امّ المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا

mahajawad1 نے 'سیرتِ سلف الصالحین' میں ‏فروری 19, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. mahajawad1

    mahajawad1 محسن

    شمولیت:
    ‏اگست 5, 2008
    پیغامات:
    473
    امّ المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا

    حفصہ نام، قریش کے خاندان عدی سے تھیں۔ نسب نامہ یہ ہے۔
    حفصہ بنت عمر فاروق بن خطّاب بن نفیل بن عبدالعزّیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرطہ بن زراح بن عدی بن کعب بن لُوَئ۔
    والدہ حضرت زینب بن مظعون رضی اللہ عنہا تھیں، جو بڑی جلیل القدر صحابیہ تھیں۔ عظیم المرتبت صحابی حضرت عثمان بن مظعون کی حضرت حفصہ کے ماموں اور فقیہ اسلام حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ انکے حقیقی بھائی تھے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بعثت نبوی سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں۔
    پہلا نکاح حضرت خنیس بن حذیفہ رضی اللہ عنہ بن قیس بن عدی سے ہوا جو بنو سہم سے تھے، وہ دعوت حق کی ابتدا میں شرف اسلام سے بہرور ہوگئے اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بھی انکے ساتھ ہی سعادت اندوز اسلام ہو گئیں۔ حضرت خنیس رضی اللہ عنہ سنہ ۶ بعد بعثت میں ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے۔ ہجرت نبوی سے کچھ عرصہ پہلے مکہ واپس آئے اور پھر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے۔ وہ راہ حق کے جانباز سپاہی تھے، سنہ ۲ ہجری میں غزوہ بدرپیش آیا تووہ اس میں بڑے جوش وجذبے کے ساتھ شریک ہوئے، پھر سنہ ۳ ہجری میں غزوہ اُحد میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے اور مردانہ وار لڑتے ہوئے شدید زخمی ہوگئے۔ اسی حالت میں انہیں مدینہ لے جایا گیا لیکن جانبر نہ ہوسکے اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں۔ جب ان کی عدت کا زمانہ پورا ہو گیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ان کے نکاح ثانی کی فکر ہوئی۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تخلیہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حضرت حفصہ کا ذکر کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا علم نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکر کو حفصہ سے نکاح کر لینے کیلئے کہا وہ خاموش رہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ناگوار گزرا۔ پھر وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اسی زمانے میں حضرت رقیّہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنی لخت جگر سے نکاح نکاح کر لینے کیلئے کہا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں ابھی نکاح نہیں کرنا چاہتا۔ اب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام حالات بیان کئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ حفصہ کا نکاح ایسے شخص سے کیوں نہ ہوجائے جو ابوبکر اور عثمان دونوں سے بہتر ہے۔‘‘
    ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ حفصہ کی شادی اس شخص سے ہوگی جو عثمان سے بہتر ہے اور عثمان کا نکاح اس سے ہوگا جو حفصہ سے بہتر ہے۔‘‘
    اسکے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلیا اور اپنی دوسری بیٹی حضرت امّ کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کردیا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امّ المؤمنین حضرت زینب بنت جحش کے ہاں معمول سے زیادہ دیر ہوگئی کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں شہد کھانے میں مصروف رہے جو کسی نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ہدیہ میں بھیجا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بہ تقاضائے فطرت رشک ہوا، ان میں اور حضرت حفصہ میں بہناپا تھا، چنانچہ وہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں،صورت واقعہ بیان کی اور کہا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس تشریف لائیں تو ان سے کہنا۔’’ یا رسول اللہ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟‘‘
    یہ ایک لطیف اشارہ ہے۔ مغافیر ایک قسم کا پھول ہے جب شہد کی مکھی اسے چوستی ہے اس سے جو شہد بنتا ہے اس میں ذرا ناگوار سی بو ہوتی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی بو ناپسند تھی۔ مقصد یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں سے جو شہد کھایا اسکی وجہ سے مغافیر کی بو دہن مبارک سے آتی ہے۔ حضرت حفصہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ویسا ہی کہا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سخت ناپسند فرمایا کہ مغافیر کی بو آپ کے دہن مبارک سے آئے۔ فرمایا:’’ آئندہ میں کبھی شہد نہ کھاؤں گا۔ اس بات پر آیت تحریم نازل ہوئی:

    يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

    ترجمہ: اے نبی جس چیز کو اللہ نے آپ کیلئے حلال کردیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ کیا آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ سورۃ التحریم:۱)

    بعض ارباب سیئر آیت ’’ وَاِذَا اَسَرَّالنِّبِیُّ اِلیٰ بَعْضِ اَزْوَاجِہ حَدِیْثاً ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے کوئی راز کی بات کہی اور وہ انہوں نے فاش کردی، قاضی سلمان پوری نے ’’ رحمتہ للعالمین‘‘ میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ جب ربّ العزّت کو اپنے حبیب کے گھرانے کی عزت و حرمت کا اتنا پاس ہے کہ کسی کا نام نہیں لیا تو ہم کو بھی اس بارے میں جرأت نہیں کرنی چاہئے۔
    صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں کسی قدر تیزی تھی اور وہ کبھی کبھار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بےباکی سے جواب دے دیا کرتی تھیں، ایک دن حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے حضرت حفصہ سے پوچھا: ’’ میں نے سنا ہے کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برابر کا جواب دیتی ہو کیا ہے ٹھیک ہے؟‘‘
    حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ’’ بیشک میں ایسا کرتی ہوں۔‘‘
    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا:’’ بیٹی خبردار! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں، تم اس خاتون حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ریس نہ کرو جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے اپنے حسن پر ناز ہے۔‘‘
    حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر قسم کے مسائل پوچھنے میں بھی بےباک تھیں۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اصحاب بدر و حدیبیہ جہنّم میں داخل نہ ہونگے۔‘‘
    حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’ یا رسول اللہ! اللہ تو قرآن میں فرماتا ہے وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلاَّ وَارِدُھاَ تم میں سے ہر ایک وارد جہنّم ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں مگر یہ بھی تو ہے:

    ثُمَّ نُنَجِّیْ الََّّذِیْنَ اتَّقُوْا وَّتَذَّرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْھَا جِثِیاًّ ’’ پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دینگے اور ظالموں کو اس میں گرا ہوا چھوڑ دینگے۔‘‘

    مزاج کی فطری تیزی کے باوجود حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نہایت خدا ترس تھیں اور اپنا بیشتر وقت عبادت الٰہی میں گزارتی تھیں۔ حافظ ابن البر رحمہ اللہ نے ’’الاستیعاب‘‘ میں یہ حدیث ان کی شان میں بیان کی ہے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہے:
    وہ بہت عبادت کرنے والی، بہت روزے رکھنے والی ہیں، (اے محمّد) وہ جنّت میں بھی آپ کی زوجہ ہیں۔
    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی تعلیم کا خاص بندوبست فرمایا۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق حضرت شفاء بنت عبداللہ عدویہ نے ان کو لکھنا سکھایا۔ امام احمد نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت شفاء نے ان کو چیونٹی کے کاٹنے کا منتر بھی سکھایا۔ بعض اہل سیئر نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن حکیم کے تمام کتابت شدہ اجزاء کو یکجا کرکے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس رکھوا دیا۔ یہ اجزاء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تا زندگی ان کے پاس رہے۔ یہ ایک عظیم الشّان شرف تھا جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو حاصل ہوا۔
    حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا دجّال کی شر سے بہت ڈرتی تھیں۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ مدینہ میں ایک شخص ابن صیاد تھا۔اس میں دجّال کی بعض علامات پائی جاتی تھیں۔ ایک دن حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو راستے میں مل گیا، انہوں نے اسکی بعض حرکتوں پر اظہار نفرت کیا۔ عبداللہ ابن صیاد حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا، انہوں نے اسے پیٹنا شروع کردیا۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو خبر ہوئی تو بھائی سے کہنے لگیں۔
    ’’ تم اس سے کیوں الجھتے ہو،تمہیں معلوم نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دجّال کے خروج کا محرّک اس کا غصہ ہوگا۔‘‘
    حضرت حفصہ نے سنہ ۴۵ ہجری میں مدینہ میں وفات پائی۔ مدینہ کے گورنر مروان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک جنازہ کو کندھا دیا۔ اسکے بعد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جنازہ کو قبر تک لے گئے پھر امّ المؤمنین کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور بھتیجوں نے قبر میں اتارا۔ وفات سے پہلے حضرت عبداللہ رضی اللہ کو وصیّت کی کہ ان کی غابہ کی جائداد کو صدقہ کرکے وقف کردیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
    حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا علم و فضل کے لحاظ سے بھی بڑے مرتبے پر فائز تھیں۔ ان سے ساٹھ احادیث مروی ہیں۔ ان میں چار متفق علیہ ہیں۔ چھہ صحیح مسلم میں اور باقی دیگر کتب احادیث میں ہیں۔
    رضی اللہ عنہا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں