اللہ تعالی ، قرآن مجید اور رسول اللہ کامذاق اڑانے والے کے بارےمیں حکم

فاروق نے 'غاية المريد فی شرح کتاب التوحید' میں ‏جولائی 10, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. فاروق

    فاروق --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏مئی 13, 2009
    پیغامات:
    5,127
    باب:47--اللہ تعالی ، قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺکامذاق اڑانے والے کے بارےمیں حکم(1)
    اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
    [qh](وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (سورة التوبة9: 65))[/qh]
    “اور اگر آپ ان سے پوچھیں (کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے؟) تو کہیں گے “ہم تو یوں ہی بات چیت اور دل لگی کر رہے تھے۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ تمہاری دل لگی کے لیے اللہ تعالی ،اس کی آیات اور اس کے رسول ہی (رہ گئے)ہیں؟”(2)

    حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ، محمد بن کعب، زید بن اسلم اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم سے مختلف الفاظ سے روایت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر ایک منافق نے کہا: ہم نے پیٹ کے پجاری، زبان کے جھوٹے اور میدان جنگ میں سب سے زیادہ بزدل، ان علم والوں سے بڑھ کر اور کوئی نہیں دیکھے۔ اس کی مراد رسول اللہ ﷺاور آپ کے قراءصحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: تو جھوٹا ہے اور (پکا)منافق ہے، میں تیری بات نبی ﷺکو ضرور بتاؤں گا چنانچہ عوف رضی اللہ عنہ بتانے کی غرض سے آپ کے پاس گئے مگر ان کے آنے سے پہلے وحی نازل ہو چکی تھی۔ وہ منافق بھی آپ کی خدمت میں(معذرت کے لیے) آپہنچا، آپ اونٹنی پر سوار ہو کر روانہ ہو چکے تھے۔ وہ بولا: یا رسول اللہ ! ہم لوگ تو محض دل بہلانے کے لیے ایسی بات چیت اور سواروں کی سی باتیں کر رہے تھے، تاکہ سفر کی مشقت ہلکی کر سکیں (اور بوریت نہ ہو) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں “وہ منظر اب بھی میرے سامنے ہے کہ وہ شخص آپ ﷺکی اونٹنی کے کجاوے کی رسی کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور پتھر اس کے پاؤں سے ٹکرا رہے ہیں اور وہ کہہ رہا ہے “ہم تو محض بات چیت اور دل لگی کر رہے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺفرمارہے ہیں: [qh](قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ (سورة التوبة9: 66))[/qh]
    “کیا اللہ تعالی ، اس کی آیات اور اس کے رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لیے رہ گئے ہیں۔ تم بہانے نہ بناؤ۔ یقینا تم نے ایمان لانے کے بعد(یہ بات کرکے)کفر کا ارتکاب کیا ہے۔”

    چنانچہ آپ ﷺاس کی طرف التفات فرما رہے تھے نہ اس پر کچھ مزید فرمارہے تھے۔”(3)

    مسائل
    1) اس باب سے ایک عظیم مسئلہ ثابت ہوا کہ جو شخص رسول اللہ ﷺیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مذاق اڑائے، وہ کافر ہے۔
    2) اس آیت کی تفسیر سے ثابت ہوا کہ ایسا کرنے والا خواہ کوئی بھی ہو، وہ کافر ہے۔
    3) اللہ تعالی اور اس کے رسول کے لیے اخلاص اور چغلی کے درمیان فرق بھی واضح ہوا۔
    4) اللہ تعالی کی پسندیدہ چیز عفو و درگزر اور اللہ تعالی کے دشمنوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے میں فرق بھی واضح ہوا۔
    5) اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض عذر ناقابل قبول ہوتے ہیں۔

    نوٹ:-
    (1) اللہ تعالی کے احکام کو دل و جان سے تسلیم کرنا ، ان کی اتباع، ان کو قبول کرنا اور ان کی تعظیم کرنا بھی توحید کا تقاضا ہے اور اللہ تعالی ، قرآن مجید یا رسول اللہ ﷺکا مذاق اڑانا ان کی مخالفت اور ان کی تعظیم کے منافی ہے۔ اس لیے یہ عمل بہت بڑا کفر ہے۔ اسی طرح دین اسلام کا مذاق اڑانا بھی کفر ہے۔
    (2) یہ آیت نص ہے کہ اللہ تعالی ، رسول اللہ ﷺاور قرآن مجید سے استہزاء کرنا کفر ہے اور ایسا کرنے والا آدمی کافر ہے اگرچہ وہ یہ عذر ہی پیش کیوں نہ کرے کہ وہ تو دل لگی اور ہنسی مذاق کے لیے یہ باتیں کرتا ہوں۔ یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس کے برعکس اہل توحید کبھی اللہ تعالی ، اس کے رسول یا قرآن مجید سے استہزاء نہیں کرتے۔
    (3) (تفسیر ابن جریر الطبری، رقم ،16912 ، 16916 ، 16911 ، 16914 ،1915، وابن ابی حاتم و ابو الشیخ و ابن مردویہ، کما فی الدر المنثور(230/4) و اسنادہ حسن
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں