مذاہب اربعہ کی پابندی ضروری یا غیر ضروری ؟

ابوعکاشہ نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏جولائی 16, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    مذاہب اربعہ کی پابندی ضروری یا غیر ضروری ؟
    استفادہ تحریر:: ڈاکٹر لقمان سلفی حفظ اللہ

    الحمد لله وحده والصلاته والسلام علی من لا نبی بعده :
    قارئین کرام ! بلاشبہ قرآن کریم اور سنتِ نبویہ ہی وہ عظیم اثاثہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لئے چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے آپﷺ نے فرمایا : ائے میری امت کے لوگو! میں تمہارے لئے صرف دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ، جب تک تم لوگ انہیں مضبوطی کے ساتھ تھامے رہو گئے گمراہ نہیں ہوں گئے ''
    نبی ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت اسی منہج کے مطابق کی تھی ، اور انہیں سکھایا تھا کہ قیامت تک کے لئے اتحادِ امتِ اسلامیہ کا وجود اسی منہج سے مرتبط ہے ، آپ ﷺ نے نبوت کی 23تئیس سالہ زندگی میں انہیں صحیح اسلامی عقیدہ اور صرف اتباع قرآن و سنت کی بنیادوں پر اخوت و اتحادِ اسلامی کے قیام کا درس دیا ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وحدتِ امت کی جڑیں ان کے دلوں کی گہرائیوں تک اترتی چلی گئیں اور اس کے لازول اثرات ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں پوری طرح نظر آنے لگے ـ
    ان تمام نفوسِ قدسیہ کا ایک ہی عقیدہ اور ایک ہی منہج ، منہجِ قرآن و سنت تھا ، ان سب نے مل کر اللہ کی مضبوط رسی قرآنِ کریم اور سنتِ نبویہ کا تھام رکھا تھا ،اس بارے میں ان کی قطعی طور پر دو رائے نہیں تھی ـ
    یہی وجہ ہے کہ دشمنانِ اسلام کی ہزار سازشوں کے باوجود ساڑھے تین سو سال تک وحدتِ امت کی دیوار مضبوط و محفوظ رہی اور اس میں کوئی دراڑ نہ ڈال سکا ، صحابہ کرام ، تابعینِ عظام اور تبعِ تابعین کے دور تک بہر حال مسلمانوں کے ذہنوں پر صحیح اسلام حکومت کرتا رہا ـ
    نبی اکرم ﷺ کے زمانہ دستورتھا صحابہ کرام رسول اللہ کو جیسا کرتے دیکھتے یا فرماتے سنتے ویسا ہی کرنے لگتے ، اور جب اُن میں سے کسی کو کوئی نیا واقعہ پیش آتا تو رسول اللہ ﷺ سے دریافت کرلیتے اور آپ ﷺ کے فرمان و ارشاد کے مطابق عمل کرنے لگتے ، اور ان حدیثوں کو بھی یاد کرتے جاتے ،گویا سب کے مرجع آپ ﷺ ہی تھے۔
    رسول اللہ کی وفات کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں کسی کو جب کسی دینی رہنمائی کی ضرورت ہوتی تو اولا کتاب اللہ میں اس کا حل تلاش کرتے ، ورنہ احادیثِ رسول میں ، یہی دستور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی صحابہ کرام کا رہا اور دونوں ہی خلیفوں کے زمانہ میں اگر کسی مسئلہ میں کوئی حدیثِ رسول نہ ملتی تو تمام بڑے صحابہ کرام مل کر اجتہاد کرتے ، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ابوبکر یا عمر رضی اللہ عنہما یا کسی دوسرے مجتہد و امام کی تقلید پر کسی کو آمدہ یا مجبور کیا گیا ہو ، ہر حال میں سب کا طریقہ عمل بالحدیث ہی تھا اور اعمال و عقائد ہر اعتبار سے تمام مسلمانوں کی ایک ہی جماعت بھی ـ
    اس کے بعد مرورِ زمانہ کے ساتھ باطل فرقے پیدا ہونے لگے اور گمراہ کن نظریات و مذاہب نے اسلام سے اپنا رشتہ جوڑنے والوں کے دلوں اور دماغوں میں گھر کر لیا ، اور آہستہ آہستہ مسلمان اُس صحیح اسلامی عقیدہ اور راہِ عمل سے دور ہوتے گئے جس کی بنیاد قرآن و سنت پر تھی ، اور امت شاہراہِ اسلام کو چھوڑ کر پگڈنڈیوں پر چلنے لگی ، اور قرآن وسنت سے شعوری یا غیرشعوری طور پر دور ہوتی گئی ، اور مختلف جماعتیں اور گرہوں مں تقسیم ہوتی گئی ـ
    تیسری صدی کے اواخر میں اہلِ رائے اور فقہا ء اور سردارانِ معتزلہ اور شیعہ اور اصحاب ِ کلام نے احادیثِ نبویہ کا تمسک کا طریقہ چھوڑ دیا ، اور فقہا میں تقلید ظاہر ہوئی ، او ر مذہب تقلید شروع ہوا ، اس سے پہلے نہ اماموں کے نام کا مذہب مقرر تھا اور نہ ان کی تقلید کی جاتی تھی ـ
    اس سے پہلے امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ بھی صحابہ کرام اور تابعینِ عظام ہی کے طریقے پر تھے ، ان حضرات کے زمانے میں بھی کسی خاص شخص کا مذہب مقرر نہ تھا ، بلکہ ان کے اتباع اور شاگردوں کا بھی یہ طرزِعمل تھا ، بہر حال اسلام کی تین صدیوں میں مذہبِ تقلید پیدا نہیں ہوا تھا ـ ان خیرالقروں کے یہ رنگ شرور ہوا اور ترقی کرنے لگا ، اور رسولِ کرام کی بعثت سے تقریبا چار سو سال بعد اس مذہب تقلیدِ شخصی کی پوری ترقی ہوئی ـ جس کے صحیح ہونے کی کوئی دلیل ، محض مرور ِ زمانہ کے ساتھ لوگ تقلید کی اصلی حالت سے بلکل بے خبر ہو گئے اور سمجھنے لگے کہ مذہب تقلید اور چارمذہبوں میں سے کسی ایک کی جملہ مسائل میں پابندی کرنا اصلی اور مذہبِ قدیم ہے اور اس سے ذرا سا بھی دور ہونا الحاد اور بے دینی ہے ـ
    حالانکہ یہ کچھ بھی نہیں ، اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ان چاروں اماموں کی تقلید کو واجب نہیں کیاـ درمختار کے حاشیہ پریہ تحریر موجود ہے کہ ایک مجتہدِ معین کی تقلید کے وجوب پر کوئی دلیل نہیں ـ
    دیگر محقیق حنفی نے بھی صراحت کر دی ہے کہ اللہ نے کسی کی تقلید شخصی واجب نہیں فرمائی اور کسی پر لازم نہیں کیا کہ وہ ایک ہی امام کا تمام مسائل میں مقلد ہو کر رہ جائے ـ محض مرور ِ زمانہ کے ساتھ یہ رسم چل پڑی اور بُرا ہو تعصب مذہبی اور ہوائے نفس کا جس کے سبب تقلیدِ شخصی کا باطل رُحجان راسخ ہوتا گیا ، حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں کہیں اس بات کا کوئی پتہ نہیں ملتا کہ ہم کسی خاص مجتہد کے مذہب کی تقلید کرنا لازم ہے ـ اسلام نے صرف اس کا مکلف بنایا ہے کہ ہم اللہ تعالٰی اور رسول ﷺ کے حکم کی تابعداری کریں اور کسی کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم کا علم نہ ہو تو کسی بھی قابل ِ اعتمار اور متقی صالح عالم اور متبع سنت سے دریافت کرے ، اس میں کوئی اور قید و تخصیص نہیں بتائی گئی کہ ایک عالم یا امام کو مقرر کر کے اس کی یا اس کے مذہب کی جملہ مسائل میں پیروی کرے ـ
    معلوم ہوا کہ اپنی طرف سے سے کسی عالم یا مجتہد کے مذہب کا التزام کرنا اور دیگر مجتہدین کے اقوال کو غیر مذہب قرار دینا اپنی طرف سے نئی شرع قائم کرنا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ـ مولانا عبدالعلی بحر العلوم شرح مسلم الثبوت میں لکھتے ہیں :'' اللہ نے کسی پر واجب نہیں کیا کہ اماموں میں سے کسی ایک امام کے مذہب کو اپنا مذہب ٹھہرائے ، بلکہ اس کو واجب کرنا اپنی طرف سے نئی شرع ایجاد کرنا ہے ـ''
    تقلید اور اتباع میں فرق یہ ہے کہ جو بات کوئی شخص بطور نقل و حکایات کے بیان کر ، اس بات کو ماننے کو اُس کی تقلید نہیں کہا جا سکتا ، تقلید اسی وقت ہو سکتی ہے جب کوئی شخص کوئی بات اپنے طور پر کہے اور اس کی دلیل معلوم کئے بغیر محض اس کے بھروسہ پر اس کو تسلیم کر لیا جائے اور جو بھی شخص کسی کی بات نقل کرنے والا ہو اور دوسرے اس کو روایت کرے تو وہ محض ایک واسطہ ہوتاہے ـ اور اس بات کا ماننے والا اس اک مقلد نہیں کہلاتا بلکہ منقول عنہ کا اعتبار ہوتا ہے جس سے وہ بات نقل کی جاری ہے ـ
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ امت جوں جوں قرآن و سنت سے دور ہوتی گئی مختلف جماعتوں میں عقائد ، فقہی مذاہب اور فرقہ ہائے تصوف کی بنیادوں پر تقسیم ہوتی چلی گئی ، بالخصوص فقہی مذاہب کی بنیاد پر تو اس امت کی تقسیم اپنے دامن میں بڑی ہی خونچکاں داستانیں رکھتی ہ ـ کسی نے اپنے آپ کو حنفی کہا ، کسی نے مالکی ، کسی نے شافعی اور کسی نے اپنے آپ کو حنبلی کہا ـ اور '' اتھارٹی '' غیر معصوم افراد کو بنایا لیا ـ اور آئمہ کرام کو معصوم عن الخطاء قرار دینے کے لئے ، اور ان کے فقہی مذاہبب کو امت کے درمیان رواج دینے کے جھوٹی حدیثیں گھڑنے لگے اور پوری دیدہ دلیری کے ساتھ انہیں امت میں پھیلایا : بعض فقہی مذاہب کے ماننے والوں نے دوسرے مذہب کے امام کو شیطان اور ابلیس تک کہا ، مساجدیں الگ الگ بنائیں ، ایک ہی مسجد میں الگ الگ چار مصلے بنائے ـ
    ان تمام مبغوص و مکروہ کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان زندگی پھر انہی فقہی مذاہب کے گھروندوں میں بند رہے ، اُن سے نکل کر کھلے دل و دماح کے ساتھ انہیں کبھی قرآن و سنت کی طرف جھانکنے کی توفیق ہی نہیں ہوئی ، کبھی انہیں محض قرآن و سنت کی اتباع کرنے والے علماء سے ملنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا ـ
    قرآن وسنت کے جادہ مستقیم سے انحراف کرنے والوں نے ان احادیث کو در کرنے کے لیے ،جو ان کے فقہی مذاہب کی تائید نہیں کرتی تھیں ـ صحابہ کرام کو فقیہ اور غیر فقیہ دو جماعتوں میں بانٹا ، محدثین کرام کے بارے میں کہا کہ ان کی حیثیت صیادلہ کی ہے جو دوائیں بیچتے ہیں ، لیکن ان دواؤں کے اثرات و حقائق سے ناآشنا ہوتے ہیں ـ حقائق شناشی کا کام فقہاء کرتے ہیں !
    حالانکہ انہیں معلوم نہیں کہ اکثر و بیشتر وہ لوگ جو اپنی نسبت فقہِ اسلامی کی طرف کرتے ہیں ان کی مثال اس آدمی کی ہوتی ہے جو رات میں جنگل سے لکڑیاں جمع کرتا ہے اور لکڑی کے ساتھ سانپ او بچھو بھی باندھ کر اپنے گھر سے لے آتا ہے ؟! انہیں صحیح اور ضعیف احادیث کا پتہ ہی نہیں ہوتا ـ بسااوقات یہ لوگ جھوڑی حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں اور مسائل در مسائل نکالتے جاتے ہیں اور ہندی کی چندی اڑاتے ہیں اور انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ اللہ کے رسول ﷺ کی حدیثیں نہیں ، یہ تو سانپ اور بچھو ہیں جنہیں رات میں لکڑیوں کے ساتھ باندھ کر اپنے گھر لے آیا ہے ـ
    مذکورہ بالا تفصلات سے معلوم ہوا کہ مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید امت مسلمہ کو کبھی بھی ضرورت نہیں رہی اور نہ یہ عصر ِ حاضر میں امت کی ضرورت ہے ـ جس طرح بعثتِ نبویہ کے بعد تقریبا ساڑھے تین سو سال تک مسلمان قرآن و سنت سے روشنی حاصل کرتے رہے ، نبی کرمﷺ کی اتباع کرتے رہے اور جب بھی کسی فردِ مسلم کو کسی درپیش مسئلہ میں رہنمائی کی ضرورت پڑی تو ہر اس عالم سے پوچھا جو اس سوسائٹی میں علمِ راسخ اور صلاح وتقوی کے ساتھ مشہور تھے ، اور ان علمائے کرام نے قرآن و سنت کی روشنی میں پوری امانت و دیانت کے ساتھ امت کی رہنمائی کی ، کبھی کسی عالمِ صالح و متقی نے کسی فقیہ و مجتہد کی رائے کے ذریعہ نبی کرم ﷺ کی کسی ثابت سنت کو رد کرنے کی جرات نہیں کی ـ
    امت مسلمہ کے عصر حاضر میں بھی رہنمائی حاصل کرنے اور رہنمائی کرنے کا یہی طریقہ کافی و شافی ہے ، اس مت کو تقلیدِ شخصی کے ناسور گورکھ دھندوں میں دھکیلنے کی قطعا ضرورت نہیں ـ اس موقع سے یہ بات بتا دینی بھی ازبس ضروری ہے کہ دین ِاسلام آسان اور فطرتِ انسانی کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ '' اس نے انسانوں کو ان کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بنایا ہے '' ـ اوراسی بات کی وضاحت نبی کرمﷺ نے مختلف اوقات میں کی ہے اس لیے دین کی جو باتیں قرآن ِ کریم اور صحیح احادیثِ نبویہ کے ذریعہ ثابت ہیں وہ نہایت آسان ، سہل اور انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہیں ، اور یہ بات کہنی کہ مذاہب اربعہ میں سے آسان فہقی احکام کا انتخاب کرکے امت کو پیش کیا جائے ، قطعا صحیح نہیں بلکہ ایسی بات وہ لوگ کہتے ہیں جنہوں نے دین اسلام کو پورے طور پر نہیں سمجھا ہے ، فقہمی احکام ، آیات قرانی اور صحیح احادیث نبویہ سے اخذ کئے جاتے ہیں ، لوگوں کی خواہشاتِ نفس کے مطابق ان کا انتخاب نہیں کیا جا سکتا ، نیز فقہائے اربعہ کے بہت سے آراء سنت نبویہ سے مخالف ہیں جن کی یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے ـ
    آخر میں عرض ہے کہ مسلمان عام کو اس وقت ایسے علماء اور مخلص زعماء کی ضرورت ہے جو جزوی اختلافات سے بالاتر ہو کر انہیں توحیدِخالص اور اتباعِ قرآن وسنت کی بنیاد پر جمع کریں اور تمام عصبیتوں سے بالاتر ہو کرانہیں محض قرآن و سنت کی بنیاد پر متحد و متفق ہونے کی دعوت دیں ـ
    جس طرح نبی کرمﷺ نے بکھرے ہوئے عرب قبائل کو صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر جوڑ کر ایک امت بنائی تھی ، اسی طرح آج بھی صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر ہی مختلف مسلکوں کی رسائی ختم کی جاسکتی ہے اور انہیں ایک متحد امت بنایا جا سکتا ہے ، یہ امت کسی بھی دور میں اسی نسخہء کیما کے ذریعہ متحد ہو سکتی ہے ، جس کے ذریعہ نبی کرم ﷺ نے انہیں متحد کیا تھا ، اس امت کا مرض ایک ہی ہے اور علاج بھی ایک ہی ہے ـ
    الحمد للہ ! اس دور میں چونکہ تعلیم عام ہو رہی ہے ، لوگ ہر بات کے دلیل مانگتے ہیں اس لیے دعوتِ اسلامیہ کے افق پر ایک نیا اور تابندہ ستارہ ابھرا ہے کہ مسلمانانِ عالم از خود اندھی تقلید کا پٹہ گردنوں سے نکال کر پھینک رہے ہیں ، او رمطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کی رہنمائی اس دین کی طرف کی جائے جو کہ خالص قرآن وسنت پر مبنی ہے ، جو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کا دین تھا، اور جس کے ذریعہ امتِ اسلامیہ متحد ہوکر چہار دانگ عالم میں اسلام کی دعوت لے کر پھیل گئی تھی ـ
    وآخر دعوانا ان الحمد الله رب العالمین
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. ابو عبداللہ صغیر

    ابو عبداللہ صغیر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏مئی 25, 2008
    پیغامات:
    1,979
    بارك الله فيك اخي وجزاك اللہ خيرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    جزاکم اللہ خیرا۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاكم الله خيرا وبارك فيكم ۔
     
  5. مسلم دوست محمدی

    مسلم دوست محمدی -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏فروری 18, 2012
    پیغامات:
    9
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں