ہلال اور وحدت ِاُمت

asimmithu نے 'نقطۂ نظر' میں ‏اگست 13, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    جناب چاند نکلنے ہی کی ہم بھی بات کررہے ہیں اور چاند نکلنے کی جگہ کو مطلع کہتےہیں
    اسی لیے صحابی رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا کہ ہمیں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ جب ہمارے مطلع سے چاند نکلے گا تو ہم روزہ رکھیں اور جب چاند نکلے گا تو ہم افطار کریں گے دور دراز کے علاقے والوں کا چاند کو دیکھنا ہمارے لیے معتبر نہیں ہے
    خوب سمجھ لیں
    اور اگر کوئی دلیل موجود ہے کہ
    دور دراز کے علاقے والوں کی رؤیت بھی معتبر ہوتی ہے
    یا
    تمام تر دنیا والے ایک ہی دن روزہ رکھیں تو
    ضرور بیان فرمائیں
     
  2. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
    الصلاۃ والسلام علی من لانبی بعد!۔۔۔

    صوموا الرؤیتہ وآفطرو الرؤیتہ (مشکواۃ مع المرقاۃ ٤٦٣جلد٤)۔۔۔
    ترجمہ!۔ روزہ رکھو چاند دیکھ کر اور رمضان کا اختتام بھی چاند دیکھ کر کرو۔۔۔

    کیا اس حدیث میں شہروں یا ملکوں کے مطلع کے اختلاف کی بات کی گئی ہے؟؟؟۔۔۔ مشہور حنفی عالم مولانا یوسف لدھیانوی مرحوم آپ کے مسائل اور اُنکا حل کے صفحہ ٢٦٠ جلد ٣ پر لکھتے ہیں کے اختلاف مطلع کا ظاہر مذہب میں کوئی اعتبار نہیں لیکن یہ متاخرین نے اختلاف مطلع کو معتبر کہا ہے لیکن فتوٰی ظاہر مذہب پر ہے پس معلوم ہوا کے راجح مذہب یہی ہے کے اختلاف مطلع کا اعتبار نہ کرتے ہوئے تمام اُمت مسلمہ ایک ہی دن روزہ رکھے اور ایک ہی دن عید منائے

    والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
     
  3. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    يوسف لدھیانوی حنفی کی بات رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی بات کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے
    کیونکہ
    صحابہ کرام کہہ رہے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کرنے کا حکم دیا ہے
    یعنی بعید علاقوں والوں کی رؤیت پر اکتفاء نہ کرنے کا
    فتدبر .........................!!!
     
  4. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
    والصلاۃ‌ والسلام علی من لانبی بعد!۔

    سعودی عرب کے مشہور ومعروف عالم علامہ محمد علی صابونی رحمہ اللہ اپنے رسالے “الصیام“ میں لکھتے ہیں کے۔۔۔

    یہاں ایک بہت بڑا اہم مسئلہ ہے اور وہ یہ کے اختلاف مطلع کا اعتبار ہے یا نہیں کیونکہ اسی مسئلے سے ہماری عبادات متعلق ہیں جیسا کے رمضان اور حج وغیرہ کا رؤیت سے تعلق ہے اس مسئلے میں جمہور وفقہاء کا قول یہ ہے کے اختلاف مطلع کا اعتبار نہیں ہے جمہور مالکیہ، جمہور حنابلہ، اور جمہور حنفیہ فقہاء کا قول یہی ہے کے کسی بھی اسلامی ملک وشہر میں چاند نظر آجائے تو وہ تمام مسلمانوں کے لئے ہے اسکی دلیل یہ ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا فرمان ہے کے (صوموا لرؤیتہ وافطروا الرؤیتہ) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے تمام مسلمانوں کو مخاطب کیا ہے یہ خطاب اہل شام، اہل مدینہ یا اہل بصرہ کے ساتھ خاص نہیں ہے جس طرح تمام مسلمانوں کا عرفہ ایک ہوتا ہے اسی طرح ان کی قبربانی والی عید بھی ایک ہی ہونی چاہئے۔۔۔

    اسکے بعد علامہ صابونی رسالہ الصیام صفحہ ٣٢ میں فرماتے ہیں کے
    والی زمن قریب کان المسلمون یصومون ویفطرون فی یوم واحد فی فی ایام الدولہ العثمانیہ کانت آیام الصیام وآیام الاعیاد متفقہ ومتحدہ وھذا بلاشک مظھر رائع من مظاھر وحدہ المسلمین فی اقطار العالم ینبغی ان یاخذبہ حکام المسلمین فی شتی الاقطار والدیار۔

    یعنی زمانہ ماضی قریب کی بات ہے کے دولت عثمانیہ ترکیہ میں پورے ملک کے مسلمان ایک دن روزہ شروع کرتے تھے اور ایک دن عید کرتے تھے اور آج کے مسلمانوں کے لئے زندہ مثال ہے مسلمان اگر دولت عثمانیہ میں ایسی وحدت ویگانگت کا عملی نمونہ پیش کرسکتے ہیں جب کے اس وقت آج کی طرح ذرائع بھی نہیں تھے تو آج ممالک اسلامیہ اپنی اپنی انفرادی وقومی حکومتوں کو برقرار رکھتے ہوئے چاند کے مسئلے میں ایسی وحدت ویگانگت کا عملی نمونہ کیوں پیش نہیں کرسکتے جب کے آج ذرائع ابلاغ اس وقت کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔۔۔

    والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
     
  5. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    آپکی سابقہ ساری پوسٹ مردود ہے کیونک آپ نے کوئی دلیل پیش نہیں کی
    یاد رہے کہ امت میں سے کسی کا بھی عمل وقول حجت ودلیل نہیں ہے
    حجت و دلیل صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہے
    اگر کتاب وسنت سے آپکے پاس کوئی دلیل موجود ہے تو بیان کریں وگرنہ
    میں تو اس بات پر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا حکم ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی زبانی نقل کر چکا ہوں اور وہ صحت کے اعلى درجہ پر ہے
    لہذا آپ کے پاس اگر کوئی " دلیل " ہے تو پیش کریں
    فإن لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ اعدت للکافرین .............
     
  6. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
    الصلاہ والسلام علی من لانبی بعد!۔۔۔

    اختلاف المطالع اور فقہ مالکی؛

    امام ابن عبدالبر رحمہ فرماتے ہیں کہ؛
    فکان مالک فیما رواہ عنہ ابن القاسم والمصریون اذا ثبت عند الناس ان اھل بلد راوہ فعلیھم القضاء لذالک الیوم الذی افطروہ وصامہ غیرھم برویہ صحیحہ وھو قول اللیث والشافعی والکوفیین و احمد (الاستذکار صفحہ ٢٩ جلد ١)۔

    یعنی امام مالک نے کہا کے مسمانوں میں کسی شہر کے مسلمان نے چاند دیکھا ان مسلمانوں نے اس دن کا روزہ رکھا تو جس کسی دوسرے شہر کے مسلمان نے چاند نہ ہونے کی وجہ سے وہاں اس دن روزہ نہیں رکھا اُن کو اس دن کی قضاء کرنی چاہئے اور دوسرے شہر کے مسلمانوں کی رویت پر عمل کرنا چاہئے اسکے بعد امام ابن عبدالبر لکھتے ہیں کے امام للیث بن سعد، امام شافعی، امام احمد اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے۔۔ امام مالک کا یہ قول عبدالرحمٰن بن قاسم نے نقل کیا ہے جبکہ اہل مدینہ نے امام مالک سے یہ قول نقل کیا ہے کے ایک شہر والوں کی رویت دوسرے شہر والوں کے لئے معتبر نہیں البتہ اگر مسلمانوں کا امام وخلیفہ دوسرے شہر کے والوں کی رویت شہروالوں کے مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم دے تو پھر ان مسلمانوں پر اس خلیفہ کا حکم ماننا واجب ہے۔۔۔

    یعنی روایت چلیں اب پلٹتے ہیں آپ کے موقف کی طرف وہ حدیث معہ ترجمع یہاں پیش کردیں شکریہ

    والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔


    ایک اور بات وہ سوالات میں نے سوال و جواب والے سیکشن میں پوچھے تھے مگر وہاں‌ پر وہ موضوع مقفل ہوگیاـــ اگر وہی جواب آپ یہاں دے دیتے تو میرے مزید شبہات دور ہوجاتےــ
     
    Last edited by a moderator: ‏اگست 30, 2010
  7. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
    الصلاۃ والسلام علی من لانبی بعد!۔۔۔
    صوموا الرؤیتہ وآفطرو الرؤیتہ (مشکواۃ مع المرقاۃ ٤٦٣جلد٤)۔۔۔
    ترجمہ!۔ روزہ رکھو چاند دیکھ کر اور رمضان کا اختتام بھی چاند دیکھ کر کرو۔۔۔

    اس کا جواب باقی ہے۔
     
    Last edited by a moderator: ‏اگست 30, 2010
  8. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
    الصلاۃ والسلام علی من لانبی بعد!۔۔۔

    عن مسروق قال دخلت علی عائشہ یوم عرفہ فقالت اسقوا مسروقا سویقا واکثروا حلواہ قال فقلت انی لم یمنعنی ان اصوم الیوم انی خفت ان یکون یوم النحر فقالت عائشہ النحر یوم ینحر الناس والفطر یوم یفطر الناس (رواہ البیھقی، السسن الکبری ٢٥٢ جلد ٤)۔۔۔

    مسروق کہتے ہیں کے میں عرفہ کے دن بی بی عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس گیا بی بی نے فرمایا مسروق کو ستو بنا کر کھلاؤ اور اُسکو میٹھا زیادہ کرو، مسروق نے کہا میں نے آج روزہ اس لئے نہیں رکھا کے کہیں یہ قربانی کا دن نہ ہو بی بی عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا قربانی کا دن وہ ہے جس دن سب لوگ قربانی کریں اور عید الفطر کا دن وہ ہے جب سب لوگ عید منائیں۔

    اس سے معلوم ہوتا ہے کے جب کسی مسلمان ملک اپنی یقینی رؤیت پر عمل کرتے ہوئے روزہ رکھیں یا عید کریں تو روئے زمین پر جس مسلمان کو بھی یہ خبر پہنچی ہو اُس پر مسلمانوں کی اس جماعت کے ساتھ روزہ رکھنا یا عید کا موقعہ ہو تو عید منانا واجب ہے

    والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
     
  9. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    اس حدیث میں چاند کی رؤیت سے متعلقہ کوئی بات نہیں ہے
    بلکہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب لوگ عید منائیں تم بھی عید مناؤ اور یہی بات ہم کہتے ہیں کہ جب سارے لوگ پاکستان میں عید منائیں تو تم بھی ا نکے ساتھ ہی عید مناؤ
    لیکن اسکے باوجود آپ کے ہم نوا لوگ ایک دن قبل ہی عید منا لیتے ہیں
    خوب سمجھ لیں
    اگر آپ کہیں کہ یہاں لوگوں سے مراد ساری دنیا کے لوگ ہیں تو یہ بات شرعا وعقلا ناممکن ہے کیونکہ کسی جگہ پر جس وقت یوم ہوتا ہے اسی وقت دوسری جگہ پر لیلۃ ہوتی ہے
    اور
    یہ نظریہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بھی خلاف ہے جسے میں بار بار واضح کرچکا ہوں
    لہذا اس موضوع سے متعلقہ اگر کوئی ایسی دلیل آپکے پاس موجود ہے جو آپکے حق میں جاتی ہو تو پیش فرمائیں
    یہ روایت آپکی دلیل تب بن سکتی تھی جب اسکے الفاظ یوں ہوتے
    الفطر یوم یفطر ناس العالم
    یا
    الفطر یوم یفطر الناس کلہم فی الدنیا
    أو ما یفید مفادھا
    فتدبر ..........!!!
     
  10. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    اس حدیث میں تو ہر شخص اور ہر شہر کے مطلع کی بات کہی گئی ہے
    کیونکہ اہل ایمان میں سے ہر ایک کو خطاب ہے کہ چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور چاند دیکھو تو افطار کر,
    اور قافلہ والی حدیث اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ قرب و جوار کے لوگوں میں سے کسی ایک مؤمن وموحد کی رؤیت کافی ہے
    اور معاویہ رضی اللہ عنہ والی حدیث وضاحت کررہی ہے کہ دور دراز کے علاقوں والوں کی رؤیت ایکدوسرے کے لیے معتبر نہیں ہے اور اسی کا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے
    خوب سمجھ لیں
     
  11. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    آپ کا پیش کردہ امام مالک کاقول اس وجہ سے مردود ہے کہ وہ دین میں حجت نہیں لہذا ناقابل التفات ہے


    روایت تو میں پیش کرچکا ہوں اور اس موضوع کے کے پہلے مشارکہ میں اسکا ترجمہ بھی موجود ہے شاید آپ جلد بھول جاتے ہیں
    وہ سوالات اس موضوع سے متعلقہ نہیں ہیں لہذا میں انکا یہاں جواب نہ دوں گا
    اور وہاں اس لیے مقفل کیا گیا ہے شاید کہ آپ کا سوال کرنے کا انداز دین میں عقیدہ وعمل کو سمجھنے والا نہ تھا
    مثلا آپ کو چاہیے تھا کہ یوں سوال کرتے
    صدق اللہ العظیم کہنے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟؟
    وعلى ہذا القیاس آپکے باقی سوال بھی ہوتے تو میرے یقین کے مطابق کبھی وہ مقفل نہ کیا جاتا
    خوب سمجھ لیں
     
  12. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
    الصلاۃ والسلام علی من لانبی بعد!۔

    لوگ عید کب مناتے ہیں؟؟؟۔۔۔ اُسی وقت جب چاند کی خبر اُن کو مل جاتی ہے دوسری بات کے کیا عید منانے والے صرف پاکستان میں ہی بستے ہیں؟؟؟۔۔۔ یا پھر اُس حدیث کو من وعن تسلیم کرنے والے مسلمانوں کا تعلق پاکستان سے خاص کردیا گیا ہے۔۔۔ حیرت ہے اگر احادیث کے مفہوم اس ڈھنگ سے نکالے جائیں تو پھر اس مفہوم کے دوسرے پہلو کا مطلب یہ ہے کے آپ جمہوریت کے قائل ہورہے ہیں۔۔۔ پاکستان، افغانستان، عراق، سعودیہ عربیہ۔۔۔ خیر یہ ایک الگ موضوع بن جائے گا۔۔۔

    شکریہ۔۔۔
    درست فرمایا کے کسی جگہ پر جس وقت یوم ہوتا ہے اسی وقت دوسری جگہ پر لیلۃ ہوتی ہے۔۔۔ مگر کیا سعودی عرب سے لیکر ہندوستان تک یوم اور لیلۃ کا فرق ہے؟؟؟۔۔۔ اور یوم اور لیلۃ کا تعلق سورج سے چاند سے نہیں۔۔۔ ایک مثال سے بات کو مزید واضح کردوں کے جب سورج گرہن پاکستان میں ہوتا ہے تو کیا وہ سعودی عرب میں بھی ہوتا ہے؟؟؟۔۔۔ اور ہاں شیخ صاحب دنیا جو مومن کے لئے قید خانہ ہے اُس میں کچھ جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں چھ چھ ماہ تک سورج غروب ہونے کا نام نہیں لیتا۔۔۔ وکی پیڈیا سے اس سلسلے میں مدد لی جاسکتی ہے۔۔۔ مدد سے مراد غیر اللہ سے مدد نہیں‌ سمجھا کیونکہ فہم میں کبھی کبھی غلط کا ہوجانا لازمی امر ہے کیونکہ ہم معصوم نہیں ‌ہیں۔۔۔ مزید کے جیسا کے تاویل آپ نے پیش کی روایت کو لیکر کے لوگوں سے مراد ساری دنیا کے لوگ یہاں مراد نہیں پھر ‌‌‌بھائی حدیث کا اطلاق کس پر ہوگا ساری دنیا کے وہ کون سے لوگ ہیں؟؟؟۔۔۔ جو اس روایت سے مراد لئے جائیں گے۔۔۔ اور یاد رہے فہم سے مفہوم اخذ کے اختلاف پر میں پہلے دلیل پیش کرچکا ہوں۔۔۔ سورۃ النصر۔۔۔

    صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ کا مطلب ہرگز یہ نہیں کے ہر ملک وشہر کی اپنی اپنی رؤیت ہے خواہ وہ ایک دوسرے کے قریب ترین بھی کیوں نہ ہوں اور اس بات کا ثبوت کے ہر شہر کی اپنی اپنی رؤیت نہیں یہ حدیث ہے۔۔۔

    عن ابن عباس قال جاء الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم اعرابی فقال ابصرت الھلال الیلہ فقال تشھد آن لا الہ الا اللہ وان محمد اعبدہ ورسولہ قال نعم قال قم یا فلان فناد فی الناس فلیصوموا غدا۔(رواہ ابن حبان صفحہ ١٨٧ جلد ٥)۔۔۔

    ابن عباس رضی افرماتے ہیں کے ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا میں نے رات کو چاند دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کے تم گواہی دیتے ہو کے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسکے بندے اور رسول ہیں۔ اس نے کہا ہاں میں گواہی دیتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا جاؤ لوگوں میں اعلان کردو کے وہ کل روزہ رکھیں۔

    اس حدیث میں ہے کہ مدینہ والوں نے رمضان کا چاند نہیں دیکھا مدینہ سے باہر کسی اعرابی ودیہاتی نے دیکھا اس نے اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر گواہی دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی گواہی قبول فرماتے ہوئے اگلے دن مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دے دیا، اس سے صاف ظاہر ہے کے ہر شہر وملک والوں کی اپنی اپنی رؤیت ضروری نہیں ہے بلکہ اگر کسی وجہ سے انہوں نے چاند نہیں بھی دیکھا لیکن اس شہر کے باہر والوں میں سے کسی نے دیکھ لیا تو اُن شہر والوں کو اسکی گواہی قبول کرنی ہوگی اور کسی ملک وشہر کے باہر رہنے والوں کی قرآن و سنت میں کوئی تحدید و تعین نہیں۔ اگر ہے تو دلیل پیش کردیجئے۔۔۔ کے وہ اس شہر وملک کے قریب رہتے ہوں یا بعید جنہوں نے چاند دیکھا ہے یعنی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف یہ ثابت ہے کے چاند دیکھنے والا مسلمان ہونا چاہئے اور بس اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے یہ نہیں پوچھا کے تم کہاں سے آئے ہو بلکہ یہ سوال کیا کے تم مسلمان ہو یا نہیں۔۔۔

    اگر کوئی اپنے عقلی فہم سے مفہوم اس طرح اخذ کرے کے اسکا قریب سے آنا واضح ہے کیونکہ اس نے رات کو چاند دیکھا اور صبح کے بعد کسی وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا، اگر وہ رات کو بھی چلا ہو اور دن کا بھی کچھ حصہ تو زیادہ سے زیادہ بیس یا تیس میل کا سفر کیا ہوگا اس سے زیادہ نہیں لہذا ثابت ہوا کے وہ قریب سے آیا تھا جہاں سے مدینہ والوں اور اسکی رہائش کے بابین مطلع کا ایک ہونا یقینی بات ہے اس کا جواب یہ ہے کے اسمیں شک نہیں کے یہ شخص ایسی جگہ سے آیا ہوگا جس جگہ اور مدینہ کے مابین مطلع کا ایک ہونا واضح ہے لیکن اس حدیث کا مطلب یا نفسی مفہوم یہ ہرگز نہیں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی شہادت مطلع کے ایک ہونے کی وجہ سے قبول کی تھی اور اگر کوئی شخص ایسی جگہ سے آتا جس جگہ اور مدینہ کے مابین اختلاف مطلع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکی شہادت قبول نہ کرتے اس قسم کا مفہوم اس حدیث اور اس جیسی دوسری حدیث سے نکالنا بلادلیل ہے مطلع کے ایک ہونے یا مختلف ہونے کی بحث متاخرین کی ایجاد ہے سلف میں اس قسم کی بحث کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اور اگر ملتا ہے تو آپ سے گزارش ہے دلیل پیش کیجئے۔۔۔ ہاں البتہ صحابہ کرام روزہ یا قربانی تب کرتے جب سارے مسلمان کرتے وہ اوہر حضرت عائشہ والی روایت دلیل کے کافی ہے۔۔۔۔ جو پیش کی جاچکی ہے۔۔۔

    محدث علامہ ناصر الدین البانی مرحوم رحمہ اللہ علیہ نے المنتہ کے صفحہ ٣٩٨ پر اپنا ایک قول رقم کیا ہے ہوسکے تو پڑھ لیجئے گا۔۔۔ لکھنا مناسب اس لئے سمجھا کے ہوسکتا ہے مخالفین کو موقع مل جائے لب کشائی کا۔۔۔

    اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پرپہنچ چکے تھے (العمران-١٠٣)۔۔۔

    یہ وصیت بھی ہے اور نصیحت بھی۔۔۔

    وماعلینا البلاغ۔۔۔
    واللہ اعلم بالثواب۔۔۔

    والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
     
    Last edited by a moderator: ‏اگست 31, 2010
  13. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
    الصلاۃ والسلام علی من لانبی بعد!۔۔۔

    بھول جانے والا تعنہ بیھ سر آنکھوں پر لیکن میں نے گزرے صفحات میں صرف آپ کی جانب سے عربی متن کو پایا ہے اردو ترجمہ کو نہیں۔۔۔

    چلیں چھوڑیں ویسے جو دعوٰی آپ کرتے ہیں قال اللہ تعالی وقال الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے میں کیا سمجھوں؟؟؟۔۔۔‌ کیونکہ اپنے فہم کو درست ثابت کرنے کے لئے آپ بھی روایت کا سہارا لے رہے ہیں حدیث کا نہیں۔۔۔ اور جیسا کے میں‌ پہلے کہہ چکاہوں کے حدیث کے فہم سے مفہوم جو آپ نے اخذ کیا ہے کیا یہ ہی مفہوم حضرت معاویہ والی روایت میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کیا ہوگا؟؟؟۔۔۔ وہی پرانا سوال دلیل پیش کیجئے۔۔۔

    والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
     
    Last edited by a moderator: ‏اگست 31, 2010
  14. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ
    کیا کمال ڈھٹائی سے بحث برائے بحث پر تلے ہوئے ہیں
    ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس حکم کو رسول اللہ صلى اللہ کی وسلم کی طرف منسوب کیا ہے
    میرا صرف ایک سوال ہے آپ سے کہ
    کیا اس قسم کی روایت کو مرفوع روایت نہیں کہتے ؟؟؟
    فن حدیث کی کسی بھی کتاب کو اس سوال کا جواب دینے سے قبل پڑھ لیجئیے گا
    تاکہ فضول گفتگو سے آپ میرا اور اپنا اور قارئین کا وقت ضائع نہ فرما سکیں
    جزاکم اللہ خیرا
     
  15. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
    الصلوۃ والسلام علی من لانبی بعد!۔۔

    محترم میں نے شاید آپ سے درخواست کی تھی کے گفتگو کو غیرضروری محاورں لت پت نہ کیا جائے مگر الحمداللہ آسمان کا تھوکا منہ پر ہی آکے گرتا ہے کیونکہ اس سے پچھلی تحریر میں بھول جانے کا تعنہ بھی آپ نے ہی مجھےدیا تھا۔۔۔

    جسے آپ ڈھٹائی کہتے ہیں ضروری نہیں کے میں بھی اس سے متفق ہوجاؤں۔۔۔ میری پیش کی جانے والی دلیلیں آپ کو ڈھٹائی معلوم ہورہی ہیں۔۔۔

    میں نے کب اس بات کا انکار کیا۔۔۔ میں بھی تو وہی دلیل دے رہا ہوں چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید مناؤ۔۔۔ مطلع کو جواز تو آپ نے بنایا تھا اس روایت کو لیکر۔۔۔

    جزاکم اللہ خیرا

    والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
    ‌‌‌‌‌
     
  16. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں !!!
    نہ انکار نہ اقرار وتسلیم
    یہ عجب ڈرامہ ہے جناب
    ایک طرف تو آپ کہہ رہے ہیں کہ
    اور دوسری طرف :
    محترم جب صحابی رسول صلى اللہ علیہ وسلم صرف یہ کہہ دے کہ ہمیں اس بات کا حکم دیا جاتا تھا تو اہل فن کے نزدیک وہ روایت بھی مرفوع یعنی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا قول ہوتی ہے
    اور یہاں تو واضح لفظ موجود ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی حکم دیا ہے
    اور پھر سارے مدینہ کے صحابہ کرام کا عمل موجود ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ اکیلے نہیں ہیں
    خوب سمجھ لیں
     
  17. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    اللہ اللہ استاداں حدیث کے اخلاق عالی کا نظارہ تویہاں‌ہورہاہے۔ہم توچلوخیر دنیادارٹھہرے لیکن یہ استادان حدیث کو کیاہوگیاہے جو اس سطح پر اترآئے اور وہ بھی اس حال میں کہ شداد بن حرب نے کوئی بھی ایک لفظ ایساتونہیں‌کیاجو ان کے طبع نازک پر گراں گزرتاہے یااس سے ان کے وقار مین ٹھیس پہنچ سکتا۔
    عبرت نصیحت سب موجود ہے۔
     
  18. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔

    عن کریب آن اُم الفضل بنت الحارث رضی اللہ عنہ بعثتہ الی معاویہ رضی اللہ عنہ بالشام قال فقدمت الشام فقضیت حاجتھا واستھل علی رمضان وآنا بالشام فرآیت الھلال لیلہ الجمعہ ثم قدمت المدینہ فی آخر الشھر فسالی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ثم ذکر الھلال فقال متی رایتم الھلال فقلت رآینا لیلہ الجمعہ فقال انت رایتہ فقلت نعم راہ الناس وصاموا وصام معاویہ رضی اللہ عنہ فقال لکنا رایناہ لیلہ السبت فلانزال نصوم حتی نکمل ثلاثین اونراہ فقلت اولا تکتفی برؤیہ معاویہ رضی اللہ عنہ وصیام فقال لاھکذا امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رواہ مسلم صفحہ ٢١١ جلد ٤)۔۔۔

    یعنی کریب مولٰی ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کے مجھے اُم فضل بن حارث رضی اللہ عنہ نے شام میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا میں نے اسکا کام پورا کیا وہاں شام میں رمضان کا چاند نظر آگیا میں نے یہ چاند جمعہ کی رات دیکھا پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ آیا تو مجھ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا تم نے کب چاند دیکھا؟؟؟۔۔۔ میں نے کہا جمعہ کی رات کو اُنہوں نے کہا کیا تم نے بھی دیکھا میں نے کہا ہاں لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا اور امیر المومنین معاویہ نے روزہ رکھا، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ہم نے ہفتے کی رات کو چاند دیکھا تھا اس لئے ہم تیس (٣٠) روزے پورے کریں گے یا اس سے قبل چاند دیکھ لیں گے، میں نے کہا کے کیا آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت کا اعتبار نہیں کرتے، اُنہوں نے کہا نہیں ہم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حکم ہے اس حدیث سے اُن لوگوں نے دلیل پکڑی جو کہتے ہیں ہر شہر و ملک کے لئے اپنی رؤیت ہی معتبر ہے دوسرے ملک وشہر والوں کی رؤیت ان کے لئے نہیں۔۔۔

    جو لوگ یہ کہتے ہیں کے ایک ملک وشہر والوں کی رؤیت دوسرے ملک وشہر والوں کے لئے بھی ہے اس میں ملکوں اور شہروں کے قرب وبعد کا کوئی اعتبار نہیں وہ اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کے ابن عباس رضی اللہ عنہی کی یہ اپنی رائے ہے اور اُنہوں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیا ہے تو اس سے مراد کوئی ایسی حدیث نہیں جو ان کو معلوم ہو اور جس کا مطلب یہ ہو کے دور والوں کی رؤیت کا کوئی اعتبار نہیں اور ہر ایک ملک وشہر کی رؤیت اسکے اپنے لئے ہے دوسروں کے لئے نہیں بلکہ قرین قیاس یہی بات ہے کے انہوں نے اس مشہور ومعروف متفق علیہ حدیث کی طرف اشارہ کیا تھا جس کے الفاظ یہ ہیں۔۔

    صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ (مشکواہ مع المراقاہ صفحہ ٤٦٣ جلد ٤)۔۔۔
    یعنی روزہ رکھو چاند دیکھ اور رمضان کا اختتام بھی چاند دیکھ کر کرو۔۔۔

    اس حدیث سے اُنھوں نے یہ استدلال کیا کے ہر ملک وشہر کی اپنی رؤیت ہے حالانکہ اس حدیث میں اس بات کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے اور اگر اس حدیث کا یہی مطلب لیا جائے تو پھر ہر ملک وشہر کی رؤیت صرف اُسکے شہریوں کے لئے ہی ہوگی خواہ ملک وشہر ایک دوسرے کے قریب تر بھی کیوں نہ ہوں اور ان کا مطلع ایک بھی کیوں نہ ہو کیونکہ اس حدیث میں ملکوں اور شہروں کے اتحاد کی بات نہیں کی گئی بلکہ یہاں رؤیت کو معتبر قرار دیا گیا ہے اس حدیث کے ظاہر مفہوم کے اعتبار سے دو ملکوں یا دو شہروں کے مابین اگر مطلح کے اتحاد کے باوجود اگر ایک میں چاند نظر آگا اور دوسرے میں مطلع ابرآلود ہونے کے باعث چاند نظر نہیں آیا تو اُن کو جنہوں نے چاند نہیں دیکھا اگلے دن چاند کا انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ جب ہر ملک وشہر کی اپنی رؤیت ہے تو پھر ان کی رؤیت نہ ہونے کی وجہ سے ان پر رمضان یا شوال کے تیس دن پورے کرنے ہونگے حالانکہ اسلام میں کسی کا بھی یہ مسلک نہیں یے اس سے معلوم ہوا کے جو حدیث اوپر پیش کی گئی ہے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کے ہر ملک وشہر کی اپنی رؤیت ہے خواہ وہ ایک دوسرے کے قریب ترین بھی کیوں نہ ہوں اور اس بات کے ثبوت کے ہر شہر کی اپنی رؤیت نہیں ہے یہ حدیث دوبارہ پیش کرتا ہوں۔۔۔

    عن ابن عباس قال جاء الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم اعرابی فقال ابصرت الھلال الیلہ فقال تشھد آن لا الہ الا اللہ وان محمد اعبدہ ورسولہ قال نعم قال قم یا فلان فناد فی الناس فلیصوموا غدا۔(رواہ ابن حبان صفحہ ١٨٧ جلد ٥)۔۔۔

    ابن عباس رضی افرماتے ہیں کے ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا میں نے رات کو چاند دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کے تم گواہی دیتے ہو کے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسکے بندے اور رسول ہیں۔ اس نے کہا ہاں میں گواہی دیتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا جاؤ لوگوں میں اعلان کردو کے وہ کل روزہ رکھیں۔

    اس حدیث میں ہے کہ مدینہ والوں نے رمضان کا چاند نہیں دیکھا مدینہ سے باہر کسی اعرابی ودیہاتی نے دیکھا اس نے اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر گواہی دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی گواہی قبول فرماتے ہوئے اگلے دن مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دے دیا، اس سے صاف ظاہر ہے کے ہر شہر وملک والوں کی اپنی اپنی رؤیت ضروری نہیں ہے بلکہ اگر کسی وجہ سے انہوں نے چاند نہیں بھی دیکھا لیکن اس شہر کے باہر والوں میں سے کسی نے دیکھ لیا تو اُن شہر والوں کو اسکی گواہی قبول کرنی ہوگی اور کسی ملک وشہر کے باہر رہنے والوں کی قرآن و سنت میں کوئی تحدید و تعین نہیں۔ اگر ہے تو دلیل پیش کردیجئے۔۔۔ کے وہ اس شہر وملک کے قریب رہتے ہوں یا بعید جنہوں نے چاند دیکھا ہے یعنی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف یہ ثابت ہے کے چاند دیکھنے والا مسلمان ہونا چاہئے اور بس اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے یہ نہیں پوچھا کے تم کہاں سے آئے ہو بلکہ یہ سوال کیا کے تم مسلمان ہو یا نہیں۔۔۔

    اگر کوئی اپنے عقلی فہم سے مفہوم اس طرح اخذ کرے کے اسکا قریب سے آنا واضح ہے کیونکہ اس نے رات کو چاند دیکھا اور صبح کے بعد کسی وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا، اگر وہ رات کو بھی چلا ہو اور دن کا بھی کچھ حصہ تو زیادہ سے زیادہ بیس یا تیس میل کا سفر کیا ہوگا اس سے زیادہ نہیں لہذا ثابت ہوا کے وہ قریب سے آیا تھا جہاں سے مدینہ والوں اور اسکی رہائش کے بابین مطلع کا ایک ہونا یقینی بات ہے اس کا جواب یہ ہے کے اسمیں شک نہیں کے یہ شخص ایسی جگہ سے آیا ہوگا جس جگہ اور مدینہ کے مابین مطلع کا ایک ہونا واضح ہے لیکن اس حدیث کا مطلب یا نفسی مفہوم یہ ہرگز نہیں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی شہادت مطلع کے ایک ہونے کی وجہ سے قبول کی تھی اور اگر کوئی شخص ایسی جگہ سے آتا جس جگہ اور مدینہ کے مابین اختلاف مطلع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکی شہادت قبول نہ کرتے اس قسم کا مفہوم اس حدیث اور اس جیسی دوسری حدیث سے نکالنا بلادلیل ہے مطلع کے ایک ہونے یا مختلف ہونے کی بحث متاخرین کی ایجاد ہے سلف میں اس قسم کی بحث کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اور اگر ملتا ہے تو آپ سے گزارش ہے دلیل پیش کیجئے۔۔۔ ہاں البتہ صحابہ کرام روزہ یا قربانی تب کرتے جب سارے مسلمان کرتے وہ اوہر حضرت عائشہ والی روایت دوبارہ پیش کی جاتی ہے۔۔۔

    عن مسروق قال دخلت علی عائشہ یوم عرفہ فقالت اسقوا مسروقا سویقا واکثروا حلواہ قال فقلت انی لم یمنعنی ان اصوم الیوم انی خفت ان یکون یوم النحر فقالت عائشہ النحر یوم ینحر الناس والفطر یوم یفطر الناس (رواہ البیھقی، السسن الکبری ٢٥٢ جلد ٤)۔۔۔

    مسروق کہتے ہیں کے میں عرفہ کے دن بی بی عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس گیا بی بی نے فرمایا مسروق کو ستو بنا کر کھلاؤ اور اُسکو میٹھا زیادہ کرو، مسروق نے کہا میں نے آج روزہ اس لئے نہیں رکھا کے کہیں یہ قربانی کا دن نہ ہو بی بی عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا قربانی کا دن وہ ہے جس دن سب لوگ قربانی کریں اور عید الفطر کا دن وہ ہے جب سب لوگ عید منائیں۔

    اس سے معلوم ہوتا ہے کے جب کسی مسلمان ملک اپنی یقینی رؤیت پر عمل کرتے ہوئے روزہ رکھیں یا عید کریں تو روئے زمین پر جس مسلمان کو بھی یہ خبر پہنچی ہو اُس پر مسلمانوں کی اس جماعت کے ساتھ روزہ رکھنا یا عید کا موقعہ ہو تو عید منانا واجب ہے۔۔۔ پلٹتے ہیں موضوع کی طرف۔۔۔

    اب بحث اس بات پر ہے کہ ابن عباس رضی اللہ نے اس حدیث سے جو مفہوم سمجھا وصحیح بھی ہے یا نہیں یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب پورے عالم السلام پر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی حکومت تھی اور اسوقت تمام اُمت مسلمہ کے وہی خلیفہ تھے اس کے باوجود ابن عباس رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ اور مسلمانوں کے دارالخلافہ کی رؤیت کو قبول نہیں کیا۔۔۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کے ابن عباس یہ سمجھتے تھے کے مسلمانوں کی سلطنت کے ایک ہونے کے باوجود اسلامی سلطنت کے ہر شہر کی اپنی رؤیت ہے اگر انکا مطلع ایک ہی کیوں نہ ہو ویسے بھی اہل مدینہ اور اہل شام کے مطالع کے مختلف ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کیونکہ شام کا شہر دمشق مدینہ سے شمال میں ہے سیدھا مغرب میں نہیں اس لئے اگر دمشق میں چاند تھا تو اُسے مدینہ کے افق پر بھی ہونا چاہئے تھا یعنی اس موقع پر چاند کا دمشق میں دکھائی دینا اور مدینہ میں نظر نہ آنا مطالع کے اختلاف کا سبب نہیں بلکہ کسی اور سبب تھا یعنی اس وقت چاند مدینہ کے اُفق پر ضرور موجود تھا مگر غالبا مطلع صاف نہ ہونے کی وجہ سے دکھائی نہیں دیا لہذا اس حدیث میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کا صاف مطلب یہی ہے کے ہر شہر والوں کی خواہ اُن کا مطلّ ایک ہو یا مختلف ان کی اپنی اپنی رؤیت ہے یعنی ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر والوں کے لئے معتبر نہیں یعنی اس حدیث سے مطلع کے متفق اور مختلف ہونے کی بحث نکالنا بلادلیل ہے بلکہ میں تو کہوں کے یہ سبب انتشار اور فتنے کا سبب بن سکتا ہے۔۔۔

    اب وہ مثال- کیا پدی کیا پدی کا شوروہ۔۔۔
    ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول پر اہل علم شخصیات کی رائے۔

    امام شوکانی رحمہ اللہ اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کے۔۔۔
    جب کسی شہر وملک والے چاند دیکھ لیں تو تمام ممالک اسلامیہ والے اور تمام شہر والے اسکی مؤافقت پر مجبور ہونگے اسلئے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ

    صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ
    تمام بلاد وتمام شہروں کیلئے عام ہیں ان الفاظ میں کسی شہر یا ملک کی تخصیص نہیں ہے اسلئے مسلمانوں کے کسی ملک وشہر کی رؤیت تمام مسلمانوں کیلئے ہے اور اسکے برعکس نظریہ رکھنے والوں کا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال جس میں انہوں نے مدینہ میں رہتے ہوئے اہل شام کی رؤیت کو قبول نہیں کیا تھا اور کہا تھا کے ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی تعلیم ہے۔۔۔ لیکن خوب سمجھانے والے بھی خوب سمجھ لیں۔۔۔

    اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی ایسے الفاظ نقل نہیں کئے جن سے یہ ظاہر ہو کے ہم اپنے علاوہ کسی دوسرے شہروملک کی رؤیت کو قبول نہیں کریں گے یا ہمارے لئے صرف اپنی ہی رؤیت ہے اور کسی دوسرے کی رؤیت ہمارے لئے نہیں پس ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اس حدیث سے استدلال کے ہر شہر کی اپنی رؤیت ہے مذکورہ استدلال صحیح نہیں ہے بلکہ انکو غلط فہمی ہوئی ہے اس غلط استدلال ہے۔۔۔ (اطلاع ارباب الکمال علی مافی رسالہ الجلال فی الاھلال من الاختال صفحیہ ٢٠۔٢١ جلد ٢)۔۔۔

    علامہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ علیہ نے الروضہ الندیہ صفحہ ٣٣١ جلد ١ میں امام شوکانی رحمہ اللہ علیہ کے مذکورہ قول کی تائید کی ہے اور امام ومحدث علامہ ناصر الدین البانی نے بھی تمام المنتہ صفحہ ٣٩٨ میں اسی قول کو راجح قرار دیا ہے۔۔۔

    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مؤقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوٰی صفحہ ١٠٣ جلد ٢٥ میں لکھا ہے کے۔۔۔
    مسلمانوں کے کسی ایک شہر میں چاند کا دیکھائی دینا باقی شہروں کے سب مسلمانوں کے لئے اضطراب واختلاف کا شکار ہے کیونکہ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس بات پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے۔۔۔کے علماء کا اختلاف اس بات میں ہے کے جہاں مطلع ایک ہے وہاں ایک شہر وملک کی رؤیت دوسرے شہر وملک کیلئے ہے یا نہیں بعض کے نزدیک ہے اور بعض کے نزدیک نہیں ہے اور جہاں اختلاف مطالع محقق ہے جیسے اسپین، وخراسان اور افغانستان وایران اور ترکی وغیرہ وہاں ایک کی رؤیت دوسرے کے لئے نہ ہونے پر ابن عبدالبر رحمہ اللہ علیہ نے اجماع نقل کیا ہے( امام ابن عبدالبر کا یہاں اجماع نقل کرنا صحیح نہیں کیونکہ حنفیہ کے یہاںمطلقا اختلاف مطلع معتبر نہیں)۔۔۔

    امام احمد نے اس مسئلے میں اعرابی ودیہاتی کی اس حدیث پر اعتماد کیا ہے جس میں ہے کے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر چاند دیکھنے کی شہادت دی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی شہادت قبول فرمائی تھی اس حدیث میں ہے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے باہر والے شخص کی شہادت قبول فرمائی تھی یہ بھی واضح ہے کے یہ شخص جہاں سے نماز کی قصر کی مسافت شروع ہوتی ہے اسکے آگے سے نہیں آیا ہوگا کیونکہ یہ مغرب کے وقت کے بعد کا چلا ہوا تھا اور اگلے دن کے کسی حصے میں مدینہ پہنچا تھا ایسا آدمی اتنا ہی سفر کرسکتا ہے اس سے زیادہ نہیں اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھنے کی زحمت نہیں کے کے وہ کہاں سے آیا ہے۔۔۔

    پس یہ واقعہ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے نقل کردہ قول کے خلاف نہیں ہے کیونکہ یہ اعرابی ایسی جگہ سے نہیں آیا تھا جہاں اسکے اور مدینے کے مابین مطلع کا اختلاف ہو لیکن کسی شہر وملک والوں کو باہر کے شہر وملک کی رؤیت ماننی چاہئے اور کسی کی نہیں؟؟؟۔۔۔ اسکی کیا حد ہے؟؟؟۔۔۔۔ اس بارے میں مذاہب کے مابین اختلاف ہے جو لوگ کہتے ہیں کے ایک شہر کی رؤیت دوسرے سب شہروں کے لئے نہیں ہے اُن میں سے بعض اسکی حد مسافت قصر مقرر کرتے ہیں جیسا کے اکثر شافعیہ کا قول ہے ان میں سے بعض کے ہاں جہاں اختلاف مطالع ہے وہاں ایک کی رؤیت دوسرے کے لئے نہیں ہے اور جہاں اختلاف مطالع نہیں ہے وہاں ایک کی رؤیت دوسرے کے لئے معتبر ہے مگر دونوں قول ضعیف ہیں کیونکہ مسافت قصر کا رؤیت کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں بے اور ملکوں اور اقلیموں کا فرق بھی محدود نہیں (ملک چھوٹے بھی ہوتے ہیں ار بڑے بھی) پھر یہ قول دو وجوہات کی بناء پر غلط ہے اولا یہ کے رؤیت مشرق ومغرب کی سمتوں کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ چاند مغربی ملکوں میں پہلے نظر آتا ہے اور مشرقی ملکوں میں بعد میں نظر آتا ہے اسلئے اگر مغربی ملکوں میں جس دن چاند نظر آیا ہو ضروری نہیں کے مشرقی ملکوں میں بھی نظر آسکے لیکن اگر مغربی ملکوں میں نظر آجائے تو اسی وقت مغربی ملکوں میں بھی اسکا نظر آنا یقینی ہے اسکی مثال یہ ہے کے مغرب کا وقت جب مغربی ملکوں اور شہروں میں داخل ہوتا ہے تو اس وقت مشرقی ملکوں اور شہروں میں اسکا داخل ہونا یقینی ہوتا ہے اسکے برخلاف مشرقی ملکوں اور اور شہروں میں مغرب کا وقت داخل ہونے سے یہ لازم نہیں کے مغربی ملکوں اور شہروں میں یہ وقت داخل ہوچکا ہو اسیکی وجہ یہ ہے کے سورج کا مطلع مشرق ہے جبکہ شاند کا مطلع مغرب ہے اس لئے رؤیت کو مطلقا ملکوں اور اقلیموں کے اعتبار سے تقسیم کرنا غلط ہے اوراسکے غلط ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کے ایک ملک کی سرحد پر بسنے والے مسلمان اس ملک کی رؤیت پر اعتبار کرتے ہوئے روزہ رکھیں اور اس سرحد سے ملحق چند گز کے فاصلے پر دوسرے ملک کے مسلمان اس لئے روزنہ نہ رکھیں یا عید نہ کریں کے ابھی اس ملک میں چاند نہیں ہوا یک مضحکہ خیر بات ہے اس لئے اس مسئلہ میں صحیح قول وہ ہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ (صومکم یوم تصومون وفطرکم یوم تفطرون اضحاکم یوم تضحون) کا عموم دلالت کرتا ہے۔۔۔

    یعنی تمہارے لئے روزہ کا دن وہ ہے جس میں تم سب روزہ رکھو اور تمہارے لئے افطار کا دن وہ ہے جب تم سب افطار کرو اور تمہاری قربانی کا دن وہ ہے جس دن تم سب قربانی کرو اس لئے کوئی مسلمان جب شعبان کی تیس کی رات کو یہ گواہی دے کے اس نے چاند دیکھا ہے تو تمام مسلمانوں کو اس کی رؤیت پر اعتبار کرتے ہوئے اگلے دن رمضان کا روزہ رکھنا چاہئے اور جہاں تک اس مسلمان کی شہادت کی خبر پہنچ سکے وہاں تک رمضان کے ہوجانے کا حکم لاگو ہوگا یہاں ملکوں اور شہروں کے قرب وبعد کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا اسی طرح اگر تیس دن کی کوئی گذشتہ رات میں چاند دیکھنے کی شہادت دے تو بھی مسلمانوں کو اس دن کے بقیہ حصہ میں کھانا پینا ترک کردینا لازم ہوگا خواہ وہ شہادت اس ملک کی ہو یا کسی دوسرے ملک سے آئے لیکن خبر پر عمل کرنا اس وقت ضروری ہوگا جب رؤیت کی خبر کا ملنا مفید ہو یعنی اس پر عمل کرنا ممکن ہو جیسے تیس تاریخ کی رات کی شہادت یا رات گذرنے کے بعد کی شہادت اور اگر ایک دن مکمل گذر جائے کے بعد کی شہادت پہنچے تو اس روزہ کی قضاء ضروری ہوگی اسکا حکم یہ ہے کے جب خبر قریب سے آئے تو اس روزہ کی قضاء ہوگی جس طرح ایک شہر کے بعض لوگوں تک خبر اپنے شہر کی رؤیت کی خبر پورے دن نہ پہنچ سکے تو ان لوگوں پر اس روزہ کی قضاء ضروری ہوتی ہے لیکن اگر خبر دور سے پہنچے جہاں سے ایک دن یا اسکا پہنچنا ناممکن ہو تو اس کی قضاء لوگوں پر نہیں کیونکہ روزہ کی فرضیت کا حکم اُن لوگوں پر لاگو ہوگا جن کو اس دن کے روزہ کی خبر کا پہنچنا یقینی طور پر ممکن ہو پس جس جگہ سے ایک دن میں خبر کا پہنچنا ممکن نہ ہو وہ دن ان کے لئے رمضان کا دن نہیں ہوسکتا اور یہی حکم ان کی عید الفطر اور عیدلاالضٰحی کا ہے لیکن رمضان کے چاند کو اس میں خصوصیت حاصل ہے۔۔۔یعنی اگر عید کے چاند کی رؤیت انتیس (٢٩) روزے پورے کرلینے بعد تیس (٣٠) کی رات میں ہوجائے تو کیا یہ لوگ جنہوں نے چاند کی اطلاع نہ ملنے کی بناء پر ایک دن تاخیر سے روزہ رکھنا شروع کیا تھا تیس (٣٠) کے چاند کی رؤیت پر اپنے ملک سے باہر کی شہادت قبول کرکے ان کے ساتھ عید کریں گے یا نہیں؟؟؟۔۔۔

    اس کا حکم یہ ہے کے اگر یہ شہادت خبر واحد پر مبنی ہو تو قبول نہ کی جائے کیونکہ وہ ان کی شہادت کے حساب سے ایک دن تاخیر سے روزہ شروع کرچکے ہیں اب اگر ان کی رؤیت کی شہادت قبول کریں تو رمضان اٹھائیس (٢٨) دن کا ہوگا جبکہ رمضان انتیس (٢٩) یا تیس (٣٠) سے کم نہیں ہوتا یعنی وہ انتیس (٢٩) روزے پورے کئے بغیر عید نہیں کریں گے۔۔۔

    یہ اسی طرح جیسے اختلاف مطلع کے ماننے والے کہتے ہیں کے اگر کوئی شخص ایک جگہ پر روزہ رکھ کر سفر کرتا ہے اور وہاں جاتا ہے جہاں چاند ایک دن قبل ہوچکا ہو تو وہ گذشتہ روزے کی قضائ نہیں کرے گا اور انتیس (٢٩) روزے پورے کئے بغیر عید نہیں منائےگا۔۔۔ شیخ الاسلام کے قول کے مطابق باہر کے چاند کی خبر کے لئے ضروری ہے کے وہ ایسے وقت پر پہنچے جب اس پر عمل کرنا ممکن ہو مثلا ایک دن گذر جانے کے بعد چاند ہوجانے کی اطلاّع موصول ہوتی تو یہ خبر مفید کہلائے گی کیونکہ اس عمل پر ممکن ہے وہ اس طرح کی اس خبر پر انتیس (٢٩) دن پورے کر کے عید کر لے لیکن اسکے خلاف اگر دو دن گذر جانے کے بعد اطلاع موصول ہوتی ہے تو یہ خبر مفید نہیں ہوگی کیونکہ اس طرح رمضان کے روزے ٢٨ ہوں گے۔۔۔

    اسی طرح شیخ الاسلام نے مجموع الفتاوٰی صفحہ ١٠٧ جلد ٢٥ پر رقم کیا ہے کے۔۔
    اس مسئلے میں قاعدہ کلیہ خبر کا پہنچنا ہے اس میں قریب وبعید کے شہروں وملکوں کا کوئی اعتبار نہیں یہی بات اس قول کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے جس کا ذکر علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کیا ہے وہ یہ کے اس روئے زمین کے دونوں سروں کے بیچ طویل فاصلے کی وجہ سے ایک سرے کی خبر دوسرے سرے تک ایک ماہ کے ختم ہونے سے قبل نہیں مل سکتی لہذا ایسی خبر جو عبادت کے اصل وقت کے بعد پہنچے بےسود ہے یہاں وہ خبر مفید ہوگی جو عبادت کے دوران ایک ملک سے دوسرے ملک پہچنے اس خبر کا اعتبار ہے اسی خبر سے رمضان کے چار اہم مسائل متعلق ہیں روزہ کا واجب ہونا، بقیہ دن کھانے پینے اور جماع کو ترکرنا گذرے ہوئے روزہ کی قضائ کرنا اور اس رؤیت پر عید کرنا پس معلوم ہوا کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ نے چاند کی رؤیت کے مسئلہ کو اختلاف مطلع اور ملکوں کے قرب وبعد یا ملکوں کے اتحاد وتعدد سے متعلق نہیں کیا بلکہ ان کے یہاں اہم چیز اطلاع ہے یہ اطلاع خواہ قریب سے ہو یا بعید سے اپنے ملک سے ہو یا غیر ملک سے اگر وہ خبر وقت مفید پر مل جائے تو اس پر عمل واجب ہے۔۔۔

    ہم سب جانتے ہیں کے صحابہ کرام وتابعین کے زمانے میں جب اسلامی سلطنت وسیع ہوگئی تھی تو چاند مسلمانوں کے بعض علاقوں میں ایک دن دیکھائی دیتا تھا جبکہ بعض علاقوں میں دوسرے دن دیکھائی دیتا تھا اور وہ لوگ اپنی اپنی رؤیت پر عمل کرتے ہوئے روزہ رکھتے اور عید کرتے تھے۔۔۔صحابہ کرام اور تابعین کا یہ عمل بدیہی ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا اور یہ بھی ظاہر ہے کے ایک علاقے کی رؤیت کی خبر مسلمانوں کے دوسرے علاقوں تک رمضان کے اندر بھی پہنچ جاتی ہوگی اور اگر بعد میں چاند دیکھنے والے مسلمان پر پہلے چاند دیکھنے والوں کی رؤیت کے بنا پر گذرے روزے کی قضاء ضروری ہوتی تو اسکا تذکرہ احادیث میں صاف اور واضح طور پر ملتا۔۔۔

    نیز اگر یہ اصول ہوتا کے ہر صورت میں پہلی ہی رؤیت کا اعتبار کیا جائے گا تو صحابہ کرام اس بات کی جستجو ضرور کرتے کے کس علاقے میں چاند پہلے ہوا اور کس علاقے میں بعد میں دکھائی دیا ہے تاکہ اس کے مطابق وہ گذرے ہوئے روزے کی قضائ کرسکیں مگر صحابہ کرام سے اس قسم کی کوئی بات ثابت نہیں ہے پس معلوم ہوا کے اس قسم کے مسئلہ میں روزے کی قضاء بےبنیاد ہے۔۔۔

    اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کے ہر شہر وملک کی رؤیت کی خبر ملنے کا مکلف ہے جب اسکو خبر مسلمانوں کے کسی بھی علاقے سے مل گئی تو وہ اسی کا مکلف ہے اور وہ خبر اسکے لئے معتبر ہے اسی سے اسکا عید اور رمضان ہے لیکن اگر اس خبر پر عمل ہوجانے کے بعد کسی جگہ سے یہ خبر ملے کے وہاں چاند اس تاریخ کو نہیں بلکہ اس سے آگے یا یچھے ہوا ہے تو وہ شہادت اب یہاں کے مسلمانوں کے لئے معتبر نہیں ہوگی۔۔۔

    جیسا کے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اہل شام کی شہادت پر عمل نہیں کیا کیونکہ اس شہادت پر عمل کرنے کا وقت اب گذر چکا تھا۔۔۔ یعنی اگر یہ شہادت بروقت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو مل جاتی تو کوئی وجہ نہیں کے وہ اسکو قبول کرکے اس پر عمل نہ کرتے اس سے معلوم ہوا کے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اہل شام کی رؤیت پر عمل نہ کرنے کی اصل واجہ اختلاف مطالع نہیں بلکہ اس خبر کا بروقت نہ ملنا ہی اس کا سبب تھا۔۔۔ اور سعودی عرب کے مشہور ومعروف عالم علامہ محمد علی صابی کا عقیدہ میں پہلے پیش کرچکا ہوں۔۔۔

    لب کشائی سے پہلے اپنے مقام کو مدنظر رکھئے گا عقیدہ بدعت صغرٰٰی کے حاملین اس تحریر پر جواب اُس وقت دیں جب وہ خود یہ تعین کرلیں کے خود ُن کا مقام ان جید محدیثین کے سامنے کیا ہے۔۔۔ کیونکہ ساون کے اندھے کو ہر طرف ہریالی ہی دکھائی دیتی ہے۔۔۔۔

    والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
    واللہ اعلم۔۔۔

    اور ہوسکتا ہے یہ میری اس تھریڈ میں آخری تحریر ہو۔۔۔

     
  19. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    بات دوبارہ وہیں آن پہنچی جہاں سے شروع ہوئی تھی !!!!
    کیا فائدہ ہوا اتنے دن صرف کرنے کا ؟؟؟؟
    محترم ایک اصول حدیث کو آپ سمجھ لیں تو یہ اشکال آپ کا دور ہو جائے گا
    اور وہ اصول یہ ہے کہ
    جب کوئی صحابی یہ کہے کہ
    یہ کام سنت ہے
    ہمیں اس کام کا حکم دیا جاتا تھا
    ہمیں اس کام سے منع کیا جاتا تھا
    ہمیں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ا یسا ہی کرنے کو کہا ہے
    ہمیں اس کام کو یوں سمجھا کرتے تھے
    تو یہ تمام تر الفاظ حدیث کے مرفوع ہونے پر دلالت کرتے ہیں
    اور مرفوع حدیث کا معنى ہوتا ہے کہ یہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا قول یا عمل یا تقریر ہے نہ کہ آپکے قول کا مفہوم یا عمل و تقریر سے استنباط !!!
    آپکی مذکورہ بحث کا جواب اور ان احادیث کے مابین تطبیق و توفیق اور انکی صحیح سمجھ میں اپنے اس تھریڈ میں پہلے واضح کرچکا ہوں :

     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں