اللہ تعالی کی نعمتوں کی ناشکری، تکبر کی علامت اور بہت بڑا جرم ہے

فاروق نے 'غاية المريد فی شرح کتاب التوحید' میں ‏جولائی 10, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. فاروق

    فاروق --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏مئی 13, 2009
    پیغامات:
    5,127
    باب :48--اللہ تعالی کی نعمتوں کی ناشکری، تکبر کی علامت اور بہت بڑا جرم ہے
    اللہ تعالی کا ارشاد ہے
    [qh](وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِنَّا مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُجِعْتُ إِلَى رَبِّي إِنَّ لِي عِنْدَهُ لَلْحُسْنَى فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ (سورة فصلت41: 50))[/qh]
    “اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اسے اپنی رحمت سے نواز تے ہیں تو کہتا ہے “یہ تو میراحق تھا، اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت آئے گی، اور اگر میں واقعی اپنے رب کی طرف لوٹا یا گیا تو وہاں بھی خوش حالی ہوگی۔ پس کفر کرنے والوں کو ہم ضرور بتائیں گےکہ وہ کیا کچھ کرتے رہے اور انہیں ہم سخت عذاب سے دوچار کریں گے۔”

    امام مجاہد رحتہ اللہ علیہ نے [qh]“هذَا اِلْى”[/qh]کی تفسیر میں فرمایا:
    [qh]“هذَا بِعَمَلِى وَ اَنَا مَحْقُوقٌ بِه” ۔ “[/qh]یہ مال و دولت تو میری محنت و کاوش کا نتیجہ ہے اور میں اس کا حق دار بھی ہوں۔”
    (تفسیر الطبری)
    ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ “یہ میری اپنی کاوش ہے۔”(1)

    نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
    [qh](قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِي(سورة القصص28: 78))[/qh]
    “(قارون نے)کہا کہ مجھے یہ سب کچھ میری اپنی سمجھ کی نبا پر دیا گیا ہے۔”
    اس آیت کی تفسیر میں قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: [qh]“عَلى عِلْمٍ مِّنِّى بِوُ جُوهِ الْمَكَاسِبِ”[/qh] یعنی اس نے کہا کہ یہ مال مجھے کمائی کے تجربے اور علم کی بدولت ملا ہے۔(تفسیر الدرالمنثور)
    دیگر اہل علم نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے: “وہ کہتا تھا کہ یہ مال و دولت تو مجھے اس لیے ملا کہ میں اللہ تعالی کے علم کے مطابق اس کا اہل اور حق دار ہوں۔” مجاہد کے قول کا معنی بھی یہی ہے کہ وہ کہتا ہے: “یہ مال و ثروت مجھے بزرگی اور شرف کی بنا پر ملا ہے۔”(2) (تفسیر الطبری)
    ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
    [qh](إِنَّ ثَلَاثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ: أَبْرَصَ، وَأَقْرَعَ، وَأَعْمَى، فَأَرَادَ اللهُ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا، فَأَتَى الْأَبْرَصَ، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: لَوْنٌ حَسَنٌ، وَجِلْدٌ حَسَنٌ، وَيَذْهَبُ عَنِّي الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ بِهِ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ قَذَرُهُ، وَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَجِلْدًا حَسَنًا، قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: الْإِبِلُ أَوْ الْبَقَرُ، شَكَّ إِسْحَاقُ - فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَاءَ،وَقَالَ: بَارَكَ اللهُ لَكَ فِيهَا، قَالَ: فَأَتَى الْأَقْرَعَ، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: شَعَرٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبُ عَنِّي هَذَا الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ بِهِ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ، وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا، قَالَ: أَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: الْبَقَرُ أَوْ الْإِبِلُ ، فَأُعْطِيَ بَقَرَةً حَامِلًا، وَقَالَ: بَارَكَ اللهُ لَكَ فِيهَا، فَأَتَى الْأَعْمَى، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: أَنْ يَرُدَّ اللهُ إِلَيَّ بَصَرِي، فَأُبْصِرَ النَّاسَ، فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ، قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: الْغَنَمُ، فَأُعْطِيَ شَاةً وَالِدًا، فَأُنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَّدَ هَذَا، فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنَ الْإِبِلِ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْبَقَرِ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْغَنَمِ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ: رَجُلٌ مِسْكِينٌ، قَدِ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي، فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللهِ ثُمَّ بِكَ، أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحَسَنَ، وَالْجِلْدَ الْحَسَنَ، وَالْمَالَ بَعِيرًا، أَتَبَلَّغُ بِهِ فِي سَفَرِي، فَقَالَ: الْحُقُوقُ كَثِيرَةٌ، فَقَالَ لَهُ: كَأَنِّي أَعْرِفُكَ، أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ؟ فَقِيرًا فَأَعْطَاكَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمَالَ؟ فَقَالَ: إِنَّمَا وَرِثْتُ هَذَا الْمَالَ كَابِرًا عَنْ كَابِرٍ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا، فَصَيَّرَكَ اللهُ إِلَى مَا كُنْتَ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا، وَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَيْهِ هَذَا، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللهُ إِلَى مَا كُنْتَ، قَالَ: وَأَتَى الْأَعْمَى فِي صُورَتِهِ، فَقَالَ: رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَابْنُ سَبِيلٍ،قَدِ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي، فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللهِ، ثُمَّ بِكَ، أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ، شَاةً أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي، فَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللهُ إِلَيَّ بَصَرِي، فَخُذْ مَا شِئْتَ، وَدَعْ مَا شِئْتَ، فَوَاللهِ لَا أَجْهَدُكَ الْيَوْمَ شَيْئٍ أَخَذْتَهُ لِلَّهِ، فَقَالَ: أَمْسِكْ مَالَكَ، فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ، فَقَدْ رُضِيَ عَنْكَ وَسُخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ)[/qh](صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، باب حدیث ابرص و اعمی و اقرع فی بنی اسرائیل، ح:3464 وصحیح مسلم، الزھد والرقائق، باب الدنیا سجن للمؤمن و جنۃ للکافر، ح:2964)
    “بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے ، جن میں سے ایک پھلبہری والا، دوسرا گنجا اور تیسرا نابینا تھا۔ اللہ تعالی نے آزمائش کی غرض سے ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا۔ وہ فرشتہ پھلبہری والے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا: تجھے کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: اچھا رنگ ، خوبصورت جلد اور یہ کہ مجھ سے یہ بیماری رفع ہوجائے جس کے سبب لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری رفع ہوگئی۔ اچھا رنگ اور خوبصورت جلد مل گئی۔ فرشتے نے پھر پوچھا: تجھے کون سامال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: اونٹ...یا...گائے۔(راوی اسحاق کو ان دونوں لفظوں کے بارے میں تردو ہے کہ کون سالفظ اس نے کہا) چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور فرشتے نے دعا کی [qh]“بَارَكَ الله ُلَكَ فِيْهَا”[/qh](اللہ تعالی تیرے لیے اس اونٹنی میں برکت فرمائے۔)اس کے بعد وہ فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے کہا: تجھے کون سی چیز زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: خوبصورت بال اور یہ کہ مجھ سے یہ بیماری رفع ہوجائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا، اس کی بیماری ختم ہوگئی اور اسے خوبصورت بال مل گئے۔ فرشتے نے اس سے پوچھا: تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا اونٹ...یا...گائے۔(یہ بھی راوی اسحاق کا شک ہے یعنی پھلبہری والے اور گنجے دونوں میں سے کسی ایک نے گائے اور دوسرے نے اونٹ مانگے) چنانچہ اسے ایک حاملہ گائے دے دی گئی۔ فرشتے نے دعا کی[qh]“بَارَكَ الله ُلَكَ فِيْهَا”[/qh](اللہ تعالی تیرے لیے اس گائے میں برکت فرمائے۔) اس کے بعد وہ فرشتہ نابینے کے پاس آیا اور اس سے کہا: تجھے کون سی چیز زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: یہ کہ اللہ تعالی مجھے میری بینائی لوٹا دے، تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔” فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالی نے اس کی بینائی لوٹادی۔ فرشتے نے کہا: تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا :بکریاں، چنانچہ اسے حاملہ بکری دے دی گئی ۔ کچھ عرصہ بعد اونٹنی اور گائے نے خوب بچے دیے۔ بکری نے بھی خوب بچے جنے، چنانچہ پھلبہری والے کے پاس اونٹوں، گنجے کے پاس گائیوں اور نابینے کے پاس بکریوں کا میدان بھر گیا۔ پھر وہ فرشتہ پھلبہری والے کے پاس اپنی سی پہلی شکل و صورت میں آیا اور کہا:میں مسکین اور مسافر آدمی ہوں، میرا زاد راہ ختم ہو گیا ہے۔ آج اللہ کی مدد ، یا پھر آپ کے تعاون کے بغیر منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس اللہ نے آپ کو خوبصورت رنگ، خوبصورت جلد اور اس قدر کثیر مال عطا کیا ہے، اس کے نام پر ایک اونٹ مانگتا ہوں تاکہ میں دوران سفر اس کے ذریعے اپنی ضورت پوری کرکے منزل تک پہنچ سکوں۔اس آدمی نے کہا: میری ضرورتیں بہت زیادہ ہیں(میں تمہیں اونٹ نہیں دے سکتا) تو فرشتے نے کہا: غالبا میں تجھے اچھی طرح جانتا ہوں، کیا تو پھلبہری والا نہ تھا؟ لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے اور تو انتہائی غریب تھا۔ اللہ تعالی نے تجھے یہ مال عطا کیا؟ وہ بولا: یہ مال تو مجھے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملا ہے۔
    فرشتے نے کہا: اگر تو اس بات میں جھوٹا ہو تو اللہ تعالی تجھے پہلے جیسا بنا دے۔”پھر وہ فرشتہ اسی پہلی شکل و صورت میں گنجے کے پاس آیا اور اس سے بھی وہی باتیں کہیں جو پھلبہری والے سے کہی تھیں تو اس نے بھی وہی جواب دیے۔ فرشتے نے کہا: اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تعالی تجھے ویسا ہی کر دے جیسا تو پہلے تھا۔ پھر وہ فرشتہ اسی پہلی شکل و صورت میں اس نابینے کے پاس آیا اور کہا: میں ایک مسکین اور مسافر ہوں، میرا زاد راہ ختم ہوگیا ہے، اللہ کی مدد ، یا پھر آپ کے تعاون کے بغیر میں آج گھر نہیں پہنچ سکتا۔ جس اللہ نے آپ کو بینائی عطا کی ، اس کے نام پر آپ سے ایک بکری کا سوال ہے تاکہ میں دور ان سفر میں اس سے اپنی ضرورت پوری کرکے منزل تک پہنچ سکوں۔
    اس نے کہا: میں نابینا تھا۔ اللہ تعالی نے مجھے میری بینائی لوٹادی۔ جتنا چاہو لے جاؤ اور جو چاہو چھوڑ جاؤ۔ آج اللہ کے نام پر جو کچھ بھی لے جاؤ میری طرف سے تمہیں کوئی سرزنش نہیں۔ تو فرشتے نے کہا: اپنا مال اپنے پاس ہی رکھو، تمہارا امتحان لیا گیا۔ اللہ تعالی تجھ سے راضی اور تیرے دوسرے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہوگیا ہے۔(3)

    مسائل
    1) اس باب سے سورۂ فصلت کی آیت 50 کی تفسیر واضح ہوئی جس میں ناشکرے انسان کو وعید سنائی گئی ہے۔
    2) [qh]“لَيَقُولَنَّ هَذَا لِي”[/qh](کہ یہ تو میرا استحقاق تھا) کی تفسیر بھی واضح ہوئی۔
    3) نیز [qh]“اِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِندِي”[/qh](کہ یہ مال تو مجھے میرے علم اور کاروباری تجربے کی بدولت ملا ہے) کی تفسیر بھی معلوم ہوئی۔
    4) حدیث میں مذکور تین افراد کے اس نصیحت آموز واقعہ میں جو عظیم عبرتیں پوشیدہ ہیں، اس باب میں ان کا بیان بھی ہے۔

    نوٹ:-

    (1) یعنی وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی نے یہ نعمت دے کر مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ میں تو اپنی محنت ، شرف اور بزرگی کی بنا پر ویسے ہی اس چیز کا حق دار تھا۔ گویا اس چیز کے حصول کو وہ اپنی محنت کا نتیجہ اور اپنا استحقاق قرار دیتا ہے اور اللہ تعالی کے احسان و انعام اور فضل کو یکسر فراموش کردیتا ہے جبکہ انسان کی محنت و کاوش ایک سبب ضرور ہے۔ بسا اوقات یہ سبب اللہ کے حکم سے مؤثر ثابت ہوتا ہے اور بعض اوقات بغیر کسی سبب کے بھی انسان کو اس کا مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔ گویا اصل معاملہ اللہ کے فضل اور اس کی عنایت کا ہے۔ انسان کا اپنا یا اس کے سبب کا کوئی کمال نہیں۔
    (2) گویا بعض اصحاب ثروت جب خوش حال ہوتے ہیں تو وہ اللہ تعالی کی صرف سے مکمل طور پر غافل ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے کاروبار، دولت اور تجارت وغیرہ کو اپنی ذہانت ، محنت اور کوشش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب تو ان کے خالق و مالک اللہ تعالی کا انعام اور اس کا فضل ہے۔
    (3) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس طویل حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ان تینوں کو ان کی بیماریوں سے عافیت دی تو ان میں سے دو نے ان نعمت(صحت)کو اپنی طرف منسوب کیا۔ صرف ایک نے ان نعمت کی اللہ تعالی کی طرف نسبت کی۔ تو اللہ تعالی نے ناشکری کرنے والے دونوں کو ایسی سزادی کہ انہیں ان کی سابقہ حالت میں لوٹادیا۔ اور جس نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور ملی ہوئی نعمت(صحت)کو اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا تو اللہ تعالی نے اسے بہترین بدلہ دیا اور اسے دائمی نعمت سے نوازا۔ یہ اللہ تعالی کا فضل ہے، وہ جس کے لیے چاہے اپنی نعمت کو مستقل کردیتا ہے اور جسے چاہے محروم کردیتا ہے۔ جو شخص اپنے رب کی تعظیم کرے، اس کی نعمتوں پر اس ک اشکریہ بجالائے اور یہ عقیدہ رکھے کہ یہ تمام نعمتیں اللہ تعالی کا عطیہ ہیں تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالی کی نعمتوں سے وہ ہمیشہ سرفراز اور مالامال رہتا ہے۔
    ایک موحد مسلمان کا فرض ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ میں ہر چیز کے بارے میں اللہ تعالی کا محتاج ہوں۔ اور کسی بھی چیز کے بارے میں میرا اللہ تعالی پر کوئی استحقاق نہیں۔ وہی میرا رب ہے اور وہی میری بندگی کا مستحق ہے۔ اور وہ اس لائق ہے کہ بندے اس کی نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کریں، اسے یاد رکھیں اور ہر نعمت کو اسی کا فضل سمجھتے ہوئے اسی کی طرف منسوب کریں۔
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں