔ کتاب الاغانی ج 10 ص 84۔88
    ترجمہ: خالد بن یزید بن معاویہ بن ابی سفیان سخاوت و قابلیت و فصاحت میں قریش کے بڑے لوگوں میں سے تھا۔ طلب کیمیا کے شغل میں اس نے اپنی ذات کو مصروف رکھا اور اپنی عمر اس میں صرف کرڈالی اور اپنے آپ کو فنا کردیا۔ زمانہ حال کے ایک اور شیعی مورخ جسٹس امیر علی، خالد کے خاندان کا تذکرہ اپنے نقطہ نظر سے کرنے کے بعد انکے علم و فضل اور فن کیمسٹری میں انکی مہارت و فضیلت کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔
    بنی امیہ نے اپنی تمام مدت حکومت میں صرف ایک عالم فاضل خالد بن یزید کو پیدا کیا جو علوم طبیعہ اور علم وادب میں اپنے اکتسابات علمیہ کے لئے نامور ہے۔ خالد نے جو طب کا کیمسٹری کا جید عالم تھے ان مضامین پر اپنی تالیفات چھوڑی ہیں۔ علامہ خالد کے تذکروں میں یہ بھی بتایا ہے کہ انھوں نے صنعت کیمیا کو ایک رومی راہب موریانس سے حاصل کیا تھا اور اپنے اس اسناد فن سے بعض امور میں تحریری مباحثہ بھی کیا تھا، چنانچہ انکے ایک رسالہ میں ان امور اور "رموز" کا یہاں بھی ہے۔سلسلہ بحث نے نظم کا پیرایہ بھی اختیار کیا تھا۔ علامہ خالد اپنے والد کی طرح اچھے شاعر بھی تھے۔
    ولہ فیھا ثلاث رسائل تضمت احد امن ماجری لہ مع مرریا نرنس المذکور و صورۃ ما تعلمہ منہ والرموز التی اشار الیھا ولہ نی ذلک اشعار کثیرۃ (ضاضتہ الطرب فی تقدمات العرب ص 235)
    علامہ خالد نے نہ صرف علم طب و کیمیا کو سبقا سبقا رومی اساتذہ سے حاصل کیا بلکہ ان میں قدمائے یونان و مصر کی جس قدر بھی تالیفات دستیاب ہوسکیں انکو حاصل کیا۔ انکے تراجم عربی زبان میں کرائے اور اکے لئے دمشق اور مصر میں دارالتراجم قائم کئے، کیمبرج یونیوورسٹی کے مشہور پروفیسر عربی زبان، مسٹر براؤن نے 1919۔1920عیسوی میں "طب عربی" پر جو لیکچر کالج آف فزیشنز میں دئے تھے، وہ کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں۔ اپنے پہلے لکچر میں (Early Study of Al-Chemy) کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں
    "یونانیوں کے علم و حکمت سے وقفیت حاصل کرنے کی خواہش کی اولین تحریک اموی شہزادہ ، خالد بن یزید بن معاویہ کے دل میں جو علم کیمیاء سے خاص شغف رکھتا تھا ، پیدا ہوئی۔ فہرست ابن الندیم (جسکا حوالہ آپ اوپر دیکھ چکے ہیں) جو اس بارے میں ہماری معلومات کا سب سے قدیم اور سب سے بہتر ذریعہ ہے، جو ہم تک پہنچا ہے۔ خالد نے یونانی فلاسفروں کو ملک مصر میں مجتمع کیا اور اس مضمون کی یونانی و مصری (قبطی) تصانیف کو عربی زبان میں ترجمہ کرنے کے لئے انکو مقرر کیا۔ یہ ترجمے تھے جو ایک زبان سے دوسری زبان میں کئے گئےتھے۔ ان ترجموں میں ایک کا نام استفانوش تھا جس نے دمشق کے دارلترجمہ میں متعدد کتابیں ترجمہ کی تھیں
    واسفانوس الذی کان اول المترجمین لخالد مثار الیہ وقد ترجم لہ عدت مضفات من الرومی الی العربی (ضاحبۃ الطرب فی نقدمات العرب ص 429) ترجمہ: خالد موصوف کا اولین مترجم استفانوس تھا اور اس نے متعدد تصانیف کا رومی زبان سے عربی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ پروفیسر نکلسن نے اپنی مشہور کتاب (A Literary History of the Arabs ) میں یونانی علوم کی کتابوں کے عربی میں ترجمہ ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے یہی لکھا ہے تاریخ ادب عربی کے قابل مولف کلیمنٹ ہوار نے خالد بن یزید کے علم کیمیا کی تحصیل اور اسکی تصانیف کا ذکر کیا ہے۔
    غرضیکہ مندرجہ بالا تصریحات سے یہ امر بدرجہ تواتر ثابت ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے شخص جنہوں نے علم کیمیا کو حاصل کیا، اسکے تجربات کئے اور اس فن میں کتابیں لکھیں ، خالد بن یزید اموی تھے۔ پروفیسر ہوار نے ایکدوسرے موقع پر (ص 313) پر لکھا ہے کہ ازمنہ متوسطہ کا مشہور ماہر فن کیمیا جابر بن حیان غالبا خالد بن یزید کا ہی شاگرد تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جعفر الصادق شائد جابر کے استاد تھے۔
    جابر بن حیان کا زمانہ ضرور جناب جعفر صادق کے بعد کا ہے ۔ لیکن خود جناب موصوف کا جنکی وفات سن 148ھ میں ہوئی، فن کیمیا کی معلومات کا حصول اپنے پیش رو علامہ خالد بن یزید کی مساعی علمیہ سے کرنا کسی طرح مستعبد نہیں خیال کیا جاسکتا۔ صاعد اندلسی نے طبقات الامم میں علامہ خالد کا تذکرہ کیا ہے اور انکو فن کیمیا کا باپ کہا ہے۔ کیونکہ اسلام میں انہی نے سب سے پہلے اس فن کو تحصیل کی تھی۔ اور اسمیں کتابیں تضنیف کی تھیں۔ جاحظ البیان و التنین میں فرماتے ہیں کہ
    "کان خالد بن یزید بن معاویہ خطیبا شاعرا و فصیحا جامعا و جید الرائی کثیر الارب وکان اول من ترجم کتب النجوم والطب و الکیمیا (ج 1، ص 212)
    قدیم یونانیوں کا خیال تھا کہ اکسیر کے ذریعہ ناقص دھاتوں کی تکمیل ہوسکتی ہے اور انکو اعلیٰ بنایا جاسکتا ہے۔ اسی غلط فہمی سے چاندی سے سونا بنانے کا خیال پیدا ہوا تھا۔ لیکن علامہ خالد کی مساعی علمیہ کی بدولت اسلام میں آکر کیمیا کا مذہب ہی گویا بدل گیا۔ اور بجائے سونا چاندی بنانے کے اس سے طب و قرابادین میں اشیاء کے اجزائے و خواص کے تعین میں مدد لی جانے لگی۔
    بلاذری نے انساب الاشراف میں بیان کیا ہے کہ خالد کی جو اپنے زمانے کے بہترین خطیب بھی تھے اور ساتھ ہی شاعر و ادیب بھی۔ کیمیاء کی دھن میں یہ کیفیت ہوگئی تھی کہ اکثر خاموش رہتے اور کیمیاء کی تجربات کے بارے میں غورو خوض کرتے رہتے تھے۔ (انساب الاشراف بلاذری قسم ثآنی جز۔ الرابع ص 66 مطبوعہ بیروت)
    طب کے مسائل کے علاوہ علامہ خالدنے اپنے کیمیاوی کارخانہ "لیبارٹری" میں بعض ایسی دریافتیں اور ایجادات بھی کیں، جن سے عربوں کے فن حرب کو رومیوں پر فوقیت حاصل ہوئی انکے باپ دادا کو رومیوں سے برابر برسر وپیروکار رہنا پڑتا تھا۔ اور "گریک فائر ۔ آتش یونان" سے جو رومی فوجیں استعمال کرتی تھیں۔ بڑے نقصانات اٹھانا پڑتی تھیں۔ یہ ایک کیماوی مرکب تھا جسکی ایک پچکاری چلانے سے آگ لگ جاتی تھی ۔ قلعہ یا جہاز جس چیز پر پڑتی اسکو جلادیتی۔ ایڈورڈ گبن نے اسکو ایک شامی عیسائی کی ایجاد بتایا ہے۔ جو بنی امیہ کے عہد میں شام سے بھاگ کر روم پہنچا تھا۔ خالد کی لیبارٹری میں حل و عقد سے اسکا نسخہ معلوم کرلیا تھا۔ اسکا جزواعظم روغن تفت تھا۔ لہذا عربی میں اسکو تفت بھی کہنے لگے تھے۔ اس کیمکل مرکب کی دریافت نے مسلمانوں کے آلات حرب کو زیادہ کارگر بنادیا تھا۔ دشمن اس سے زیادہ کسی چیز کو مہیب نہیں جانتے تھے۔ اسکو اڑتا ہوا اژدھا کہتے تھے۔ بعد کی صلیبی جنگوں میں اسکا استعمال کثرت سے کیاگیا۔ صلیبی جنگ آزما جس اسکا مقابلہ کسی طرح نہ کرسکے تو اپنے بادشاہ سینٹ لوئی کے پاس پہنچ کر فریادی ہوتے۔ لوئی زمین پر گر پڑتا اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر تضرع و زاری سے کہتا کہ "اے خداوند مسیح مجھے اور میری فوج کو اس بلا سے بچا (تمدن عرب ص 439)
    علامہ خالد نے علم الکیماء پر جو تصانیف کی ہیں ان میں سے ایک میں اپنے اجتہادات اور تجربات کو جنھیں "رموز" سے تعبیر کیا ہے، بیان کیا ہے۔ اپنے بیٹے ابی سفیان کو جسے خود یہ علم سکھایا تھا، بطور وصیت کے صنعت کیمیاء کے "رموز" لکھ دئے تھے۔ابن الندیم نے انکی کیمیاء کے اوپر جو مستقل تصانیفات (حوالہ اسکین نمبر 3 اور 4) کا تذکرہ کیا تھا، جو ابن ندیم کےمطالعے میں آئی تھی، علامہ خالد کی اور کیا کیا تالیفات ہونگی جو ضائع ہوگئی ہونگی۔ پروفیسر براؤن نے ایک دوسرے لیکچر میں اسی خیال کا اظہار کیا ہے کہ کیمیاء کے علاوہ دیگر علوم فلسفہ و طب وغیرہ پر بھی خالد نے قدمائے یونان و مصر کی تصانیف کا ترجمہ کرایا تھا۔ پروفیسر ہتی اور براؤن نے جابر بن حیان کے فن کیمیامیں علامہ خالد بن یزید کی شاگردگی کا ذکر کرتے ہوئے شبہ کا اظہار کیا ہے۔ برخلاف انکے خورجی زیدان نے تاریخ التمدن الاسلامی (ج 3 ص 184) ، میں صاف صاف لکھا ہے کہ جعفر الصادق نے اس فن کی تعلیم علامہ خالد موصوف سے حاصل کی تھی۔ جب یہ ثابت ہے کہ خالد ، اسلام میں کیمیاء کے موجد و موسس کا درجہ رکھتے تھے اور اپنے بیٹے کو بھی یہ علم سکھایا تھا اور اسکے لئے ایک خاص کتاب بھی لکھی تھی، تو اسکے بعد میں کسی مسلمان نے انکی علوم کو حاصل کیا ہو، انکے تجربات اور تصانیف سے ضرور استفادہ کیا ہوگا۔
    بمطابق وکی پیڈیا اردو ،انکے بارے میں لکھتا ہے کہ دل و دماغ پرشاہانہ تکلّفات کی وجہ سے خلافت سے محروم رہے۔ لیکن علمی دنیا میں اپنے کاموں کے سبب مشہور ہوئے۔ خالد کو علمہیئتسے اتنا لگاؤ تھا، کہ وہ کائناتِ فلک کا ایک ’کرہ‘ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
    ایک شیعہ اردو ویب سائٹ کے مطابق،
    بنی امیہ کے دربار میں یہودیوں اور عیسائیوں کا اثر و رسوخ برقرار تھا یہاں تک کہ ان کی اور یونانی فلاسفہ کی کتابیں عربی میں ترجمہ ہوئیں ۔ اسی طرح کیمیا کے بارے میں کتابیں بھی عربی زبان میں منتقل ہو کر لوگوں تک پہنچیں ۔ اگرچہ بعض لوگ مأمون کودوسرے مذاہب کی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ ہونے کا عامل سمجھتے ہیں اور کچھ منصور کو اس کام کے لئے واسطہ قرار دیتے ہیں۔
    لیکن ظاہراً خارجی کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرنے میں ان دونوں کا ہاتھ تھا لیکن اس کام کا آغاز انہوں نے نہیں کیا تھا بلکہ ان سے پہلے خالد بن یزید نے یہ کام شروع کیا تھا۔
    کتاب''نظام اداری مسلمانان درصدر اسلام میں لکھتے ہیں:
    جاحط نے ''البیان و التبیین''میں کہا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ ایک فصیح و بلیغ خطیب اور شاعر تھا۔یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے ستارہ شناسی،طب اور کیمیا کی کتابوں کا ترجمہ کیا۔(یعنی اس کے لئے ترجمہ کیا گیا)۔
    ابن ابی الحدید''شرح نہج البلاغہ''([2])میں لکھتے ہیں:خالد بن یزید بن معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے مترجمین اور فلاسفہ کو وظائف دئے اور وہ اہل حکمت،فن کے ماہرین اور مترجمین کو اپنے قریب لایا۔خالد ٨٥ھ میں فوت ہوا جب کہ ابھی تک کچھ صحابی زندہ تھے۔
    نیز مشہور ہے کہ کیمیا میں بہت زیادہ دلچسپی رکھنے کی وجہ سے خالد بن یزید بن معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔
    کہتے ہیں:خالد کے لئے طب اور ستارہ شناسی کی کتابیں ترجمہ کی گئیں ۔البتہ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس کے لئے طب اور ستارہ شناسی کی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا وہ منصور عباسی تھا اور خالد صرف کیمیا کا دلدادہ تھا۔ اس باب میں جس کے کچھ رسالے بھی ہیں اور اس نے یہ فن''مریانس رومی''نام کے ایک عیسائی سے سیکھا تھا۔
    ''کشف الظنون''([3])میں ذکر ہوا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ ( جوحکیم آل مروان اورحکیم آل امیہ کے نام سے مشہور تھا) نے کیمیا میں خاطر خواہ کام کیا۔پھر اس نے فلاسفہ کے ایک گروہ کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ کیمیا کو یونانی زبان سے عربی میں منتقل کریں اور یہ عالم اسلام کا پہلا ترجمہ تھا۔
    سیوطی کی کتاب''الأوائل''میں ذکر ہوا ہے:سب سے پہلے جس کے لئے طب اور ستارہ شناسی کا عربی میں ترجمہ کیا گیا وہ خالد بن یزید ہے اور کچھ کے مطابق وہ منصور ہے۔
    ابن الندیم کہتا ہے:خالد بن یزید کے زمانے میں کیمیا اسکندریہ میں رائج تھا پھرخالد نے ایک گروہ کو بلایا کہ جس میں ''اسطفار''رومی راہب بھی شامل تھا
    ایک انگریزی ویب سائٹ کے مطابق، گن پاؤڈر (بارود) بنانے کا موجد بھی علامہ خالد بن یزید کو سمجھا جاتا ہے، لیکن انہوں نے اسکو بنانے کی تکنیک چینیوں سے سکیھی ہوگی۔ اور بارود بنانے کے ایک ایک اہم عنصر پوٹاشئیم نائٹریٹ (KNO3) سے وہ واقف تھے۔Khalid also got famous for discovering gunpowder. Although according to many experts gunpowder was first discovered by Chinese civilization in the ninth century A.D. However, according to history the Muslim chemist named Khalid bin Yazid was familiar with potassium nitrate (KNO3) themainingredient of gunpowder maker in the 7th century A.D.
    سن وفات کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں ، کسی نے سن 84ھ لکھا ہے، کسی نے سن 90ھ۔ ابن کثیر کے نزدیک آخر الذکر صحیح ہے، لیکن بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر المومنین ولید بن عبدالملک کے زمانے میں وفات ہوئی ہوگی۔ واللہ عالم
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
  2. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    شیئرنگ کا شکریہ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. علی رضوان

    علی رضوان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏دسمبر 28, 2014
    پیغامات:
    18
    مجھے یہاں ایک اسکین ظاہرکرنا ہے جو دئے گئے ریفرنس کے متعلق ہے، اور اسمیں ابن الندیم کی الفہرست کے حوالے سے جو بات کہی گئی تھی، اسکا حوالہ دیا گیا ہے۔ کوئی مجھے بتاسکتا ہے کہ یہاں ایک اسکین پکچر کی صورت میں کیسے اپلوڈ ہوسکتا ہے؟
     
  4. علی رضوان

    علی رضوان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏دسمبر 28, 2014
    پیغامات:
    18
    اوپر کے مضمون میں ، میں نے ابن ندیم کی اور ایک اور کتاب کا حوالہ دیا تھا، اسکے اسکین کے اپلوڈ کاطریقہ مجھے پتہ نہیں تھا، اس لئے اس وقت نہ کرسکا۔ اب وہ طریقہ معلوم ہوگیا ہے، اس لئے اپلوڈ کررہا ہوں

    [​IMG]
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  5. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    جزاکم اللہ خیراـ شکریہ مفیدمعلومات کے لئے ـ اس مضمون کے اصل مصنف کون ہیں ـ ہو سکے تو اس کا حوالہ بھی شامل کردیں ـ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  6. علی رضوان

    علی رضوان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏دسمبر 28, 2014
    پیغامات:
    18
    @عکاشہ بھائ، اصل میں یہ پورا مضمون کسی ایک کتاب یا مصنف کا لکھا ہوا نہیں ہے، بلکہ اس مضمون کو لکھنے کے لئے میں نے دو تین کتابیں اور مختلف ویب سائیٹس کا سہارا لیا ہے۔ کتابوں میں علامہ محمود احمد عباسی کی کتاب "خلافت معاویہ وہ یزید" سے کافی مدد لی ہے، نیز اسکے علاوہ جو اسکین لگایا ہے ان کتب کا مواد بھی شامل کیا ہے۔ نیز کچھ اپنے قلم کی جولانی بھی شامل کی ہے :)
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  7. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    شکریہ ،بہتر یہی ہوتا ہے کہ جہاں سے جو مواد لیا جائے ، حوالہ کے طور پر لکھ دیا جائے تاکہ جس کو تحقیق کرنی ہو وہ اصل کتابوں سے کر لے ـ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  8. x boy

    x boy رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اپریل 8, 2015
    پیغامات:
    42
    جزاک اللہ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں