امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ ، معتبر راوي يا غير معتبر ؟ -- تضادات غامدى

عائشہ نے 'حدیث - شریعت کا دوسرا اہم ستون' میں ‏اپریل 18, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    بسم اللہ الرحمن الرحيم

    كيا امام ابن شہاب زہرى رحمہ اللہ معتبر راوى ہیں يا غير معتبر؟
    تحرير: مولانا پروفیسر محمد رفيق حفظہ اللہ

    غامدى صاحب كے تضادات ميں سے ايك تضاد يہ بھی ہے کہ وہ امام مالك رحمہ اللہ كے استاد مشہور محدث اور فقیہ امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ كو غير ثقہ اور ناقابل اعتبار راوى بھی قرار ديتے ہیں مگر پھر انہی كى روايت كردہ احاديث سے استدلال بھی كرتے ہیں!
    چنانچہ غامدى صاحب نے صحاح كى مشہور حديث "سبعہ احرف" پر بحث كرتے ہوئے اس كے ايك راوى امام زہرى رح كے بارے ميں لکھا ہے کہ : " ان (امام زہرى )كى كوئى روايت بھی اس طرح كے اہم معاملات ميں قابل قبول نہیں ہو سكتى۔" (ميزان، ص 31 طبع سوم، مئى 2008)
    اس مقام پر غامدى نے امام زہرى رح كو غير ثقہ اور ناقابل اعتبار راوى قرار ديا ہے اور ان كى كوئى روايت قبول كرنے سے انكار كيا ہے حالاں کہ امام ابن شہاب زہرى كو محدثين ، فقہاء اور ائمہ جرح وتعديل نے ثقہ بلکہ اوثق اور قابل اعتبار راوى قرار ديا ہے۔
    چنانچہ امام ابن حجر عسقلاني نے تقريب (جلد 2، صفحہ 207) ميں، امام ذہبی نے ميزان الاعتدال (جلد 4، صفحہ 40) ميں اور امام ابن حبان نے كتاب الثقات (جلد 3، صفحہ 4) ميں ان كو ثقہ اور قابل اعتبار راوى تسليم كيا ہے۔
    دلچسپ بات يہ ہے كہ غامدى صاحب امام زہرى رحمہ اللہ كو غير ثقہ اور غير معتبر بھی قرار ديتے ہیں اور ان كى مرويات بھی ليتے ہیں۔ اپنی جس كتاب "ميزان " ميں ان امام زہرى رح كو غير ثقہ اور غير معتبر قرار ديا ہے اسى كتاب كے تقريبا ہر باب ميں ان كى درجنوں روايت كردہ احاديث كو صحيح مان كر ان سے اپنے حق ميں استدلال بھی كيا ہے۔
    مثال كے طور پر اپنى كتاب ميزان (طبع سوم مئى 2008ء) كے درج ذيل مقامات پر خود غامدى صاحب نے امام زہرى رحمہ اللہ ہی كى روايت كردہ احاديث سے استدلال كيا ہے۔
    1- صفحہ 525 پر كافر اور مسلم كى وراثت سے متعلق صحيح بخارى كى حديث نمبر 6764
    2- ص 589 پر قانون جہاد سے متعلق اجرو ثواب كے بارے ميں صحيح بخارى كى حديث 2787
    3- ص 622 پر حدود وتعزيرات ميں قتل خطا سے تعلق صحيح بخارى كى حديث 1499
    4- ص 651 پر قسم اور كفارہ سے متعلق ابو داود كى حديث نمبر 3290
    اس طرح غامدى صاحب كے ہاں يہ کھلا تضاد پايا جاتا ہے کہ وہ امام زہرى رحمہ اللہ كو ايك جگہ غير ثقہ اور غير معتبر قرار ديتے ہیں اور دوسرى جگہوں پر ان كو ثقہ اور معتبر قرار دے کر ان كى روايت كردہ احاديث سے استدلال كرتے ہیں تو كيا يہ اصول پرستى ہے یا خواہش پرستى ؟

    اقتباس از : جاوید غامدی اور انکار حدیث، مصنف: پروفیسر مولانا محمد رفیق چودھری

     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  2. محمد زاہد بن فیض

    محمد زاہد بن فیض نوآموز.

    شمولیت:
    ‏جنوری 2, 2010
    پیغامات:
    3,702
    بہت مفید معلومات شئر کی ہے سسٹر جزاک اللہ
     
  3. عاکف سعید

    عاکف سعید محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 16, 2010
    پیغامات:
    181
    آپ کی تحریر پڑھ کر میرے علم میں اضافہ ہوا ہے۔ اللہ تعالٰی آپ کو بہترین جزائے خیر دے۔ آمین
     
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    واياكم ، يہ ميرى نہیں مولانا پروفیسر محمد رفيق حفظہ اللہ کی تحرير ہے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں