مغربی ممالک خیراتی کاموں میں پیش پیش

الطحاوی نے 'متفرقات' میں ‏ستمبر 15, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    مغربی ممالک خیراتی کاموں میں پیش پیش۔
    ہندوستان کا دولت مند طبقہ افلاس کی طرف سے حیران کن حد تک بے حس

    جولوگ عام مہینوں میں دینی فرائض سے غافل رہتے ہیں وہ بھی رمضان کے مہینہ میں مذہبی فرائض اداکرتے ہیں۔ہدایت کی دعامانگتے ہیں اورروزمرہ کی خرابیوں سے دور رہتے ہیں اورپچھلے گناہوں کیلئے توبہ کرتے ہیں۔ رمضان اصلاح ذات اورباطن کی صفائی کا مہینہ ہوتاہے۔مذہبی کاموں کے تئیں مسلمانوں میں جس قدر جوش وخروش،رمضان میں نظرآتاہے وہ بے مثال ہے۔ لیکن اگر زکوٰۃ کی بات کی جائے تواسلام کے اس پانچویں ستون کے حوالہ سے مسلمانوں میں اتنا جوش وخروش نظرنہیں آتا۔ہم ہندوستان کے مسلمانوں کی خستہ حالت کیلئے حکومت کوبرابھلاکہنے کاموقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔لیکن جب ہمیں خود اپنا کرداراداکرنا تو ہم بری طرح ناکام رہتے ہیں۔ارجن سین گپتاکمیٹی کی 2008کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی 77فیصد آبادی 600روپے ماہانہ پرگزرکرتی ہے ۔اسی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ 84.7فیصد مسلم آبادی غریب اورکمزور گروپ میں شامل ہے۔
    دوسری طرف مغربی ممالک میں خیرات حکومت اورفرد دونوں کی سطح پر ایک اسلوب حیات ہے۔ آرگنائزیشن فاراکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ کے مطابق خیرات میں سب سے زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک میں امریکہ (28.67ارب ڈالر)فرانس(12.44ارب ڈالر)جرمنی( 11.98ارب ڈالر)برطانیہ(11.50ارب ڈالر)اورجاپان(9.48ارب ڈالر)شامل ہیں۔ گلوبل ہومنی ٹیرین اسسٹینس (جی ایچ اے)نے جولائی 2010کی اپنی رپورٹ میں ممالک کے فی کس عطیات کی فہرست جاری کی۔ 2008کے اعداد وشمار کے مطابق لکسمبرگ میں اک اوسط شہری سال میں 114ڈالر،ناروے میں 96ڈالر،سویڈن میں 66ڈالر،آئرلینڈ میں 66ڈالر،اورکویٹ میں 33ڈالر انسانی ہمدردی کے کاموں کیلئے عطیہ دیتاہے۔
    عالم اسلام میں سعودی عرب 51.8ملین ڈالر کے ساتھ انسانی ہمدردی کے عطیات میں سرفہرست ہے ۔اس کے بعد متحدہ عرب امارات 35.3ملین اورکویت 34.7ملین کا نمبر آتاہے۔ ہندوستان انسانی ہمدردی کی امداد میں صرف 15.6ملین دیتاہے۔
    حال ہی میں بوفیٹ اورگیٹس نے اک مہم''عطیہ کے عہد''کے نام سے شروع کی ۔جس کا مقصد عطیات کے وعدے کرنے میں دولت مند لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا ۔وارین بوفیٹ نے اپنی دولت کا 99فیصدی حصہ اوربل وملینڈا گیٹس نے 50فیصدی حصہ خیرات میں دینے کا عہد کیاہے۔ جسے انسانیت کی صحت کی بہتری میں استعمال کیاجائے گا۔ دوسری طرف دولت مندی کے معاملہ میں ہرسال جاری کی جانے والی فوربس کی فہرست میںہندوستانی بکثرت پائے جاتے ہیں لیکن جب خیراتی کاموں کی باری آتی ہے تو ان کا بوفیٹ جیسے لوگوں سے کوئی مقابلہ نہیں۔

    اوراگرعطیات دینے کی بات آتی بھی ہے تو وہ دیوی دیوتائوں کو خوش کرکے اپنی دولت میں مزید اضافہ کیلئے مندروں میں نذرانے پیش کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کرناٹک کے وزیر سیاحت اورسرکردہ صنعت کار جی جناردن ریڈی نے 45کروڑروپے مالیت کاطلائی مکٹ تروپتی کے مشہور بھگوان ونکٹیشور کے مندر میں چڑھادیا۔
    کیپ جیمنی اینڈ میرل لنچ ویلتھ منیجمنٹ نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ ہندوستان کے ہائی نیٹ ورتھ انڈیویژول یعنی ایچ این ڈبلیوآئی دس لاکھ کی ڈالر سے ز یادہ قابل سرمایہ دولت کے مالک لوگوں کی تعداد 120000ہے۔ یہ آبادی کا سواں حصہ ہے لیکن ان کی مجموعی دولت ہندوستان کی مجموعی قومی آمدنی کے ایک تہائی حصہ کے برابر ہے۔ نیشنل سیمپل سروے کے 2007-008کے تخمینوں کے مطابق اک اوسط ہندوستانی کے فی کس اخراجات کے لحاظ سے ایک اوسط شہری ہندوستانی کو ایک اوسط ایچ این وی آئی کی دولت مندی تک پہنچے میں 2238سال لگ جائیں گے۔
    رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں خیراتی کاموں کیلئے دیئے جانے والے صرف 10فیصدی عطیات افراد اورکارپوریٹ سیکٹر سے ملتے ہیں جب کہ امریکہ میں افراد اورکارپوریٹ سیکٹر کی جانب سے دیئے جانے والے عطیات تمام عطیات کے 75فیصدی ہوتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے دولت مند جو افلاس کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ،خیرات کی طرف سے اس قدر بے حس ہیں ۔امریکہ میں کئے گئے ایک سروے سے دلچسپ حقیقت سامنے آئی کہ امریکہ کا 20فیصدی غریب ترین طبقہ اوسطا اپنی آمدنی کا 4.3حصہ خیراتی اداروں کودیتاہے وہاں کے مالدار لوگ اس کے نصف یعنی 2.1فیصدی اپنی آمدنی کا خیراتی کاموں کیلئے دیتے ہیں جو ایک بڑی رقم ہوتی ہے۔
    اسلام میں زکوٰۃ نماز کے ساتھ فرض کی گئی۔ اس کے تحت تمام صاحب نصاب کو اپنے اس سرمایہ کا جس پر ایک سال گزرجائے۔2.5حصہ حاجت مندوں اورمسکینوں کو دیتاہے۔ زکوٰۃ مال کو پاک کرتی ہے اوراس سے اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے ذریعہ بھلائی میں اضافہ اورحرص اورخود غرضی کا سدباب ہوتاہے۔ اس کے ساتھ ہی زکوٰۃ اس شخص کو بھی افلاس اورذلت ورسوائی سے بچاتی ہے جسے وہ دی جاتی ہے۔دولت اللہ کا ایک فضل ہے بشرطیکہ وہ حلال طریقہ سے کمائی گئی ہو اورمتعلقہ شخص نے حقوق اللہ اورحقوق العباد اداکئے ہوں۔
    اسلام افلاس کو ایک سماجی نابرابری متصور کرتاہے جسے دور کرنا مقصود ہے۔مفلسوں کی عزت نفس کی حفاظت کیلئے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو امیروں اورغریبوں کا حق قراردیاہے۔ اسلام میں زکوٰۃ کی اہمیت اس قدر ہے کہ اسے دین کے پانچ ستونوں میں سے ایک قراردیاگیاہے۔جوشخص ان پانچ فرائض میں سے کسی ایک کابھی منکر ہے اسے مسلمان نہیں قراردیاجاسکتا۔

    اورنماز قائم کرو اورزکوٰۃ اداکرو اوررسول کی طاعت کرو شایدکہ تم پر رحم کیاجائے۔(سورہ نور56)
    نماز قائم کرو اورزکوٰۃ اداکرو اورجھکنے والوں کے ساتھ جھک جائو(سورہ بقرہ43)

    تم نیکی کو نہیں پہنچ سکوگے جب تک تم اس میں سے خرچ نہ کرو جس سے تم محبت کرتے ہو،اورجوچیز بھی تم خرچ کرتے ہواللہ اسے جانتاہے۔(سورہ آل عمران92)

    اس کے باوجود کہ قرآن مجید صلوٰۃ اورزکوٰۃ پر یکساں زور دیتاہے کچھ لوگ زکوٰۃ کو ویسی اہمیت نہیں دیتے جیسی دینی چاہئے۔ کچھ لوگ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ وہ انکم ٹیکس اداکرتے ہیں لہذا انہیں زکوٰۃ اداکرنے کی ضرورت نہیں۔اسلام نے زکوٰۃ کا ایک نظام مقرر کیاہے جس کے تحت حاجت مندوں کی براہ راست مدد مقصود ہوتی ہے۔ زکوٰۃ کی رقم اکثرحالات میں لازماًضرورتمند اوراداروں تک پہنچتی ہے جب کہ حکومت کسی طبقہ کیلئے 100پیسے مختص کرتی ہے تواس میں سے صرف پانچ یادس پیسے حاجت مندوں تک پہنچ پاتے ہیں۔ ہندوستان میں بہت سے اپنی ادارے صرف زکوٰۃ کے بل پر چلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نیکی کا 70گناہ بدلہ دینے کا وعدہ کیاہے۔ بہت سے غریب رمضان میں زکوٰۃ کے منتظر رہتے ہیں۔ مستقبل کے ان کے منصوبے اورضروری شادیاں اورتعلیم یہ سب زکوٰۃ پر منحصر رہتے ہیں۔ جولوگ فضول دلیلوں کے ذریعہ زکوٰۃ سے بچناچاہتے ہیں ان کو حضرت علی اورحضرت ابوہریرہ سے مروی ان احادیث کی طرف سے خبردار رہناچاہئے''جب زکوٰۃ جرمانہ تصور کی جانے لگے گی (یعنی لوگ بے دلی سے زکوٰۃ دیں گے)تب آندھیوں اورزلزلوں کی طرف سے خبردار رہو،زمین لوگوں کو نکلنے لگے گی۔آسمان سے پتھروں کی بارش ہوگی اورپے درپے عذاب نازل ہوں گے ۔

    نوٹ:یہ آرٹیکل دراصل ایک میل ہے جوایک صاحب نے بھیجاتھااس کااختصار کے ساتھ ترجمہ کردیاگیاہے۔اللہ ان کو جزائے خیردے۔
     
    Last edited by a moderator: ‏ستمبر 15, 2010
  2. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    آپ کو اس وکالت کے کتنے ملے ؟
    کتنی ملی خیرات نہ پوچھو :00026:


    ہم نےکب کہا فی میل ہے:00003:

    طحاوی بھائی صحافی تو میلز کی بنیاد پہ آرٹیکل لکھ مارتے ہیں پر مسئلہ یہ ہے کہ میلز آر نوٹ آتھنٹک سورس!:00003: آئی سمجھ ؟ گوروں کی تعریف کرنی ہے تو کوئی مستند خبر لائیں:00003:
     
  3. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    میں اس میں ایک چیز لکھنابھول گیاتھا۔وہ یہ کہ اس تعلق سے اگرکسی کے پاس اعدادوشمار کے ساتھ پاکستان کی صورتحال کے بارے میں معلومات ہوں‌کہ وہاں‌کی حکومت اورعوام انسانی ہمدردی کے مد میں‌کتناخرچ کرتے ہیں توبراہ کرم شیئر کریں تاکہ یہ مضمون مزید مفید ثابت ہوسکے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں