طاہر القادری علوم و فنون کا کورا چٹھا

کارتوس خان نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏ستمبر 20, 2007 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. کارتوس خان

    کارتوس خان محسن

    شمولیت:
    ‏جون 2, 2007
    پیغامات:
    933
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    اسلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

    جناب طاہر القادری صاحب پاکستان کی معروف شخصیت ہیں اور بہت سے علوم و فنون میں مہارت رکھنے کے داعی ہیں ان کے اکثر دعاوی کی حقیقت تو آشکار ہوچکی ہے اب موصوف پر حدیث نبوی پر دستریس کا دعوٰی کا خبط غالب ہے اس لئے کہ اب ان کے نام کے ساتھ شیخ الاسلام کے منصب پر فائز ہونے کا لاحقہ بھی شامل ہوچکا ہے اور اس منصب جلیل کے لئے قرآن کی تفسیر اور حدیث کی تفہیم میں مہارت ضروری ہے ورنہ یہ لاحقہ بھی مذاق بن جاتا ہے چنانچہ آج کل موصوف اسی تک ودو میں لگے ہوئے ہیں چنانچہ انہوں نے اپنے برطانیہ کے دورے کے درمیان برمنگھم میں صحیح بخاری کا دورہ کرایا ہے ان کے دورے کا دوسرا معنی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ستم آزمانے کے لئے صحیح بخاری کا انتخاب کیا ہے اور اس ضمن میں صرف صحیح بخاری پر ہی ظلم نہیں کیا بلکہ اسلام کے اساسی رکن توحید کو بھی تختہ مشق بنایا ہے راقم الحروف کو تو کبھی بھی ان کی ذات شریف کے کردار پر نظر رکھنے کی دلچسپی نہیں رہی تاہم بعض حضرات نے ان کی حدیث نبوی پر دست درازیوں پر کچھ لکھنے کا اصرار کیا راقم الحروف نے حدیث کے بارے میں ان کے جب فرمودات دیکھے تو معلوم ہوا کہ احباب کا اصرار بجا اور درست ہے۔۔۔

    ماہنامہ منہاج القرآن نومبر ٢٠٠٦ء ہے جس میں موصوف کے دورہ صحیح بخاری کی پہلی قسط طبع منظر کشا ہوئی ہے ہم اس کا ہی سلسلہ وار جائزہ قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔۔۔وباللہ التوفیق۔۔۔

    اہمیت سند موصوف نے اپنے دورہ کا آغاز سند کی اہمیت بیان کرنے سے کیا ہے اور اس بارے میں ایسے عجیب وغریب استدلال یا انکشافات کئے ہیں جن سے پہلی صدی ہجری سے لے کر دورہ حاضر تک کے مسلمان محروم چلے آرہے ہیں انہوں نے بغیر کسی تمہید کے سند کی اہمیت کا تذکرہ چھیڑا ہے فرماتے ہیں حدیث اور قرآن کے علم کو حاصل کرنا اور آگے پہنچانا اور نہ صرف پہچانا بلکہ متصل، معتمد، معتبراسناد کے ساتھ پہنچانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے اور پھر موصوف اپنے اس موقف پر (بحوالہ مجمع الزاوئد صفحہ ١٣٧ جلد ١) یہ دلیل پیش کی ہے کہ!۔

    عن ثابت بن قیس تسمعون ویسمع منکم ویسمع من الذین یسمعون منکم ویسمع من الذین یسمعون من الذین یسمعون منکم۔۔۔

    اور پھر کچھ یوں کیا ہے کہ!۔۔۔ حضرت ثابت بن قیس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مجھ سے سنو گے اور پھر سے سنا جائے گا اور پھر ان سے میری حدیث سنی جائے گی جن لوگوں نے پہلے سنانے والوں سے سنا ہوگا (صفحہ ٢٠ بلفظہ)۔۔۔

    اولا!۔ ہم کہتے ہیں موصوف نے اس روایت کے الفاظ بیان کرنے میں بڑا ہی تصرف اور نازک مزاجی سے کام لیا ہے یا پھر علم حدیث کے بارے میں اپنی جہالت کا ثبوت فراہم کیا ہے وہ یہ کہ اس روایت میں اپنی طرف سے بہت سا اضافہ کیا ہے جو اصل میں نہیں ہے۔۔۔

    مجمع الزوائد میں یہ روایت ان الفاظ سے ہے کہ!۔
    تسمعون ویسمع منکم ویسمع ممن یسمع منکم۔۔۔
    مختصر سی روایت کو اضافہ کے ساتھ دوگنا طویل کر دیا اور پھر یہ نہیں کہ یہ اضافہ کتابت کی غلطی ہے اس لئے کہ جو ترجمہ کیا ہے وہ بھی تقریبا اضافہ شدہ عبارت کے مطابق جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اضافہ سہوا نہیں بلکہ عمدا کیا گیا ہے جو حدیث میں اپنی طرف سے اضافہ کرتا ہے وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہے ایسے شخص پر صحیح بخاری کی ہی متواتر احادیث صادق آتی ہیں کہ!۔

    من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار۔۔۔
    جس شخص نے مجھ پر عمدا جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔۔۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی طریق سے بھی جھوٹ بولنا اور اپنے ماسبق کذاب راویوں کے جھوٹ کو اپنی تائید میں پیش کرنا۔۔۔ (جیسا کہ المنہاج النبوی میں بعض من گھڑت روایات ہیں)۔۔۔ موصوف کا دل پسند مشغلہ معلوم ہوتا ہے آخر انہوں نے اپنے منہاج کو تمام مسلمانوں سے انوکھے انداز میں چلانا ہے تو وہ اس کے بغیر کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔۔۔۔

    ثانیا!۔ موصوف نے اس روایت میں صرف تحریف ہی نہیں کی ہے بلکہ جس کے حوالہ سے روایت کو نقل کیا ہے اس نقل میں بھی انہوں نے عقل سے کام نہ لیتے ہوئے بدیانتی کو ملحوظ رکھا اور یہود و نصارٰی کی اُس روش پر چل پڑے جو انہوں نے کلام اللہ کے ساتھ کیا اور جانتے ہوئے تحریف کے مرتکب ہوئے اور قیامت تک ذلت و رسوائی جن کا مقدر بن گئی موصوف نے تحریف کرتے ہوئے اتنا بھی نہیں سوچا کہ ایک عامی جو دین کے علم سے ناواقف ہے وہ کیا سوچ اور کیا عقیدہ لے کر اُٹھے گا۔۔۔ انہی جیسے علماء سو پر اللہ نے قیامت تک لعنت فرمادی ہے جو تھوڑی سی قیمت کے بدلے کلام کو بدل دیتے ہیں۔۔۔

    مجمع الزوائد کے مؤلف امام ہیشمی کی مجمع میں عادت ہے کہ وہ اس میں حدیث نقل کرنے کے بعد اس حدیث کی سند کے بارے میں اپنا محدثانہ فیصلہ بھی رقم فرماتے ہیں چنانچہ انہوں نے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ!۔

    عبدالرحمٰن بن ابی لیلی لم یسمع من ثابت بن قیس (مجمع الزوائد صفحہ ١٣٧ جلد ١) قادری صاحب نے یہ روایت تو نقل کردی مگر امام ہیثمی نے اس روایت پر جو انقطاع کا حکم لگایا ہے اسے حذف کر گئے۔۔۔ کیوں؟؟؟۔۔۔

    قانون شکنی!۔ موصوف قادری نے خود ہی اُمت محمدیہ کا یہ امتیاز تحریر کیا ہے کہ متصل سند کے ساتھ حدیث پہنچانا اُمت محمدیہ کی خاصیت ہے اور خود ہی اس اصول کی خلاف ورزی کر کے اپنے موقف میں منقطع السند روایت پیش کردی جو متصل السند کی ضد ہے۔۔۔

    اصل حقیقت!۔ بلاشبہ حدیث کی صحت کے لئے دیگر اوصاف کے ساتھ اس کا متصل السند ہونا بھی ضروری ہے مگر چونکہ قادری صاحب کی معرض احتجاج میں پیش کردہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اس لئے محدثین نے سند کی افادیت میں یہ روایت پیش نہیں کی کیونکہ اس سے تو متصل السند ہونے کی شرط ختم ہوجاتی ہے چونکہ حدیث قادری صاحب کا فن نہیں اس لئے انہوں نے مذکورہ بالا ضعیف روایت اپنے استدلال میں پیش کی ہے۔۔۔

    سند دین ہے!۔ موصوف نے صحیح مسلم کے حوالہ سے امام محمد بن سیر رحمہ اللہ کا یہ قول نقل یا ہے کہ وہ فرماتے ہیں!۔

    ان ھذا العلم دین (ای علم الاسناد) تاخذوا دینکم (صفحہ ٢٠ بلفظہ)۔۔۔
    یہ مختصر سی عبارت ہے اس کے نقل کرنے میں بھی موصوف ہاتھ کی صفائی دکھا گئے ہیں مسلم شریف میں یہ عبارت اس طرح ہے کہ۔۔۔

    ان ھذا العلم دین فانظروا عمن تاخذون دینکم۔۔۔
    قادری صاحب نے (عمن) کو (من) اور (تاخذون) کو (تاخزوا) بنادیا جس سے واضح ہے کہ موصوف نقل میں غیر موثق اورناقابل اعتماد اور عربیت سے ناواقف ہیں قابل غور بات یہ ہے کہ جو شخص آدھ سطر بھی درست نہ لکھ سکے وہ صحیح بخاری کا دورہ کیسے کراسکتا ہے (فاعتبروا) پھر اس قول سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں اسناد میں دین کی کوئی تعلیم نہیں ہوتی دین کا کوئی مضمون نہیں ہوتا احکام شریعت میں سے کوئی شئی اسناد میں بیان نہیں ہوتی اور تعلیمات اسلام میں کوئی تعلیم اسناد کا حصہ نہیں ہوتی اسناد شخصیتوں کے ناموں کا ایک سلسلہ ہے (صفحہ ٢١)۔۔۔

    عجب معمہ ہے موصؤف تو اسناد کی اہمیت بیان کر رہے ہیں اور اس کو دین بھی سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ اسے دین سے خارج بھی کر رہے ہیں اگر سند اسلام کی تعلیم کا حصہ نہیں تو پھر یہ دین کسیے ہوگی اور اس سے عجب تر یہ بات ہے کہ موصوف قرآن میں لفط (قل) کو متن نہیں بلکہ سند مانتے ہیں جیسا کہ فرماتے ہیں (قل) کا مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا جارہا ہے کہ آپ فرمادیں پس (قل) یہ سند ہے اور اگلا حصہ (ھو اللہ احد) متن ہے (صفحہ ٢٢)۔۔۔

    اسکا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کا کچھ حصہ ایسا ہے بقلم خود شیخ الاسلام کے نزدیک نہ اس میں دین کی تعلیم ہے اور نہ کوئی دین کا مضمون ہے اور نہ ہی احکام شریعت کا اس میں کوئی حکم ہے ویسے امریکہ اور برطانیہ وغیرہ کو ایسے شیخ الاسلام کی ضرورت ہے جو ان کے مشن کو ان کی جہد ونقصان کو بغیر چلائے۔۔۔

    موصوف کے علم میں ہونا چاہئے کہ سند متن تک پہنچنے کا ذریعہ ہے جو ایک خبر کی حیثیت رکھتی ہے اور خبر کی تحقیق کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہے اللہ کریم فرماتے ہیں کہ!۔

    یا ایھا الذین امنو ان جاء کم فاق بنیاء فتبینوا (الحجرات ٦)۔۔۔
    اے ایمان والوں!۔ اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کیا کرو۔۔۔

    ہوسکتا ہے کہ یہ آیت موصوف کے ذہن میں نہ ہو اس لئے سند کے بارے میں بے مقصد باتیں ذکر کردی ہیں ورنہ بات تو بالکل سیدھی سی ہے کہ جس کے ذریعے خبر پھیلی ہے اس کے بارے میں تحقیق کی جائے کہ آیا وہ اس لائق ہے کہ اس کی بیان کردہ خبر قبول کی جاسکے کیونکہ اللہ تعالٰی نے خبر کی تحیق کے لئے فاسق کا ذکر کیا ہے جو اپنا ایک وجود رکھتا ہے تو گویا کہ اس آیت کریمہ نے موصوف کے تمام مفروضات کو باطل قرار دیا ہے اور ان کے متجددانہ دعوٰی کے غبارہ سے ہوا نکال دی ہے۔۔۔

    دین متن ہے یا سند!۔
    موصوف فرماتے ہیں بیشک متن میں تعلیم ہے دین تعلیم کے متن میں بلکہ تعلیم کی سند کا نام ہے (صفحہ ٢١) معلوم نہیں کے موصوف جب بخاری کا دورہ کرارہے تھے تو ان پر شیخ الاسلام بننے کے دورے پڑھ رہے تھے سند کو تو دین مانتے ہیں مگر متن میں تعلیم ہے مگر دین تعلیم کے متن کو دین ماننے سے انکاری ہیں واضع رہے کہ اصل دین تو متن ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر کا نام ہے سند تو اس تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے اور وہ سند متن کی وجہ سے دین میں شامل ہے ورنہ خالی سند کو بغیر متن کے ہوا سے کون دین کہتا ہے کہ شافعی، مالک، فافع تو کیا محض ان خالی ناموں کو ین کہا جائے گا۔۔۔ ہرگز نہیں ہاں جب حدثنا الشافعی عن مالک عن نافع عن ابن عمر قال قال رسول اللہ تو یہ دین میں ہوگی اور اسی کو امام ابن سیرین نے دین سے کہا ہے اس لئے کہ اس سند کے ذریعے اصل دین (حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) تک رسائی ہوتی ہے موصوف مزید لکھتے ہیں ان اللہ کے بندوں کے ناموں کی فہرست کا جاننا اور ان کو یاد کرنا اور ان ناموں کے سلسلے سے منسلک ہونا دین ہے(صفحہ ٢١)۔۔۔

    موصوف کا یہ فرمان لغو اور باطل ہے جس کا سلف صالحین میں سے کوئی بھی قائل نہیں تھا اللہ کے بندوں کے ناموں کو جاننا اور انہیں یاد رکھنا اور ناموں کے سلسلے میں منسلک کس دلیل سے دین ہے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارت میں سند کا جب وجود نہ تھا اور نہ اس کی ضرورت تھی اس لئے کہ لوگ حدیث براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے تھے اس وقت چونکہ ناموں کا سلسلہ موجود نہ تھا تو کیا معاذ اللہ دین ناقص تھا ہاں جب اکابر صحابہ کے دور کے بعد سند کی ضرورت پیش آئی تو کیا دین اس وقت پورا سند کی خبر تک رسائی اور اس کے کذب و صدق کے جانچنے کا ذریعہ ہے صحابی اپنے شاگرد تابعی اور تابعی اپنے شاگرد تبع تابعی کو اور وہ اپنے شاگرد کو حدیث کی خبر دیا ہے محض ناموں کا کوئی اعتبار نہیں اس لئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ صحابی کے پیچھے جو سلسلہ سند ہے اس کے راوی کیسے ہیں کیا وہ قابل اعتماد بھی ہیں کہ نہیں؟؟؟۔۔۔ اگر قابل اعتماد نہ ہو تو اس کی بیان کردہ روایت بھی قابل اعتماد نہیں ٹھہراتی اگر صرف ناموں کا سلسلہ ہوتا تو ناقابل اعتماد راویوں کی روایت کیوں رد کردی جاتی ہے۔۔۔

    سند کی تحقیق متن کی حفاظت کی خاطر ہے!۔
    بلاشبہ سند تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہی معرض وجود میں آچکی تھی لیکن اس میں تحقیق کی تب ضرورت پیش آئی جب اہل بدعت نے اپنے عقائد کی خاطر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے من گھڑت باتیں منسوب کرنا شروع کیں اور خطرہ لاحق ہوگیا کہ کہیں حدیث رسول غیر محفوظ نہ ہوجائے جیسا کہ امام ابن سیرین فرماتے ہیں کہ!۔

    لم یکونوا یسئالون عن الاسناد فلما وقعت الفتنۃ قالو اسمو النار فینظر الی اھل السنۃ فیؤخذ حدیثھم وینظر الی اھل البدع فلا یؤخذ حدیثھم (مسلم صفحہ ١٩ جلد ١)۔۔۔

    عہد صحابہ میں لوگ سند کا سوال نہیں کرتے تھے اور جب فتنہ واقع ہوگیا (جنگ صفین ہوئی پھر کہنے لگے سامنے ان کا نام ذکر کرو جن سے حدیث روایت کی گئی ہے) تو دیکھا جاتا اگر حدیث کے راوی اہل سنت میں سے ہیں تو اُن کی روایت کردہ حدیث لے لی جاتی اور اہل بدعت کو دیکھا جاتا تو ان کی حدیث رد کر دی جاتی امام ابن سیرین کے قول کا یہ مطلب نہیں کہ واقعہ صفین سے پہلے سند موجود نہ تھی بلکہ واضع مطلب یہ ہے کہ لوگ سند کا سوال نہیں کرتے تھے اور اُس کی وضاحت امام ابن سیرین نے خود ہی کردی ہے کہ!۔

    فان القرم کانوا اصحاب حفظ واتقان (جامع الاصول ١٣١ جلد ١)۔۔۔
    اس وقت کے لوگ حفظ و اتفاق والے تھے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ!۔

    کنت اذا سمعت من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیثا نفعنی اللہ بماشاء منہ واذا حدثنی عنہ غیری استحلفتہ فاذا حلف لی صدقۃ۔۔۔ (مسند احمد صفحہ ٢ جلد١) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست کوئی حدیث سنتا تو اللہ تعالٰی جس قدر چاہتا مجھے اس سے فائدہ پہنچاتا اور جب مجھے دوسرا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا تو اس سے قسم اُٹھواتا اور جب وہ قسم اُٹھا لیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا اسی طرح خلیفہ رسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی (ابوداود، ترمذی) اور امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ بھی حدیث سننے کے بعد چھان بین کرتے اور تصدیق کے بعد قبول کرتے (بخاری کتاب لاستبذان ومسلم وغیرہ) گویا کہ سند متن کی خادم ہے متن کے بغیر اس کا وجود محال ہے۔۔۔

    ناموں کی برکت!۔
    موصوف سند کو ناموں کی برکت سے بھی تعبیر کرتے ہیں اس پر انہوں نے ابن ماجہ کی ایک روایت کو بطور دلیل پیش کیا ہے دو روایت اس طرح ہے کہ!۔

    عن عبدالسلام بن ابی صالح بن علی بن موسی رضا عن ابیہ ای موسی الکاظم عن جعفر بن الصادق عن ابیہ ای الام محمد الباقر عن ابیہ علی بن حسین الاما زین العابدین عن ابیہ ای الامام حسین عن ابیہ ای علی بن ابی طالب قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الایمان معرفۃ بالقلب وقول بلسان وعمل بالارکان (صفحہ ٢١ بلفظہ)۔۔۔

    موصوف نے اس روایت کی سند میں اپنے متجدانہ تخیل کو سمودیا ہے اور سند میں بھی اپنی طرف سے بہت سا اضافہ کیا ہے ابن ماجہ میں یہ سند اس طرح ہے کہ!۔

    حدثنا سھل بن ابی سھل و محمد بن اسمعٰیل قالا حدثنا عبدالاسلام بن صالح ابو الصلت الھروی حدثنا علی ابن موسی الرضا عن ابیہ عن جعفر بن محمد عن ابیہ عن علی بن الحسن عن ابیہ عن علی بن ابی طالب۔۔۔

    آپ اصل سند کا قادری صاحب کی تحریر کردہ سند سے موازنہ کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ اصل سند القاب سے خالی ہے جبکہ قادری صحاب کی بیان کردہ سند میں کتنے ناموں کے ساتھ القاب ملحق ہیں اور پھر ان القاب کی اصل سند کے ساتھ اس طرح گڈ مڈ کر دیا ہے کہ امتیازی علامت (بریکٹ) بھی نہیں ڈالا جس سے قاری یہ سمجھتا ہے کہ قادری صاحب کی بیان کردہ سند بعینہ وہی ہے جو ابن ماجہ میں ہے اگر قادری صاحب یہ عذر پیش کریں کہ یہ القاب محج توضیع کے لئے ہیں تو پھر یہ اصول حدیث کے علوم سے ناواقفی کا تنیجہ ہے اصول کی رو سے اگر توضعی یا توضیحی کلمہ بڑھانا تھا تو اس کے لئے قوسین (بریکٹ) لگاتے تاکہ اصل اور اضافہ میں امتیاز ہوجاتا ورنہ یہ مدرج فی الاسناد ہے جو اصول حدیث کی رو سے ممنوع ہے۔۔۔

    روایت من گھڑت ہے!۔
    موصوف کی پیش کردہ مذکورہ روایت من گھڑت ہے محقق اور ناقد محدثین نے اسے من گھڑت قرار دیا ہے تفصیل کے لئے راقم الحروف کی کتاب ضعیف اور موضوع روایات ملاحظہ کریں۔۔۔ موصوف لکھتے ہیں کہ!۔

    قال ابو السلط الھروی لوقرء ھذا الاسناد علی مجنون لبرء۔۔۔
    یہ کیا ہے اس حدیث کی صرف سند پڑھ کر کسی دماغی مریض پر دم کردیاجائے تو شفایات ہوجائے گا پھر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں اس حدیث مبارکہ کی سند میں موجود ناموں کی برکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ متن سے پہلے ناموں کا یہ سلسلہ بھی اسلام کے اندر اہمیت و عظمت کا حامل ہے (صفحہ ٢١)۔۔۔

    ہم کہتے ہیں کہ اولا تو موصوف نے اس متن میں تحریف کی ہے اس قول کا قائل ابوالسلط نہیں ابو الصلت ہے یہ تحریف کیوں کی تو اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابوالصلت چونکہ متعصب شیعہ اور معروف کذاب ہے موصوف اس کے نام کو بدل کر قول کو معرض حجت پیش کررہا ہوں وہ تو کذاب ہے بھلا کذاب راوی کی بات کیسے معتبر ہوسکتی ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ قائل کا نام ہی بدل دو تاکہ اس کے کذاب پر اعتراض ہی نہ ہو پھر یہ کتاب کی غلطی بھی نہیں اس لئے کہ موصوف نے ترجمہ میں ابوالسلط ہی لکھا ہے۔۔۔

    شفا کا نظریہ!۔
    اس سند کے رجال پر غور کیا جائے تو ابوالصلت کے استاذ سے لے کر آخر تک تمام راوی اہل بیت میں سے ہیں اور شیعہ حرات ان تمام کو اپنے معصوم امام مانتے ہیں ابو الصلت بھی چونکہ شیعہ تھا جیسا کہ امام ذہبی فرماتے ہیں متعصب شیعہ تھا (میزان صفحہ ٦١٦ جلد ٢) اس لئے اس نے سند کے بارے میں یہ عقیدہ کہا ہے کہ اگر اسے مجنون پر پڑھا جائے تو وہ تندرست ہوجائے موصوف کی چونکہ علم حدیث فن خصوصا رجال حدیث کے بارے میں ان کی معلومات سفر کے برابر ہیں اور پھر تحقیق کا بھی کوئی ذوق نہیں صرف نمود مقصد ہے اس لئے اگر تحقیق کریں تو اس قسم کے شرکیہ عقائد کو چھوڑنا لازما آجائے گا جو موصوف کے لئے ناممکن ہے۔۔۔

    نام میں برکت!۔
    اسلام کا اس بارے میں شفاف نظریہ ہے کہ (وتبارک اسمک) اللہ تعالٰی کانام بابرکت ہے اس کے علاوہ اسلام نے کسی نام کو باعث برکت قرار نہیں دیا اور نہ صحابہ کرام ہی اللہ تعالٰی کے نام کے علاوہ محض کسی دوسرے کے نام سے برکت حاصل کرتے تھے یہ اعتقادی بدعت ہے جو شیعہ کے واسطے سے مسلمانوں میں پھیلی ہے اب اس بدعت کے پھیلانے کی ذمداری قادری صاحب نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔۔۔
     
  2. کارتوس خان

    کارتوس خان محسن

    شمولیت:
    ‏جون 2, 2007
    پیغامات:
    933
    ابو الصلت کا تعارف!۔

    ابو الصلت کا تعارف!۔
    عقیلی فرماتے ہیں رافضی خبیثت (الضغعاء الکبیر) ابن عدی فرماتے ہیں متھم ہے (اسوہ الکامل) دارقطنی فرماتے ہیں رافضی خبیث وضع حدیث کرنے میں منھم ہے اس نے یہی حدیث الایمان باقر ارالقلب (جسے قادری صاحب نے پیش کیا ہے) وضع کی ہے میزان صفحہ ٦١٦ جلد ٢) امام ابن حبان فرماتے ہیں یہ حماد بن زید اور اہل عراق سے فضائل علی اور اہل بیت سے عجیب قسم کی احادیث روایت کرتا ہے جب یہ کسی حدیث کے روایت کرنے میں منفرد ہوتو قابل حجت نہیں (کتاب المجروحین صفحہ ١٥١ جلد ٢) راقم الحروف کہتا ہے یہ مذکورہ روایت اسی کذاب راوی کی روایت کردہ ہے جو اس لائق نہیں کہ اس سے احتجاج پکڑا جائے چہ جائیکہ اس سے اسلام شکن جیسا نظریہ قائم کیا جائے۔۔۔

    احناف اور مذکورہ روایت!۔
    امام ابو حنیفہ اور دیگر آئمہ احناف کا ایمان کے بارے میں یہ قول ہے کہ ایمان صرف اقرار اور تصدیق کا نام ہے اعمال ایمان میں داخل نہیں اسی بناء پر احناف ایمان میں کمی بیشی کے قائل نہیں مگر مذکورہ روایت احناف کے عقیدہ کی نفی کرتی ہے کہ اس روایت میںعمل بالارکان کو ایمان کا جزء بلکہ شرط قرار دیا گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ جس کی سند میں اتنی قوت ہے کہ پاگل مریض سنتے ہی وہ شفایات ہوجاتا ہے تو اُس کے متن کا کتنا بڑا درجہ ہوگا اس لئے کہ متن تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان یا عمل کو کہا جاتا ہے یہ رویات گویا کہ قادری صاحب کے لئے ایک امتحان ہے اولا تو صاف الفاظ میں عملا بھی اس روایت کو قبول کریں اور اس بارے میں آئمہ احناف کے معروف عقیدہ کی نفی کریں کیا یہ ممکن ہے؟؟؟۔۔۔

    امام مسلم پر الزام!۔
    فرماتے ہیں امام مسلم شخصیت پرست نہ تھے مگر شخصیت پرست نہ ہوکر فرماتے ہیں دین صرف اللہ والوں کے نام کے ناموں کا نام ہے یعنی وہ اہل اللہ جن کے ذریعے دین پہنچا ہے ان کے اسناد کو دین کہتے ہیں (صفحہ ٢١) امام مسلم نے امام ابن سیرین کا قول نقل کر کے یہ واضع کیا ہے کہ سند دین میں سے ہے یہ تو نہیں کہا کہ اہل اللہ کے نام دین ہیں سند اور عام ناموں میں بعد مابین المشرقین ہے عام ناموں کو قطعا کسی نے دین قرار نہیں دیا بلکہ جب یہ نام اس سلسلہ کے ساتھ بالترتیب واقع ہوں کہ جو کسی متن کی خبر دیں تو تب یہ سند ہوگی چونکہ سند متن یعنی دین تک پہنچنے کا نام ہے اس لئے اس واسطے کو امام ابن سیرین نے دین کہا ہے جب کہ موصوف اہل اللہ کے مطلق ناموں کو دین قرار دے رہے ہیں جس سے امام ابن سیرین اور امام مسلم دونوں ہی بری ہیں۔۔۔

    سند اور قرآن!۔
    فرماتے ہیں کہ!
    ان ھذا العلم ای علم الاسناد دین۔۔۔
    یہ دین قول قرآن کی اس آیت کی تشریح ہے جس میں اللہ تعالٰی نے فرمایا (اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم) اللہ رب العزت نے الصراط المستقیم نہ قرآن کو کہا اور نہ ہی حدیث و سنت کو کہا بلکہ الصراط المستقیم (موصوف نے صراط کو بلا معروف اللام لکھا ہے) نیک شخصیتوں اور اللہ والوں کے راستے کو کہا( صفحہ ٢٢)۔۔۔ ان ھذا العلم دین کے قائل امام ابن سیرین ہیں انہوں نے قطعا یہ نہیں کہا کہ میرے اس قول کی دلیل آیت اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم ہے یہ قادری صاحب کا اپنا استدلال ہے جو بے محل اس لئے اس آیت کریمہ میں صراط المستقیم سند قرار نہیں دیا اور نہ اس سلسلہ میں سند کا ذکر ہے موصوف کی یہ تشریح بالرائے ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔۔۔ من قال فی القرآن برایہ فلیتبوا مقعدہ من النار موصوف جس طرح علم حدیث سے ناواقف ہیں اسی طرح قرآن سے بھی ناواقف ہیں ورنہ یہ قطعا نہ کہتے کہ الصراط المستقیم قرآن اور حدیث نہیں بلکہ اللہ والوں کا راستہ ہے اس لئے قران کریم نے الصراط المستقیم کی خود تفسیر کی ہے۔۔۔!

    ان ھذا صراطی مستقیما (الانعام ١٥٣)۔۔۔
    ومن یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط المستقیم (ال عمران ١٠١)۔۔۔
    انک لمن المرسلین علی صراط المستقیم (یسن ٤)۔۔۔
    واتبعون ھذا صراط مستقیم (الزخرف ٦١)۔۔۔

    یہ آیات اور اس مضمون کی دیگر متعدد آیات واضع کرتی ہیں کہ الصراط المستقیم قرآن وحدیث کا نام ہے ابن مسعود فرماتے ہیں کہ رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے ایک لکیر کھینچی اور پھر فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے اور پھر اس لکیر کے دائیں بائیں لکیریں کھینچیں اور پھر فرمایا یہ راستے ہیں جن میں ہر راستے پر شیطان ہے اس راستہ کی طرف دعوت دیتا پھر آپ نے یہ آیت پرھی۔۔۔( وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ)۔۔۔ اس حدیث کو امام احمد، نسائی، دارمی، اور حاکم نے روایت کیا ہے حاکم فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ( المستدرک صفحہ ٣١٨ جلد ٢) میرا خیال ہے کہ اس بارے میں دو اہل علم کے مابیں اختلاف نہیں ہوا کہ صراط مستقیم سے مراد قرآن و حدیث ہے یہ انوکھی منطق بقلم خود شیخ الاسلام کی ہے کیونکہ اس کے بغیر مفروضہ اسلام کا شیخ الاسلام بننا ممکن نہیں۔۔۔

    قرآن میں متن اور سند!۔
    ان ھذا العلم دین پر اللہ کا ایک اور قول بھی سند ہے جب اللہ نے اپنی توحید کو بیان کرنا چاہا تو سورہ اخلاص میں اپنی توحید کا اعلان فرمایا سورہ اخلاص میں توحید کا مضمون ھو اللہ احد سے شروع ہوتا ہے مگر سورت کا آغاز (قل) سے ہوتا ہے قل میں یہ واحدانیت کا معنی ہے اور نہ توحید کا اور نہ ی اس میں کوئی اثبات توحید کی نفی شرک ہے قل کا مطلب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جارہا ہے کہ آپ فرمادیں پس یہ قل سند ہے اور اگلا حصہ ھو اللہ احد متن ہے قل بہتر اسناد ہے (صفحہ ٢٢)۔۔۔

    قادری صاحب کی منطق سے یہ واضع ہوتا ہے کہ معاذ اللہ اللہ تعالٰی کو بھی سند کی ضرورت ہے ممکن ہے ان کا یہی نظریہ ہو یا گمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور راوی حدیث کے درمیان جو فرق ہے موصؤف اس سے بے خبر ہیں آجکل تو ان کی مفسر قرآن بننے کا بھی ڈھنڈورا ہے پتہ نہیں اس تفسیر میں کیا عجائبات ہونگے کہ جس مفسر کو یہ پتہ نہیں کہ سورہ اخلاص کے نازل ہونے سے پہلے اللہ تعالٰی متعدد بار اپنی وحدہ لاشریک ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔۔۔۔

    اصل میں موصوف صاحب اپنے تخیلات باطلہ کوکتاب و سنت کے نام سے ڈھارس دینا چاہتے ہیں چونکہ قرآن و حدیث سے ان کی باطل عقائد کی دلیل مہیا نہیں ہوتی اس لئے اس قسم کی بے معنی باتیں کرتے ہیں ورنہ آج تک کسی مفسر نے لفظ قل سے سند کا استدلال نہیں پکڑا۔۔۔

    سند اور شخصیت پرستی!۔
    موصوف سند کو شخصیت پرستی قرار دیتے ہیں چنانچہ کہتے ہیں کہ شخصیت پرستی میں ہم نے پرستی کا لفظ خود سے لگادیا پرستش تو صرف اللہ کی ہے اگر اللہ پرستی کالفظ نکال دیں تو دین سارا شخصیتوں کا نام ہے خواہ پیغمبر ہوں صحابہ ہوں یا ائمہ ہوں ارشاد فرمایا کہ!۔

    علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدبیین۔۔۔
    یہ سب شخصیتیں ہیں۔۔۔۔انی ترکت فیکم امرین کتاب اللہ وعطرنی (یہ الفاظ قادر صاحب نے اسی طرح لکھا ہے حالانکہ یہ لفظ عترتی (ت) کے ساتھ ہے (ط) کے ساتھ نہیں۔۔۔ پس اہل بیت شخصیتیں ہیں صحابہ خلفاء راشدین شخصیتیں ہیں گویا کہ (٧٥٪) سے زائد حصہ دین کا شخصیتوں پر ہے (صفحہ ٢٢) قادری صاحب اپنے شرکیہ منہج کا جو مہرہ پھیکنا چاہتے تھے بالآخر پھینک دیا کہ سند اصل میں شخصیت پرستی ہے اس نام نہاد علامہ مفسر اور محدث کو اتنا علم نہیں کہ قرآن سارے کا سارا ہی شخصیت پرستی کے خلاف ہے دنیا میں سب سے پہلے شرک شخصیت پرستی سے ہی شروع وہا تھا سیدنا نوح علیہ الاسلام کی قوم جن پانچوں بتوں ود، سواع، یغوث، یعوق، اور نسر کی پوجا کرتے تھے وہ سب شخصیتیں تھیں (بخاری)۔۔۔ سیدنا نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کی ان شخصیات سے ہی روکا تھا جب وہ باز نہ آئے تو اللہ تعالٰی کی طرف سے پانی کا عذاب آیا اور وہ غرق ہوگئے آج پھر موصوف اسی شخصیت پرستی کا واویلا کرر ہے ہیں اور دین اسلام پر جس کا نقطہ آغاز ہی یہی ہے کہ (فادعوہ مخلصین) تم صرف اللہ کو پکارو اس دین توحید میں موصوف (٧٥٪) شخصیت پرستی (شرک اکبر) کے دعوے دار ہیں گویا موصوف کے نزدیک دین اسلام میں صرف پچیس فیصد اللہ پرستی کا عنصر تھا جب کہ (٧٪) اس میں شرک کی آمیزش ہے پاکستان کے آزاد ماحول میں قادری کا حق بنتا ہے کہ وہ بھی مرزا قادیانی کی طرح کتاب وسنت سے ملعب کر کے اپنے وجود کو منوائیں موصوف کو یہ علم ہونا چاہئے کہ جن کی شخصیت پرسی کا یہ رونا روہ رہے ہیں وہ تو خود اللہ کی پرستش کرنے والے ھے ان کے نقش قدم پر چلنے کا یہ مطلب ہے کہ ان کی پرستش کی جائے بلکہ سنتہ الخلفاء الراشدین کا لفظ یہ بتاتا ہے تم اس طریقہ پر کار بند رہو جس طریقہ پر خلفائے راشدین تھے اس کا یہ مطلب تو قطعا نہیں کہ تم ان شخصیات کی پرستش کرو اور یہی دوسری حدیث کا مطلب ہے کہ جس طرح تم نے کتاب اللہ پر عمل کرنا ہے اسی طرح میری عترت کے طریقہ پر عمل کرو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موصوف کو دین کے سب سے بڑے ستون کو مسخ کرنے کی کیوں سوجھی اس کی شاید وجہ یہ ہو کہ قادری صاحب دراصل تصوف گزیدہ صوفی المشرب ہیں اور ہر اصلاحی صوفی وحدت ادیان کا قائل ہوتا ہے جن کی نظر میں مسجد مندر اور گرجا سب برابر ہوتے ہیں چونکہ موجودہ تصوف کی ساری عمارت شرک پر قائم ہے اسلام کے علاوہ باقی جتنے ادیان ہیں سب کی بنیاد شخصیت پرستی پر ہے اسلام واحد دین ہے جس کی بنیاد اللہ پرستی پر ہے موصوف شخصیت پرستی کا شوشہ چھوڑ کر درحقیقت تصوف کے بنیادی نظریہ کو اُجاگر کر رہے ہیں یا یہ ممکن ہے کہ یہود و نصارٰی کو خوش کرنے کے لئے انہوں نے ایسے مفروضے چھوڑے ہوں چونکہ ان کا یہ خطاب برطانیہ میں ہوا ہے اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ وہاں کے عیسائی تثلیت کے قائل ہیں کہ ہم تم میں دوری نہیں م تثلیت کے قائل ہو تو ہم تم سے بڑھ کر تربیع کے قائل ہیں تم میں ٦٦ فیصد شخصیت پرستی ہے تو ہم پر ٧٥ فیصد شخصیت پرستی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ موصوف نے ایک بار کیتھولیک جالوس میں بھی شرکت کی تھی اور ان منہاجیوں کی طرف سے کرسمس ڈے پر مبارک باد کے بینز بھی آویزاں ہوئے تھے۔۔۔

    سند اور اہل بدعت!۔
    اس عنوان سے موصوف نے برے گل کھلائے ہیں اسی ضمن میں بالکل بے مقصد بحث کی ہے جس کی نہ سند کے ساتھ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی محدثین کرام کے ساتھ فرماتے ہیں پس وہ بات پر دھیان نہ دیں بلکہ شخصیتوں پر دھیان دیں کہ کس سے لی گئی ہے (٢٣)۔۔۔ یہاں تو آکر یہ حقیقت منکشف ہوگئی ہے کہ موصوف محدثین کے نقطہ نظر کو کیا سمجھتا ہے وہ خود اپنی تحریر کے اسلوب سے بھی غافل ہے ان کا ایک سطر کا یہ جملہ خود ان کے مؤقف کی تردید کر رہاہے کہ محدثین کرام اگر سند کی شخصیت پرستی پر عمل کرتے ہوتے تو ان کی تحقیق نہ کرتے کیونکہ کسی کی پرستش عقیدت کا آخری درجہ ہوتا ہے اور جب عقیدت پرستش تک پہنچ جائے تو پھر وہاں تحقیق نہیں ہوتی ثانیا محدثین سند کی پرکھ متن کی خاطر کرتے تھے نہ کی کسی شخصیت کی خاطر یہی وجہ ہے کہ امام ابن سیرین فرماتے ہیں کہ!۔

    فینظر الی اھل البدعۃ فلا یوخذ حدیثھم (مسلم صفحہ ١٩ جلد ١)۔۔۔
    کہ اہل بدعت کی طرف دیکھا جاتا تو ان کی بیان کردہ حدیث قبول نہ کی جاتی تو معلوم ہوا کہ سند کی تحقیق متن کی خاطر کی جاتی ہے۔۔۔

    نااہل کا منصب پر فائز ہونا!۔
    موصوف فرماتے ہیں کہ آج یہ دور ہے کہ جس کو سند کے معنی کی بھی خبر نہیں وہ بھی دین منتقل کرتا ہے دین بیان کرتے ہوئے اپنے آپ کو دین کی اتھارٹی سمجھتا ہے ہر شخص مجتہد بنا بیٹھا ہے (٢٣)۔۔۔

    موصوف نے بالکل درست فرمایا اور غالبا ان کو یہ تجربہ ان کی اپنی ذات شریف سے ہوا ہے کہ وہ علم حدیث (دین کے ستون) کے ابجد سے ناواقف ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو اتھارتی سمجھتے ہیں سند کا جو مفہوم محدثین کرام کے ہاں ہے اس سے جاہل ہونے کے باوجود صحیح بخاری پر لاف زنی کر رہے ہیں اور دین کے بنیادی رکن توحید کو اگر اس کی جگہ شخصیت پرستی اور شرک کو متمکن کر رہے ہیں ان کو درانحالیہ کہ علم نہیں ہوتا کہ میں اپنی تائید میں جو قول پیش کر رہا ہوں اس کا قائل کون ہے جیسا کہ لکھتے ہیں کہ امام مسلم فرماتے ہیں جب کوئی شخص بات کرتا تفسیر کرتا شرح کرتا تو ہم اس سے پوچھتے سمو النار جالکم (٢٣)۔۔۔

    حالانکہ یہ قول امام مسلم کا نہیں بلکہ ابن سیرین کا ہے جسے امام مسلم نے اپنی سند سے نقل کیا ہے موصوف نے صرف اس قول کے انتساب میں ہی غلطی نہیں کی بلکہ محرفانہ عادات کے تحت اس میں اپنی طرف سے اضافہ بھی کیا ہے جب کوئی شخص بات کرتا تفسیر کرتا شرح کرتا یہ سب اضافی الفاظ ہیں جو امام ابن سیرین کے فرمان میں نہیں ہیں۔۔۔

    بدعت اور سند!۔
    وہ بات پر نہ دھیان دیتے بلکہ شخصیتوں پر دھیان دیتے کہ کس سے لی ہے اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ میلاد شریف، عرس شریف، حلقات ذکر کا انعقاد بزرگوں کے طور طریقے کی پیروی اور وظائف کرنے پر بدعت کا فتوٰی لگانے والوں نے بدعت کا مفہوم نہیں سمجھا کیونکہ امام مسلم کے قول سے معلوم ہورہاہے کہ بدعت تو کوئی ایسی شے تھی جو امام مسلم سے بھی پہلے تھی اور بہت پرانی ہے (٢٣ بلفظہ)۔۔۔

    ہمیں قادری صاحب کی اس تحریر سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ موصوف سنت سے تو ناواقف ہی ہیں البتہ بدعت کے متجدد ہیں یہ تو اعتراف کیا ہے کہ مذکورہ بالا بدعات کا وجود امام مسلم کے دور تک نہیں تھا یہ میلاد، عرس، مریدی کی بدعات امام مسلم کے بعد پیدا ہوئی ہیں البتہ انہوں نے بدعت کے بارے میں یہ تجدد فرمایا کہ جو بدعت امام مسلم کے دور کے بعد پیدا ہوئی ہے اسے بدعت نہیں کہنا چاہئے کیونکہ بدعت کے لئے پرانی ہونا شرط ہے اور موصوف کی بدعات تو قریبی ادوار کی نئی ہیں کیا کوئی صاحب بصیرت اہل علم بدعت کے اس مفہوم کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے جو مفہوم قادری صاحب نے اختراع کیا ہے۔۔۔

    یہ تھی موصوف کی سند حدیث کے بارے میں نئی کاوش جس سے تمام سلف صالحین ناواقف تھے قادری صاحب سند کے مفہوم کو نیا رُخ دے کر غالبا لوگوں کو شخصیت پرستی پر لگانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اس قسم کے اشارے موجود ہیں کہ اپنے دور کی موصوف خود کو عالم اسلام کی سب سے بڑی شخصیت سمجھتے ہیں غالبا یہی وجہ کہ منہاجیوں نے ان کی بڑی بڑی تصویریں اپنے دفتروں اور گھروں میں سجائی ہوتی ہیں آگے دیکھیئے کیا ہوتا ہے؟؟؟ِ۔۔۔

    قادری صاحب اور علم حدیث!۔
    ہم نے اپنی اس تحریر کے شروع میں کہا ہے کہ قادری صاحب علم حدیث سے ناواقف ہیں تو ہمارا یہ دعویٰ قطعا بےدلیل باجذباتی نہیں بلکہ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں جن سے ہمارے دعوٰی کی تصدیق ہوتی ہے جس کی اجمالا تفصیل یہ ہے۔۔۔

    ١۔ موصوف موضوع روایت اور صحیح حدیث کے مابین امتیاز نہیں کر سکتے جیسا کہ المنہاج النبوی جو ان کے ہاں بڑی محقق بلکہ قابل فخر کتاب ہے ان میں متعدد من گھڑت روایات موجود ہیں اسی طرح خود ان کے اس زیر نظر مضمون میں من گھڑت روایات موجود ہیں۔۔۔

    ٢۔ کُتب حدیث سے بھی کماحقہ تعارف نہیں ہے المعجم الصغیر کو امام شعبی کی کتاب قرار دیا ہے (منہاج القران صفحہ ١٥) حالانکہ امام طبرانی کی تالیف ہے۔۔۔

    ٣۔ مصطلحات سے بھی ناواقف ہیں جیسا کہ لکھتے ہیں انس بن مالک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے موقوف روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی بتایا اسی طرح عبداللہ بن عمر والعاص (موقوف نے اسی طرح لکھا ہے شاید شیعہ کو خوش کرنا مقصد ہے) نے حضور سے موقوفا روایت کیا حالانکہ جب یہ حدیث کی نسبت رسول اللہ خود ہوں تو وہ موقوف نہیں بلکہ مرفوع ہوتی ہے (صفحہ ١٧)۔۔۔

    ٤۔ علم نحو سے بھی ناواقف ہیں مضاف کو بھی معرف باللام تحریر کیا ہے الصحیح بخاری (منہاج صفحہ ١٢، ١٣، ١٥، ١٥، ١٨) الصحیح المسلم (١٤، ٣٥)۔۔۔

    ٥۔ امام مسلم کے اسم گرامی کو اکثر جگہ معرف باللام لکھا ہے حالانکہ یہ بغیر لام تعیرف کے لکھا جاتا ہے (صفحہ ١٤، ٣٥)۔۔۔

    ٦۔ حوالہ نقل کرنے میں غیر موثق ہیں جیسا کہ لکھتے ہیں امام مسلم فرماتے ہیں جب کوئی شخص بات کرتا تفسیر کرتا شرح کرتا روایت کرتا تو ہم اس سے پوچھتے سموالنار جالکم الخ (صفحہ ٢٣)۔ یہ قول امام مسلم کا نہیں انہوں نے اسے اپنی سند سے روایت کیا ہے اصل قول تو امام ابن سیرین کا ہے جیسا کہ گزر چکا ہے۔۔۔

    ٧۔ معروف اصطلاحات سے بھی ناواقف ہیں فرماتے ہیں حدیث کے ثقہ ہونے کے لئے یہ پیمانہ نہیں کہ وہ کتاب میں ہے اور کسی میں نہیں بلکہ حدیث کے معتبر اور ثقہ ہونے کا دارومدار سند پر ہے (٣٤)۔۔۔

    بیچارے کو اتنا بھی علم نہیں کہ حدیث ثقہ ہے یہ کوئی اصطلاح نہیں حدیث صحیح ہوتی ہے ثقہ راوی ہوتا ہے اور اس قسم کے بہت سے عجوبات ہیں جو بغیر کسی خارجی شہادت کے موصوف کی اندرونی کہانی اور ان کے علم حدیث سے ناواقف ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔۔۔

    وما علینا الالبلاغ۔۔۔

    ‌وسلام۔۔۔
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں