حسنِ خاتمہ اس کے وسائل وعلامات نیزسوء ِخاتمہ پر تنبیہ -

ابوبکرالسلفی نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏دسمبر 30, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]حسن الخاتمة
    ’’
    [FONT="Al_Mushaf"]وسائلها وعلاماتها والتحذير من سوء الخاتمة[/FONT]
    حسنِ خاتمہ
    اس کے وسائل وعلامات نیزسوء ِخاتمہ پر تنبیہ

    دکتور فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن محمد المطلق حفظہ اللہ


    ترجمہ
    خورشید احمد عبد الجلیل

    تصحیح، تعلیق وحوالہ جات
    طارق علی بروہی​


    تمہید

    تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کی رحمت ہرچیزکومحیط ہٍے اورجس نے ہرچیزکوشمارکررکھا ہے ۔اپنے بندوں میں سے جس پرچا ہا رحم فرمایا اوردنیا میں ان کیلئے وہ سامان مہیا کردئے جن کے ذریعہ آخرت میں ان کے درجات بلند ہوں۔توان لوگوں نے اس کی فرمانبرداری پرمداومت کی اوراس کی عبادت میں جدوجہد کی۔اگران کوخوشحالی پہنچی توشکریہ اداکیا جوان کیلئے بہترہوا۔اوراگران کوکوئی تکلیف پہنچی توصبرکیا اوران لوگوں کےزمرے میں آگئے جن کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾[/FONT]
    (سورة الزمر:10)
    (صبرکرنے والوں کوتو بے حساب اجردیا جاتا ہے )​

    اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمدﷺ اللہ کے بندے اوراسکے رسول ہیں جوسارے جہاں کیلئے رحمت بناکربھیجےگئے ۔اللہ تعالى آپ پراورآپ کے آل واصحاب پررحمت وسلامتی نازل فرمائے-امابعد:

    اس دنیا میں انسان کی عمرہی اسکا حصہ ہے ۔اگراس نے آخرت میں فائدہ دینے والے امورکے لئے عمرکا صحیح استعمال کیا تواپنی تجارت میں کامیاب ہے۔اوراگراس نے عمرکومعصیت اوربرے کاموں میں استعمال کیا اوراسی برے خاتمہ پراس نے اللہ سے ملاقات کی تووہ خائب وخاسر(ناکام ونامراد) ہے۔کتنی حسرتیں زمین کے نیچے دفن ہوگئیں !عقلمند وہی شخص ہے جواللہ کے محاسبہ کرنے سے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کرلے اورقبل اسکے کہ اسکے گناہ اس کی ہلاکت وبربادی کا سبب بنیں وہ اپنے گناہوں سے ڈرجائے ۔سیدنا ابن مسعود t نے فرمایا: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]الْمُؤْمِنُ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ[/FONT]’’([1]) (مومن اپنے گنا ہوں کوایسا سمجھتا ہے گویا کہ وہ کسی پہاڑکے نیچے بیٹھا ہو اورڈررہا ہوکہ وہ اس پرٹوٹ پڑے)

    کتنے لوگ ایسے ہیں جوکسی صغیرہ گناہ پرمصررہے یہاں تک کہ وہ اس سے مانوس ہوگئےاوروہ گناہ ان پرآسان ہوگیا۔کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ جس کی نافرمانی کررہے ہیں وہ ذات کتنی عظیم ہے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ یہی گناہ ان کے سوء خاتمہ کا سبب بنا ۔سیدنا انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]إِنَّكُمْ لَتَعْمَلُونَ أَعْمَالًا هِيَ أَدَقُّ فِي أَعْيُنِكُمْ مِنَ الشَّعَرِ، إِنْ كُنَّا لَنَعُدُّهَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ مِنَ الْمُوبِقَاتِ[/FONT]’’([2]) (تم لوگ بہت سے ایسے کام کرتے ہوجوتمہاری نگاہ میں بال سے زیادہ ہلکے ہیں۔لیکن رسول ﷺکے زمانہ میں ہم ان کوہلاک کردینے والےگناہ شمارکرتے تھے)۔اللہ تعالى نے اپنی کتاب قرآن مجید میں تمام مومنوں کوحسن خاتمہ کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا ہے ۔چنانچہ فرمایا:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ﴾[/FONT]
    (سورة آل عمران :102)
    (اے ایمان والو!اللہ تعالی سے ڈروجتنا اس سے ڈرنا چاہئے ۔اوردیکھومرتے دم تک مسلمان ہی رہنا)​

    اورفرمایا :

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ﴾[/FONT]
    (سورة الحجر:99)
    (اوراپنے رب کی عبادت کرتےرہویہاں تک کہ تم کوموت آجائے)​

    لہذا تقوی اورعبادت کا حکم موت آنے تک برقرارہے تاکہ بندہ حسن خاتمہ کی سعادت سےبہرہ مند ہو۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ فرمانبرداری کرتے اورگنا ہوں سے دوررہتے ہیں۔لیکن وفات سے کچھ پہلے گناہ اورمعصیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جوانکے برے خاتمہ کا سبب بن جاتا ہے۔اللہ کے نبی e نے فرمایا : ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٍ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا[/FONT]’’([3]) (بےشک آدمی جنتیوں والا عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اسکے اورجنت کے درمیان صرف ایک گزکا فاصلہ رہ جاتا ہے ۔پھرکتاب اس پرغالب آجاتی ہے اوروہ جہنمیوں کا عمل کرنے لگتا ہے اورجہنم میں داخل ہوجاتا ہے) سیدنا سہل بن سعد الساعدی ؓ کی حدیث میں وارد ہے کہ ایک مسلمان نے رسول ﷺ کے ساتھ کسی غزوہ میں بڑی بہادری دکھائی ۔صحابہ کرام کو اسکا کارنامہ بڑا اچھا لگا اوروہ کہہ پڑے کہ آج فلاں کی طرح ہم میں سے کسی نے دلیری نہیں دکھائی۔رسول ﷺ نے فرمایا :‘‘[FONT="Al_Mushaf"] أَمَا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ[/FONT]’’(لیکن سن لو!وہ جہنمی ہے)۔توبعض صحابہ نے کہا:اگروہ جہنمی ہے (یعنی اگر اس جیسا شخص بھی جہنمی ہے) توپھر ہم میں سے جنتی کون ہے؟ قوم میں سے ایک آدمی نے کہا :میں اسکے پیچھے جارہا ہوں اوردیکھتا ہوں کہ وہ کیا کرتا ہے ۔چنانچہ یہ صحابی اس کے پیچھے نکلے ۔وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ آدمی شدید زخمی ہوا اورمرنے کی جلد ی کی۔چنانچہ اس نے اپنی تلوارزمین پررکھی اوراسکی دھاراپنے سینہ پررکھ کراپنا پورا بوجھ اس پرڈال کراپنے آپ کوقتل کرڈالا۔یہ صحابی رسول ﷺ کےپاس واپس آئے اورکہا: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ[/FONT]’’ (میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں)۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:وہ کیا ؟کہا کہ: جس آدمی کے بارے میں آپ نے ابھی ابھی جہنمی فرمایا تھا اورلوگوں پریہ بات گراں گزری تومیں نے کہا کہ میں تم لوگوں کواسکی اطلاع دوں گا۔چنانچہ میں اسکی تلاش میں نکلا۔دیکھا وہ سخت زخمی تھا تواسنےمرنے میں جلدی کی ۔تلوارکے دستہ کوزمین پررکھا اوراسکی دھارکواپنے دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھ کر اس پراپنا پورا بوجھ ڈال کراپنے آپ کوقتل کرڈالا۔اس وقت اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ[/FONT]’’([4]) (آدمی لوگوں کی نگاہ میں جنتیوں والا کام کرتا ہے حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے،اورایک شخص لوگوں کی نگاہ میں جہنمیوں والا کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے) اوربعض روایات میں یہ اضافہ ہے:‘‘[FONT="Al_Mushaf"]إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ[/FONT]’’([5]) (اعمال کا دارومدارخاتمہ پرہے)۔

    اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے مؤمن بندوں کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ ان کے اندرایک ساتھ اللہ کا خوف اورحسن عمل دونوں پایا جاتا ہے۔چنانچہ فرمایا:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿إِنَّ الَّذِينَ هُم مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ وَالَّذِينَ هُم بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ أُوْلَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ﴾[/FONT]
    (المؤمنون:57-60)
    (یقیناً جولوگ اپنےرب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں ۔اورجواپنے رب کی آیتوں پرایمان رکھتےہیں۔ اورجواپنےرب کے ساتھ کسی کوشریک نہیں کرتے ۔اورجولوگ دیتے ہیں جوکچھ دیتے ہیں اوران کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنےوالے ہیں۔یہی لوگ ہیں جوجلدی جلدی بھلائیاں حاصل کررہے ہیں اوریہی ہیں جوان بھلائیوں کی طرف دوڑجانے والے ہیں)​

    صحابہ کرام ؓ کی یہی حالت تھی ۔امام احمدؒ نے ابوبکرصدیق ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا:‘‘[FONT="Al_Mushaf"]وَدِدْتُ أَنِّي شَعْرَةٌ فِي جَنْبِ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ[/FONT]’’([6]) (کاش کہ میں محض کسی مومن بندے کے پہلومیں ایک بال ہوتا)۔ آپ ؓ اپنی زبان کوپکڑکرکہتے تھے کہ ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]هَذَا الَّذِي أَوْرَدَنِي الْمَوَارِدَ[/FONT]’’([7]) (اسی نے مجھ کومختلف گھاٹ پراتاراہے)۔

    علی بن ابی طالب t دوچیزوں سے بہت زیادہ ڈرتے تھے :لمبی آرزو اورنفس کی پیروی فرمایا:‘‘ [FONT="Al_Mushaf"]فَأَمَّا طُولُ الأَمَلِ فَيُنْسِي الآخِرَةَ، وَأَمَّا اتِّبَاعُ الْهَوَى فَيَصُدُّ عَنِ الْحَقِّ[/FONT]’’([8]) (لمبی آرزو آخرت کوبھلادیتی ہے اورنفس کی پیروی حق سے روک دیتی ہے) اورفرمایا:‘‘ [FONT="Al_Mushaf"]ارْتَحَلَتِ الدُّنْيَا مُدْبِرَةً وَارْتَحَلَتِ الْآخِرَةُ مُقْبِلَةً وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بَنُونَ فَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الْآخِرَةِ وَلَا تَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْيَا، فَإِنَّ الْيَوْمَ عَمَلٌ وَلَا حِسَابَ، وَغَدًا حِسَابٌ وَلَا عَمَلٌ[/FONT]’’([9]) (دنیا پیٹھ پھیرکربھاگ رہی ہے اورآخرت تیزی کے ساتھ آگے بڑھی چلی آرہی ہے ۔اوران میں سے ہرایک کی اولاد ہیں۔توتم آخرت کی اولاد بنواوردنیا کی اولاد نہ بنو۔کیونکہ آج عمل کا موقع ہے اورحساب نہیں ۔اورکل حساب ہوگا عمل کا موقع نہیں)

    ناگہانی موت اسلام میں قابل مذمت ہے کیونکہ وہ انسان کواچانک اپنے چنگل میں لے لیتی ہے اوراسے مہلت نہیں دیتی ۔ اوربسا اوقات وہ معصیت میں گرفتارہوتا ہے تواسکا خاتمہ بھی معصیت پرہوتا ہے-

    سلف صالحین برے خاتمہ سےبہت زیادہ ڈرا کرتے تھے۔امام سہل تستریؒ فرماتے ہیں کہ: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]خوف الصديقين من سوء الخاتمة عند كل خطرة وعند كل حركة وهم الذين وصفهم الله تعالى إذ قال﴿وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ﴾[/FONT] (المؤمنون : 60)’’ (سچے لوگ ہرقدم پربرے خاتمہ سے ڈراکرتے ہیں۔ اوریہی وہ لوگ ہیں جن کی اللہ نے تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ان کے دل کپکپاتے ہیں )-

    اس لئے بندے کوچاہئے کہ ہرلمحہ سوء خاتمہ سے ڈرتا رہے کیونکہ خوف ہی عمل کا باعث ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]مَنْ خَافَ أَدْلَجَ وَمَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ، أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ غَالِيَةٌ، أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ الْجَنَّةُ[/FONT]’’([10]) (جوشخص ڈراوہ چلا اورجو چلاوہ منزل کوپہنچ گیا۔سن لو! اللہ کا سامان(آئیٹم) مہنگا ہے۔سن لو!اللہ کا سامان جنت ہے)

    جب آدمی کی وفات قریب ہوتواسے چاہئے کہ اب امید کا پہلو غالب رکھے اوراللہ کی ملاقات کا مشتاق ہوجائے۔کیونکہ جواللہ سے ملاقات کا خواہش مند ہو تواللہ بھی اس سے ملنے کا خواہش مند ہوگا۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا:‘‘[FONT="Al_Mushaf"] لَا يَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ[/FONT]’’([11]) (خبردار! دیکھنا تم میں سے کسی کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ عزوجل کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو)

    لیکن بہت سے جاہل مسلمان اللہ کی وسیع رحمت اوراسکی بخشش ومغفرت پربھروسہ کرکےبیٹھ گئے اورگناہوں میں بے لگام ہوگئے اوربرائیوں سے بازنہیں آئے۔بلکہ اللہ تعالى کی مذکورہ بالا صفات کوجان لینے کے بعد انہوں نے اسی کوگناہوں پرمصررہنے کا سب سے بڑا بہانہ بنا لیا۔حالانکہ یہ ایک کھلی غلطی اورمہلک استدلال ہے ۔کیونکہ اللہ تعالى جس طرح بخشنے والا،رحم کرنے والا ہے ۔اسی طرح سخت عذاب دینے والا ہے ۔جیسا کہ قرآن کریم میں بہت سی جگہوں میں اس نے اس بات کی صراحت کی ہے۔فرمایا:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَ أَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمَ ﴾[/FONT]
    (الحجر: 49-50)
    (میرے بندوں کوخبرکردوکہ میں بہت ہی بخشنے والا اوربڑاہی مہربان ہوں ۔اورساتھ ہی میرے عذاب بھی نہایت ہی دردناک ہیں)​

    اورفرمایا:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿حم تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ﴾[/FONT]
    (غافر: 1-3)
    (حم۔ اس کتاب کا نازل فرمانا اس اللہ کی طرف سے ہے جوغالب اوردانا ہے ۔گناہ بخشنے والا اورتوبہ قبول فرمانے والا ،سخت عذاب والا ہے)​

    امام معروف کرخی " کہتے ہیں کہ: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]رجاؤك لرحمة من لا تطيعه من الخذلان والحمق[/FONT]’’ (تمہارا اس ذات سے رحمت کی امید رکھناجس کی تم اطاعت نہ کرو رسوائی اورحماقت میں داخل ہے)-اوربعض علماء نے کہا ہے کہ: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]من قطع عضواً منك في الدنيا بسرقة ثلاثة دراهم لا تأمن أن تكون عقوبته في الآخرة على نحو هذا[/FONT]’’ (جس نے دنیا میں تین درہم کی چوری کے جرم میں تمہارے جسم کے ایک عضوکاٹنے کا حکم دیا اس سےتم مامون نہ رہو کہ آخرت کی سزا اسی جیسی ہوگی)

    ایک مسلمان کوچاہئے کہ لوگوں کے قرض اوران کے مظالم سے چھٹکارا حاصل کرلینے کا حریص ہو۔کیونکہ اگربندے کا اسکے بھائی کے پاس کچھ بھی باقی رہ جائے گاتووہ قیامت کے دن اس سے ضرورمطالبہ کرے گا۔اگراس کے پاس نیکیاں ہوں گی توان میں سے لے لیا جائیگا۔اوراگراسکے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی توقرض خواہ کی برائیاں لے کراس پرڈالدی جائیں گی۔رسول e نے فرمایا : ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ [/FONT]’’([12]) (مومن کی روح اسکے قرض کے ساتھ معلق ہوتی ہے یہاں تک کہ اسے اداکردیا جائے)-[/FONT]
     
  2. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    سوء خاتمہ کے اسباب


    اب ذیل میں ہم اختصارکے ساتھ سوء خاتمہ کے اسباب بیان کرتے ہیں:

    1۔توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرنا

    ہرمکلف پرواجب ہے کہ وہ ہرلمحہ اپنے تمام گناہوں سے اللہ تعالى سے توبہ کرے ۔اللہ کا ارشاد ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾​

    (سورة النور:31)
    (اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کروتاکہ فلاح پاؤ)​

    رسول اللہ eکے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دئے گئے تھے (یعنی آپ تو بخشےبخشائے تھے) لیکن اسکے باوجود آپ ایک دن میں سومرتبہ اللہ سے توبہ کرتے تھے ۔سیدنا اغرمزنی روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسو ل ﷺ نے فرمایا:

    ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]يَا أَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ، فَإِنِّي أَتُوبُ فِي الْيَوْمِ إِلَيْهِ مِائَةَ مَرَّةٍ[/FONT]’’([13])
    (اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو۔بے شک میں ایک دن میں سومرتبہ اللہ سے توبہ کرتا ہوں)​

    اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بیان فرمایا کہ:

    ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ[/FONT]’’([14])
    (گناہوں سےسچی توبہ کرنے والا شخص ایک بے گناہ کی طرح پاک ہوجاتا ہے)​

    جن حیلوں کے ذریعہ ابلیس لوگوں کے ساتھ کھلواڑ کرتا ہے ان میں سے ایک کامیاب ترین حیلہ یہ ہے کہ وہ توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرواتا ہے۔وہ گنہگارکووسوسہ دیتا ہے کہ وہ توبہ کرنے میں جلدی نہ کرے ۔کیونکہ اسکے سامنے ایک لمبا زمانہ ہے۔اگراسی وقت توبہ کرلی اورپھرگناہوں کی طرف لوٹ گئے تودوبارہ اسکی توبہ قبول نہیں ہوگی اوروہ جہنمی ہوجائے گا۔یااسکو یہ وسوسہ دلاتا ہے کہ جب وہ پچاس ساٹھ سال کی عمرکا ہوجائے توخالص توبہ کرلے۔مسجد کولازم پکڑلےاورنیک کام زیادہ سے زیادہ کرے۔لیکن ابھی وہ اپنی جوانی اورعمرکے حسین مرحلہ میں ہے۔لہذا وہ اپنے نفس کوآزاد رکھے۔اوراسی وقت سے اللہ تعالی کی اطاعت کا پابند ہوکرنفس کومشقت میں نہ ڈالے- چناچہ توبہ کے بارے میں ٹال مٹول کے سلسلہ میں یہ ابلیس کے بعض حربے ہیں۔

    بعض سلف صالحین کا قول ہے کہ: ‘[FONT="Al_Mushaf"]‘أنذركم سوف، فإنها أكبر جنود إبليس، ومثل المؤمن الحازم الذي يتوب إلى الله من كل ذنب وفي كل وقت خوفاً من سوء الخاتمة ومحبة لله. والمفرط المسوف الذي يؤخر توبته كمثل قوم في سفر دخلوا قرية فمضى الحازم فاشترى ما يصلح لتمام سفره وجلس متأهباً للرحيل. أما المفرط فإنه يقول: كل يوم سأتأهب غداً حتى أعلن أمير القافلة الرحيل ولا زاد معه، وهذا مثل للناس في الدنيا فإن المؤمن الحازم متى ما جاء الموت لم يندم أما العاصي المفرط فإنه يقول: رب ارجعون لعلي أعمل صالحاً فيما تركت…[/FONT]’’ ( میں تم کوٹال مٹول سے ڈراتا ہوں کیونکہ وہ ابلیس کا سب سے بڑا لشکرہے۔دانشمند مومن جواللہ کی محبت کی خاطراوربرے خاتمہ کے ڈرسے ہروقت گناہ سے توبہ کرتا ہے ۔اورحد سے بڑہ جانے والا،ٹال مٹول کرنے والا جواپنی توبہ کومؤخرکردیتا ہے۔ان دونوں کی مثال اس مسافرقوم کی سی ہے جوکسی بستی میں داخل ہوئی تودانش مند مومن نے جاکرمناسب زادراہ خریدا اورکوچ کرنے کی تیاری مکمل کرکے بیٹھ گیا۔لیکن حد سے بڑھ جانے والا دوسراشخص ہردن یہی کہتا رہا کہ میں کل تیاری کروں گا۔اسی اثناء میں امیرکارواں نے کوچ کرنے کا اعلان کردیا اوراسکے پاس کچھ بھی زادراہ نہیں-دنیا میں لوگوں کی یہی مثال ہے۔دانش مندمومن کی جب بھی موت آتی ہے تووہ نادم نہیں ہوتا۔مگرگنہگاراورعمل میں کوتاہی کرنے والا یہی کہتا ہے کہ:

    [FONT="Al_Mushaf"]
    ﴿رَبِّ ارْجِعُونِ . لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ...)​
    [/FONT]
    (المؤمنون: 99-100)
    (اے میرے رب !مجھے دنیا کی طرف واپس کردے تاکہ میں چھوڑے ہوئے نیک کام کرلوں۔۔۔))-​
    [/FONT]
     
  3. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    2-لمبی آرزو

    2-لمبی آرزو

    لمبی آرزو بہت سے لوگوں کی بدبختی کا سبب ہے۔شیطان جب کسی کوفریب ودھوکہ دینا چاہتا ہے تواس کے لئے یہ نقشہ پیش کرتا ہے کہ ابھی اسکے سامنے ایک لمبی عمراورایک لمبا عرصہ ہے۔جس میں وہ بڑی بڑی آرزوئیں کرتا ہے اوراس لمبے زمانے کوگزارنے اوران آرزؤں کی تکمیل کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کردیتا ہے اورآخرت کوبھول جاتا ہے ۔موت کویا د نہیں کرتا ۔اوراگرکسی دن موت کویاد کرلیتا ہے تواس سے تنگ دل ہوجاتا ہے ۔کیونکہ موت کی یاد اسکی لذتوں کواوراسکی خوش عیشی کومکدر(بدمزہ) کردیتی ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس سے سختی کے ساتھ متنبہ کیا ہے ۔فرمایا:

    ‘‘[font="al_mushaf"]إن أشد ما أخاف عليكم خصلتان: اتباع الهوى وطول الأمل، فأما اتباع الهوى فإنه يصد عن الحق، وأما طول الأمل فإنه الحب للدنيا​
    ’’([15])
    (دوخصلتیں ایسی ہیں جن سے میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ڈرتا ہوں :خواہشات کی پیروی اورلمبی آرزو۔خواہشات کی پیروی حق سے روک دیتی ہے اورلمبی آرزووہ تودنیا کی محبت ہے)​

    انسان جب آخرت سے زیادہ دنیا سے محبت کرتا ہے تواسے آخرت پربھی ترجیح دیتا ہے ۔اسکی زینت وخوبصورتی اوراسکی لذتوں میں پھنس جاتا ہے اوراللہ کی جواررحمت جنت میں اللہ کے انعام یافتہ بندوں : انبیاء وصدیقین اورشہداء وصالحین کے ساتھ رہنے کیلئے آخرت میں اپنا ٹھکانہ نہیں بناتا-

    لمبی آرزو نہ کرنے کے آثاریہ ہیں کہ بندہ نیک اعمال کی طرف سبقت کرے اورعمرکے اوقات کوغنیمت جانے ۔کیونکہ سانسیں محدودہیں اوردن متعین ہیں۔اورجوکچھ گزرجاتا ہے وہ ہرگزواپس نہیں آسکتا ۔
    اورراستے پرحق سے روکنے والی بے شمارمشکلات ہیں جنہیں رسول ﷺ نے بیان فرمایا ہے۔ارشاد ہے:

    ‘‘[font="al_mushaf"]بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ سَبْعًا هَلْ تَنْتَظِرُونَ إِلَّا فَقْرًا مُنْسِيًا، أَوْ غِنًى مُطْغِيًا، أَوْ مَرَضًا مُفْسِدًا، أَوْ هَرَمًا مُفَنِّدًا، أَوْ مَوْتًا مُجْهِزًا، أَوِ الدَّجَّالَ فَشَرُّ غَائِبٍ يُنْتَظَرُ، أَوِ السَّاعَةَ فَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ[/font]’’([16])

    (سات چیزوں کے آنے سے پہلے اعمال کی جلدی کرو: کیا تم بھلا دینے والے فقر کا اتنظار کرتے ہو یا سرکش کر دینے والی امیری،فاسد کر دینے والی بیماری، مخبوط الحو اس کر دینے والے بڑھاپے ،جلد رخصت کرنے والی موت کے منتظر ہو یا دجال جو ان چیزوں میں جو اب تک غائب ہیں سب سے برا ہے جس کا اتنظار کیا جاتا ہے یا قیامت کے منتظر ہو اور قیامت تو بہت ہی سخت اور کڑوی ہے )۔​

    سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے دونوں کندھوں کوپکڑا اورفرمایا:

    ‘‘[font="al_mushaf"]كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ، أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ[/font]’’
    (دنیا میں اس طرح رہوگویاکہ تم ایک اجنبی ہویا مسافر)​

    اور سیدنا ابن عمرﷺ فرمایا کرتے تھے کہ:

    ‘‘[font="al_mushaf"]إِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ[/font]’’([17])

    (جب تم شام کرلو توصبح کا انتظارنہ کرو اورجب صبح کرلوتو شام کا انتظارنہ کرو اوراپنی صحت کے زمانہ میں اپنی بیماری کے لئے سامان تیارکرلو اوراپنی زندگی میں موت کے لئے)​

    رسول اللہ ﷺ نے مومنوں کی ان چیزوں کی طرف رہنمائی کی ہےجوان سے لمبی آرزؤں کودوراوردنیا کی حقیقت سے آگاہ کردیں۔ چنانچہ آپ نے یہ حکم دیا کہ موت کویاد کریں ۔قبروں کی زیارت کریں ۔مردوں کوغسل دیں۔جنازہ کے ساتھ چلیں۔مریضوں کی عیادت کریں اورصالحین سے ملاقات کیلئے جائیں۔کیونکہ یہ ساری چیزیں دل کوغفلت سے بیدارکرتی ہیں اورپیش آنے والی حقیقت سے آگاہ کردیتی ہیں۔تودل بھی اسکے لئے تیاری کرلیتا ہے۔ذیل میں ہم مذکورہ بالا امورکی مختصروضاحت کرتے ہیں-

    1- موت کی یاد:
    موت کی یاد انسان کودنیا سے بے رغبت اورآخرت کا خواہش مند بنادیتی ہے ۔اسے نیک اعمال کے بارے میں پوری جدوجہد کرنے پرابھارتی اوردارفانی کے اندرحرام خواہشات کی طرف مائل ہونے سے روکتی ہے۔سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:

    ‘‘[font="al_mushaf"]أَكْثِرُوا مِنْ ذِكْرِ هَادِمِ اللَّذَّاتِ[/font]’’([18])
    (لذتوں کومنہدم کرنے والی (موت) کوکثرت سے یاد کرو)​

    سیدنا ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی نے سوال کیا کہ:

    ‘‘[font="al_mushaf"]من أكيس الناس وأكرم الناس يا رسول الله؟ فقال صلى الله عليه وسلم: أكثرهم للموت ذكراً وأشدهم استعداداً له أولئك هم الأكياس ذهبوا بشرف الدنيا وكرامة الآخرة[/font]’’([19])
    ( اے اللہ کے رسول ﷺ! لوگوں میں سب سے زیادہ دانااورعزت والے کون ہیں؟ تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: موت کوسب سے زیادہ یادکرنے اوراسکے لئے سب سے زیادہ تیاری کرنے والے ۔یہی سب سے زیادہ دانش مند لوگ ہیں جودنیاوی شرف وفضیلت اورآخرت کی بھلائی وکرامت سے بہرہ مند ہوئے)​

    پھرانسان مردوں (فوت شدگان) کے بارے میں سوچے ۔کیا وہ مضبوط جسم والے اورمال کے مالک نہیں تھے۔حکم دیتے اورمنع کرتے تھے ۔لیکن آج کیڑے ان کے جسم پرمسلط ہوکران کوبوسیدہ اوران کی ہڈیوں کوریزہ ریزہ کرچکے ہیں؟ پھروہ سوچے کہ کیا وہ موت سے بچ جائے گا یا اسے بھی عنقریب وہیں جانا ہے جہاں وہ لوگ جا چکے ہیں؟ پھروہ اس منزل کے لئے تیاری کرے اوراعمال صالحہ کا توشہ جمع کرلے ۔کیونکہ یہی آخرت میں کام آنے والا سکہ ہے-

    2- قبروں کی زیارت:
    رہی قبروں کی زیارت تویہ دلوں کیلئے ایک مؤثرنصیحت ہے کیونکہ انسان تاریک اوراندھیرے گڑھوں کودیکھتا ہے اوراس آخری مرحلہ کودیکھتا ہے کہ اس مردے کوایک تنگ لحد میں داخل کرنے اورکچی اینٹوں سے اس کوبندکرنے کے بعد مردے کے اعزاء واقرباء اس پرمٹی ڈال دیتے ہیں ۔پھرواپس ہوکراسکامال تقسیم کرلیتے ہیں اوراسکی ذاتی چیزوں کے مالک ہوجاتے ہیں۔اسکی عورتوں کی دوسروں سے شادی ہوجاتی ہے اورمعمولی مدت کے بعد اسے بھلا دیا جاتا ہے۔حالانکہ زندگی میں وہ گھرمیں با اثرشخص تھا۔حکم دیتا توفرمانبرداری کی جاتی اورکسی چیزسے روکتا تو کسی میں نافرمانی کی جرأت نہیں ہوتی تھی-
    جب مومن قبرستان کی زیارت کرتا ہے اوراس سلسلے میں غوروفکرکرتا ہے تووہ نبی اکرم ﷺ کے اس ارشاد کا فائدہ جان لیتا ہے:

    ‘‘[font="al_mushaf"]زُورُوا الْقُبُورَ فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الْمَوْتَ[/font]’’([20])
    (قبروں کی زیارت کرتے رہو۔کیونکہ وہ موت کویاد دلاتی ہے)​

    3- مردوں کوغسل دینا اورجنازہ کے ساتھ چلنا:
    نہلائے جانے والے تخت پرمیت کے جسم کوالٹنے پلٹنے میں مؤثرنصیحت ہے ۔جب وہ اپنی زندگی اورطاقت کی حالت میں تھا کوئی شخص اسکو الٹنے پلٹنے اوربغیراسکی اجازت کے اسکے قریب ہونے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔بسا اوقات وہ بڑی ہیبت اوررعب ودبدبہ کا مالک رہا ہوگا۔لیکن وہ موت کے بعد ایک پڑا ہوا جسم ہے جس میں کوئی حرکت نہیں۔غسل دینے والا جیسے چاہتا ہے الٹ پلٹ کرتا ہے-

    امام مکحول دمشقیؒ جب کوئی جنازہ دیکھتے توفرماتے کہ: ‘‘[font="al_mushaf"]اغدوا فإنا رائحون موعظة بليغة وغفلة سريعة يذهب الأول والآخر لا عقل له[/font]’’ ( تم چلو ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں ۔کتنی ہی مؤثرنصیحت ہے لیکن (لوگوں کی) کتنی بڑی غفلت ہے کہ اگلا جا رہا ہے لیکن پچھلے شخص کو سمجھ نہیں آرہی ہے(یعنی وہ عقل نہیں پکڑ رہا کہ آخرت کا سامان کرے))۔

    سیدنا عثمان ؓ جب کسی جنازے کے ساتھ جاتے توقبرکے پاس کھڑے ہوتے اورروپڑتے۔ آپ سے کہا گیا کہ جنت وجہنم کا تذکرہ کرتے ہیں تونہیں روتے اورجب قبرکے پاس کھڑے ہوتے ہیں توروپڑتے ہیں ۔فرمایا:میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا ہے کہ:

    ‘‘[font="al_mushaf"]إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ، فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ[/font]’’([21])
    (قبرآخرت کی پہلی منزل ہے ۔قبرمیں جانے والا اگراس سے نجات پاگیا تواسکے بعد کے مراحل اورآسان ہوں گے۔اوراگراس سے نجات نہیں پاسکا تواسکے بعد کے مراحل اورسخت ہوں گے)​

    4- صالحین سے ملاقات:
    صالحین سے ملاقات دلوں کوبیدارکرتی اورعزم وہمت پیداکرتی ہے ۔کیونکہ ملاقات کرنے والا صالحین کودیکھتا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت وبندگی میں بڑی جدوجہد کرتے ہیں۔ انکا مقصد صرف اللہ کی رضا مندی اورجنت کا حصول ہے۔ دنیا کے پیچھے پڑنے اوردنیاوی امورمیں مشغول ہونے سے اعراض کرتے ہیں۔ کیونکہ دنیا اس عظیم راستہ پرچلنے سے مانع ہے۔ اوراللہ تعالى نے اپنے نبی ﷺ کویہ رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ اپنے آپ کو صالح بندوں کے ساتھ رکھا کریں ۔ارشاد ہے:

    [font="al_mushaf"]﴿وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا﴾[/font]
    (سورة الكهف : 28)
    (اوراپنے آپ کوانہیں کے ساتھ رکھا کرجواپنے رب کوصبح وشام پکارتے ہیں اوراسی کے چہرے کا ارادہ رکھتے (رضامندی چاہتے ) ہیں ۔خبردار! آپ کی نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں کہ دنیوی زندگی کے ٹھا ٹھ کے ارادے میں لگ جائیں ۔اوراسکا کہنا نہ مانیں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکرسے غافل کردیا ہے اورجواپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اورجسکا کام حد سے گزرچکا ہے)​

    سیدنا حسن ؓ سے کہا گیا کہ: ‘‘[font="al_mushaf"]يا أبا سعيد كيف نصنع أنجالس أقواماً يخوفوننا حتى تكاد قلوبنا تطير؟ فقال: والله إنك إن تخالط أقواماً يخوفونك حتى يدركك أمن خير لك من أن تصحب أقواماً يؤمنونك حتى يدركك خوف[/font]’’ ( اے ابوسعید! ہم کیا کریں؟ کیا ایسی قوموں کے پاس بیٹھیں جوہم کوخوف دلاتے رہیں یہاں تک کہ خوف کے مارے دل اڑنے لگیں ؟ فرمایا:اللہ کی قسم ! اگرتم ایسی قوم کے ساتھ اٹھوبیٹھو جوتمہیں خوف دلاتے رہیں یہاں تک کہ تمہیں امن حاصل ہوجائے۔ تووہ تمہارے لئے اس سے بہترہے کہ تم ایسی قوم کے ساتھ رہو جو تم کو اطمینان دلاتے رہیں یہاں تک کہ تمہیں خوف لاحق ہوجائے)-[/font]
     
  4. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    3-معصیت سے محبت اوراسکا عادی ہوجانا

    3-معصیت سے محبت اوراسکا عادی ہوجانا

    جب انسان کسی گناہ سے مانوس ہوجائے اوراس سے توبہ نہ کرے توشیطان اسی گناہ کے ذریعہ اسکے دل پرقابض ہوجاتا ہے ۔اورخود یہ گناہ اسکی زندگی کے آخری لمحہ تک اسکی فکرپرغالب رہتا ہے ۔اسی لئے جب اسکے قرابت داراسکوکلمئہ شہادت کی تلقین کرتے ہیں تاکہ کلمہ لا الہ الا اللہ اسکا آخری کلام ہو۔ تویہی گناہ اسکی فکرپرغالب آجاتا ہے ۔پھروہ شخص ایسی بات بولتا ہے جس سے اسکے معصیت میں مبتلا ہونے کا پتہ چلتا ہے ۔ ذیل میں ہم چند واقعات درج کرتے ہیں :

    ایک آدمی بازارمیں دلالی کاکا م کرتا تھا۔جب اسکی وفات کا وقت آیا تواسکے لڑکوں نے اسکو کلمہ شہادت کی تلقین کی ۔وہ لوگ اس سے کہتے کہ لا الہ الا اللہ پڑھو۔تووہ کہتا ساڑھے چار۔ساڑھے چار-اورایک دوسرے آدمی سے وفات کے وقت کہا گیا کہ لا الہ الا اللہ پڑھو۔تواس نے یہ شعرپڑھا:

    [font="al_mushaf"]يارب قائلة يوما وقد تعبت
    کيف الطريق إلى حمام منجاب​

    (اے وہ (لڑکی) جو تھکی ہاری تھی اور کہہ رہی تھی کہ حمام منجاب کا راستہ کدھر کو ہے؟)([22])

    اسی طرح سے ایک دوسرے شخص کووفات کے وقت لا الہ الا اللہ کی تلقین کی گئی تووہ گانا گانے لگا-

    بسا اوقات انسان کی موت نافرمانی کی حالت میں آپہنچتی ہے تووہ اللہ کو غصہ دلانے والی اسی حالت میں اللہ سے ملاقات کرتا ہے ۔نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    ‘‘[font="al_mushaf"]مَنْ مَاتَ عَلَى شَيْءٍ بَعَثَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ[/font]’’([23])
    (جوشخص جس حالت پرمرے گا اللہ تعالى اسے اسی حالت پراٹھائے گا)​
    [/font]
     
  5. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    4-خودکشی

    4-خودکشی

    مسلمان کوجب کوئی مصیبت پہنچتی ہے اوروہ صبرواحتساب (ثواب کی امید) سے کام لیتا ہے تویہ مصیبت اسکے لئے باعث اجرہوتی ہے۔لیکن اگروہ جزع وفزع کرتا ہے اوریہ سمجھتا ہے کہ ان امراض ومشاکل سے چھٹکارا حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ خودکشی کرلے۔ تواسنے گناہ کوترجیح دی۔ اللہ کے غضب کی طرف جلدی کی اوراپنے نفس کوناحق قتل کیا-

    امام بخاری نے سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

    ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]الَّذِي يَخْنُقُ نَفْسَهُ يَخْنُقُهَا فِي النَّارِ، وَالَّذِي يَطْعُنُهَا يَطْعُنُهَا فِي النَّارِ​
    ’’([24])
    (جوشخص اپنا گلا گھونٹ کرمرے گا توجہنم میں بھی گلا گھونٹتا رہے گا ۔اورجوشخص اپنے آپ کونیزہ مارکرہلاک کرے گا توجہنم میں بھی نیزہ مارتا رہے گا)-​

    نیزبخاری ومسلم میں سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ خیبرکی لڑائی میں ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔آپ ﷺ نے اس شخص کے بارے میں ۔ جواسلام کا دعوى کررہا تھا۔فرمایا کہ وہ جہنمی ہے۔جب لڑائی ہوئی تواس شخص نے زوردارلڑائی کی یہاں تک کہ زخمی ہوگیا ۔تواس شخص کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! جس کے بارےمیں آپ نے ابھی ابھی جہنمی کہا تھا آج کے دن زبردست لڑائی کی یہاں تک کہ مرگیا ۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: وہ جہنمی ہے ۔قریب تھا کہ بعض مسلمان شک کرنے لگیں۔اسی درمیان اس شخص کے بارے میں معلوم ہواکہ ابھی مرا نہیں ہے لیکن بہت زیادہ زخمی ہے ۔جب رات ہوئی توزخموں کی تاب نہ لا کراس نے خود کشی کرلی۔ نبی اکرم ﷺ کواسکی خبردی گئی توآپ نے فرمایا:

    ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ أَمَرَ بِلَالًا فَنَادَى بِالنَّاسِ إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ[/FONT]’’([25])
    (اللہ اکبر!میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً میں اللہ کا بندہ اوراسکا رسول ہوں ۔پھرآپ نے سیدنا بلال t کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کردیں کہ جنت میں صرف مسلم نفس ہی داخل ہوگا۔لیکن اللہ تعالى اس دین کوفاجرشخص کے ذریعہ بھی تقویت دیتا ہے)​
    [/FONT]
     
  6. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    1-مرتے وقت بندے کا کلمہ توحید پڑھنا

    حسن خاتمہ کی علامات

    نبی کریم ﷺ نے ان بشارتوں کوواضح فرمادیا ہے جواچھے خاتمہ پردلالت کرتی ہیں ۔بندے کی وفات جب ان میں سے کسی حالت پرہوتووہ ایک اچھا فال اوربہترین خوشخبری ہوگی-

    1-مرتے وقت بندے کا کلمہ توحید پڑھنا

    مستدرک حاکم میں سیدنا معاذبن جبل ؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

    ‘‘[font="al_mushaf"]مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ​
    ’’([26])
    (جس کا آخری کلام لا إلہ الا اللہ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں) ہوتووہ جنت میں داخل ہوگا)۔​
    [/font]
     
  7. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    2- اللہ کے کلمہ کی سربلندی کیلئے شہادت کی موت

    2- اللہ کے کلمہ کی سربلندی کیلئے شہادت کی موت

    اللہ تعالى کا ارشاد ہے:

    [font="al_mushaf"]﴿وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ​

    (سورة آل عمران :169-171)
    (جولوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہیں ان کوہرگزمردہ نہ سمجھیں ۔بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالى نے اپنا فضل جوانہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں۔ اورخوشیاں منارہے ہیں ان لوگوں کی بابت جواب تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں۔اس پرکہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ غمگین ہوں گے۔وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اورفضل سے ۔اوراس سے بھی کہ اللہ تعالى ایمان والوں کے اجرکوبرباد نہیں کرتا)​
    [/font]
     
  8. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    3-غزوہ کرتے ہوئے یا حج میں احرام کی حالت میں مرنا

    3-غزوہ کرتے ہوئے یا حج میں احرام کی حالت میں مرنا

    نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

    ‘‘[font="al_mushaf"]مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ
    ’’([27])
    (جواللہ کے راستہ میں قتل کیا گیا وہ شہید ہے ۔اورجواللہ کے راستہ میں مرگیا وہ بھی شہید ہے)۔​

    نیزرسول اللہ ﷺ نے اس محرم (احرام والے حاجی) کے بارے میں فرمایا جسے اس کی اونٹنی نے گراکرمارڈالا تھا:

    ‘‘[font="al_mushaf"]اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ، وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ وَلَا وَجْهَهُ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا[/font]’’([28])
    (اسے پانی اوربیرکے پتے سے غسل دواوراسکے دونوں کپڑوں ہی میں کفن دو اوراسکے سرکونہ ڈھکو اور نہ ہی چہرے کو،کیونکہ قیامت کے دن وہ تلبیہ پکارتا ہوا اٹھے گا)​
    [/font]
     
  9. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    4-مرنے والے کا آخری عمل اللہ کی اطاعت ہو

    4-مرنے والے کا آخری عمل اللہ کی اطاعت ہو

    سیدنا حذیفہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

    ‘‘[font="al_mushaf"]مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ خُتِمَ لَهُ بِهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ صَامَ يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ خُتِمَ لَهُ بِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ خُتِمَ لَهُ بِهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ​
    ’’([29])
    (جس نے اللہ کےچہرے کی چاہت میں اور اس کی رضامندی چاہتے ہوئے لا الہ الا اللہ کہا اوراسی پراسکا خاتمہ ہوا تووہ جنت میں داخل ہوا۔ اور جس نے اللہ کےچہرے کی چاہت میں اور اس کی رضامندی چاہتے ہوئے کسی دن روزہ رکھا اوراسی پراسکا خاتمہ ہوا تووہ جنت میں داخل ہوا۔اور جس نے اللہ کےچہرے کی چاہت میں اور اس کی رضامندی چاہتے ہوئے کوئی صدقہ کیا اوراسی پراسکا خاتمہ ہواتووہ جنت میں داخل ہوا)​
    [/font]
     
  10. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    5-ضروریاتِ خمسہ کے دفاع میں مرنا

    5-ضروریاتِ خمسہ کے دفاع میں مرنا

    ضروریات خمسہ یعنی دین ۔نفس ۔مال۔آبرواورعقل کے دفاع میں مرنا جن کی خودشریعت اسلامیہ نے حفاظت کی ہے۔یہ بھی حسن خاتمہ کی ایک علامت ہے ۔چنانچہ سیدنا سعید بن زید ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

    ‘‘[font="al_mushaf"]مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ​
    ’’([30])
    (جواپنے مال کی حفاظت میں قتل ہوا وہ شہید ہے ۔جواپنے اہل کی حفاظت میں قتل ہوا وہ شہید ہے۔جواپنے دین کی حفاظت میں قتل ہوا وہ شہید ہے اورجواپنی جان کی حفاظت میں قتل ہوا وہ شہید ہے)​
    [/font]
     
  11. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    6- کسی وبائی مرض میں صبرکرتے ہوئے اورثواب کی امید رکھتے ہوئے مرنا

    6- کسی وبائی مرض میں صبرکرتے ہوئے اورثواب کی امید رکھتے ہوئے مرنا

    نبی اکرم ؓ نے بعض وبائی بیماریوں کی وضاحت فرمائی ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

    1-طاعون:
    سیدنا انس t سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

    ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]الطَّاعُونُ شَهَادَةٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ​
    ’’([31])
    (طاعون کی بیماری میں مرنا ہرمسلمان کے لئے شہادت ہے)​

    2- سل(ٹی بی):
    سیدنا راشدبن حبیش ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نےفرمایا:

    ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]قَتْلُ الْمُسْلِمِ شَهَادَةٌ، وَالطَّاعُونُ شَهَادَةٌ، وَالْمَرْأَةُ يَقْتُلُهَا وَلَدُهَا جَمْعًا، وَالسُّلُّ شَهَادَةٌ[/FONT]’’([32])
    (مسلمان کا قتل ہوجانا شہادت ہے ۔طاعون کی بیماری میں مرنا شہادت ہے ۔عورت کازچکی کی حالت میں مرجانا شہادت ہے اورسل (ٹی بی) کی بیماری میں مرنا شہادت ہے)​

    3- پیٹ کی بیماری:
    سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

    ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]وَمَنْ مَاتَ فِي الْبَطْنِ فَهُوَ شَهِيدٌ[/FONT]’’([33])
    (پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے)​

    4- ذات الجنب (پھيپھڑے کی جھلی کا ورم):
    جابربن عتیک ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

    ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيدٌ[/FONT]’’([34])
    (ذات الجنب کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے)​
    [/FONT]
     
  12. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    7-عورت کا بچہ کی وجہ سے نفاس کی حالت میں مرنا

    7-عورت کا بچہ کی وجہ سے نفاس کی حالت میں مرنا

    سیدنا عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

    ‘‘[font="al_mushaf"]وَالْمَرْأَةُ يَقْتُلُهَا وَلَدُهَا جَمْعَاءَ شَهَادَةٌ يَجُرُّهَا وَلَدُهَا بِسُرَرِهِ إِلَى الْجَنَّةِ​
    ’’([35])
    (عورت جوزچگی کی حالت میں بچہ کی وجہ سے مرجائے وہ شہید ہے ۔اسکا بچہ اپنے ناف کے ذریعہ اسے جنت میں لے جائے گا)​
    [/font]
     
  13. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    8-ڈوب کر،جل کراوردب کرمرنا

    8-ڈوب کر،جل کراوردب کرمرنا

    سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

    ‘‘[font="al_mushaf"]الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِيقُ وَصَاحِبُ الْهَدْمِ وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ​
    ’’([36])
    (شہداء پانچ ہیں : طاعون کی بیماری میں مرنے والا۔پیٹ کی بیماری میں مرنے والا۔ڈوب کرمرنے والا۔دب کرمرنے والااوراللہ کے راستہ میں شہادت پانے والا)​

    اورسیدنا جابربن عتیک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

    ‘‘[font="al_mushaf"]الشُّهَدَاءُ سَبْعَةٌ سِوَى الْقَتْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، الْمَطْعُونُ شَهِيدٌ، وَالْغَرِقُ شَهِيدٌ، وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيدٌ، وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ، وَالْحَرِقُ شَهِيدٌ، وَالَّذِي يَمُوتُ تَحْتَ الْهَدْمِ شَهِيدٌ، وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدٌ[/font]’’([37])
    (اللہ کے راستہ میں شہید ہونے والے کے علاوہ شہیدکی سات قسمیں ہیں: طاعون کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے ۔ڈوب کرمرنے والا شہید ہے۔ذات الجنب (پھيپھڑوں کی جھلی کے ورم) کی بیماری میں مرنے والا شہیدہے۔پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے۔جل کرمرنے والا شہید ہے۔دب کرمرنے والا شہید ہے اورحالت زچکی میں مرنے والی عورت شہید ہے)​
    [/font]
     
  14. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    9-جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن مرنا

    9-جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن مرنا

    سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

    ‘‘[font="al_mushaf"]مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ​
    ’’([38])
    (جس مسلمان کی موت جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں ہواللہ تعالى اسکوقبرکےفتنے سے بچالے گا)​
    [/font]
     
  15. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    10-موت کے وقت پیشانی کا عرق ریزہونا

    10-موت کے وقت پیشانی کا عرق ریزہونا

    جناب بریدہ عن سیدنا الحصیب ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

    ‘‘[font="al_mushaf"]الْمُؤْمِنُ يَمُوتُ بِعَرَقِ الْجَبِينِ​
    ’’([39])
    (موت کے وقت مومن کی پیشانی عرق ریزہوتی ہے)-​
    [/font]
     
  16. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    حسن خاتمہ کے اسباب ووسائل

    حسن خاتمہ کے اسباب ووسائل

    اس ملاقات کے اخیرمیں ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم ان وسائل کا مختصراً ذکرکردیں جن کواللہ نے حسن خاتمہ کا سبب قراردیا ہے:

    1‌- ظاہروپوشیدہ ہرحال میں اللہ سے ڈرنا اور نبی کریم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کومضبوطی سے پکڑنا

    کیونکہ یہی نجات وکامیابی کی را ہ ہے ۔اللہ تعالى نے فرمایا:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ﴾​

    (سورة آل عمران:102)
    (اے ایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئے اوردیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا)​

    اوریہ کہ بندہ گناہوں سے انتہائی دوررہے ۔کیونکہ کبیرہ گناہ ہلاک کردینے والے ہیں ۔اورصغیرہ گناہ پراصرارومداومت انہیں کبیرہ بنادیتی ہے۔ اورچھوٹے چھوٹے صغیرہ گناہ زیادہ ہوجائیں اوران سے توبہ واستغفارنہ کیا جائے توان سے دل زنگ آلود ہوجاتا ہے ۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :

    ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]إِيَّاكُمْ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ، كَقَوْمٍ نَزَلُوا فِي بَطْنِ وَادٍ، فَجَاءَ ذَا بِعُودٍ، وَجَاءَ ذَا بِعُودٍ، حَتَّى أَنْضَجُوا خُبْزَتَهُمْ، وَإِنَّ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ مَتَى يُؤْخَذْ بِهَا صَاحِبُهَا تُهْلِكْهُ[/FONT]’’([40])
    (چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچتے رہو۔ ان کی مثال اس قوم کی ہے جنہوں نے کسی وادی میں پڑاؤڈالا۔توایک شخص ایک تنکا لایا اوردوسرا شخص دوسراتنکا۔یہاں تک کہ انہوں نے اپنی روٹی پکالی۔ اورچھوٹے چھوٹے گناہوں پراگربندے کا مؤاخذہ ہوجائے تویہ اسے ہلاک کردیں گے)-​

    2‌- اللہ کے ذکرپرمداومت

    جوشخص اللہ کے ذکرپرمداومت کرے اوراپنے سارے اعمال اللہ کے ذکرپرختم کرے اوردنیا میں اسکا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو۔تواسے نبی کریم ﷺ کی یہ بشارت حاصل ہوجائے گی:

    ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ[/FONT]’’([41])
    (جس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہووہ جنت میں داخل ہوگا)​

    اورسعید بن منصورسے روایت ہے وہ سیدنا حسن t سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے افضل عمل کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

    ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]أَنْ تَمُوتَ يَوْمَ تَمُوتُ وَلِسَانُكَ رَطْبٌ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ تَعَالَى[/FONT]’’([42])
    (جب تمہاری موت آئے توتمہاری زبان اللہ تعالى کے ذکرسے ترہو)-​

    اے اللہ! ہمارا بہترین عمل آخری عمل بنا۔اوربہترین دن تیری ملاقات کا دن ہو۔ اورہمیں اپنے انعام یافتہ بندوں کے ساتھ اپنی جنت اورجواررحمت میں جگہ دے۔آمین-

    [FONT="Al_Mushaf"]وصلی الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه-[/FONT]​
    [/FONT]
     
  17. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    حاشیہ

    حاشیہ


    [1] صحیح بخاری 6308، صحیح ترمذی 2497

    [2] صحیح بخاری 6492، سلسلۃ الصحیحۃ 3023

    [3] صحیح بخاری 3332، 6594

    [4] بخاری 2898، مسلم 115

    [5]بخاری 6607، ابن حبان 340، مستخرج ابو عوانہ 140، مسند الشھاب 1167، المعجم الکبیر 1707، مسند احمد 22327

    [6] کتاب الزھد للامام احمد بن حنبل 250

    [7] شعب الایمان 4722، البحر الزخار بمسند البزار 84

    [8] امام احمد بن حنبل نے فضائل الصحابۃ 881 اور الزھد 377 میں روایت کی۔ الزھد للوکیع بن الجراح 191

    [9] بخاری 6416

    [10] الترمذی 2450، المستدرک 7920، شعب الایمان 10576

    [11] مسلم 2880

    [12] ابن ماجہ 2413، المستدرک 2/27

    [13] صحیح مسلم 2704

    [14] ابن ماجہ 4250 اور اس کی سند حسن ہے۔

    [15] اسے ابن ابی الدنیا نے ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ طول الأمل (3) کے الفاظ یہ ہیں: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]إِنَّ أَشَدَّ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَيْكُمْ خَصْلَتَيْنِ: اتِّبَاعَ الْهَوَى، وَطُولَ الْأَمَلِ. فَأَمَّا اتِّبَاعُ الْهَوَى فَإِنَّهُ يَعْدِلُ عَنِ الْحَقِّ، وَأَمَّا طُولُ الْأَمَلِ فَالْحُبُّ لِلدُّنْيَا
    ’’ (تقریبا ًوہی ترجمہ ہے جو اوپر بیان ہوا) اور (49) میں سیدنا علی بن ابی طالب t تک موقوف روایت کے الفاظ یہ ہیں: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ اثْنَتَانِ: اتِّبَاعُ الْهَوَى، وَطُولُ الْأَمَلِ، فَأَمَّا اتِّبَاعُ الْهَوَى: فَيَصُدُّ عَنِ الْحَقِّ، وَأَمَّا طُولُ الْأَمَلِ: فَيُنْسِي الْآخِرَةَ[/FONT]’’ (اس کا بھی تقریباً وہی ترجمہ ہے سوائے پہلی روایات کے آخر میں دنیا کی محبت کا ذکر ہے اور اس میں آخرت کو فراموش کرنے کا ذکر ہے)

    [16] ترمذی 2306 اور کہا کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

    [17] صحیح بخاری 6416

    [18] ابن ماجہ 4258، ترمذی 2409 اور کہا کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

    [19] اسے ابن ماجہ نے 4259 میں ضعیف سند کے ساتھ مختصراً روایت کیا ہے۔ مندرجہ بالا الفاظ معمولی فرق کے ساتھ المعجم الکبیر للطبرانی 87 میں ہے کہ : ‘[FONT="Al_Mushaf"]‘يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَنْ أَكْيَسُ النَّاسِ وَأَحْزَمُ النَّاسِ؟، فَقَالَ: أَكْثَرَهُمْ ذِكْرًا لِلْمَوْتِ، وَأَشَدُّهُمُ اسْتِعْدَادًا لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُولِ الْمَوْتِ، أُولَئِكَ هُمُ الأَكْيَاسُ ذَهَبُوا بِشَرَفِ الدُّنْيَا وَكَرَامَةِ الآخِرَةِ[/FONT]’’ (اے اللہ کے نبی ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ دانا اور محتاط انسان کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: موت کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا اور اس کے آنے سے قبل سب سے زیادہ اس کی تیاری کرنے والا، یہی لوگ دانا وسمجھدار ہیں کہ جو دنیا کی شرفمندی اور آخرت کی کرامت کو حاصل کر گئے) جبکہ ابن ماجہ 4259کے الفاظ یہ ہیں: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَفْضَلُ؟ قَالَ: أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، قَالَ: فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَكْيَسُ؟ قَالَ: أَكْثَرُهُمْ لِلْمَوْتِ ذِكْرًا، وَأَحْسَنُهُمْ لِمَا بَعْدَهُ اسْتِعْدَادًا، أُولَئِكَ الْأَكْيَاسُ[/FONT]’’ (اے اللہ کے رسول ﷺ مومنین میں سے کون سب سے افضل ہے؟ فرمایا: جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔ پھر پوچھا کہ: مومنین میں سب سے دانا وسمجھدار کون ہے؟ فرمایا: موت کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا اور اس موت کے بعد جو ہونے والا ہے اس کی سب سے خوب تیاری کرنے والا، یہی لوگ دانا وسمجھدار ہیں)۔

    [20] صحیح مسلم 979

    [21] اسے احمد، ترمذی، ابن ماجہ 4267 اور حاکم نے روایت کیا، ترمذی نے حسن اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔

    [22] یہ اس قصے کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر حافظ ابن القیم " نے اپنی مشہور کتاب "الجواب الکافی لمن سأل عن الدواء الشافی" اردو ترجمہ "دوائے شافی" ص 402 ط دارالبلاغ میں کیا ہے کہ: "عبدالحق الاشبیلی کہتے ہیں کہ ابو طاہر السلفی نے مجھ سے یہ قصہ بیان کیا۔۔۔ حمام منجاب کا قصہ ایک عجیب وغریب قصہ ہے۔ ایک شخص اپنے گھر کے دروازے کے باہر کھڑا تھا۔ اس کے گھر کا دروازہ ایسا ہی تھا جیسا حمام منجاب کا۔ اس وقت ایک لڑکی وہاں سے گزری اور اس نے اس سے پوچھا: حمام منجاب کا راستہ کدھر ہے؟ اس نے کہا حمام منجاب یہی ہے۔ یہ لڑکی اس گھر میں گھس پڑی، پیچھے پیچھے یہ بھی پہنچ گیا۔ لڑکی نے اندر جاکر دیکھا کہ یہ حمام منجاب نہیں ہے بلکہ اس شخص کا گھر ہے۔ اور اس نے اس کے ساتھ دھوکا کیا ہے(برائی کی نیت سے)۔ فوراً اس نے اسے جھانسا دینے کی کوشش شروع کردی۔ خوشی ومسرت کا نہایت گرمجوشی سے اظہار کیا اور کہنے لگی: ہم دونوں بڑے خوش نصیب ہیں کہ اس طرح یہاں جمع ہوگئے۔ اور پھر اس نے اسے دھوکہ دے کر بھاگ نکلنے کی تدبیر نکالی۔ کہنے لگی: موقع تو خوب ملا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس وقت ہماری مسرتوں میں اضافہ کرنے والی چیزیں بھی موجود ہوتیں۔ اس نے کہا: اچھا جو کچھ تم کہو ابھی مہیاکردیتا کردوں۔ یہ کہہ کر اسے تنہا مکان میں چھوڑا اور بازار کی طرف دوڑا۔ جاتے ہوئے دروازے کو کنڈی اور تالا بھی لگانا بھول گیا۔ جب وہ بازار سے واپس لوٹا تو دیکھا لڑکی غائب! بغیر کسی قسم کی خیانت کے وہ لڑکی بھاگ نکلی اور اپنی عصمت کو نہایت خوبصورتی سے بچالے گئی۔ یہ دیکھ کر اس شخص پر سکتہ طاری ہوگیا اور اب وہ اسی کی یاد میں سارا وقت گزارنے لگا۔ راستوں اور بازاروں میں گلی کوچوں میں گھومتا اور یہ شعر پڑھتا رہتا:
    [FONT="Al_Mushaf"]یارب قائلۃ یوما وقد تعبت
    این الطریق الی حمام منجاب[/FONT]
    (اے وہ (لڑکی) جو تھکی ہاری تھی اور کہہ رہی تھی کہ حمام منجاب کا راستہ کدھر کو ہے؟)​
    ایک مرتبہ وہ یہی شعر پڑھ رہا تھا کہ اس کی ایک باندی نے قریب کی کھڑکی سے یہ شعر پڑھا:
    [FONT="Al_Mushaf"]ھلا جعلت سریعا اذظفرت بھا
    حرزا علی الدار ار قفلا علی الباب[/FONT]
    (جب تو اسے قابو کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا تھا تو تو نے اسے جلد سے جلد گھر میں محفوظ کیوں نہیں کرلیا اور دروازے پر تالا کیوں نہ چڑھا دیا؟)​
    باندی کے اس شعر نے اس کے اندر رنج وغم اور صدمہ کی آگ بھڑکا دی اور اس کے اندر ایک ہیجانی کیفیت پیدا کردی۔ اور وہ بالکل پاگل سا ہوگیا۔ ہر طرف دیوانہ وار گھومتا پھرتا۔ اور آخری نتیجہ یہ نکلا کہ موت کے وقت اس کے منہ سے جو الفاظ بار بار نکلتے رہے وہ یہی شعر تھا۔

    [23] اسے حاکم نے روایت کیا ہے اور مسلم کی شرط پر اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

    [24] صحیح بخاری 1365

    [25] صحیح بخاری 6/125، مسلم 111۔

    [26] ابو داود 3116، حاکم 1/351، اسے حاکم نے صحیح کہا اور ذہبی نے موافقت کی ہے۔

    [27] اسے مسلم 1918 اور احمد نے روایت کیا ہے۔

    [28] صحیح مسلم 1206

    [29] اسے احمد نے روایت کیا 5/391

    [30] ابو داود 4772، ترمذی 1418 اور 1421

    [31] صحیح بخاری 10/156-157

    [32] مسند احمد 3/289

    [33] صحیح مسلم 1915

    [34] یہ حدیث آگے چل کر مکمل آرہی ہے۔

    [35] مسند احمد 4/201 اور 5/323

    [36] ترمذی 1063 اسی طرح کی روایت مسلم نے 1915 میں کی ہے۔

    [37] اسے احمد، ابوداود، نسائی اور حاکم نے روایت کی اور کہا حاکم نے کہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

    [38] مسند احمد 2/176 اور ترمذی 1080 اور کہا ترمذی نے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد متصل نہیں۔

    [39] ترمذی 982، نسائی 6/4 اور اس کی سند حسن ہے۔

    [40] مسند احمد 5/331

    [41] ابو داود 3116، حاکم1/351، حاکم نے صحیح کہا اور ذہبی نے موافقت کی۔

    [42] المغنی لابن قدامہ 2/450[/FONT]
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  18. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    جزاك اللہ خیرا استاذ
     
  19. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    جزاک اللہ خیرا۔
     
  20. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
    آمین
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں