تاریخ اہل حدیث اور فرقہ دیوبند کی مغالطہ انگیزیوں کا رد

ابو طلحہ السلفی نے 'تاریخ اسلام / اسلامی واقعات' میں ‏اکتوبر، 29, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    اہل باطل فورم اور اہل باطل ویب سائٹ پر ایک تحریر موجود ہے جس کا عنوان ہے "جب امام ابوحنیفہ نہیں تهے تو حنفی مقلد کہاں تهے؟ "۔ یہ تحریر ایک دوست نے فیس بک پر پیش کی اور اس کے جواب کا مطالبہ کیا جس پر اس تحریر کا تفصیلی پوسٹ مارٹم پیش کیا جارہا ہے۔
    یہ وسوسہ نہیں بلکہ حقیقت ہے جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    "[FONT="Al_Mushaf"]ومن أھل السنة و الجماعة مذاھب قدیم معروف قبل أن یخلق اللھ أبا حنیفة و مالکاً و الشافعي و أحمد فإنھ مذھب الصحابة۔۔۔
    "
    مفہوم: ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل کے پیدا ہونے سے پہلے اہل سنت و الجماعت کا مذہب قدیم و مشہور ہے، کیونکہ یہ صحابہ کا مذہب ہے، رضی اللہ عنہم اجمعین
    ([FONT="Al_Mushaf"]منہاج السنة جلد ۱ ص ۲۵۶ مطبوعہ: دارالکتب العلمیة بیروت لبنان[/FONT])
    معلوم ہوا کہ 30 مئی 1867 کو ہندوؤں کے پیسے سے معرض وجود میں آنے والے فرقہ دیوبند کا اہلسنت والجماعت کے نام پر قبضہ غاصبانہ ہیں۔ لقب اہلسنت کے صحیح حقدار وہی ہیں جن میں اہلسنت والجماعت کی خصوصیات و صفات موجود ہیں جبکہ فرقہ دیوبند نرے وحدة الوجودی صوفیوں کا ایک گروہ ہے جس کی تفصیل یہاں ملاحضہ کی جاسکتی ہے۔
    یہ اعتراض فرقہ دیوبند نے اپنے بڑے بھائیوں روافض اور دیگر منکرین حدیث سے سیکھا ہے جس کا اصولی جواب یہ ہے کہ کتابت حدیث کا کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے ہی شروع ہو گیا تھا ایسا نہیں کہ امام بخاری اور دیگر محدثین سے پہلے احادیث تحریری شکل میں موجود نہ تھیں اس بات کے چند ثبوت پیش خدمت ہیں:

    1۔ کتاب الصدقۃ

    حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب زکوٰۃ لکھوائی لیکن ابھی اپنے عمال کو بھیج نہ پائے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات ہو گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے اپنی تلوار کے پاس رکھ دیا تھا۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر ٠رضی اللہ عنہ) نے اپنی وفات تک اس پر عمل کیا پھر حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے اپنی وفات تک ۔
    ترمذی ، كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب : ما جاء في النهى عن المسالة ، حدیث : 624

    2۔ صحیفہ صادقہ
    حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ایک صحیفہ مرتب کیا جسے ’صحیفہ صادقہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہ) کا بیان ہے کہ : صادقہ ایک صحیفہ ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر لکھا ہے۔
    حوالہ جات :
    طبقات ابن سعد ، ، ج:2 ، ص:408
    اسد الغابہ ، از:ابن الاثیر ، ج:3 ، ص:222
    صحیفہ ہمام بن منبہ ، مطبوعہ فیصل آباد ، ص:26


    3۔ صحیفہ علی
    ابو جحیفہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ :
    کیا تمہارے پاس کوئی (اور بھی) کتاب ہے؟
    انہوں (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ : نہیں ! مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔
    میں نے پوچھا : اس صحیفے میں کیا ہے؟
    انہوں (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان ، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
    صحیح بخاری ، كتاب العلم ، باب : کتابۃ العلم ، حدیث : 111

    4۔ حضرت انس (رضی اللہ عنہ) کی تالیفات

    حضرت انس (رضی اللہ عنہ) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں دس برس رہے۔ آپ (رض) نے عہدِ رسالت ہی میں احادیث کے کئی مجموعے لکھ کر تیار کر لیے تھے۔
    حضرت انس (رضی اللہ عنہ) کے شاگرد سعید بن ہلال فرماتے ہیں کہ ہم جب حضرت انس (رض) سے زیادہ اصرار کرتے تو وہ ہمیں اپنے پاس سے بیاض نکال کر دکھاتے اور کہتے : یہ وہ احادیث ہیں جو میں نے نبی () سے سنتے ہیں لکھ لی تھیں اور پڑھ کر بھی سنا دی تھیں۔
    ( المستدرک للحاکم ، ذکر انس بن مالک ، مطبوعہ : دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن)

    5۔ حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کی مرویات

    ایک دفعہ طائف کے چند لوگ حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کے پاس آئے تو آپ نے اپنا جزودان نکالا اور اس میں سے چند احادیث انہیں املا کرائیں ۔
    ترمذی ، كتاب العلل ، باب : 1 ، حدیث : 4386

    6۔ صحیفہ حضرت جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ)
    یہ مجموعہ مناسک حج اور خطبہ حجۃ الوداع پر مشتمل تھا۔
    صحیفہ جابر بن عبداللہ کو ان کے شاگرد وہب بن منبہ (م:110) اور سلیمان بن قیس لشکری نے مرتب کیا۔
    ترمذی ، كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب : ما جاء في ارض المشترك يريد بعضهم بيع نصيبه ، حدیث : 1360

    7۔ صحیفہ عمرو بن حزم (رضی اللہ عنہ)

    جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم (رضی اللہ عنہ) کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو فرائض و سنن اور صدقات و دیات پر مشتمل احکام لکھوا کر دئے۔
    (بحوالہ : تاریخ الحدیث و المحدثین ، ص : 303)
    تو ثابت ہوا کہ احادیث عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی تحریری شکل میں موجود ہیں، اب ہم یہ اعتراض کرنے والوں کی اپنی تاریخ کی طرف آتے ہیں:
    تاریخ فرقہ دیوبند
    دیوبندیت ایک جدید فرقہ ہے جو دیوبندی کتب کے مطابق 30 مئی 1867 میں ہندوؤں اور انگریزوں کے تعاون سے بننے والے مدرسہ دیوبند کی تعمیر کیساتھ ہی معرض وجود میں آیا اس کا مختصر احوال ملاحضہ کیجیے:

    دارالعلوم دیو بند کے موسسین میں پہلا نام مولانا ذوالفقار علی ولد فتح علی کاہے جو مولانا محمو د الحسن کے والد بزرگوار تھے ۔یہ دہلی کالج میں پڑھتے رہے ‘ بریلی کالج میں پروفیسر رہے پھر شعبہ تعلیم میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس بنے پھر پنشن کے بعد دیو بند تشریف لے آئے اور حکومت برطانیہ سے وفاداری کے اعزا ز میں آنریری مجسٹریٹ بنا دیئے گئے۔انہوں نے 30مئی 1867ءمیں دارالعلوم دیو بند کی بنیاد رکھی ۔ دوسرے مولانا فضل الرحمن تھے جو مولانا شبیر احمد عثمانی کے والد بزرگوار تھے۔انہوں نے دارالعلوم دیو بند کی بنیاد رکھنے میں حصہ لیا ۔مولانا یعقوب علی نانوتوی دارالعلوم دیو بند کے پہلے مدرس تھے ۔مولانا قاسم نانوتوی دہلی کالج سے فارغ ہوئے تو پہلے مطبع احمدی پھر مطبع مجتبائی میرٹھ میں اور اس کے بعد مطبع مجتبائی دہلی میں پروف ریڈر رہے اس کے بعد مستقل طور پر مدرسہ دیو بند میں پڑھاتے رہے ۔

    (احسن نانوتوی ص691,195,47,45)

    مدرسہ دیو بند کی تعمیر کے لئے جن ہندوؤں نے چندہ دیا ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں ۔منشی تلسی رام ‘ رام سہائے ‘ منشی ہر دواری لال‘ لالہ بجناتھ ‘ پنڈت سری رام ‘ منشی موتی لال ‘ رام لال‘ سیو رام سوار ۔

    (سوانح قاسمی 2/317)

    قاری طیب دیو بندی مہتمم دارالعلوم دیو بند فرماتے ہیں:
    ”چنانچہ دارالعلوم دیو بند کی ابتدائی روداد میں بہت سے ہندوﺅں کے چندے بھی لکھے ہوئے ہیں“۔
    ( خطبات حکیم الاسلام9/149)

    13جنوری 1875ءبروز یک شنبہ لیفٹننٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز مسمی پامر نے اس مدرسہ کا دورہ کیا تو اس نے اس کے متعلق بہت ہی اچھے خیالات کا اظہار کیا۔اس معائنے کی رپورٹ کی چند سطور ملاحظہ فرمائیں ۔

    ”یہ مدرسہ سرکار کے خلاف نہیں بلکہ موافق سرکار ممد و معاون سرکار ہے۔یہاں کے تعلیم یافتہ لوگ ایسے آزاد اور نیک چلن ہیں کہ ایک دوسرے سے کچھ واسطہ نہیں “۔

    (احسن نانوتوی ص217‘تصنیف محمد ایوب قادری دیوبندی ‘ فخر العلماءص 60)


    ”مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کو انگریزی حکومت کی طرف سے چھ سو روپیہ ماہوار ملتا تھا“ ۔

    (مکالمہ الصدرین ص 9‘ تقریر شبیر احمد عثمانی دیوبندی)


    اس بات کا تذکرہ تھانوی صاحب نے الاضافات الیومیہ 6-56 ملفوظ نمبر 108میں بھی کیا ہے۔

    دارالعلوم دیو بند کا جب صد سالہ جشن منایا گیا تو مہمان خصوصی (صدر مجلس ) بھارت کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی اور بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم جگ جیون رام تھے۔مسز اندرا گاندھی نے علماءدیوبند کو خطاب فرمایا نیز مسٹر جگ جیون رام نے بھی علماءدیوبند کو بالخصوص اور عوام الناس کو بالعموم وعظ و نصیحت سے مستفید فرمایا ۔ اس صد سالہ جشن دیو بند کی روئداد بھی چھپی جس میں مہمانان گرامی کی تصاویر نمایاں طور ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
    چاروں تقلیدی مذاہب (احناف ،شوافع، مالکیہ اور حنابلہ) کی مختصر تاریخ​

    شاہ ولی اللہ حنفی لکھتے ہیں:
    [FONT="Al_Mushaf"]اعلم ان الناس کا نو قبل الما ئة الرابعة غیر مجمعین علی التقلید الخالص لمذھب واحد[/FONT]
    یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ کسی ایک مخصوص مذہب کی تقلید پر متفق نہیں تھے (حجة اللہ البالغہ ص ۴۵۱)

    قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی لکھتے ہیں:

    [FONT="Al_Mushaf"]فان اہل السنة والجمة قد افترق بعد القرون الثلاثة او الاربعة علی اربعة مذاہب[/FONT]
    اہل سنت والجماعت چوتھی یا پانچویں صدی میں چار مذاہب میں متفرق ہوئے۔ (تفسیر مظہری)

    امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    [FONT="Al_Mushaf"]انما حد ثت ھذہ البدعة فی القرن الرابع المذمومة علیٰ لسانہ علیہ الصلاة والسلام[/FONT]۔
    تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئی جسے نبی علیہ الصلاة والسلام نے مذموم قرار دیا تھا۔ (اعلام المو قعین ۲۸۹۱)

    خلاصہ: 1867 سے پہلے فرقہ دیوبند اور چوتھی صدی سے پہلے چاروں تقلیدی مذاہب کا دنیا میں کوئی وجود نہیں تھا۔

    اہل حدیث 1888 میں پیدا ہوئے یہ ٹھیک ویسا ہی جھوٹ ہے جیسا فرقہ دیوبند کے اکابرین نے اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے اور پھر ڈھٹائی کیساتھ اپنا جھوٹا ہونا تسلیم بھی کیا ہے۔
    مثلاً اہل حدیث کے بارے میں اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں: "اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تراویح کے بدعتی بتلاتے ہیں" (امداد الفتاویٰ ج4ص562)
    آل دیوبند قیامت تک کسی سلفی عالم کا کوئی حوالہ پیش نہیں کر سکتے جس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایسی کوئی بات کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی کتابوں میں ان بنادلیل، بناحوالہ اور بنا ثبوت باتوں کو تحریر کرنے کیوجہ سے اکابرین دیوبند نے خود بھی اپنا جھوٹا ہونا تسلیم کر رکھا ہے۔
    قاسم ناتوتوی دیوبندی نے کہا: "لہذا میں نے جھوٹ بولا" (دیکھئے حکایات اولیاء ص ۳۹۰ حکایت ۳۹۱)
    دوسرے دیوبندی پیشوا نے اعلان کیا کہ "جھوٹا ہوں" (دیکھئے فضائل صدقات ص ۵۵۸)
    قارئین خود ہی فیصلہ کریں کہ ایسے جھوٹے لوگوں کی بناثبوت اور بناحوالہ باتوں کا کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ آئیے اب ہم آپ کے سامنے تحریک اہلحدیث کی مختصر تاریخ پیش کرتے ہیں۔
    "تاریخ اہل حدیث" ایک مختصر جائزہ

    اہل حدیث کوئی نئی جماعت نہیں، تمام اہل علم اس کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا نصب العین کتاب و سنت ہے اور جب سے کتاب و سنت ہے اس وقت سے یہ جماعت ہے، اس لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے-
    اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر کہا ہے:
    "[FONT="Al_Mushaf"]فبای حدیث بعد اللہ و آیاتھ یومنون[/FONT]" (سورۃالجاثیۃ:6)
    پس اللہ تعالی اور اس کی آیتوں کے بعد کس پر ایمان لائيں گے-دوسری جگہ فرمایا ہے:
    "[FONT="Al_Mushaf"]فبای حدیث بعدہ یومنون[/FONT]" ( المرسلات:50)
    اب اس قرآن کے بعد کس بات پر ایمان لائيں گے-
    اس کے علاوہ اور دیگر آیتیں ہیں جن میں لفظ حدیث سے مراد قرآن ہے اور ہر خطیب بھی اپنے خطبہ جمع میں یہ پڑھتا ہے۔
    " [FONT="Al_Mushaf"]فان خیر الحدیث کتاب اللہ[/FONT]"
    بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے۔

    اور اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور تقاریر کو حدیث کہا گیا ہے- (مشکوۃ ص:3)
    مذکورہ صدر دلائل سے یہ امر اضہر من الشمس ہوگیا کہ قرآن مجید اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور تقریر حدیث ہیں تو اس اعتبار سے اہل حدیث کے معنی ہوں گے "صاحب قرآن و حدیث" یعنی قرآن اور نبی پاکۖ کے احکام پر عمل کرنے والا-
    اصحاب اہل حدیث، اہل حدیث، اہل سنت یہ سب مترادف لفظ ہیں، اہل یا اصحاب کے معنی " والے" اب اس کے نسبت حدیث کی طرف کردیں تو معنی ہونگے، " حدیث والے" اور قرآن کو بھی اللہ نے حدیث کہا ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے- اب یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ اسلام سے مراد" قرآن و حدیث" ہے اور قرآن و حدیث سے مراد اسلام ہے- اور مسلک اہلحدیث کی بنیاد انہی دو چيزوں پر ہے اور یہ ہی جماعت حق ہے اور رسول اللہ ۖ کی اس حدیث کا مطلب
    " میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی ان کا مخالف ان کو نقصان نہ پہنچاسکے گا یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آجائے" ( مسلم:2/143)
    محدثین نے یہی لیا ہے کہ وہ گروہ اہل حدیث ہے- اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
    رسول اللہ ۖ نے فرمایا :
    " صدیوں میں بہترین صدی میری ہے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہونگے" (متفق علیہ)
    اس سے مراد صحابہ (رض)، تابعین، تبع تابعین کا دور ہے- 222ھ تک کا زمانہ خیرالقرون سمجھا جاتا ہے-
    آئيے اب آپ کے سامنے لقب اہل حدیث کے وہ دلائل پیش کیے جارہے ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور سے موجودہ دور تک ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے- ان شاءاللہ

    لقب اہل حدیث ، عہد صحابہ (رض) میں:

    1:- "حضرت ابو سعد خدری رضی اللہ عنہ جب حدیث کے جوان طلباء کو دیکھتے تھے تو کہتے تھے، تمہیں مرحبا ہو، رسول اللہ ۖ نے تمہاری بابت ہمیں وصیت فرمائی ہے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم تمہارے لیے اپنی مسجدوں میں کشادگی کریں اور تم کو حدیث سمجھائيں کیونکہ تم ہمارے تابعی جانشین اور اہلحدیث ہو"- (شرف اصحاب الحدیث)

    2:- " حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو اہلحدیث اس حال میں آئيں گے کہ ان کے ساتھ روايتیں ہونگی، پس اللہ تعالی ان سے کہے گا کہ تم اہلحدیث ہو- نبی پاک ۖ پر درود بھیجتے ہوئے جنت میں داخل ہوجاؤ" (طبرانی القول البدیع للسخاوی: تاریخ بغداد 3)

    3:- کثیر الروایۃ صحابہ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ (متوفی 57ھ یا 58ھ) کے متعلق امام ابوبکر بن داؤد رقم طراز ہیں کہ میں نے آپ کو خواب میں یہ فرماتے ہوئے دیکھا:
    "[FONT="Al_Mushaf"] اما اول صاحب حدیث کان فی الدنیا[/FONT]" دنیا میں سب سے پہلا حدیث والا " اہل حدیث" میں تھا۔ ( تذکرۃ الحفاظ 1/29)

    4:- "خیر الامۃ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ (متوفی 68ھ) اہل حدیث تھے" (تاریخ بغداد 3/227)

    لقب اہل حدیث، عہد تابعین میں:

    1:-" سید التابعین حضرت عامر بن شرجیل شعبی رحمہ اللہ (متوفی 104ھ) اہلحدیث تھے" (تاریخ بغداد 3/227)

    2:-شیخ علی ہجویری لاہوری نے فرمایا ہے، "عبداللہ بن المبارک امام اہلحدیث تھے" یعنی عبداللہ بن مبارک اہلحدیث کے امام تھے- (کشف المحجوب)

    3:- علامہ ذہبی اور امام خطیب نے ذکر کیا ہے کہ "امام ذہری رحمہ اللہ خلیفہ عبدالمالک بن ابو سفیان، عاصم الاحول، عبیداللہ بن عمرو، یحی بن سعید الانصاری رحمہ اللہ تابعین میں اہل حدیث کے امام تھے" ( تذکرہ الحفاظ 97، تاریخ بغداد 2/245)

    4:- "ابوبکر بن عیاش تابعی کہا کرتے تھے الحدیث ہر زمانے میں رہے ہیں جس طرح اسلام دوسرے مذاھب کے مقابلہ میں ہے" ( میزان شعرانی)

    5:- صحیح مسلم کے مقدمہ میں ہے ائمہ اہلحدیث کا ذکر کیا گیا ہے مثال کے طور پر" مالک بن انس، شعبہ بن الحجاج، سفیان ابن عینیہ، یحیی بن سعید قطان اور عبدالرحمان بن مہدی وغیرہ" ( مقدمہ صحیح مسلم مطبوعۃ دھلی 23)

    6:- "امام ابن قنیبہ اپنی کتاب جو معارف اسماء اہلحدیث سے مشھور ہے اس میں ان لوگوں کے نام گنوائے ہیں جو نبی پاکۖ کے زمارے سے آپ کے زمانے تک گذر چکے ہیں اور 100 نام گنوائے ہیں اور اما ابن قنیبہ تیسری صدی ھجری کے مشھور امام ہیں جیسا کہ امام ذھبی نے ڈکر کیا ہے اور ان کے حالات زندگی میں لکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ ان کی وفات 310ھ میں ہوئی ہے" (تذکرہ الحفاظ ج 3)

    لقب اہلحدیث، تبع تابعین کے زمانے میں

    1:- "تبع تابعین اپنے آپ کو اہلحدیث کے نام سے عزت دیتے تھے اور اس نام سے خوش ہوتے تھے جیسا کہ امام ثوری نے کہا ہے کہ اہلحدیث میرے پاس نہ آئيں تو میں ان کے پاس ان کے گھروں میں جاؤں گا" ( شرف اصحاب اہلحدیث)

    2:- "تبع تابعین حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ کو ان کے استاد امام ابو حنیفہ نے اہلحدیث بنایا تھا جیسا کہ آپ نے اپنے لفظوں میں یوں بیان کرتے ہیں پہلے پہل امام ابو حنیفہ نے ہی مجھے اہلحدیث بنایا تھا" (حدائق الحنفیہ: 134، تاریخ بغداد 9/178)

    3:- "علامہ شہر ستانی نے اپنی کتاب " الملل والنحل" میں ائمہ اہلحدیث کے نام گنوائے ہیں اور وہ اہل حجاز ہیں اور وہ مالک بن انس اور محمد بن ادریس شافعی کے اصحاب ہیں اور سفیان ثوری کے اصحاب ہیں اور داؤد بن علی بن محمد اصفہانی کے اصحاب ہیں اور اسی طرح علامہ ابن خلدون نے اپنی کتاب تاریخ ابن خلدون میں ذکر کیا ہے" (تاریخ ابن خلدون 1/372)

    4:- علامہ ابو منصور عبدالقادر بن طاہر تیمی بغدادی نے اپنی مشھور کتاب " اصول دین" میں صحابہ رض، تابعین اور تبع تابعین رح کے حالات کا ذکر کیا ہے- دوران ذکر میں کہا کہ روم جزیرہ آذربائیجان کی سرحدوں کے پورے باشندے اہلحدیث کے مذھب پر تھے اور اسی طرح افریقہ اور اندلس کے باشندے، بحیرہ عرب کے پورے باشندے، زنج کے ساحل پر یمن کی سرحدوں کے پورے باشندے اہلحدیث تھے" ( اصول الدین 1/310)

    5:- [FONT="Al_Mushaf"]امام اللغتہ والخو خلیل بن احمد الفراہیدی[/FONT] (متوفی 164ھ) فرماتے ہیں فرشتے آسمان کے اور اہل حدیث زمین کے محافظ ہیں یعنی یہی دین کی دعوت دینے والے اور تقریر و تحریر سے اس کی حفاظت کرنے والے ہیں- نیز فرماتے ہیں ان کے لیے یہی نیکی کافی ہے کہ وہ جب حدیث میں آپ کا نام آتا ہے تو درود شریف لکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں-

    6:- مشہور زاہد امام فضل بن عیاض ( متوفی 187ھ) اہل حدیث کو دیکھ کر فرمانے لگے" یا ورثۃ الانبیاء"-

    7:- خلیفہ ہارون الرشید (متوفی 193ھ) کہتے ہیں کہ 4 صفات مجھے 4 جماعتوں میں ملیں- کفر جہیمہ میں، بحث و جھگڑا معتزلہ میں، جھوٹ رافضیوں میں، اور حق اہلحدیث میں-

    8:- عبداللہ بن داؤد الخریبی (متوفی 213ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذہ سے سنا کہ اہلحدیث اللہ تعالی کی طرف سے اس کے دین کے امین ہیں یعنی علم و عمل میں رسول اللہ ۖ کے دین کی حفاظت کرنے والے ہیں (یہ سارے اقوال امام احمد بن سنان الواسطی{۶۵۲ھ}کی کتاب شرف اصحاب اہلحدیث سے لیے گئے ہیں)
    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صحابہ رض، تابعین و تبع تابعین رح یہ قرون ثلاثہ اہلحدیث کے نام سے مشھور تھے اور ان کو اہلحدیث کہا جاتا تھا-

    لقب اہل حدیث، ائمہ اسلام کی نظر میں

    ائمہ اربعہ خود بھی اہل حدیث تھے اور بڑے ہی شد مد کے ساتھ لوگوں کو اپنی تقلید سے منع کرتے ہوئے صرف قرآن و سنت کی دعوت دیتے تھے-
    1:- امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (80ھ 150ھ) آپ کے شاگرد سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "پہلے پہل امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے مجھ کو اہلحدیث بنایا تھا ( حدائق الحنفیہ ص 134)

    2:- حنفیت کے بانی امام محمد کے قول کے مطابق انہوں نے اپنی کتاب موطا میں امام زہری کے بارے میں کہا کہ ابن شہاب مدینہ میں اہلحدیث کے نزدیک سب سے بڑے عالم تھے۔ (موطا امام محمد ص 362)

    3:- امام شافعی رحمہ اللہ (150ھ 204ھ) کے بارے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رح (متوفی 728ھ) فرماتے ہیں" امام شافعی رح نے اہلحدیث کا مذھب پکڑا اور اسی کو اپنے لیے پسند فرمایا" (منہاج السنہ 4/143)

    4:- علامہ ابن القیم رح (متوفی 751ھ) اعلام الموقعین میں امام شافعی رح کا قول نقل فرماتے ہیں" تم اپنے اوپر حدیث والوں (اہلحدیث) کو لازم پکڑو کیونکہ وہ دوسروں کے اعتبار سے زیادہ درست اور صحیح ہیں۔

    5:- امام شافعی رح اہلحدیث کے مذھب پر تھے بلکہ مذھب اہلحدیث کے مبلغ تھے کہ امام نووی رح نے امام شافعی رح کے حالات زندگی میں لکھا ہے، پھر عراق گئے علم حدیث کو پھیلایا اور مذھب اہلحدیث قائم کیا" (تھذیب الاسماءواللغات)

    5:-امام شافعی رح سے روایت ہے کہ آپ فرماتے تھےکہ" اہلحدیث ہر زمانے میں ویسے ہی ہیں جس طرح صحابہ رض ہر زمانے میں تھے- یعنی وہ سختی کے ساتھ کتاب و سنت کی پیروی کرتے تھے" (المیزان الکبری)

    6:- امام مالک (95ھ 180ھ) آپ کے متعلق علامہ شمس الدین ابو عبداللہ ال ذھبی رح (متوفی 748ھ) لکھتے ہیں کہ " قال وھیب، امام اہلحدیث مالک" یعنی وھیب نے کہا کہ اما مالک رح اہلحدیث کے امام تھے- (تذکرۃ الحفاظ 1/195)

    7:- امام مسلم بن حجاج نیساپوری رح (261ھ) نے امام مالک رح کو " امام اہلحدیث" کہا ہے- (مقدمہ مسلم شریف ص:23)

    8:- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (164ھ 241ھ) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح آپ کے متعلق فرماتے ہیں " کان علی مذھب اہل حدیث" یعنی آپ رحمہ اللہ اہلحدیث کے مذھب پر تھے- (منہاج السنہ 4/143)

    9:- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ طائفہ منصورہ والی روایت کی تشریح یوں فرماتے ہیں " [FONT="Al_Mushaf"]ان لم یکونو ا اہلحدیث فلا ادری من ہم[/FONT]" یعنی اگر طائفہ منصورہ سے مراد اہلحدیث نہیں تو پھر مجھے نہیں معلوم کہ یہ کون ہیں- (نووی شرح مسلم 2/143، واللفظ لہ شرف اصحاب الحدیث 14)

    10:- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بالاتفاق اہلحدیث اماموں کے امام ہیں جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رح نے فرمایا ہے کہ امام احمد اہلحدیث کے مذھب پر تھے- (منہاج السنۃ و ابن خلدون و الملل و النحل)

    11:- خلیل بن احمد، صالح بن محمد رازی سے روایت ہے وہ امام احمد بن جنبل رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا " اگراہلحدیث اللہ کے ولی نہ ہوں تو زمین میں پھر اللہ کا کوئی بھی ولی نہیں" (شرف اصحاب الحدیث)

    12:- امام الدنیا فی الحدیث فخر المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ علیہ (المتوفی 256ھ) جن کی کتاب صحیح بخاری ہے اور تمام اہل علم اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ الصحیح البخاری یعنی قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری ہے-
    حدیث نبوی لاتزال طائفۃ الخ کی تفسیر میں امام بخاری سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے علی بن مدینی کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " وہ گروہ االحدیث ہیں" (ترمذی، فتح الباری 13/294)

    13:- امام مسلم رحمہ اللہ (المتوفی 261ھ) جن کی مشہور کتاب صحیح مسلم ہے صحیح بخاری کے بعد اسی کا درجہ ہے خود امام مسلم رح نے اپنے صحیح کے مقدمہ میں ائمہ اہل حدیث کا ذکر کیا ہے- (مقدمہ صحیح مسلم مطبوعہ دھلی:43)

    15:- حدیث نبوی لاتزال طائفۃ الخ کی تفسیر میں عبداللہ بن مبارک سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ وہ گروہ اہلحدیث کا ہے (شرف اصحاب الحدیث)

    16:- امام عیسی ترمذی رحمہ اللہ کی شہادت: " طائفہ منصورہ سے مراد اہلحدیث کا طبقہ ہے" (ترمذی)

    17:- امام محمد بن حبان رحمہ اللہ کی شہادت: یعنی یہ بات درست ہے کہ قیامت کے دن رسول اللہ ۖ کے سب سے قریب اہلحدیث ہونگے" (جواہر البخاری: 14)

    18:- حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ علیہ نے اللہ تعالی کا یہ قول " جس دن ہم تمام لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائيں گے" نقل کرکے فرمایا ہے کہ سلف صالحین اس آیت کریمہ کے پیش نظر یہ کہتے ہیں کہ حضرات اہلحدیث کے لیے اس سے بڑا شرف اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہیں ان کے اپنے امام اور رہبر نبی پاکۖ کے ساتھ بلایا جائے گا۔ (تفسیر ابن کثیر ص 200)

    19:- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا " اہلحدیث کا اعتقاد خالص سنت پر ہے کیونکہ یہ وہی اعتقاد ہے جو نبی پاکۖ سے ثابت شدہ ہے- (منھاج السنۃ:179)

    20:- شیخ عبدالقار جیلانی رحمہ اللہ علیہ کی شہادت: آپ نے فرمایا" اہل بدعات کی کچھہ علامتیں ہیں جن سے ان کی پہچان ہوجاتی ہے- ایک علامت تو یہ ہے کہ وہ اہلحدیث کو برا کہتے ہیں" (غنیۃالطالبین 1/80)

    21:- امام علامہ البانی رحمہ اللہ علیہ مسکراتے ہوئے ایک سوال کا جواب دیا اور فرمایا" الحمد اللہ میں سلفی اور اہلحدیث ہوں اور یہ کہ جس شخص کا منہج سلفیت نہیں وہ حق سے منحرف ہے" (بحوالہ ماہنامہ سبیل المومنین حیدرآباد اکتوبر 2002ء)

    اھل الحدیث سے مراد محدثین کرام اور عوام دونوں ہیں​

    یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ اھل الحدیث سے مراد صرف محدثین ہیں جبکہ حقیقت میں اھل الحدیث سے مراد محدثین (صحیح العقیدہ) اور حدیث پر عمل کرنے والے ان کے عوام دونوں مراد ہیں اس کی فی الحال دس دلیلیں پیش خدمت ہیں:
    1) علمائے حق کا اجماع ہے کہ طائفہ منصورہ (فرقہ ناجیہ) سے مراد اہلحدیث ہیں جس کی تفصیل اوپر بیان کی جا چکی ہےتو کیا فرقہ ناجیہ صرف محدثین ہیں؟
    ہرگز نہیں یہ بالکل خلاف عقل اور خلاف حقیقت ہے، طائفہ منصورہ اھل الحدیث سے مراد محدثین اور ان کے عوام دونوں ہیں۔

    2) امام اہلسنت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
    "[FONT="Al_Mushaf"]صاحب الحدیث عندنا من یستعمل الحدیث[/FONT]" ہمارے نزدیک اہلحدیث وہ ہے جو حدیث پر عمل کرتا ہے۔
    (مناقب الامام احمد بن حنبل لابن الجوزی ص۲۰۹ و سندہ صحیح)

    3) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اہلحدیث کا یہ مطلب نہیں لیتے کہ اس سے مراد صرف وہی لوگ ہیں جنہوں نے حدیث سنی، لکھی یا روایت کی ہے بلکہ اس سے ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ ہر آدمی جو اس کے حفظ، معرفت اور فہم کا ظاہری اور باطنی لحاظ سے مستحق ہے اور ظاہری اور باطنی لحاظ سے اس کی اتباع کرتا ہے اور یہی معاملہ اہل قرآن کا ہے۔
    (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ جلد ۴ ص ۹۵)

    4) امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اہل حدیث کی یہ صفت بیان کی ہے:
    "وہ حدیثیوں پر عمل کرتے ہیں، ان کا دفاع کرتے ہیں اور ان کے مخالفین کا قلع قمع کرتے ہیں"
    (صحیح ابن حبان، الاحسان : ۶۱۲۹)

    5) امام احمد بن سنان الواسطی رحمہ اللہ (المتوفی ۲۵۹ ھجری) نے فرمایا: دنیا میں کوئی ایسا بدعتی نہیں جو اہلحدیث سے بغض نہیں رکھتا (معرفة علوم الحدیث للحاکم ص۴ وسندہ صحیح)
    یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ صحیح العقیدہ محدثین اور ان کے عوام سے اہل بدعت بہت بغض رکھتے ہیں۔

    6) قرآن مجید سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے امام کیساتھ پکارا جائے گا (بنی اسرائیل:۷۱) اس کی تشریح میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بعض سلف سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت اہلحدیث کی سب سے بڑی فضیلت ہے کیونکہ ان کے امام نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہيں (تفسیر ابن کثیر ۱۶۴/۴)
    کیا صرف محدثین کے امام نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ نہیں بلکہ اہلحدیث سے مراد محدثین اور ان کے عوام دونوں ہیں

    7) امام ابن قیم نے اپنے مشہور قصیدے نونیہ میں فرمایا: " اے اہل حدیث سے بغض رکھنے والے اور گالیاں دینے والے تجھے شیطان سے دوستی قائم کرنے کی بشارت ہو" (الکافیہ الشافیہ ص ۱۹۹)

    8) امام جلال الدین سیوطی نے بنی اسرائیل:۷۱ کی تفسیر میں نقل فرمایا: "اہل حدیث کے لیئے اس سے زیادہ فضیلت والی کوئی اور بات نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ان کا کوئی امام نہیں۔ (تدریب الراوی جلد۲ ص ۱۲۶)
    یہاں بھی اہلحدیث سے مراد محدثین اور ان کے عوام دونوں ہیں۔

    9) ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر البغدادی (المتوفی ۴۲۹ ھجری) نے ملک شام وغیرہ کی سرحدوں پر رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں کہا: وہ سب اہلسنت میں سے اہلحدیث کے مذہب پر تھے۔ (اصول دین ص ۳۱۷)

    یہ کسی دلیل سے ثابت نہیں کہ صرف محدثین ہی مذکورہ سرحدی علاقوں میں رہتے تھے اور وہاں ان کے عوام موجود نہیں تھے لہذا اس حوالے سے بھی ثابت ہوا کہ محدثین کے عوام بھی اہل حدیث ہیں۔

    10) ابو عبداللہ محمد بن احمد بن البناء المقدسی البشاری (متوفی ۳۸۰ ھجری) نے اپنے دور کے اہل سندھ کے بارے میں لکھا:
    "[FONT="Al_Mushaf"]مذاھبھم أکثرھم أصحاب حدیث ورأیت القاضي أبا محمد المنصوري داودیًّا إماماً في مذھبھ ولھ تدریس و تصانیف، قدصنّف کتباً عدّة حسنةً[/FONT]"
    ان سندھیوں کے مذاہب میں اکثر اہلحدیث ہیں اور میں نے قاضی ابو محمد المنصوری کو دیکھا، وہ داؤد ظاہری کے مسلک پر اپنے مذہب (اہل ظاہر) کے امام تھے، وہ تدریس بھی کرتے ہیں اور کتابیں بھی لکھتے ہیں، انہوں نے بہت سی اچھی کتابیں لکھی ہیں۔
    ([FONT="Al_Mushaf"]احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم[/FONT] ص ۳۶۳)

    بشاری نے سندھیوں کی اکثریت کو اہلحدیث قرار دے کر ثابت کر دیا کہ محدثین کی طرح صحیح العقیدہ عوام بھی اہلحدیث ہیں نیز (1867 میں) فرقہ دیوبند کی پیدائش سے سینکڑوں سال پہلے۳۸۰ ھجری میں سندھ میں اہلحدیث اکثریت میں تھے۔

    تاریخ اہلحدیث علماء دیوبند کی زبانی
    مذکورہ بالا دلائل کے بعد مزید کسی وضاحت کی ضرورت تو نہیں لیکن پھر بھی دیوبندیوں پر اتمام حجت کے لیئے ہم اکابرین دیوبند کی کتب سے چند حوالے پیش کر رہے ہیں۔
    1) مفتی رشید احمد لدھیانوی دیوبندی نے لکھا:
    تقریبا" دوسری تیسری صدی ہجری میں اہل حق میں فروعی اور جزئی مسائل کے حل کرنے میں اختلافِ انظار کے پیش نظر پانچ مکاتب فکر قائم ہو گئے یعنی مذاہب اربعہ اور اہل حدیث۔ اس زمانے سے لے کر آج تک انہی پانچ طریقوں میں حق کو منحصر سمجھا جاتا رہا۔ (احسن الفتاوٰی ج1 صفحہ 316، مودودی صاحب اور تخریب اسلام صفحہ 20)
    2) اشرف علی تھانوی نے لکھا ہے:
    "امام ابو حنیفہ کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے" (مجالس حکیم الامت ص۳۴۵)
    یہ عام لوگوں کو بھی پتہ ہے کہ امام ابوحنیفہ انگریزوں کے دور سے بہت پہلے گزرے ہیں۔
    3) حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے تقلید کے رد پر ضخیم کتاب "اعلام الموقعین" لکھی ہے۔ چنانچہ ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں:
    "[FONT="Al_Mushaf"]لأنارأینا أن ابن القیم الذي ھو الأب لنوع ھذہ الفرقة[/FONT]"
    کیونکہ ہم نے دیکھا کہ ابن قیم اس (تقلید نہ کرنے والے/اہلحدیث) فرقے کی قسم کا باپ ہے۔ [FONT="Al_Mushaf"](اعلاء السنن جلد ۲۰ ص۸)[/FONT]
    سب جانتے ہیں کہ امام ابن قیم 1888 سے سینکڑوں سال پہلے گزرے ہیں۔ [FONT="Al_Mushaf"]لعنة اللہ علی الکازبین[/FONT]
    4) حافظ ابن حزم الظاہری الاندلسی نے فرمایا "والتقلید حرام" اور تقلید حرام ہے (البذةالکافیة فی احکام اصول الدین ص70)
    اور فرمایا: اور عامی و عالم (دونوں) اس (حرمت تقلید میں) برابرہیں، ہر ایک اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق اجتہاد کرے گا(النبذة الاکافیة ص71)
    چنانچہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
    اگرچہ اس امر پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مذاہب اربعہ کو چھوڑ کر مذہب خامس مستحدث کرنا جائز نہیں یعنی جو مسئلہ چاروں مذہبوں کے خلاف ہو اس پر عمل کرنا جائز نہیں کہ حق دائر و منحصر ان چار میں ہے مگر اس پر بھی کوئی دلیل نہیں کیونکہ اہل ظاہر ہر زمانہ میں رہے اور یہ بھی نہیں کہ سب اہل ہوی ہوں وہ اس اتفاق سے علیحدہ رہے۔دوسرے اجماع اگر ثابت بھی ہو جاوے مگر تقلید شخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔(تذکرۃ الرشید ج1، صفحہ 131)

    فرقہ دیوبند کی خدمت میں دو مزید حوالے پیش خدمت ہیں جس سے اہل حدیث (تقلید نہ کرنے والے متبعین کتاب و سنت و اجماع) کا اہل سنت (واہل حق) ہونا بااعتراف فریق مخالف ثابت ہے۔ والحمدللہ

    1) تفسیر حقانی کے مصنف عبد الحق حقانی دہلوی نے کہا:
    " اور اہل سنت شافعی،حنبلی،مالکی، حنفی ہیں اور اہل حدیث بھی ان ہی میں داخل ہیں۔۔۔(حقانی عقاءد اسلام صفحہ ۳)

    2) مفتی کفایت اللہ دہلوی دیوبندی نے کہا:
    "ہاں اہل حدیث مسلمان ہیں اور اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں۔ ان سے شادی بیاہ کا معاملہ کرنا درست ہے۔ محض ترک تقلید سے اسلام میں فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی اہل سنت و الجماعت سے تارک تقلید باہر ہے (کفایت المفتی جلد۱، صفحہ ۳۲۵، جواب:۳۷۰)

    امید ہے شرم اورغیرت رکھنے والے دیوبندیوں کے لیئے اتنا کافی ہے۔

    یہ بھی نرا جھوٹ ہے، جہاں تک آئمہ ثلاثہ کا تعلق ہے تو دیوبندی ان کے مقلد نہیں اور نہ ہی دیوبندیوں کے نزدیک تلفیق جائز ہے۔ دیوبندی امام ابوحنیفہ کی تقلید کا دعوی کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ کے بارے میں یہ دعوی کرنا کے جمیع امت ان کی ثقاھت پر متفق ہے نرا جھوٹ ہے، چند حوالے پیش خدمت ہیں:
    ۱) [FONT="Al_Mushaf"]قال الامام بخاری فی التاریخ الکبیر[/FONT] (۸۱/۴) [FONT="Al_Mushaf"]سکتوا عنہ[/FONT] یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے۔

    علامہ ابن کثیر مختصر علوم الحدیث ص ۱۱۸ پر فرماتے ہیں " جب امام بخاری کسی کے بارے میں کہہ دیں کہ "[FONT="Al_Mushaf"]سکتوا عنہ یا فیھ نظر[/FONT]" تو وہ انکے نزدیک سب سے ادنیٰ راوی ہوتا ہے (الرفع و التکمیل ص ۱۸۲)
    یہ جرح مفسرہ ہے کیونکہ مسائل المروزی میں آتا ہے "امام احمد سے پوچھا گیا کہ راوی کی روایت کب ترک کی جائے گی جائے گی ؟ انہوں نے فرمایا جب اس کی صحت پر خطاء غالب آ جائے۔

    ۲) [FONT="Al_Mushaf"]و قال الام مسلم فی الکنی و الاسماء ص۳۱ مضطرب الحدیث لیس لھ کبیر حدیث صحیح[/FONT] یعنی امام ابوحنیفہ مضطرب الحدیث ہیں ان کے پاس صحیح حدیث کا کوئی زخیرہ نہیں ہے

    ۳َ) امام نسائی فرماتے ہیں "[FONT="Al_Mushaf"]لیس بالقوی فی الحدیث و ھو کثیر الغلط علی قلة روایة[/FONT]" (کتاب الضعفاء والمتروکین:۵۸)

    ۴) ابن سعد فرماتے ہیں "[FONT="Al_Mushaf"]کان ضعیفاً فی الحدیث[/FONT]" یعنی امام ابوحنیفہ حدیث میں کمزور تھے (الطبقات۲۵۶/۶)

    ۵) عبد الحق اشبیلی فرماتے ہیں "[FONT="Al_Mushaf"]ولا یحتج بابی حنیفة لضعفھ فی الحدیث[/FONT]" یعنی ضعف فی الحدیث کی وجہ سے امام ابو حنیفہ کی حدیث دلیل نہیں بن سکتی (الاحکام الکبری۱۷/۲)

    ۶) امام ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں امام ابو حنیفہ پر رد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں اس کتاب الرد علی ابی حنیفة میں تردید کا مرکز امام ابو حنیفہ ہیں (ص۱۴۸/۱۴)

    ۷) اسی طرح ابو نعیم نے بھی ان پر رد کیا ہے. (الحلة ۱۹۷/۱۱/۳)

    ۸)عبداللہ بن امام احمد نے بھی ان پر رد کیا ہے (کتاب السنة ۱۸۰/۱)

    ۹)خطیب بغدادی نے بھی رد کیا ہے (تاریخ بغداد ج ۱۳)

    ۱۰) معلّمی نے بھی ان پر رد کیا ہے (التنکیل:۱۸/۱و عمدة الرعایة ۳۶)

    ۱۱) امام ابن عبد البر فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کا بھی انکار کیا گیا ہے (کما فی التمھید)

    ۱۲) امام ابن عدی امام صاحب کی روایتوں کا ضعف بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ اہل الحدیث میں سے نہیں تھے اور جس کی ایسی حالت ہو اس سے حدیث نہیں لی جاتی (الکامل لابن عدی:۴۰۳/۲)

    امام ابوحنیفہ کے بارے میں ایک اجماع:

    66 - [FONT="Al_Mushaf"]حدثنا محمد بن علي بن مخلد الوراق لفظا قال في كتابي عن أبي بكر محمد بن عبد الله بن صالح الأسدي الفقيه المالكي قال سمعت أبا بكر بن أبي داود السجستاني يوما وهو يقول لأصحابه ما تقولون في مسألة اتفق عليها مالك وأصحابه والشافعي وأصحابه والأوزاعي وأصحابه والحسن بن صالح وأصحابه وسفيان الثوري وأصحابه وأحمد بن حنبل وأصحابه فقالوا له يا أبا بكر لا تكون مسألة أصح من هذه فقال هؤلاء كلهم اتفقوا على تضليل أبي حنيفة[/FONT]
    تاریخ بغداد 13/394 , ط. دار الكتب العلمية - بيروت

    ابو بکر بن أبی داود السجستانی رحمہ اللہ نے ایک دن اپنے شاگردوں کو کہا کہ تمہارا اس
    مسئلہ کے بارہ میں کیا خیال ہے جس پر مالک اور اسکے اصحاب شافعی اوراسکے اصحاب اوزاعی اور ا سکے اصحاب حسن بن صالح اور اسکے اصحاب سفیان ثوری اور اسکے اصحاب احمد بن حنبل اور اسکے اصحاب سب متفق ہوں ؟؟
    تو وہ کہنے لگے اس سے زیادہ صحیح مسئلہ اور کوئی نہیں ہو سکتا
    تو انہوں نے فرمایا
    یہ سب ابو حنیفہ کو گمراہ قرار دینے پر متفق تھے

    یہ پڑھ کر ممکن ہے بعض دیوبندی رونا شروع کر دیں کہ دیکھو غیرمقلدوں نے ہمارے امام اعظم کی گستاخی کردی تو بھیا عرض یہ ہے کہ ہم نے امام صاحب کے بارے میں محدثین اور آئمہ کرام کی جرح من و عن نقل کی ہے اپنی طرف سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا اس لیئے اگر گستاخی کا فتوی لگانا ہے تو شوق سے مذکورہ بالا آئمہ پر لگائیں۔
    اور جہاں تک امام صاحب کی تابعیت کا تعلق ہے تو یہ بھی معتاج دلیل ہے ایسے کئی دلائل موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب تابعی نہیں تھے۔ اور رہی بات پیشنگوئی کی تو تمام دلائل عربی متن اور مکمل حوالوں کیساتھ پیش کیجیے صرف حافظ سیوطی کے نام کا رعب جمانے کی ضرورت نہیں۔
    یہ بھی مقلدین کی خوش فہمی ہے اول تو کتب احادیث میں ایسی کسی سند کا وجود ہی یکسر معدوم ہے اور اگر مقلدین ایسی کوئی سند دریافت کر بھی لیتے ہیں تب بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ امام صاحب کے ضعف پر جمہور محدثین کا اتفاق ہے نتیجاً ایسی روایات اگر ہوں بھی تو ضعیف ہی کہلائیں گی۔

    ان سب فضولیات کا جواب اوپر تاریخ اہلحدیث میں تفصیل سے دیا جا چکا ہے۔ یہاں دو مزید حوالے پیش خدمت ہیں:
    ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف جو فتوی لگا تھا اس فتویٰ پرچونتیس علمائے کرام کے دستخط ہیں، سوال یہ تھا:
    "کیا فرماتے ہیں علماء دین اس امر میں کہ اب جو انگریز دلی پر چڑھ آئے اور اہل اسلام کی جان و مال کا ارادہ رکھتے ہیں، اس صورت میں اب شہر والوں پر جہاد فرض ہے یا نہیں؟ اگر فرض ہے تو وہ فرض عین ہے یا نہیں؟"
    علماء نے جواب دیا: "درصورت مرقومہ فرض عین ہے" اس فتوے پر سید محمد نزیر حیسن دہلوی رحمہ اللہ کے دستخط موجود ہیں۔
    (دیکھئے علماء ہند کا شاندار ماضی تصنیف سید محمد میاں دیوبندی جلد ۴ ص ۱۷۸-۱۷۹ و انگریز کے باغی مسلمان تصنیف جانباز مرزا ص۲۹۳)
    اہل حدیث عالم سید نزیر حسین دہلوی تو جہاد کی فرضیت کا فتوی دے رہے تھے اب دیوبندی علماء کی کاروائیاں بھی پڑھ لیں۔
    دیوبندیوں کے پیارے مولوی فضل الرحمن گنج مراد آبادی کہہ رہے تھے:
    "لڑنے کا کیا فائدہ؟ خضر علیہ السلام کو تو میں انگریزوں کی صف میں پارہا ہوں" (سوانح قاسمی جلد۲ ص۱۰۳ حاشیہ علماء ہند کا شاندار ماضی جلد۴ ص ۲۸۰ حاشیہ)
    اگر یہی حق پر ہونے کی دلیل ہے تو پہلے خود فرقہ دیوبند سے امام بخاری یا کسی بھی امام تک ایسی ہی کوئی سند پیش کر کے اپنا اہل حق ہونا تو ثابت کیجیے، فما کان جوابکم فھو جوابنا
    ان میں سے ہر عالم کے حنفی ہونے کا ثبوت پوری زریت دیوبند پر تاقیامت قرض ہے۔ ان علماء کے حنفی ہونے کا دعوی دیوبندیوں نے کیا ہے ظاہر ہے ثبوت بھی انہیں ہی پیش کرنا پڑے گا کیونکہ ثبوت مدعی کے زمہ ہوتا ہے۔
    ایک اور سفید جھوٹ، اس دعوے کا ثبوت بھی پوری زریت دیوبند پر تاقیامت قرض ہے کہ تمام اسناد اصحاب صحاح ستہ وغیرهم ائمہ تک مقلدین علماء کے واسطہ سے پہنچتی هیں۔
    آمین ثم آمین اور آپ تو لگتا ہے جنت کا سرٹیفیکیٹ لے کر آئے ہیں نا!!! دعا کے معاملے میں بھی اتنا غرور کے اپنے لیئے دعا کرنا بھی گوارا نہیں۔ العیازباللہ اللہ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور فہم دے آمین۔
    [/FONT]
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
  2. سلمان ملک

    سلمان ملک -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 8, 2009
    پیغامات:
    924
    ابو طلحہ سلفی بھائی ماشاءاللہ بہت ہی زبردست مضمون لکھا ہے آپ نے تو کمال کر دیا ، اک ہی مضمون میں سارا کچا چٹھا کھول کر رکھا دیا ،
     
  3. ابن عمر

    ابن عمر رحمہ اللہ بانی اردو مجلس فورم

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2006
    پیغامات:
    13,354
    ماشاءاللہ ، اپنے موضوع میں بہترین تحریر ہے ، فقط ٹائپنگ کی چند غلطیوں کی تصحیح کی ضرورت ہے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. ابو طلحہ السلفی

    ابو طلحہ السلفی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    555
    شداد بھائی ان غلطیوں کی تصحیح کر دیجیے، بلکہ میری طرف سے عام اجازت ہے کہ میرے کسی بھی تھریڈ میں کمپوزنگ کی کوئی غلطی نظر آئے اس کی تصحیح کر دیا کیجیے کیونکہ پوری کوشش کے باوجود بھی طویل کمپوزنگ میں کہیں نہ کہیں غلطی ہو ہی جاتی ہے۔
    اور جب غلطی کا احساس ہوتا ہے تو اسوقت ترمیم کی اجازت ہی نہیں ہوتی :)
     
  5. محمد جابر

    محمد جابر -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 27, 2010
    پیغامات:
    74
    ہمارے ایک محترم ومکرم شیخ نے نواب پور کے علاقے میں یہی حوالہ پیش کیا تھا
    تو دیوبندی حقیتا رونے لگ گئے تھے لہذا آپ کا یہ فرمانا کہ شاید رونے لگ جائیں صرف خدشہ نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس پر یقین کامل فرمالیں کہ ایسا بھی ہوا ہے اور ہوتا ہے
     
  6. طالب نور

    طالب نور -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 28, 2008
    پیغامات:
    366
    ابوطلحہ بھائی، بہت خوب ماشاءاللہ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
     
  7. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
    جزاك الله خير ابو طلحه السلفى بهائى
     
  8. عاکف سعید

    عاکف سعید محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 16, 2010
    پیغامات:
    181
    ماشاء اللہ بھائی بہت اچھا جواب تیار کیا ہے۔ اللہ آپ کو بہترین جزا عطا فرمائے۔ آمین
     
  9. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    السلام علیکم!
    جزاک اللہ بھائی
    بہت ہی بہترین تھریڈ پیش کیا ہے آپ نے۔ ماشاءاللہ
    میرا مشورہ ہے کہ اس تھریڈ کو مثبت کیا جائے۔ ان شاءاللہ
    والسلام علیکم
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں