جزءتفسیر سورت ق از مولانا ارشاد الحق اثری

ابوعکاشہ نے 'تفسیر قرآن کریم' میں ‏مئی 22, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    تفسیر سورة ق
    مفسر (مولانا ارشاد الحق اثری)

    [AR]{ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ} [ق:34] [/AR]
    ’’اس جنت میں داخل ہوجائو سلامتی کے ساتھ یہ ہمیشگی کا دن ہے۔‘‘
    ان اوصاف سے متصفین کو کہا جائے گا کہ اس جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجائو، یہاں تمہیں نہ کوئی خوف ہے نہ ہی کوئی خطرہ، نہ رنج وغم ہے نہ ہی فقر وفاقہ، نہ آفات نہ ہی بلیات، نہ ماضی کا پچھتاوا نہ ہی مستقل کا اندیشہ، پورے اطمینان وسکون سے اس میں داخل ہوجائو۔ یہاں یہ بھی کوئی خطرہ نہیں کہ یہ بادشاہی شاید کبھی چھن جائے، نہیں نہیں یہ بادشاہت ہمیشہ کی اور دائمی ہے۔
    ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    [AR]{ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ} [الحجر:46] [/AR]
    ’’اس میں سلامتی کے ساتھ بے خوف وخطر داخل ہوجائو۔ یہی گھر سلامتی کا گھر ہے۔‘‘
    انسان تو ناپائیدار زندگی کے فریب اور دھوکے میں پھنسا ہوا ہے جب کہ
    [AR] { وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلَامِ } [یونس:25] [/AR]
    ’’اللہ تمہیں دارالسلام یعنی جنت کی طرف دعوت دیتا ہے۔‘‘

    حضرت جابرؓ سے صحیح بخاری اور دیگر کتب احادیث میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا جبرائیل علیہ السلام میرے سر کے قریب تھے اور میکائیل علیہ السلام میرے پائوں کے قریب تھے، ان میں سے ایک نے کہا: کہ تمہارے اس صاحب کی عجیب شان ہے تم اسے بیان کرو، ایک نے کہا: وہ تو سوئے ہوئے ہیں دوسرے نے کہا: ان کی آنکھ سوئی ہے اور دل بیدار ہے، اس نے بیان کیا کہ اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے محل تعمیر کیا، اس میں ایک دستر خوان بچھایا اور دعوت دینے والے کو بھیجا، جس شخص نے اس کی دعوت کو قبول کرلیا وہ محل میں داخل ہوا اور اس نے دسترخوان سے کھانا تناول کرلیا، اور جس شخص نے دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول نہ کیا، نہ وہ محل میں داخل ہوا نہ ہی اس نے دستر خوان سے کھانا کھایا۔
    ایک نے کہا: اس مثال کی وضاحت کریں تاکہ یہ صاحب اسے سمجھ پائیں۔ ایک نے کہا: یہ تو نیند میں ہیں، دوسرے نے کہا: ان کی آنکھ سوئی ہے، مگر دل بیدار ہے۔ چناں چہ اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: محل کا مالک، اللہ ہے۔ محل دارالسلام جنت ہے، بلانے والے یہ محمد ﷺ ہیں۔ جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، محمد e لوگوں کے مابین فرق ہیں۔
    [AR][بخاری: 7281] [/AR]

    یعنی مسلمان وکافر، جتنی ودوزخی، حلال وحرام، جائز وناجائز اور معروف ومنکر کا فرق کرنے والے محمد ﷺہیں، آپ کی دعوت ہی اب جنت کی دعوت ہے، آپ کا بتلایا ہوا طریقہ ہی جنت کا راستہ ہے، آپ کے بعد تو اب کسی نبی کی اطاعت بھی انسان کے لیے جنت کی ضمانت نہیں۔
    حضرت جنید بغدادی فرماتے تھے:
    [AR]اَلطُّرُقُ کُلُّهَا مَسّدُوْدًةٌ إِلَّا مَنِ اکْتَفٰی بِاَثَرِ رَسُوْلِ اللّٰهِ۔ [/AR]
    تمام راستے بند ہوچکے مگر ایک راستہ، جس نے رسول اللہ ﷺکے راستہ پر اکتفا کیا۔ یہی راستہ سلامتی کا اور ’’دارالسلام‘‘ کا راستہ ہے اور اسی کے بارے میں کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائو۔ اس کے علاوہ سلامتی اور اطمینان کہیں نہیں:
    [AR]{ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ} [العنکبوت:64] [/AR]
    ’’زندگی تو ہے ہی آخرت کی، جنت کی زندگی۔‘‘

    دنیا کا کوئی گھر سلامتی کا نہیں، جو خود سلامت رہنے والا نہیں وہ کسی کو کیا سلامتی بخشے گا، دنیا کا تو پہلا لفظ ’’دال‘‘ ہی دکھ ودرد کا پیغام ہے۔ رسول اللہ ﷺ غزوۂ احزاب میں خندق کھودتے جاتے ہیں تو یہ رجزیہ شعر پڑھتے ہیں:
    [AR]
    اَللّٰهُمَّ لَا عَیْشَ إِلَّا عَیْشَ الْآخِرَةِ
    فَاغْفِرْ لِـلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَةِ​
    [/AR]
    ’’اے اللہ! عیش تو آخرت ہی کا عیش ہے، آپ انصار اور مہاجرین کو بخش دیں۔‘‘ ​

    عیش وعشرت کی زندگی تو صرف جنت کی زندگی ہے، جو ہمیشہ کی ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہے، اسی لیے جنت میں داخلے کے وقت ہی یہ مژدۂ جاں فزا سنا دیا جائے گا۔ [AR]{ ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ }[/AR] کہ یہ ہے ہمیشگی کا دن، اور ہمیشہ رہنے کی جگہ۔ نہ یہاں بیماری نہ کوئی کوفت، نہ نیند نہ ہی موت، بلکہ اب یہاں موت کو موت آجائے گی ہے۔ چناں چہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کہ جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو جنت وجہنم کے مابین مینڈھے کی شکل میں لا کر ذبح کردیا جائے گا اور اہل جنت سے کہا جائے گا کہ آج کے بعد کوئی موت نہیں، یہ سن کر اہل جنت کی خوشی دوبالا ہوجائے گی، اور جہنمیوں کا حزن وملال بڑھ جائے گا۔ [AR][بخاری: 6544، 6548][/AR] وغیرہ
    امام رازی وغیرہ نے فرمایا ہے کہ دنیا میں حکم تھا کہ گھروں میں جائو تو السلام علیکم کہہ کر گھروں میں داخل ہو، جنت مومن کا گھر اور آخری منزل ہے، یہاں بھی اپنے اسی حسن عمل کا مظاہر کرتے ہوئے، السلام علیکم کہتے ہوئے داخل ہوجائو، تمہارا استقبال بھی اسی سے ہوگا اور ہر سو ’’سلاماً سلاماً‘‘ کی صدا ہوگی، وہاں کوئی غلط ولغو کلمہ کا تصور ہی نہیں۔ علامہ موصوف فرماتے ہیں کہ اگر یہ تاویل منقول ہے تو فبہا، تاہم یہ معقول ومناسب تاویل ہے اور دلیل سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
    [AR]{ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ } [ق: 35] [/AR]
    ’’ان کے لیے ہوگا جو وہ چاہیں گے، اور ہمارے پاس مزید بھی ہے۔‘‘
    جنت کی یہ دائمی زندگی ایسی ہوگی جس میں جنتیوں کو وہ سب کچھ ملے گا جو وہ چاہیں گے،
    جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا:
    [AR]وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ} [/AR]
    ’’اور تمہارے لیے اس جنت میں ہر وہ چیز ہے جو تمہارا دل چاہے گا، اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے۔‘‘
    [حٰمٓ السجدۃ: 31]

    دنیا میں بندہ کو جو کچھ ملتا ہے وہ اللہ کی مشیت پر ملتا ہے اور ہر طلب پر مطلوب حاصل نہیں ہوتا ہے، رزق، صحت، شفا، مال ودولت، اولاد، فتح ونصرت، ملک وحکمرانی، عزت وتکریم غرض یہ کہ دنیا میں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔ وہ چاہے دے، چاہے نہ دے، بندے کے چاہنے پر کچھ موقوف نہیں۔
    [AR]وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (-29 التکویر) } [/AR]
    ’’تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ ربّ العالمین نہ چاہے۔‘‘

    لیکن جنت میں جنتی کے چاہنے اور اس چیز کے واقع ہوجانے میں اللہ تعالیٰ کی مشیت حائل نہیں ہوگی، جو چاہیں گے ملے گا جو مطالبہ ہوگا پورا کیا جائے گا۔
    دنیا میں بندۂ مومن نے اپنی چاہتوں پر عمل نہیں کیا بلکہ ہر معاملے میں اللہ کی چاہت اور حکم کو مقدم جانا، اسی کا نتیجہ ہے اب جنت میں اس کی چاہتوں میں کچھ حائل نہ ہوگا۔ برعکس جہنمی کے کہ اس نے اپنی چاہتوں پر عمل کیا اور اپنے نفس کا بندہ بنا رہا، اس کی اس آوارگی کا قیامت کو یہ نتیجہ نکلا کہ اس کی ہر خواہش اس کی آہ وبکا، اس کی چیخ وپکار بے کار، بلکہ اس کا بول بھی ناگوار گزرے گا۔
    [AR] قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ [المومنون: (108) [/AR]
    ’’دور ہوجائو میرے سامنے سے اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔‘‘

    مگر یہ اہل جنت کی شان ہے کہ ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ جو چاہیں گے حاضر پائیں گے، اور یوں نہیں کہ جتنا وہ چاہیں گے بس اتنا ہی دیں گے، بلکہ ان کی طلب جتنی بھی ہو بحر کرم کا دامن تو اس سے کہیں وسیع تر ہے۔ اس لیے جو مانگیں گے وہ بھی ملے گا اس کے علاوہ { وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ } ہمارے پاس اور بھی بہت کچھ ہے جو ہم انہیں دیں گے، ’’مزید‘‘ کے بارے میں انہیں علم ہی نہیں اس لیے اس کی طلب کیسے؟
    [AR]{ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ} [/AR]
    ’’کوئی بھی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہم نے کیا کچھ چھپا رکھا ہے۔‘‘ [السجدة:17]

    حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
    [AR]أَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ۔ [/AR]
    ’’میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کررکھا ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کبھی کسی کان نے ان کے بارے میں سنا ہے، نہ ہی کبھی کسی انسان کے دل میں ان کا تصور آیا ہے۔‘‘
    [AR] [بخاری3244، مسلم: 7133] [/AR]
    یہی روایت دیگر صحابہ کرامؓ سے بھی مروی ہے۔ جب دنیا میں جنت کی بہاروں کا تصور کسی کے حاشیہ خیال میں نہیں آیا تو اس کے انعام واکرام کا اندازہ کیوں کر ہوسکتا ہے؟ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ’’مزید‘‘ سے مراد اہل جنت کے لیے جمعہ کے روز اللہ تعالیٰ کی زیارت ہے۔ قرآنِ مجید میں ایک اور مقام پر ہے:
    [AR]{ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ} [یونس:26] [/AR]
    ’’جنہوں نے اس دنیا میں بھلائی کی، ان کو بھلائی کے عوض جو ملے گا سو ملے گا میری طرف سے اس سے زیادہ بھی ملے گا۔‘‘
    اس ’’زیادۃ‘‘ سے مراد بھی دیدارِ الٰہی ہے۔ اور اہل سنت کا اتفاق ہے جنت میں اہل جنت دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوں گے،
    اس بارے میں متعدد احادیث، کتب احادیث وتفاسیر میں منقول ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے النہایۃ (ص: 298۔ 308، ج:2) علامہ المنذری نے الترغیب والترہیب (ص: 551، 557، ج:4) اور علامہ السیوطی نے الدر المنثور (ص: 290، 295، ج:6) میں انہیں ذکر کیا ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ جنت، محل دیدارِ محبوب ہے۔ جس محبوب کی محبت میں اس کے بندے آہیں بھرتے ہیں، راتیں قیام، رکوع اور سجود میں گزرتی ہیں۔ مال حتی کہ جان کی قربانی میں وہ اپنی کامیابی سمجھتے ہین، جنت میں سب کچھ مل جانے کے بعد اگر محبوب سے ملاقات نہیں تو جنت کیسی؟
    کسی نے کیا خوب کہا:
    [AR]مَا طَابَتِ الدُّنْیَا إِلَّا بِذِکْرِه، وَمَا طَابَةُ الْآخِرَةُ إِلَّا بِعَفْوِه وَمَا طَابَتِ الْجَنَّةُ إِلَّا بِرُؤْیَتِهٖ۔
    [جامع العلوم والحکم: 389] [/AR]
    ’’دنیا کی کوئی لذت اور خوشی نہیں اگر اللہ کا ذکر نہیں، آخرت میں کوئی خوشی اور لذت نہیں اگر عفو اور معافی نہیں، اور جنت کی کوئی عیش ولذت نہیں اگر اللہ کا دیدار نہیں۔‘‘

    ان آیات میں عجیب مطابقت ہے پہلے اہل جنت کی تکریم میں قربِ جنت کا ذکر ہے۔ پھر اہل جنت کے حسن عمل کی تعریف ہے کہ یہ ان اوصاف سے متصف تھے۔ تبھی جنت کے مستحق قرار پائے۔ پھر مزید کراماً جنت میں ہمیشہ رہنے کی بشارت کے ساتھ سلامتی سے داخل ہونے کا ذکر اور آخرت میں حسب منشا عنایتوں کے علاوہ مزید نوازشوں سے نوازنے کی بشارت، جن کا تصور اہل جنت کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہوگا۔ اللہ اکبر، وسبحان اللہ۔

    پروف ریڈنگ ۔ مُجاہد
    ھفت روزہ - الاعتصام ۔ لاہور
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاكم اللہ خيرا وبارك فيكم ، بہت عمدہ۔
     
  3. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    جزاک اللہ خیرا
     
  4. حراسنبل

    حراسنبل -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏فروری 24, 2011
    پیغامات:
    534
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں