ابراہیم -ipc کویت کے خاموش داعی

جاسم منیر نے 'نو مسلم اور تائب شخصيات' میں ‏مارچ 9, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    قربانی خواہ صوری ہو یا معنوی ‘ ہے آخر قربانی ہی ، اسلام کی خاطرقیامت تک کفروشرک سے اٹے ماحول میں پرورش پانے والے نومسلم مردوخواتین قربانی وفدائیت کانمونہ پیش کرتے رہیں گے۔ ایسی ہی ایک قربانی پیش کی ہے ipc کے شعبہ دعوت سے منسلک ہمارے ابراہیم بھائی نے ، تولیجیے ان کی قربانی کاقصہ ہم انہیں کی زبانی قلمبندکر رہے ہیں ۔ (گفتگوپرمبنی…. صفات عالم )

    میرا تعلق نیپال کے ترائی علاقے کے ضلع بارا سے ہے ، پیدائشی نام کدار ناتھ کھریل ہے، برہمن طبقہ کے کھریل خاندان میں پیدا ہوا ، خاندانی روایات کے مطابق مذہبی طورطریقے پر میری پرورش ہوئی،سترہ سا ل کی عمرمیں آٹھویں جماعت کاطالب علم تھاکہ نیپالی فوج میں ملازمت مل گئی،چنانچہ میں نے نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی ،اسی بیچ میٹرک کےا، آئی اے کیا اور سترہ سال تک محکمہ افواج میں ملازمت کرتا رہا ۔ وہاں سے ریٹائرڈ ہونے کے بعدایک سال تک ذاتی کاروبار کیا، پھر مجھے 2004 کے اوائل میں ملازمت کے لیے کویت آنے کا موقع ملا جہاں مجھے قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی۔

    میرے قبول اسلام کا قصہ بڑاعجیب ہے، میرا ایک بنگلادیشی ساتھی تھا جو تلاوتِ قرآن کی بیحدپابندی کرتا تھا اور گاہے بگاہے مجھے بھی بٹھا کرقرآن سنایا کرتا تھا ، میں نے ایک دن اس سے پوچھا : ” تم لوگ کس کی پوجا کرتے ہو ؟ “اس نے مجھے مختصرلفظوںمیں بتایا کہ ” ہم مسلمان ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں کسی مورتی کی پوجا نہیں کرتے“ ۔یہ محض اس کا جواب نہیں تھا بلکہ میری زندگی کے لیے پہلا ٹرننگ پوائنٹ تھا ۔

    ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی نیک صفت بزرگ مجھے کہہ رہے ہیں:” تم اسلام میں آجاؤ“ ، میں نے جواب دیا : ”میں ہندو ہوں اور میرے گھر والے اس سے راضی نہیں ہوسکتے“ ، اس نے کہا : ”تم پہلے اپنی فکرکرو اور سچائی قبول کرلو“۔ اسی کے بعد میرے اندر ایک طرح کا تجسس پیدا ہوگیا ،مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا گویامیری کوئی شے کھوچکی ہے ،میں بار بار مسلم دوستو ں سے اسلام کے بارے میں پوچھتا رہتا ،جب مجھے اسلام کے تئیں بالکل اطمینان ہونے لگا تو ایک دن میں نے ایک کویتی سے کہا کہ ”میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں“ ، اس نے بلاتاخیر مجھےipc پہنچا دیا ، یہاں میری ملاقات مولانا صفات عالم محمدزبیرتیمی صاحب سے ہوئی ،ان سے میں نے اپنا پورا قصہ سنادیا ، اولاً تو انہوںنے مجھ سے عرض کیا کہ محض خواب کی بنیاد پر اسلام قبول کرناکوئی معنی نہیں رکھتا ،بلکہ پہلی فرصت میں آپ کو اسلام کی کھوج کرنی چاہیے کیونکہ اسلام ہی آپ کا دھرم ہے جسے آپ کے خالق ومالک نے آپ کے لیے اورساری انسانیت کی رہبری کے لیے آخری شکل میں اتارا ہے، اسلام قبول کرنا دھرم بدلنا نہیں بلکہ اپنے پیدائشی دھرم کو پانا ہے ۔

    پھر انہوں نے سنہرے انداز میں میرے سامنے اسلام کا تعارف کرایا ، ان کی ایک ایک بات میرے دل میں اترتی گئی بالآخرمیں نے ایک گھنٹہ کی گفتگو کے بعد اسی وقت اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔

    اس کے بعد میں ہمیشہ مولانا صفات عالم صاحب سے استفادہ کرتا رہا ،ہفتہ واری دروس میں حاضر ہوتا اور دیگراوقات میں بھی‘جب کبھی کسی طرح کااشکال پیدا ہوتا فوراً مولانا سے رابطہ کرکے تشفی بخش جواب حاصل کرلیتا ۔جب مولانا کرم اللہ تیمی صاحب ipc میں بحیثیت نیپالی داعی تشریف لائے توایک عرصہ تک ان سے بھی استفادہ کرنے کا موقع ملا، میں آئے دن اپنی معلومات میں اضافہ کرتا رہا ، میری دعوتی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ipc کے ذمہ داران نے مجھےipc میں کام کرنے کا زریں موقع فراہم کیا ،چنانچہ میں نے کمپنی چھوڑدی اور تقریباً تین سال سے ipc میں بحیثیت داعی کام کررہاہوں ۔ فللہ الحمد والمنة

    اس اثناء میں نے اپنی اہلیہ کومتعدد بار اسلام کی دعوت دی، بالخصوص جب دوسال قبل دوماہ کے لیے گھر گیاتوپہلی فرصت میں ‘میں نے ان کواسلام بتایا اور انہوں نے اسلام قبول بھی کرلیا لیکن جب دومہینہ گزرنے کے بعدکویت آیا تو میرے سسر نے اس پر دباؤ ڈالا اور قسم کھالی کہ جب تک وہ اسلام سے نہ پھرے گی تب تک میں اس کا چہرہ بھی نہیں دیکھ سکتا ،حتی کہ وہ میرا مردہ منہ بھی نہیں دیکھ سکتی ۔ اب کیاتھا،وہ اپنے شیطان باپ کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے مرتد ہوگئی، اس بیچ میں نے بارہا کوشش کی کہ وہ اسلام کو اپنالے لیکن اب وہ ماننے کو تیارنہ تھی حالانکہ میں اس سے بےحد محبت کرتا تھا۔میرے پاس ایک سترہ سال کی لڑکی ہے جو نرسنگ کی تعلیم حاصل کررہی ہے، ایک بیٹا آٹھویں جماعت میں زیرتعلیم ہے جبکہ دوسرا بیٹا ابتدائیہ میں پڑھتا ہے ، میری ہمیشہ یہی خواہش رہی کہ میرے گھر والے اسلام کو گلے لگالیں لیکن ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے کوشش کے باوجود ناکام رہا ۔

    ایک ماہ قبل میں سفرپرگیا اس امید کے ساتھ کہ میرے اہل خانہ اسلام قبول کرلیں گے کیونکہ ان کی باتوں سے مجھے توقع بندھنے لگی تھی ،حالانکہ انہوں نے منظم پلاننگ کے ساتھ مجھے بلایا تھا تاکہ دوبارہ کویت نہ لوٹ سکوں۔ جس روز گھر پہنچا، بیوی اور بچوں کوبٹھا کر دو گھنٹہ تک سمجھایا لیکن بیوی اپنی بات پر مصر رہی کہ وہ اسلام میں نہیں آے گی بالآخر میںنے اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ رات گذاری، صبح میں بھی میں نے اہلیہ کو سمجھایا اور تاکید کی کہ اسلام نے ہم دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی ہے، ازدواجی زندگی گذارنااسی وقت ممکن ہے جب تم اسلام میں آجاؤ ، میںدومہینہ کی فرصت لے کرگیاتھالیکن معاملہ اس قدر پیچیدہ ہوا کہ تقریبا ً ہفتہ عشرہ کے بعد ہی مجھے گھر سے نکلنا پڑا ۔ پہلے ہی دن میری سترہ سالہ بچی نے اپنی ماں کے اشارے پر میرے موبائل سے کویت کے سارے نمبرات ڈیلیٹ کردی ، میری بیوی خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی ہے ،اس کے ایک بھائی امریکہ میں اور ایک بھائی بلجیم میںرہتے ہیں ، میرے سسرال والوں کی پلاننگ تھی کہ کسی طرح میں ان کے دھرم میں لوٹ آؤں اور دوبارہ کویت نہ آسکوں ، امریکہ میں مقیم میرے نسبتی برادر نے مجھے سبز باغ دکھانے کی کوشش کی کہ چند سالوں تک گھر پرآرام کروں اوروہ مجھے اس اثناءکویت کی میری سالانہ آمدنی سے کہیںزیادہ رقم مہیا کریںگے ،پھر اس کے بعد مجھے امریکہ بلا لیں گے ،لیکن میں نے ان کی بات کو خاطر میں لائے بغیر دوٹوک جواب دیا کہ ایسا قطعاً ممکن نہیں ہے ،میں نے اسلام کو گلے لگایا ہے تو تادم حیات اس پر قائم رہوں گا اور کوئی طاقت مجھے اسلام سے پھیر نہیں سکتی۔

    اسی بیچ دسہرہ کا تہوار آگیا اور میرے گھر والے مجھ پرزورڈالنے لگے کہ میں بھی ان کے تہوار میں شرکت کروں، میں نے صاف صاف کہہ دیاکہ میں کسی صورت میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتا، اِدھر بیوی رو رہی تھی تو اُدھر بچے رو رہے تھے،بلکہ سب نے کھانا تک نہیں کھایا لیکن میں اپنی بات پر اٹل رہابالآخر تھک ہار کر سب نے دوسرے دن کھانا کھا یا ۔

    ہفتہ عشرہ تک میں نے دسیوں بار اہل خانہ کو اسلام کی دعوت دی ، اپنی محبت کا واسطہ دیا اور علیحدگی کی صورت میںمعاشرتی بگاڑ اور بچوں کے مستقبل کی بربادی سے ڈرایا لیکن میری بیوی اپنے بھائیوں اور باپ کے بہکاوے میں آکر دین میں میرا ساتھ نہ دے سکی، جب مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ میرے خلاف یہ لوگ سازشیں کررہے ہیںکیونکہ دو سال قبل مجھے اس کا تجربہ ہوچکا تھاکہ چندشرارت پسندوں نے میری بیوی کی بیوقوفی سے مجھے جسمانی اذیت پہنچانی چاہی تھی‘ لیکن اسی وقت میرا ایک دیرینہ دوست پہنچ گیاجس سے میں بال بال بچ گیا، اس بار بھی اس طرح کے آثار دکھائی دینے لگے تو میں ایک دن خفیہ طور پر استعمال کے کپڑے لیے ،گھر سے نکل پڑا اور چند کلو میٹر دور میرے ایک دوست کا گھر ہے جہاں ایک ہفتہ چھپا رہا ، اس بیچ ٹکٹ کا انتظام کیا اور دو بارہ کویت آگیا ۔

    واقعہ یہ ہے کہ میرے سسرال والوں نے ہی سارامعاملہ خراب کیا ہے جن کی میرے اہل خانہ کوپوری پشت پناہی حاصل ہے۔ مجھے اس بات کا کوئی افسوس نہیں کہ میں اپنے اہل خانہ اور اولاد سے بچھڑ گیا ہوں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ وہ اسلام سے محروم رہ گئے ہیں ۔اخیرمیںقارئین سے میری درخواست ہے کہ وہ اللہ تعالی سے میرے اہل خانہ کی ہدایت کے لیے دعا کریں ۔


     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. انجینئر عبدالواجد

    انجینئر عبدالواجد -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اگست 3, 2010
    پیغامات:
    220
    میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ سے آپ کے بچھڑے ہوؤں کو ملا دے
    اور آپ کے لیے زندگی میں مشکل راہیں آسان بنا دے
    آمین
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  3. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
    اللہ تعالى ہمارے بھائى ابراہیم کو ثابت قدم رکھے اور ان کے خاندان کو اسلام کى عظیم سے مالا مال کرے- آمین
    جزاک اللہ خیرا جاسم بھائى
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    آمین۔

    وایاک
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  5. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاكم اللہ خيرا ، كتنى مشقتيں اٹھا كر اسلام كى دولت پائى ۔ اللہ تعالى انہیں ان مصائب پر بہترين اجر اور اسلام پر ثابت قدمى عطا فرمائے۔
     
  6. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    آمین ثم آمین
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں