جی آئی ٹی رپورٹ پر پیش رفت

ابوعکاشہ نے 'حالاتِ حاضرہ' میں ‏جولائی 13, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    کوئی مانے یا نا مانے بین الاقوامی انسانی حقوق کے منشور اور پاکستان کے دستخط کردہ معاہدوں کی رو سے کسی سیاست دان پر تاحیات سیاسی پابندی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ یہ بھی کہ قانونی اعتبار سے یہ ایک بھونڈا فیصلہ ہے۔۔
    نواز شریف خوش نصیب ہے کہ ابھی زندہ ہے دل تو ہماری قوم کا یہی چاہتا ہے کہ سب کو پھڑکا کر ایوان ویران کر دیے جائیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • مفید مفید x 1
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    اور جس آرٹیکل 63 کا شور ہو رہا ہے اس کے لحاظ سے بھی تاحیات پابندی نہیں لگ سکتی، صرف 5 سال تک نااہلی ہو سکتی ہے۔
    جن لوگوں کو احتساب کی روایت پڑنے پر بہت خوشی ہے وہ کسی فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف حلف کی خلاف ورزی اور سیاست میں حصہ لینے کی وجہ سے درخواست دائر کر کے دیکھیں۔ بال بچوں سمیت غائب ہو جائیں گے۔
     
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    تم نے اٹک قلعے کی فصیلوں کے پیچھے من پسند عدالت لگا کر یہ فیصلہ بھی تو سنوایا تھا، منقول..یہ احتساب تھا . جب نواز شریف بکتر بند گاڑی میں ملیرکراچی عدالت میں حاضر ہوا کرتے تھے.اب پھر احتساب ہوا ہے . کرپشن باقی ہے. یعنی اصلی کرپٹ کوئی اور ہے.
    FB_IMG_1501308450494.jpg
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960
  5. Asif

    Asif -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 4, 2007
    پیغامات:
    161
    آخر کار گیا نواز شریف (y)
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  6. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    محمد حنیف کی طرح بی بی سی کے وسعت اللہ خان بھی صادق و ل امین، پاکستان، اور یہاں کے مسلمانوں کا درد رکھنے والے ہیں. ان کی بھی تبصرہ یا تجزیہ ضرور شیئر کیجئے گا. اللہ آپ کا بھلا کرے.
     
  7. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960
    بھائی، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ محمد حنیف اور عاصمہ جہانگیر قسم کے لوگ سخت مذہب بیزا ر ہیں، وسعت اللہ خان کچھ کم ہیں لیکن وہ بھی تھوڑے سے مذہب بیزار ہیں۔مجبوراان مذہب بیزاروں کی رائےشئیر کرنا پڑتی ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ باقی محض مخالفت کی آگ میں جل رہے ہیں ۔۔۔۔کرپشن تو محض اک بہانہ ہے۔۔۔۔
     
  8. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    اگر رائے اور موقف کے حوالے سے کوئی منہج، معیار مقرر ہو. جو کہ بہ حیثیت مسلمان ہرشخص پر واجب ہے کہ وہ اپنی زندگی واضح اور روشن ہدایت پر یقین کے ساتھ جانبداری میں گزارے . جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نا ہو تو مذہب بیزار منافق قسم کے لوگوں کی حاجت نا رہے. حاکم وقت، یا کسی اعلی عہدے پر موجود ذمہ دار کے گناہ کبیرہ یا صغیرہ گناہوں پر زبانوں سے، قلم سے، تلوار سے خروج کرنا تو سلف صالحین، صحابہ کرام کے ہاں بلکل نہیں تھا.
     
  9. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    عدالت کا وہ شفاف فیصلہ.جس کو کرپشن کے خاتمہ کیلئے لئے عظیم فیصلہ تصور کیا جارہا ہے، چور کون ہے.
    ..........
    الیکشن میں اثاثوں کی چھان بین پر نااہلی کا قانونی کو طریقہ

    حماد نجیب

    بشکریہ ہم سب
    حالیہ فیصلہ کے بعد مذکورہ نا اہلی کے گراونڈ پر کافی کچھ لکھا گیا ہے، تاہم ایک اہم بنیادی زاویہ جو نگاہوں سے اوجھل رہا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں الیکشن اور موجودہ بحران سے تعلق رکھنے والے معلقہ قوانین کا ڈھانچہ اور نظم کیا ہے۔ نیز یہ کہ الیکشن قوانین امیدوار کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے، اثاثہ جات ظاہر کرنے، کاغذات نامزدگی کے منظور یا مسترد ہونے، اس منظوری یا مستردہونے کے خلاف اپیل، جیتے ہوئے امیدوار کو ڈی سیٹ کرنے اور اسے غیر صادق و امین قرار دے کر نا اہل کرنے سے متعلق کیا کہتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم انہی امور کا جائزہ لیں گے۔

    پاکستان میں الیکشن قوانین بنیادی طور پر روپا کا 1976 میں بنائے جانے والے ایکٹ میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ آئین پاکستان کے مشہور زمانہ آرٹیکلز 62 اور 63 ہیں۔ پہلے ہم ایکٹ 1976 (روپا) کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔

    روپا کے سیکشن 12 کے تحت امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی متعلقہ ریٹرننگ افسر کو جمع کراتا ہے جس میں سیکشن 12 کے سب سیکشن 2 ایف کے تحت اپنے اثاثہ جات اور ذمہ داریوں کی تفصیل بھی شامل ہوتی ہے۔ متعلقہ یٹرننگ آفیسر روپا کے سیکشن 14 کے تحت کاغذات کی سکروٹنی کرتا ہے اور مخالف امیدوار کو بھی اعتراضات دائر کرنے کا موقع دیتا ہے۔ یہ سمری پروسیڈنگ ہوتی ہے اور اگر ریٹرننگ افسر سمجھے کہ متعلقہ امیدوار الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہے یا اس کے اثاثہ جات کی تفصیل میں غلطیاں ہیں تو وہ کاغذات نامزدگی مسترد کرتا ہے اور غلطی نہ ہونے کی صورت میں منظور کر لیتا ہے۔ نا اہلی کے گراونڈز روپا کے سیکشن 99 میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں جن میں صادق و امین والی شق بھی تقریبا انہی الفاظ میں شامل ہے جیسے آئین کے آرٹیکل 62 میں بیان ہوئی ہے۔

    ریٹرننگ افسر کی جانب سے کاغذات نامزدگی کے منظور یا مسترد کیے جانے کے خلاف خصوصی طور پر اسی مقصد کے لئے قائم کیے گئے ٹرائبیونل میں اپیل کی جا سکتی ہے۔ عدالتی نظائر کے مطابق ٹرائبیونل کے فیصلے کو آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ جس امیدوار کے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ افسر یا اپیلیٹ اتھارٹی سےمنظور ہو جائیں اسے الیکشن لڑنے دیا جاتا ہے اور اگر وہ جیت جائے تو اس کے خلاف ہارنے والا امیدوار 45 دن کے اندر روپا کی دفعہ 52 کے تحت الیکشن ٹرائبیونل میں الیکشن پیٹیشن دائر کر سکتا ہے۔ کسی منتخب ممبر کے الیکشن کو چیلینج کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے۔

    روپا کی دفعہ 68 کے تحت الیکشن ٹرائبیونل کا اختیار یہ ہے کہ وہ اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ کاغذات نامزدگی درست نہ تھے یا کاغذات نامزدگی جمع کرائے جانے والے دن ممبر بننے کا اہل نہیں تھا (روپا کے سیکشن 99 کے تحت یا آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت)، یا اس کے لئے نا اہل تھا، تو جیتنے والے امیدوار کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص الیکشن سے پہلے ہونے والی ساری سکروٹنی سے بچ بچا کر ممبر بن جائے تو آپ الیکشن کے بعد 45 دن کے اندر اندر اس کے خلاف الیکشن پیٹیشن دائر کر کے اس کا الیکشن کالعدم کروا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے الیکشن کو کالعدم کروانے کا کوئی طریقہ قانون میں بیان نہیں ہوا

    آرٹیکل 63 کی شق نمبر2 کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھیج سکتے ہیں، جو اس نا اہلی کی بابت کیس سن کر فیصلہ کر سکتا ہے اور ایسے ممبر کو نا اہل قرار دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی امیدوار یا ممبر کی اہلیت کو چیلنج کرنے کا کوئی قانونی یا آئینی طریقہ نہیں ہے۔ آئین کا منشا بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اگر ممبران پارلیمنٹ پر ہر وقت نا اہلی کی تلوار لٹکتی رہے گی تو ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گی۔ واضح رہے کہ آئین کے مطابق اہلیت کی شرائط اور نا اہلی کے گراونڈ مختلف ہیں۔ اہلیت کی شرائط آرٹیکل 62 میں بیان ہوئی ہیں اور آرٹیکل 63 میں منتخب ممبر کے نا اہل ہونے کے اسباب بیان ہوئے ہیں جن میں صادق و امین والا گراونڈ موجود نہیں ہے۔

    یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ غیر صادق و امین ہونا اور اثاثہ جات کی تفصیل میں غلطی ہونا دو الگ اور جدا قانونی تصورات ہیں اور ایک دوسرے کے لازم و ملزوم نہیں۔ ایک امیدوار اثاثہ جات کی تفصیل میں بغیر کسی غلطی کے بھی غیر صادق و امین والی نا اہلی میں شامل ہو سکتا ہے اور اسی طرح ایک امیدوار اثاثہ جات کی تفصیل میں غلطی کے باوجود غیر صادق و امین والی نا اہلی سے بچ سکتا ہے۔ اثاثہ جات کی جھوٹی یا غلط تفصیل نہ تو آئین پاکستان کی دفعات 62 یا 63 کے تحت نا اہلی کا گراونڈ ہے اور نہ ہی عوامی نمائندگی ایکٹ کی امیدواران کی دفعہ 99 میں اس کا ذکر ہے بلکہ اس کا تعلق روپا کی دفعہ 14 سے ہے جس کے تحت اثاثہ جات کی نادرست تفصیلات کی بنیاد پر یا تو الیکشن لڑنے سے روکا جا سکتا ہے یا الیکشن جیتنے کی صورت میں اس الیکشن کو روپا کی دفعہ 68 کے تحت کالعدم قرار دے کر سیٹ خالی کرائی جا سکتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 62 اور روپا کے 99 ایف والی غیر صادق و امین والی نا اہلی صرف تب کام آتی ہے جب ایک درست اختیار سماعت رکھنے والی قانون کی عدالت ٹرائل کرنے، شہادت ریکارڈ کرنے اور جرح کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ امیدوار نے اثاثہ جات کو چھپا کر بددیانتی کا ارتکاب کیا ہے، یا کسی اور اخلاقی یا ’’اسلامی‘‘ وجہ سے صادق اور امین نہیں رہا۔ جہاں اثاثہ جات کی غلطی پر غیر صادق و امین قرار دیا جائے وہاں بددیانتی ثابت کرنا لازم ہوگی۔ لہذا اثاثہ جات کی تفصیلات میں غلطی لازمی نتیجے کے طور پر امیدوار کو غیر صادق اور غیر امین نہیں بناتی۔

    موجودہ مقدمے میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ قابل وصول تنخواہ ظاہر نہیں کی گئی۔ اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بغیر شہادت اور جرح کے نہ لی جانے والی قابل وصول تنخواہ کو اثاثہ کیسے کہا گیا۔ پھر فیصلہ ہوا کہ یہ اثاثہ ظاہر نہ کرنے کی بنا پر وزیر اعظم صادق و امین نہیں رہے۔ اس پر سوالات اٹھتے ہیں کہ اگر قابل وصول تنخواہ کو بالفرض اثاثہ مان لیا جائے تو بھی اس پر انتخاب کالعدم ہو سکتا ہے، صادق و امین والی نا اہلی تو صرف تب ہو گی جب متعلقہ عدالت (الیکشن ٹریبونل) میں ٹرائل چلے اور شہادت و جرح سے ثابت ہو کہ اثاثہ جات بدنیتی سے چھپائے گئے لہذا اب امیدوار صادق و امین نہیں رہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں متعلقہ عدالت بھی کود کو بنا لیا، یہ بھی فرض کر لیا کہ قابل وصول تنخواہ اثاثہ ہوتا ہے، یہ بھی فرض کر لیا کہ بغیر ٹرائل محض اثاثہ ظاہر نہ کرنے سے غیر صادق و امین والی ڈیکلیریشن دی جا سکتی ہے۔ اور یہ سب سپریم کورٹ نے اپنے اصلی آئینی اختیار سماعت میں کیا جس میں ملزم کے لئے اپیل کا حق بھی میسر نہیں۔

     
  10. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    ان شاءاللہ جلد ہو گا! جب بنگلہ دیشی جنرل حسین ارشاد کی طرح صرف ایک ملٹری ڈکٹیٹر کو جوتے لگیں گے تب سب کو یاد رہے گا آئین میں کس کی کیا جگہ ہے اور آئین کی پاس داری کسے کہتے ہیں۔ پاکستانئ قوم اس مرحلے سے کب گزرے گی یہ اس کے سیاسی رہنماؤں کی ہمت پر ہے۔
     
  11. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    نئی شروعات نہیں ہوئی 20 سال پرانے الزامات نئے طریقے سے دہرائے جا رہے ہیں۔
     
  12. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    نواز شریف عدالتی فیصلے کے بعد لاہور کی جانب رواں دواں.

    خورشید انور نے اس سفر کے حوالے سے عمدہ کالم لکھا ہے. جس کا عنوان ہے

    نواز شریف کا نظریاتی سفر..

    "کیا بہترین عنوان دیا ہے.کالم پڑھنے کے لائق ہے، لکھتے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ عدم استحکام ہے. اداروں میں تصادم ہے، کرپشن نہیں، "

    http://paksa.co.za/نواز-شریف-کا-نظریاتی-سفر-۔۔-خورشید-ندی/

    اگر نواز شریف اس نظریہ کو لیکر کامیاب ہو گئے. تو پاکستان پر بڑا احسان ہو گا
     
  13. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    میرا خیال ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہین ہے۔
    سرکاری مشینری کا کھلم کھلا استعمال، شہر بند ، روڈ بند، میٹرو بھی بند، بس اسٹاپ سے گاڑیاں زبردستی خالی کروا لی گئيں۔ تمام کاروباری سرگرمیاں بھی بند۔ کیا آپ نے یہ سوچنے کی بھی کوشش کی کہ ایک نا اہل وزیر اعظم کی ریلی سے قوم کا کتنا نقصان ہوگا۔ عمران خان پر ملک و قوم کو دھرنوں اور ریلیوں کے ذریعے نقصان پہنچانے کا الزام لگانے والوں کی آنکھیں کیا اس سب پر بند ہیں؟؟؟؟
    اس سارے معاملے پر ہارون الرشید کا ایک کالم پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
    http://paksa.co.za/کس-کی-سازش-۔۔-ہارون-الرشید/
     
  14. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    : )
    اگر نااہل وزیر اعظم ریلی نہیں نکال سکتا. تو ہارون رشید سمیت سب کو عدالت میں جانا چاہیے تھا. عدالت اور قانون خاموش ہیں. مخالفین بلاوجہ کیوں پریشان ہیں.
     
  15. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    اصل بات سے آپ نے پھر آنکھیں چرا لیں۔
     
  16. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    درست فرمایا، یہ زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا وعدہ کرنے والے اب تک اس کے خلاف کون سی عدالت میں گۓ ہیں؟
     
  17. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
  18. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    قانون کی بالادستی کا نعرہ لگانے والوں کے نزدیک اصل بات "قانون" ہونی چاہیے ۔ کہیں ایک طرف تو رہیں ۔
     
  19. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    تو کیا اس طرح قومی وسائل کا بے دریغ استعمال عین قانون ہے؟
    یہ ایک طرف رہنے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا کریں کہ اس جھولی مین اتنے چھید ہیں کہ ایک طرف رہنا ممکن ہی نہین ہوتا۔ کہیں جھوٹے بیانات ہیں، قانون کو نہ ماننے والی بات ہے، اور عوام الناس کو اذیت میں ڈالنے والی حرکت ہے۔ کس کس چھید کی بات کریں گے۔
     
  20. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    اور حامد میر بھی کرپٹ نکلے. وہی کہنے لگے جو ہم اول روز سے کہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اس سب کے پیچھے ہے.باقی بھی سب مان جائیں. جلدی نہیں.
    https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1614509071906415&id=100000420134350
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں