ترغیب وترہیت اور فضائل اعمال میں ضعیف احادیث کا حکم

کارتوس خان نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏اگست 31, 2007 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. کارتوس خان

    کارتوس خان محسن

    شمولیت:
    ‏جون 2, 2007
    پیغامات:
    933
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    ترغیب وترہیت اور فضائل اعمال میں ضعیف احادیث کا حکم

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

    عزیز دوستوں!۔
    امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ حرام و حلال کا معاملہ ہو تو ہم سندوں میں سختی سے کام لیتے ہیں اور جب ترغیب و ترہیب کی بات ہوتو ہم اسانید میں تساہل برتتے ہیں اسی طرح علماء کا جو طریق کار ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کر لیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے ایسی حدیث جو حجت اور دلیل نہیں بن سکتی اس سے استحباب ثابت ہوسکتا ہے اس لئے کہ استحباب شرعی حکم ہے لہذا شرعی حکم کے بغیر ثابت نہیں ہوسکتا اور جو اللہ تعالٰی کے بارے میں شرعی دلیل کے بغیر یہ خبر دیتا ہے کہ اللہ تعالٰی اعمال میں سے کسی خاص عمل کو پسند کرتا ہے تو وہ اللہ کے حکم کے بغیر دین میں شریعت سازی کررہا ہے اور یہ ایسے ہی ہے کہ کسی چیز کے وجوب یا حرمت کا فیصلہ دیا جائے یہی وجہ ہے کہ علماء جس طرح باقی احکام میں باہم اختلاف کرتے ہیں استحباب کے متعلق بھی ان کی آراء مختلف ہوتی ہیں بلکہ حقیقی اور منزل من اللہ دین کی بنیاد ہی یہ اصول ہے۔۔۔

    ان حضرات کا مقصد یہ ہے کہ جب کسی عمل کے متعلق نص شرعی یا اجماعی سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے کہ وہ اللہ تعالٰی کے ہاں پسندیدہ عمل ہے مثلا تلاوت قرآن، ذکر وتسبح، دُعا و صدقہ، غلاموں کی آزادی اور لوگوں سے حسن سلوک وغیرہ ثابت ہوجائے کہ وہ عمل اللہ تعالٰی کے ہاں پسندیدہ ہے مثلا جھوٹ، خیانت وغیرہ تو اس صورت میں ان ثابت شدہ اعمال کی فضیلت اور ان کے ثواب یا بُرے اعمال کی کراہت اور ان کے گناہ کے بارے میں کوئی حدیث مروی ہو تو اجروثواب اور سزا وعذاب کی مقدار اور انواع کے متعلق ایسی حدیث مروی ہو جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ وہ موضوع ہے تو اس صورت میں اس کو روایت کرنا جائز ہوگا بایں معنی کہ انسان اس ثواب کی امید یا اس سزا کا خوف رکھے۔۔۔

    مثال کے طور پر ایک شخص جانتا ہے کہ تجارت میں فائدہ ہے لیکن اسے بات پہنچی کہ اس میں بہت زیادہ فائدہ ہے اگر اسے پہنچے والی بات درست ہوئی تو اسے فائدہ پہنچے گا اور اگر جھوٹ بھی ہوئی تو اسے نقصان نہیں ہوگا یعنی اس قدر فائدہ نہیں ہوگا جتنا کہ اسے بتایا گیا تھا اسے یونہی سمجھیں کہ جس طرح ترغیب و ترہیب میں اسرائیلی روایات خوابین، سلف کے مقولے علمائ کے اقوال وواقعات وغیرہ بیان کئے جاتے ہیں معلوم ہے کہ صرف ان امور سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا نہ استحباب اور نہ کچھ اور لیکن ترغیب و ترہیب امید دلانے اور خوف دلانے کے لئے بیان کیا جاسکتا ہے۔۔۔

    جن اعمال کا اچھا یا بُرا ہونا شرعی دلائل سے ثابت اور معلوم ہوتو یہ اضافی چیزیں فائدہ دیتی ہیں ضرر نہیں اور وہ حق ہوں یا باطل اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا تو جس کے متعلق معلوم ہوجائے کہ یہ باطل اور موضوع ہے تو اس کی طرف التفات جائز نہیں اس لئے کہ جھوٹ سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اگر ثابت ہوجائے کہ وہ صحیح ہے تو اس سے احکام ثابت ہوں گے اگر دونوں باتوں کا احتمال رکھے تو اسے روایت کرنا روا ہوگا کہ اس کے سچ ہونے کا امکان ہے اور جھوٹ ہوتو اس کا کوئی نقصان نہیں، امام احمد رحمہ اللہ نے یہی کہا ہے کہ ترغیب اور ترہیب کا معاملہ ہوتو ہم اسانید میں تساہل سے کام لیتے ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ ہم اسے اسانید کے ساتھ روایت کردیتے ہیں اگرچہ ان کے راوی اس قدر قابل اعتماد نہ ہوں جن سے حجت اور دلیل پکڑی جاتی ہے اسی طرح جس نے کہا کہ فضائل اعمال میں ان پر عمل ہوسکتا ہے تو عمل تو اسی پر ہوگا جو ثابت شدہ نیک اعمال ہیں مثلا تلاوت اور ذکر یا برُے اعمال سے اجتناب۔

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں سے وہ حدیث اس کی نظیر ہے جسے امام بخاری نے سیدنا عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ!۔
    بلغواعنی ولو آیۃ وحدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج ومن کذب علی متعمدا فلیتبوا معقدہ من النار۔
    میری طرف سے آگے پہنچاؤ خواہ ایک آیت ہی ہو بنی اسرائیل سے نقل کر سکتے ہو کوئی مضائقہ نہیں اور جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سنبھال لے۔ (صحیح بخاری کتاب احادیث باب ماذکر عن بنی اسرائیل ح ٣٤٦١)۔۔۔

    اسے صحیح حدیث میں مذکور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے ساتھ رکھو!۔
    اذا حدثکم اھل الکتاب فلا تصدقوھم ولاتکذبوھم۔
    اہل کتاب تم سے کوئی بات بیان کریں تو ان کی تصدیق نہ کرو اور نہ انہیں جھوٹا کہو۔

    اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب سے بات نقل کرنے کی رحصت بھی دی اور ساتھ ہی ساتھ اس کی تصدیق کرنے یا انہیں جھٹلانے سے بھی ممانعت کردی اگر ان سے بات نقل کرنے میں مطلقا فائدہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی رخصت دیتے ہوئے اس کا حکم نہ دیتے اور اگر صرف ان کے بیان کردینے سے ہی ان کی تصدیق جائز ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تصدیق سے منع نہ فرماتے غرضیکہ جن باتوں پر سچائی کا گمان ہو ان سے انسانی طبائع بعض حالات و مقامات میں مستفید ہوتی ہے۔۔۔

    چنانچہ ضعیف احادیث کسی مقدار اور تحدید پر مشتمل ہوں مثلا کسی خاص وقت میں خاص قراءت اور خاص طریقہ سے نماز کے متعلق بتایا جائے تو ضعیف حدیث پر اعتماد کرتے ہوئے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس پر عمل روانہ ہوگا اس لئے خاص طریقہ کا مستحب ہونا دلیل شرعی سے پایہ ثبوت کو نہیں پہنچا۔۔۔

    حاصل کلام!۔ ترغیب و ترہیب میں اس قسم کی روایات بیان کی جاسکتی ہیں اور حصول مقصد کے لئے استعمال کی جاسکتی ہیں تاہم ثواب اور عذاب کی مقدار کے تعین کا اعتقاد دلیل شرعی پر موقوف ہوگا۔( فتاوٰی شیخ الاسلام ١٨\٦٤۔٦٥)۔۔۔

    ضعیف حدیث کے بارے میں راجح یہی ہے کہ وہ نہ فضائل میں معتبر ہے اور نہ عقائد و احکام میں۔۔۔

    جمال الدین قاسمی نے ضعیف حدیث کے بارے میں پہلا مسلک یہ نقل کیا ہے کہ!۔
    لایعمل بہ مطلقا لا فی الاحکام ولافی الفضائل حکاہ ابن سید الناس فی عیون الاثر عن یحٰیی بن معین ونسبہ فی فتح المغیث لابی بکر بن العربی والظاھر ان مذھب البخاری و مسلم ذلک ایضا یدل علیہ شرط البخاری فی صحیحہ و تشیح الامام مسلم علی رواۃ الضعیف کما اسلفناہ وعدم اخر اجھما فی صحیھما شیئا منہ۔
    احکام ہوں یافضائل اس پر عمل نہیں کیا جائے گا اسے ابن سیدالناس نے عیون الاثر میں ابن معین سے نقل کیا ہے اور فتح المغیث میں (سخاوی) نے ابوبکر بن العربی سے منسوب کیا ہے اور ظاہر ہے کہ امام بخاری و مسلم کا یہی مسلک ہے صحیح بخاری کی شرط اس پر دلالت کرتی ہے امام مسلم نے ضعیف حدیث کے راویوں پر سخت تنقید کی ہے جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں دونوں اماموں نے اپنی کتابوں میں ضعیف روایات میں سے ایک روایت بھی فضائل و مناقب میں نقل نہیں کی ( قواعد التحدیث صفحہ ١١٣)۔۔۔

    عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مرسل روایات کو سننے کے ہی قائل نہ تھے۔
    دیکھئے مقدمی صحیح مسلم ح ٢١ النکت علی کتاب ابن الصلاح ٥٥٣/٢)۔۔۔

    معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہا ضعیف حدیث کو فضائل میں بھی حجت تسلیم نہیں کرتے تھے۔۔۔۔

    وسلام۔۔۔
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں