شیعہ کا اعتراض '' حضرت عثمان ''کے قاتل صحابہ تھے ؟

Kashif.Nayyar نے 'آپ کے سوال / ہمارے جواب' میں ‏جون 17, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. Kashif.Nayyar

    Kashif.Nayyar -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 2, 2009
    پیغامات:
    106
    شیعہ کا اعثراض ہے حضرت عثمان کے قاتل بھی صحابہ کرام ہی تھے جیسا کہ اہل سنت کی معتبر کتب سے ثابت کتب میں نقل ہواہے :
    ۱۔فروہ بن عمرو انصاری جو بیعت عقبہ میں بھی موجود تھے .﴿۲﴾
    ۲۔محمد بن عمرو بن حزم انصاری .یہ وہ صحابی رسول ہیں جن کا نام بھی پیغمبر (ص) نے رکھا تھا .﴿۳﴾
    ۳۔ج...بلہ بن عمرو ساعدی انصاری بدری .یہ وہ صحابی رسول (ص) تھے جنہوں نے حضرت عثمان (رض) کے جنازہ کو بقیع میں دفن نہیں ہونے دیاتھا .﴿۴﴾
    ۴۔ عبدا للہ بن بُدیل بن ورقا ئ خزاعی .یہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لاچکے تھے امام بخاری کے بقول یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضرت عثمان (رض) کا گلا کاٹا تھا .﴿۵﴾
    ۵۔ محمد بن ابو بکر(رض) : یہ حجۃ الوداع کے سال میں پیدا ہوئے اور امام ذہبی کے بقول انہوں نے حضرت عثمان(رض) کے گھر کا محاصرہ کیا اور ان کی ڈاڑھی کو پکڑ کر کہا : اے یہودی ! خدا تمہیں ذلیل و رسوا کرے .﴿6﴾
    ۶۔
    ۱۔صحیح مسلم ۸: ۲۲۱، کتاب صفات المنافقین ؛ مسند احمد ۴: ۰۲۳؛البدایۃ والنھایۃ ۵: ۰۲
    ۲۔استیعاب ۳: ۵۲۳؛ اسدالغابہ ۴: ۷۵۳.قال ابن وضاح : انّما سکت مالک فی الموطأ عن اسمہ لأنہ ، کان ممّن أعان علی قتل عثمان .
    ۳۔ استیعاب۳: ۲۳۴.ولد قبل وفاۃ رسو ل اللہ بسنتین ...فکتب الیہ ۔أی الی والدہ ۔رسول اللہ سمّہ محمد ...وکان أشدّ النّاس علی عثمان المحمّدون : محمد بن أبی بکر ،محمد بن حذیفۃ ،ومحمد بن عمرو بن حزم .
    ۴۔انساب ۶:۰۶۱؛ تاریخ المدینۃ ۱: ۲۱۱.ھو أوّل من أجترأ علی عثمان ...لمّا أرادوا دفن عثمان ، فانتھوا الی البقیع ، فمنھم من دفنہ جبلۃ بن عمرو فانطلقوا الی حش کوکب فدفنوہ ، فیہ .
    ۵۔تاریخ الاسلام ﴿ الخلفائ﴾: ۷۶۵.أسلم مع أبیہ قبل الفتح وشھد الفتح ومابعدھا ...انّہ ممّن دخل علی عثمان فطعن عثمان فی ودجہ ...
    6-۔تاریخ الاسلام : ۱۰۶.ولدتہ اسمائ بنت عمیس فی حجۃ الوداع وکان أحد الرّؤوس الّذین ساروا الی حصا ر عثمان
     
  2. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    ۱۔ یہ قول بے سند ہے کہ فروۃ رضی اللہ عنہ اس سازش میں شریک تھے ملاحظہ فرمائیں الاستیعاب میں اسکا ذکر کچھ یوں ہے :
    فروة بن عمرو بن ودقة
    بن عبيد بن عامر بن بياضة البياضي الأنصاري. شهد العقبة وشهد بدراً وما بعدها من المشاهد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وآخى رسول الله صلى الله عليه وسلم بينه وبين عبد الله بن مخرمة العامري. حديثه عن النبي صلى الله عليه وسلم: " لا يجهر بعضكم على بعض بالقرآن " . قاله مالك، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي عن أبي حازم التمار عن البياضي، ولم يسمه في الموطأ. وكان ابن وضاح وابن مزين يقولان: إنما سكت مالك عن اسمه لأنه كان ممن أعان على قتل عثمان رضي الله عنه.

    اب ابن عبد البر سے ابن وضاح اور ابن مزین تک سند نہیں اور نہ ہی ان سے آگے فروہ تک کوئی سند ہے , یہ محض انکا گمان ہے جسکا انہوں نے اظہار کیا ہے اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہے !!!

    ۲۔ یہ قول بھی بے سند ہے الاستیعاب میں ابن عبد البر اسکا ذکر یوں فرماتے ہیں :
    يقال: إنه كان أشد الناس على عثمان المحمدون: محمد بن أبي بكر، محمد بن أبي حذيفة، ومحمد بن عمرو بن حزم.
    یعنی یہ بات کہنے والا کون ہے ؟ معلوم نہیں !! بس اڑتی اڑاتی اور سینہ بسینہ بات ہے جسکی کوئی سند نہیں

    ۳۔ طبری نے تاریخ الرسل والملوک میں یہ روایت یوں بیان کی ہے :
    حدثني محمد قال حدثني أبو بكر بن إسماعيل عن أبيه عن عامر بن سعد قال كان أول من اجترأ على عثمان بالمنطق السيء جبلة بن عمرو الساعدي مر به عثمان وهو جالس في ندي قومه وفي يد جبلة بن عمرو جامعة فلما مر عثمان سلم فرد القوم فقال جبلة لم تردون على رجل فعل كذا وكذا قال ثم أقبل على عثمان فقال والله لأطرحن هذه الجامعة في عنقك أو لتتركن بطانتك هذه قال عثمان أي بطانة فوالله إني لأتخير الناس فقال مروان تخيرته ومعاوية تخيرته وعبدالله بن عامر بن كريز تخيرته وعبدالله بن ...... الخ
    تاریخ طبری ج ۲ ص ۶۶۱
    اور اسکا مرکزی راوی محمد بن عمرو الواقدی مشہور ومعروف کذاب ہے !!!
    نیز یہ سند منقطع بھی ہے کیونکہ عامر بن سعد نے اس فتنہ کو نہیں پایا ہے ۔
    اور یہ بھی دجل وفریب کی معراج ہے کہ جبلہ جو کہ دفن کرنے کرنیوالوں میں شامل ہیں انہیں دفن کرنے سے منع کرنے والا قرار دے دیا گیا ہے , فإنا للہ وإنا إلیہ راجعون
    تاریخ مدینہ ج ۴ ص ۱۲۴۰ سے جو عبارت نقل کی گئی ہے حاشیہ میں وہ پوری ہم نقل کر دیتے ہیں , ملاحظہ فرمائیں :
    وقال علي، عن ابن وهب، عن شرحبيل بن سعد، عن بعض أهل المدينة قال، قال عبد الرحمن بن أزهر: لم أدخل في شئ من أمره فإني لفي بيتي إذ أتاني المنذر بن الزبير فقال: عبد الله يدعوك، فأتيته وهو قاعد إلى جنب غراره حنطة فقال: هل لك إلى دفن عثمان رضي الله عنه ؟ فقلت: ما دخلت في شئ من أمره، وما أريد ذلك.
    فاحتملوه ومعهم معبد بن معمر، فانتهوا به إلى البقيع فمنعهم من دفنه جبلة بن عمرو الساعدي، فانطلقوا إلى حش كوكب، ومعهم عائشة بنت عثمان معها مصباح في حق، فصلى عليه مسور بن مخرمة الزهري، ثم حفروا له، فلما دلوه صاحت بنته عائشة (1)، فلم يضعوا على لحده لبنا، وهالوا عليه التراب.

    یعنی بقیع میں لے کر جانے والوں میں جبلہ بھی ہیں
    اور منع کس نے کیا اس بات کا علم اس سے پچھلی روایت سے ہوتا ہے :
    حدثنا علي بن محمد، عن رجل، عن الزهري قال: جاءت أم حبيبة بنت أبي سفيان رضي الله عنها فوقفت بباب المسجد فقالت: لتخلن بيني وبين دفن هذا الرجل أو لاكشفن ستر رسول الله صلى الله عليه وسلم فخلوها، فلما أمسوا جاء جبير بن مطعم، وحكيم بن حزام، وعبد الله والمنذر ابنا الزبير، وأبو الجهم بن حذيفة، وعبد الله
    ابن حسل رضي الله عنهم فحملوه فانتهوا به إلى البقيع فمنعهم من دفنه ابن بجرة - ويقال ابن نحرة الساعدي - فانطلقوا به إلى حش كوكب فصلى عليه جبير بن مطعم رضي الله عنه، ثم دفنوه وانصرفوا.

    یعنی منع کرنیوالا اس کتاب اور دیگر کتب کی روایات کے مطابق ابن بجرہ یا ابن نجرہ الساعدی تھا , اسکا مکمل نام أسلم بن أوس بن بجرہ الساعدی ہے جو کہ اسی کتاب تاریخ مدینہ ج ۱ ص ۱۱۳ پر مذکور ہے ۔
    یہ تو صرف انکے دجل کو بے نقاب کرنے کی بات تھی , اب اس روایت کا حال بھی دیکھیں عن رجل عن الزہری یہ رجل مجہول ہے اور زہری اور اس واقعہ کے مابین طویل انقطاع ہے !!! یعنی یہ روایت بھی پایہء ثبوت کو نہیں پہنچتی !!!!
    ۴- تاريخ الإسلام للذهبي الجزء الثالث الصفحة 567 میں یہ بات یوں مذکور ہے :
    عبد الله بن بديل بن ورقاء بن عبد العزى الخزاعي، كنيته أبو عمرو. روى البخاري في تاريخه أنه ممن دخل على عثمان، فطعن عثمان في ودجه، وعلا التنوخي عثمان بالسيف، فأخذهم معاوية فقتلهم. أسلم مع أبيه قبل الفتح، وشهد الفتح وما بعدها، وكان شريفاً وجليلاً. قتل هو وأخوه عبد الرحمن يوم صفين مع علي، وكان على الرجالة. قال الشعبي: كان على عبد الله يومئذ درعان وسيفان، فأقبل يضرب أهل الشام حتى انتهى إلى معاوية، فتكاثروا عليه فقتلوه، فلما رآه معاوية صريعاً قال: والله لو استطاعت نساء خزاعة لقاتلتنا فضلاً عن رجالها.
    لہذا یہ کہنا کہ " امام بخاری کے مطابق " بالکل غلط اور بہتان ہے ! , کیونکہ امام صاحب کے حوالے سے ذہبی نے یہ بات نقل کی ہے کہ امام صاحب نے تاریخ میں یہ روایت نقل فرمائی ہے , اور کسی امام کا کسی روایت کو نقل کرنا اسکے موقف پر دلیل نہیں ہوا کرتا ۔
    اور یہ بھی یاد رہے کہ امام بخاری نے صرف الجامع الصحیح میں ہی صحیح احادیث کا اہتمام کیا ہے باقی کتب میں نہیں
    ۵۔ امام ذہبی نے یہ قول بھی بے سند ذکر کیاہے !
    اور لظف کی بات تو یہ ہے کہ جو دعوى اوپر کیا گیا ہے اس حوالے میں اسکا ذکر تک نہیں ہے !! صرف اتین بات ہے کہ یہ عثمان کے محاصرہ کی طرف گئے تھے , بس !
     
  3. Kashif.Nayyar

    Kashif.Nayyar -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 2, 2009
    پیغامات:
    106
    اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے - آمین ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں