عمرہ کا احرام مسجد عائشہ سے باندھنا؟ عمرہ کی بار بار ادئیگی ۔ ۔

طالب علم نے 'آپ کے سوال / ہمارے جواب' میں ‏اگست 7, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960
    السلام علیکم محترم اہل علم!

    کافی عرصہ سے میرے دل میں کئی سوالات ہیں جو الجھن کا باعث بن رہے ہیں، ازراہ مہربانی کتاب و سنت سے ان کے جوابات دے کر ممنون فرمائیے۔ شکریہ!

    1) جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے کہ میقات مکہ سے باہر مختلف مقامات ہیں جب معتمر خواتین و حضرات عمرہ کے لئے عازم سفر ہوتے ہیں تو میقات پر احرام باندھ لیتے ہیں پھر عمرہ بجا لیتے ہیں، پھر بال ترشوا یا منڈوا لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دوسرا عمرہ کرنے کے لئے کیا انہیں مکہ سے باہر کسی میقات کی طرف جانا پڑے گا؟ یا وہ مسجد عائشہ سے ہی احرام باندھ کر آسکتے ہیں جیسا کہ بہت سے ملکوں(بشمول پاکستان) کے معتمرین ایسا کرتے ہیں؟ یا وہ صرف مسجد نبوی کی زیارت کے بعد واپسی کے سفر پر ہی ایسا کر سکتے ہیں؟ (ازروئے شریعت کونسی صورت جائز ہے اور کیوں؟)

    2) مسجد عائشہ (مقام تنعیم) میقات تو نہیں ہے یہ بات تو جانی بوجھی ہے مگر جو رخصت نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کو دی تھی کہ وہ بامر مجبوری عمرہ ادا نہ کرسکیں تھیں اور پھر بعد میں مقام تنعیم سے احرام باندھ کر آئی تھیں۔ کیا اس رخصت سے صرف خواتین فائدہ اٹھا سکتی ہیں ؟ یا اس رخصت سے دوسرا، تیسرا، چوتھا عمرہ کرنے والے حضرات و خواتین بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟

    3)نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت مبارکہ ایک سفر میں ایک ہی عمرہ کرنے کی تھی، اگر ایسا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر معتمرین جب ایک بار سعودی عربیہ جاتے ہیں تو اپنے 15-20 دن کے قیام کے دوران کئی بار عمرہ ادا کرتے ہیں اور مسجد عائشہ جا کر احرام باندھ کر کئی کئی بار عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں، قرآن و سنت کی رو سے یہ عمل کیسا ہے؟ جبکہ دیکھا گیا ہے کہ ابھی سر تازہ منڈا ہوا ہوتا ہے اور انہوں نے اگلے عمرہ کا احرام باندھا ہوتا ہے۔ ایک سفر میں کتنی بار عمرہ کیا جا سکتا ہے؟

    4) اپنے ملک سے بار بار سعودی عرب عمرہ یا ایک سے زیادہ حج کے لئے جانا کیسا ہے صاحب ثروت لوگوں کے لئے جبکہ آج کل یہ ذہنیت پنپ رہی ہے کہ زندگی میں ایک بار فرض حج کی ادائیگی کے بعد، جو لاکھوں روپے ہر بار عمرہ پر خرچ آتا ہے وہ کسی غریب کو دے دئیے جائیں۔ ازروئے قرآن و سنت رہنمائی فرمائیے کہ اس دور میں جبکہ غربت بہت زیادہ پھیلی ہوئے ہے نیز عمرہ و حج کا ثواب بھی اپنی جگہ ہے کونسا عمل سنت کے زیادہ قریب ہے؟
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. بشیراحمد

    بشیراحمد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 1, 2009
    پیغامات:
    1,568
    ٭عمرہ کیلئے راجح یہی ہے کہ میقات سے احرام باندہ کراحرام باندھا جائے
    ام المؤمنین عائشہ کا مقام تنعیم سے عمرہ ایک مخصوص اور مستثائی صورت ہے لیکن اگر کسی عورت یہی صورتحال درپیش ہو یعنی ایام مخصوصہ شروع ہونے کی وجہ طواف قدوم نھ کرسکے تو وہ بعد میں مقام تنعیم سے عمرہ کرسکتی ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ کے عمل سے ثابت ہے
    ٭ اھل علم نے عمرہ کے تکرار کو بدعت قراردیا کہ ایک ہی سفرمیں ایک سے زیادہ عمرے کئے جائیں آجکل کے مروجہ عمروں کی کا ثبوت نہ رسول اکرم سے اور نہ صحابہ کرام سے ملتا ہے
    مندرجہ ذیل فتاوجات ملاحظہ فرمائیں
    [font="_pdms_saleem_quranfont"]قال شيخ الإسلام ابن تيمية – رحمه الله - :
    قال أبو طالب : قلت لأحمد قال طاوس : " الذين يعتمرون من التنعيم لا أدري يؤجرون أو يعذبون " ، قيل له : لم يعذبون ؟ قال : لأنه ترك الطواف بالبيت ، ويخرج إلى أربعة أميال ، ويخرج ، إلى أن يجيء من أربعة أميال قد طاف مائتي طواف ، وكلما طاف بالبيت كان أفضل من أن يمشي في غير شيء " .
    فقد أقرَّ أحمد قول طاوس هذا الذي استشهد به أبو طالب لقوله ، رواه أبو بكر في الشافي .
    " مجموع الفتاوى " ( 26 / 265 ) .
    وقال – رحمه الله - :
    مثل أن يعتمر من يكون منزله قريباً من الحرم كل يوم ، أو كل يومين ، أو يعتمر القريب من المواقيت التي بينها وبين مكة يومان ، في الشهر خمس عمَر ، أو ست عمَر ، ونحو ذلك ، أو يعتمر من يرى العمرة من مكة كل يوم عمرة أو عمرتين : فهذا مكروه باتفاق سلف الأمة ، لم يفعله أحدٌ من السلف ، بل اتفقوا على كراهيته ، وهو وإن كان استحبه طائفة من الفقهاء من أصحاب الشافعي وأحمد : فليس معهم في ذلك حجةٌ أصلاً إلا مجرد القياس العام ، وهو أن هذا تكثيرٌ للعبادات أو التمسك بالعمومات في فضل العمرة ، ونحو ذلك .
    " مجموع الفتاوى " ( 26 / 270 ) .
    وقال ابن القيم – رحمه الله - :
    ولم يكن في عُمَره عمرةٌ واحدةٌ خارجا من مكة ، كما يفعل كثير من الناس اليوم ، وإنما كانت عمَرُه كلُها داخلاً إلى مكة ، وقد أقام بعد الوحي بمكة ثلاث عشرة سنة ، لم ينقل عنه أنه اعتمر خارجاً من مكة في تلك المدة أصلاً ، فالعمرة التي فعلها رسول الله صلى الله عليه وسلم وشرعها هي عمرة الداخل إلى مكة ، لا عمرة من كان بها فيخرج إلى الحل ليعتمر ، ولم يفعل هذا على عهده أحدٌ قط ، إلا عائشة وحدها بين سائر من كان معه ؛ لأنها كانت قد أهلت بالعمرة فحاضت فأمرها فأدخلت الحج على العمرة وصارت قارنة ، وأخبرها أن طوافها بالبيت وبين الصفا والمروة قد وقع عن حجتها وعمرتها ، فوجدت في نفسها أن يرجع صواحباتها بحج وعمرة مستقلين - فإنهن كن متمتعات ، ولم يحضن ، ولم يقرنَّ - وترجع هي بعمرة في ضمن حجتها ، فأمر أخاها أن يُعمرها من التنعيم ؛ تطييباً لقلبها ، ولم يعتمر هو من التنعيم في تلك الحجة ، ولا أحدٌ ممن كان معه .
    " زاد المعاد " ( 2 / 89 ، 90 ) .
    وسئل الشيخ محمد بن صالح العثيمين – رحمه الله – :
    ما هي المدة المحددة بعد أخذ العمرة، أتى شخص بعد أسبوع مثلاً، اعتمر قبل أسبوع، فهل يعتمر الآن ؟
    فأجاب : ذكر الإمام أحمد رحمه الله حدّاً مقارباً ، قال رحمه الله : إذا حمم رأسه ، أي : إذا اسود رأسه بعد حلقه فإنه يأخذ العمرة ؛ لأن العمرة لا بد فيها من تقصير أو حلق ، ولا يتم ذلك إلا بعد نبات الشعر ، وأما ما يفعله بعض الناس اليوم في رمضان ، أو في أيام الحج من تكرار العمرة كل يوم : فهذا بدعة ، وهم إلى الوزر أقرب منهم إلى الأجر ، فلذلك يجب على طلبة العلم أن يبينوا لهؤلاء أن ذلك أمر محدَث ، وأنه بدعي ، فليسوا أحرص من الرسول صلى الله عليه وعلى آله وسلم ، ولا من الصحابة ، ورسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم بقي في مكة تسعة عشرة يوماً في غزوة الفتح ولم يحدِّث نفسه أن يخرج ويعتمر ، وكذلك في عمرة القضاء أدى العمرة وبقي ثلاثة أيام ، ولم يعتمر ، وكذلك الصحابة رضي الله عنهم لم يكونوا يكررون العمرة .
    " لقاءات الباب المفتوح " ( 72 / السؤال رقم 20 ) .

    قلت وقت کی وجہ سے ترجمہ سے معذرت خواہ ہوں ماحصل ماقبل میں بیان کردیا ہے ۔
    واللہ اعلم
    [/FONT]
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  3. بشیراحمد

    بشیراحمد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 1, 2009
    پیغامات:
    1,568
    صاحب استطاعت پر جس پر حج فرض عین ہے وہ حج ہی کرے گا کیونکہ فرض ، نفل ( صدقہ وخیرات ) پر مقدم ہے
    لیکن اگر دونوں کی صورت نفلی ہے تو شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے حج کو افضل قراردیا ہے لیکن ان کے نزدیک بھی اگر اقرباء انتھائی اضطراری حالت میں ہیں تو صدقہ افضل ہے ۔
    آجکل زیادہ حج وعمرہ کرنا ایک شھرت ذریعہ بنا لیا گیا ہے لوگ اپنے نام کے سے پہلے حاجی اور الحاج جیسے القاب لگاکر فخرمحسوس کرتے ہیں اس قسم کے لوگوں کی باربار حج وعمرہ کے بجائے صدقہ وخیرات کی ترغیب دینی چاہئے کیون کہ معلوم نہیں کہ ریا کے جذبہ تحت ان کی عبادات کا فائدہ ان کو ملے گا یا نہیں لیکن کم ازکم ان کے خیرات وصدقات سے دیگر مسلمانوں کی تو معاونت ہوتی رہے گی ۔
    واللہ اعلم
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  4. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960
    جزاک اللہ شیخ بشیر، اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے اور دنیا و آخرت کے لیے نافع بنائے۔ ثم جزاک اللہ!
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں