حجاج بن یوسف کا آخری سفر

ابوعکاشہ نے 'تاریخ اسلام / اسلامی واقعات' میں ‏جولائی 14, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,950
    حجاج بن یوسف کا آخری سفر

    عراق پر 20 برس حکومت کرنے کے بعد 54 برس کی عمر میں حجاج بیمار ہوا ہے اس کے معدے میں بے شمار کیڑے پیدا ہو گئے تھے اور جسم کو ایسی سخت سردی لگ گئی تھی کہ کہ آگ کی بہت سی آنگھیٹیاں بدن سے لگا کررکھ دی جاتی تھیں پھر بھی سردی میں کمی نہیں ہوتی تھی ـ جب زندگی سے نا امیدی ہو گئی تو حجاج نے گھروالوں سے کہا کہ مجھے بٹھا دو اور لوگوں کو جمع کرو ـ لوگ آئے تو اس نے حسب عادت ایک بلیغ تقریر کی ، موت اور سختیوں کا ذکر کیا ، قبراور اس کی تنہائی بیان کی ، دنیا اور اس کی بے ثباتی یاد کی ـ آخرت اور اس کی ہولناکیوں کی تشریح کی اپنے گناہوں اور ظلموں کا اعتراف کیا ـ پھر یہ شعر اس کی زبان پر جاری ہو گئے ـ


    إن ذنبي وزن السماوات والأرض
    وظني بربي أن يحابي
    میرے گناہ آسمان اور زمین کے برابر بھاری ہیں ـ مگر مجھے اپنے خالق سے امید ہے کہ رعایت کرے گا ـ

    فلئن منّ بالرضا فهو ظني
    ولأن مر بالكتاب عذابي
    اگر اپنی رضامندی کا احسان مجھے دے تو یہی میری امید ہے ـ لیکن اگر وہ عدل کرکے میرے عذاب کا حکم دے ـ

    لم يكن منه ذاك ظلماً وبغياً
    وهل يهضم رب يرجى لحسن الثواب ـ
    تو یہ اس کی طرف سے ہر گز ظلم نہیں ہو گا کیا یہ ممکن ہے کہ وہ رب ظلم کرے جس سے صرف بھلائی کی توقع کی جاتی ہے ـ
    پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رودیا ـ موقعہ اس قدر عبرت انگیز تھا کہ مجلس میں کوئی بھی شخص اپنے آنسو روک نہ سکا ـ

    اس کے بعد اس نے اپنا کاتب طلب کیا اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کو حسب ذیل خط لکھوایا ـ
    كنت أرعى غنمك، وأحوطها حياطة الناصح الشفيق برعية مولاه، فجاء الأسد -قصده بالأسد ملك الموت- فبطش بالراعي ومزق المرعى، وقد نزل بمولاك ما نزل بأيوب الصابر، وأرجو أن يكون الجبار أراد بعبده غفراناً لخطاياه، وتكفيراً لما حمل من ذنوبه.
    '' امابعد! میں تمہارہ بکریاں چراتا تھا ایک خیرخواہ گلہ بان کی طرح اپنے آقا کے گلے کی حفاظت کرتا تھا ، اچانک شیر آیا ، گلہ بان کو طمانچہ مارا اور چراگاہ خراب کر ڈالی ـ آج تیرے غلام پر وہ مصیبت نازل ہوئی ہے جو ایوب پر نازل ہوئی تھی ـ مجھے امید ہے کہ جبار و قہار اس طرح اپنے بندے کی خطائیں بخش اور گناہ دھونا چاہتے ہیں ـ "پھر خط کے آخیر میں یہ شعر لکھنے کا حکم دیا ـ
    إذا ما لقيت الله عني راضياً
    فإن شفاء النفس فيما هنا لك
    اگر میں نے اپنے خدا کو راضی پایا توبس میری مراد پوری ہوگئی

    فحسبي بقاء الله من كل ميت
    وحسبي حياة الله من كل هالك
    سب مرجائیں مگر خدا کا باقی رہنا میرے لیے کافی ہے ! سب ہلاک ہوجائیں مگر خداکی زندگی میرے لیے کافی ہے ـ


    لقد ذاق هذا الموت من كان قبلنا
    ونحن نذوق الموت من بعد ذلك
    ہم سے پہلے یہ موت چکھ چکے ہیں ، ہم بھی ان کے بعد موت کا مزہ چکھیں گئے

    فإن مت فاذكرني بذكر محبب
    فقد كان جماً في رضاك مسالكي
    اگر میں مر جاؤں تو مجھے محبت سے یاد رکھنا ، کیونکہ تمہاری خوشنودی کے لیے میری راہیں بے شمار تھیں ـ

    وإلا ففي دبر الصلاة بدعوة
    يلقى بها المسجون في نار مالك
    یہ نہیں تو کم ازکم ہر نماز کے بعد دعامیں یاد رکھنا جس سے جہنم کے قیدی کو کچھ نفع پہنچے
    عليك سلام الله حياً وميتاً
    ومن بعدما تحيا عتيقاً لمالك
    تجھ پر ہر حال میں اللہ کی سلامتی ہو ـ جیتے جی ، میرے پیچھے اور جب دوبارہ زندہ کیاجاؤں ـ

    حضرت بصری عیادت کو آئے تو حجاج نے ان سے اپنی تکلیفوں کا شکوہ کیا ـ حسن نے کہا '' میں تجھے منع نہیں کرتا تھا کہ نیکوکاروں کو نہ ستا مگر افسوس تم نے نہیں سنا ـ''حجاج نے خفا ہو کر جواب دیا ـ'' میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ اس مصیبت کو دور کرنے کے لیے دعا کرو ، میں تم سے یہ دعا چاہتا ہوں کہ خدا جلد از جلد میری روح قبض کرے اور اب زیادہ عذاب نہ دے ''

    اسی اثباء میں ابومنذر یعلی بن مخلد مزاج پرسی کو پہنچے ـ
    '' حجاج ـ ! موت کے سکرات اور سختیوں پر تیرا کیا حال ہے ؟''
    انہوں نے سوال کیا ـ
    '' ائے یعلٰی ! '' حجاج نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا '' کیا پوچھتے ہو ، شدید مصیبت ! سخت تکلیف ! ناقابل بیان الم ، ناقابل برداشت درد! سفر دراز! توشہ قلیل ! آہ ! میری ہلاکت ! اگر اس جبار و قہار نے مجھ پر رحم نہ کھایا ! ''
    یہ سن کر ابومنذر نے کہا '' ائے حجاج! خدا اپنے انہی بندوں پر رحم کھاتا ہے جو رحم دل اور نیک نفس ہوتے ہیں ـ اس کی مخلوق سے بھلائی کرتے ہیں ـ محبت کرتے ہیں ـ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو فرعون اور ہامان کا ساتھی تھا کیونکہ تیری سیرت بگڑی ہوئی تھی ، تو نے اپنی ملت ترک کر دی تھی ـ راہ حق سے کٹ گیا تھا ـ صالحین کے طور طریقوں سے دور ہو گیا تھا تو نے نیک انسان قتل کر کے ان کی جماعے فنا کر ڈالی ، تابعین کی جڑیں کاٹ کر ان کا پاک درخت اکھاڑ پھینکا ، افسوس تو نے خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت کی ـ تو نے خون کی ندیاں بہا دیں ، جانیں لیں ، آبروئیں برباد کیں ، قہر و جبر کی روش اختیار کی ـ تو نے نہ اپنا دین ہی بچایا ، نہ دنیا ہی پائی ـ تونے خاندان مروان کو عزت دی ـ مگر اپنا نفس ذلیل کیا اور ان کا گھر برباد کیا ، مگر اپنا گھر ویران کر لیا ، آج تیرے لیے نہ نجات ہے نہ فریاد ، کیونکہ تو آج کے دن اس کے بعد غافل تھا ، تو اس امت کے لئے مصیبت او رقہر تھا ، اللہ کا ہزار ہزار شکرہے کہ اس نے تیری موت سے امت کو راحت بخشی اور تجھے مغلوب کر کے اس کی آرزو پوری کر دی ـ ''

    راوی کہتا ہے کہ حجاج یہ سن کر مبہوت ہو گیا ، دیر تک سناٹے میں رہا ، پھر اس نے ٹھنڈی سانس لی ـ آنسو ڈبڈبا آئے اور آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کہا کہ '' ائے الہٰی ! مجھ بخش دے ، کیونکہ لوگ کہتے ہیں تو مجھے نہیں بخشے گا ـ پھر یہ شعر پڑھا :

    رب إن العباد قد أيأسوني
    ورجائي لك الغداة عظيم
    الٰہی ! بندوں نے مجھے ناامید کر ڈالا ـ حالانکہ میں تجھ سے بڑی امید رکھتا ہوں -
    یہ کہ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں ـ ''

    اس میں شک نہیں ، رحمت الہٰی کے بے کنار وسعت دیکھتے ہوئے اس کا یہ اندازا طلب ایک عجیب تاثیر رکھتا ہے اور اس باب میں بے نظیر مقولہ ہے یہی وجہ ہے کہ جب حضرت حسن بصری سے حجاج کا یہ قول ذکر کیا گیا تو وہ پہلے متعجب ہوئے ـ'' کیا واقعی اس نے یہ کہا ـ'' ہاں ! اس نے ایسا ہی کہا ہے '' فرمایا '' تو شاید ! یعنی اب شاید اللہ اسے بخش دے ـ

    البدایة والنہایة ج 9 ص 138

    تحریر ۔/ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ
    کمپوزنگ ۔ ابوعکاشہ
     
  2. ابو یاسر

    ابو یاسر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    2,413
    جزاااااااااااک اللہ خیرا
     
  3. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    ایک بات اور بھی یاد آئی کہ مجلہ الحدیث میں کہیں پڑھا تھا کہ حجاج بن یوسف ناصبی تھا
     
  4. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,950
    صحیح ۔ یاد رہے کہ وہ زمانہ ایسا تھا کہ کسی کو کسی قوم یا قبیلے سے تھوڑی سے تکلیف ہوتی تھی وہ بدلہ لینے کی غرض سے مخالف کی صف میں شامل ہو جاتا تھا ۔ حجاج بن یوسف کے ساتھ بھی ایسا ہوا ۔
     
  5. 03arslan

    03arslan -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2009
    پیغامات:
    418
    ماشا ء اللہ
    بہت شاندار اور عبرت والی تحریر ہے۔
     
  6. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    حجاج بن یوسف کی بداعلمالیاں اپنی جگہ لیکن اللہ سے رحمت کی اس قدر امید رکھنا یہ بھی ایک ایسی خوبی ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
    اس کے علاوہ حجاج بن یوسف کے بارے میں یہ بھی سنا ہے (کنفرم نہیں) کہ قرآن پر اعراب بھی اس کے حکم سے لگوائے گئے تھے۔ واللہ اعلم
     
  7. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    جزاکم اللہ خیرا
    عبرت انگیز اقتباس ہے۔
     
  8. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    حجاج بزات خود حافظ قرآن تھا اس کا ایک سہنری کارنامہ یہ ہے کہ اس نے قرآن کریم پر اعراب لگواۓ جس کی وجہ سے غیر عربی اقوام کے لیے اس کی تلاوت آسان ہوگئ۔حجاج کی تمام خرابیوں کے باوجود اس کی یہ نیکی بہت بھاری ہے۔(تاريخ امرامدینہ منورہ)
     
  9. اہل سلف

    اہل سلف -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اگست 7, 2011
    پیغامات:
    59
    اس واقعے میں‌ ان تمام ظالم فاسق فاجر حکمرانوں کو نصیحت ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے اور جلد یا دیر اس نے آکر دم لینا ہے۔۔۔ قبر کی رات اندھیری ہے۔۔
     
  10. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    ماشا ء اللہ
    بہت شاندار اور عبرت والی تحریر ہے۔
     
  11. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,950
    درست ۔ اس مضمون کو پیش کرنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے ۔ وہ جسے چاہے معاف کردے ، اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ شرک کے علاوہ جس گناہ کو چاہے گا معاف کردے گا ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں