کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے علم میں برکت ہو؟

ابوعکاشہ نے 'مطالعہ' میں ‏جولائی 30, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے علم میں برکت ہو؟
    سکینہ بنت محمد ناصر الدین البانی (حفظہا اللہ)

    ترجمہ :: طارق علی بروہی​
    آپ نے علم کی برکت اور اس کا شکر ادا کرنے کے بارے میں کئی ایک علماء سلف کا کلام نقل کیا جیسے حافظ ابن رجب(جامع بیان العلم وفضلہ2/89)امام نووی (بستان العارفین) الخلال (آداب الشرعیۃ) الوزیر المغربی (ادب الخواص) وغیرہ اور ان سب کا خلاصہ یہی ہے کہ جو اپنے علم میں برکت چاہتا ہے اور اس کا صحیح معنوں میں شکر ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ ہر قول اور علمی فائدہ کو اس کے حقیقی قائل کی طرف منسوب کرے۔ یہ سوچ کر بتانے سے گریز نہ کرے کہ میری تعریف ہو کہ میں نے یہ علمی نکتہ تلاش کیا ہے حالانکہ وہ کسی اور امام یا سلف کے قول سے ماخوذ ہو([1])۔

    پھر آپ نے اس بارے میں احادیث رسول e بیان کیں، صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ:‘‘الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ’’([2]) (جو چیز حاصل نہ ہو اس پر فخر کرنے والا اس شخص جیساکہ جو فریب کے دو لبادے([3]) اوڑھے یعنی دوسروں سے مانگ کر پہنے اور کہے کہ یہ میرا ہے) اسی طرح صحیح مسلم میں ہے ‘‘مَنِ ادَّعَى دَعْوَى كَاذِبَةً لِيَتَكَثَّرَ بِهَا لَمْ يَزِدْهُ اللَّهُ إِلاَّ قِلَّةً’’([4]) (جو شخص جھوٹا دعوی کرے اپنا مال بڑھانے کے لئے تو اللہ تعالی اس کا مال اور کم کردے) اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:

    ﴿لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ (آل عمران: 188)
    (وہ لو گ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں آپ انہیں عذاب سے چھٹکارے میں نہ سمجھیں، ان کے لئے تو دردناک عذاب ہے)

    امام ابن کثیر " نے گویا کہ مندرجہ بالا احادیث کواس آیت کی تفسیر مانا ہے۔(تفسیر ابن کثیر2/181)

    پہلی حدیث کی مناسبت تو یہ ہے کہ اسماء بنت ابی بکر r فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ e سے عرض کیا: (یا رسول اللہ e! میری سوکن ہے اگر میں اپنے شوہر کی طرف سے ان چیزوں کے حاصل ہونے کی بھی داستانیں اسے سناؤں جو حقیقت میں میرا شوہر مجھے نہیں دیتا(محض اس کا دل جلانے اور اپنی بڑائی ظاہر کرنے کو) تو کیا اس میں کوئی حرج ہے؟ رسول اللہ e نے فرمایا کہ: جو چیز حاصل نہ ہو اس پر فخر کرنے والا اس شخص جیسا ہے جو فریب کے دو جوڑے یعنی (دوسروں کے کپڑے) مانگ کر پہنے)([5]) (یا اپنے تئیں زاہد متقی یا عالم ظاہر کرے حالانکہ اصل میں وہ دنیا دار فریبی اور جاہل ہو)۔

    حافظ ابن حجر " فتح الباری 9/317-318 میں فرماتے ہیں : ‘‘الْمُتَشَبِّع’’ کا معنی ہے ایسی چیز سے اپنے آپ کو متزین ظاہر کرنا جو اس کے پاس نہیں تاکہ اس جھوٹی بناوٹ کے ذریعہ لوگوں پر بڑائی ثابت کرے۔ جیسا کہ یہ عورت جس کی سوکن بھی ہے تو اس نے محض اس کا دل جلانے کو جھوٹا دعوی کیا کہ اسے اپنے شوہر کی طرف سے بہت سہولیات وآسائش حاصل ہیں حالانکہ درحقیقت ایسا نہیں۔ اور یہی معاملہ مردوں کا بھی ہے۔

    امام نووی " فرماتے ہیں کہ: ‘‘الْمُتَشَبِّع’’وہ ہے جو ظاہر کرے کہ میں پیٹ بھرا عیش میں ہوں حالانکہ دراصل ایسا نہیں، اور یہاں اس کا معنی یہ ظاہر کرنا ہے کہ اسے خاص فضلیت حاصل ہے حالانکہ وہ اسے حاصل نہیں اور‘‘وَلابِسُ ثَوْبَي زُورٍ’ (جھوٹ کےدولبادے اوڑھنے ) کا مطلب ہے جھوٹ وفریب والا جو لوگوں کو اہل زہد، اہل علم یا اہل ثروت ہونے کا فریب پر مبنی تاثر دیتا ہے ، تاکہ لوگوں کو مغالطے میں رکھ سکے، حالانکہ درحقیقت وہ ان صفات سے متصف نہیں۔اور اس کے علاوہ بھی اس بارے میں اقوال ہیں، واللہ اعلم۔ (ریاض الصالحین والد محترم " کی تحقیق کے ساتھ ص 551 -552)

    اور قاضی عیاض " دوسری حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:‘‘مَنْ اِدَّعَى دَعْوَى كَاذِبَة لِيَتَكَثَّرَ بِهَا؛ لَمْ يَزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا قِلَّةً’’ (جو شخص جھوٹا دعوی کرے اپنا مال بڑھانے کے لئے تو اللہ تعالی اس کا مال اور کم کردے) یہ عام ہے ہر اس دعوی کے بارے میں جو کوئی شخص ایسی چیز کا حامل ہونے کا دعوی کرے جو اسے عطاء نہیں کی گئی خواہ وہ مال ہوجسے وہ بناوٹی زینت بناکر تکبر کرتا پھرے، یا وہ کوئی نسب ہو جس کی طرف وہ منسوب ہو حالانکہ اس نسل سے اس کا تعلق ہی نہیں، یا علم کے ذریعہ جس سے وہ اپنے آپ کو آراستہ ظاہر کرے حالانکہ وہ اس کا حامل نہیں، یا دین داری ظاہر کرے حالانکہ وہ اس کا اہل ہی نہیں، ان کے بارے میں نبی اکرم e نے فرمایا کہ ان کے اس دعوی میں برکت نہیں دی جائے گی اور یہ اس کی کمائی کو پاک نہیں کرے گی۔ اور اسی جیسی ایک اور حدیث ہے کہ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ‘‘الْيَمِينُ الْفَاجِرَةُ مَنْفَقَة لِلسِّلْعَةِ مَمْحَقَةٌ لِلْكَسْبِ’’([6]) (جھوٹی قسم مال تو بکوا دیتی ہے لیکن کمائی کو ختم کردیتی ہے) (إكمال المعلم 1/ 391)

    (والد محترم) علامہ محمد ناصر الدین البانی " فرماتے ہیں کہ: علماء کرام فرماتے ہیں: ‘‘من بركة العلم عزو كل قول إلى قائله’’ (علم میں برکت کے اسباب میں سے ہے کہ ہر قول کو اس کے حقیقی قائل کی جانب ہی منسوب کیا جائے) کیونکہ اسے اپنا کر اس جھوٹ سے بچا جاسکتا ہے جس کی جانب رسول اللہ e نے اپنی اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے: ‘‘الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ’’ (جو چیز حاصل نہ ہو اس پر فخر کرنے والا اس شخص جیساکہ جو فریب کے دو لبادے اوڑھے یعنی دوسروں سے مانگ کر پہنے اور کہے کہ یہ میرا ہے) اسی طرح شیخ البانی " نے علماء کرام کا کلام بنا ان علماء کا ذکر کئے نقل کرنے سے (تاکہ عوام میرا قول سمجھ کر واہ واہ کریں) منع کیا ہے اور فرمایا: بالکل، یہ بھی چوری ہی ہے جو شرعا ًجائز نہیں۔ کیونکہ وہ ایسی بات بیان کرکے فخر کررہا ہے کہ جو حقیقتاً اس کی نہیں۔ اس میں تدلیس اور لوگوں کو مغالطہ دینا بھی ہے کہ یہ کلام یا یہ تحقیق اس کی اپنی علم ودانش کے بل بوتے پر ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں۔ (مقدمہ "الکلم الطیب" ص 11-12)
    -------------------------------------------------------
    [1] مختلف علاقوں اور داعیان میں یہ بیماری عام ہے کہ بڑے علمی نکات بیان کرکر کے لوگوں کو حیران کرتے ہیں اور خوب داد تحسین وصول کرتے ہیں حالانکہ وہ کسی امام کے قول سے ماخوذ ہوتا ہے مگر ظاہر یہ کرتے ہیں گویا کہ یہ ان کی کاوش وعلم ہے اوربعض کو تو پوری کی پوری کسی عالم کی تقریر نقل کرتے دیکھا گیاہے مگر یہ نہیں بتاتے کہ یہ کس کا کلام ہے محض یہ تاثر دینے کے لئے کہ ہم کتنی علمی شخصیت ہیں اور کتنے بہترین علمی نکات تلاش کرتے ہیں! (ط ع)
    [2] صحیح بخاری 5219، صحیح مسلم 2132
    [3] حافظ ابن حجر " فتح الباری میں فرماتے ہیں یہاں تثنیہ (دو) کا صیغہ استعمال کرنے کے بارے میں کئی اقوال ہیں جیسے وہ دو جھوٹ جمع کرلیتا ہے ایک جھوٹ کے فلاں چیز اسے حاصل ہے حالانکہ ایسا نہیں تو اپنے نفس سے دھوکہ کیا اور دوسرا لوگوں پر ظاہر کرنا کہ اسے یہ حاصل ہے حالانکہ ایسا نہیں تو لوگوں کو دھوکہ دیا۔ اور اس کے علاوہ بھی کچھ اقوال بیان کئے گئے ہیں، دیکھیں صحیح بخاری میں اسی حدیث کی شرح۔ (ط ع)
    [4] صحیح مسلم 112
    [5] صحیح بخاری 5219، صحیح مسلم 5584
    [6] مسند احمد 7166 میں ‘الْيَمِينُ الْفَاجِرَةُ ’’ کی جگہ ‘‘الْيَمِينُ الْكَاذِبَةُ’’’ کے الفاظ ہیں۔شیخ البانی سلسلہ صحیحہ میں فرماتے ہیں اسکی اسناد امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے3363۔ (ط ع)
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 7
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    بہت مفيد نصيحت ،بہت عمدہ انتخاب ۔ جزاكم اللہ خيرا وبارك فيكم ۔طلبہ وطالبات كو يہ سنہرى نصيحت پلے باندھ لينى چاہیے۔
    100% درست !
     
  3. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    جزاکم اللہ خیرا۔
    بہت عمدہ شئرنگ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. اہل سلف

    اہل سلف -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اگست 7, 2011
    پیغامات:
    59
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  5. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    جزاکم ربي خيرا ونفع بكم
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  6. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا بھائ محمد عکاشہ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  7. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاکم اللہ خیرا۔
    بہت عمدہ شئرنگ۔
     
  8. ابن قاسم

    ابن قاسم محسن

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2011
    پیغامات:
    1,717
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  9. حراسنبل

    حراسنبل -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏فروری 24, 2011
    پیغامات:
    534
  10. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    السلام علیکم!۔
    جزاک اللہ خیرا۔۔۔ اللہ تعالٰی آپ کے علم میں برکت عطاء فرمائیں۔۔۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  11. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں