اہل رائے پر اہل حدیث کی فضلیت - امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ

ابوبکرالسلفی نے 'تاریخ اسلام / اسلامی واقعات' میں ‏جنوری 9, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    اہل رائے پر اہل حدیث کی فضلیت

    امام حافظ ابو بکر احمد بن علی بن ثابت المعروف علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ

    الشیخ الامام الحافظ ابو بکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب بغدادی ؒفرماتے ہیں :

    تعریف و توصیف ،تسبیح و تحمید اور تکبیر تہلیل کے لائق وہی ذات بے ھمتا ہے جس نے اپنی برگزیدہ اور اشرف و اعلیٰ مخلوق انسان کے لئے اسلام کو بطور دین و ضابطہ حیات پسند فرمایا اور اپنی مخلوق میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ، پاک طینت، خوش خصال اور تابندہ سیرت افراد(رسولوں) کی معرفت اس ابدی اور سرمدی دستور العمل کو بھیجا اور ہمیں ان کی شریعت و ملت کا پابند اور اپنے نبی آخر الزماں ﷺ کے حریم ناز سے مدافعت کرنے والا اور پاسبان بنایا۔ آپ کی سنتوں کا عامل اور آپ کی سیرت طیبہ کا والہ وشید ا بنایا۔

    ہم مولیٰ کریم کی ایسی ثناء و مدحت کرتے ہیں جس کے وہ لائق ہے۔ ہم اسی سے بھلائی، خیر اور نیکی کی توفیق طلب کرتے ہیں ،ہم اس کے فضل فراواں کے لئے اسی کی طرف رغبت کرتے ہیں۔

    خداوند قدوس اپنے رسولوں کے ختم کرنے والے، ہمارے سردار و ہادی، تمام انبیاء سے افضل و ارفع اور تمام مخلوق سے بہتر و برتر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجے نیز آپ کے بہترین اور بزرگ صحابہ اور قیامت تک آنے والی ہر اس سعید روح کو جو بھلائی کی طالب اور عامل ہو۔

    حمد و صلوة کے بعد! اللہ عزوجل سے استدعا ہے کہ ہمیں بھلائیوں اور امور خیر کی توفیق دے مزید یہ کہ ہم سب کو بدعتوں اور شک و شبہ کے خارزاروں سے بچائے۔ آپ نے جو ذکر کیا ہے مبتدعین نہ صرف سنت و احادیث کے پابند لوگوں پر عیب گیری اور حرف جوئی کرتے ہیں بلکہ حدیث کے پڑھنے اور یاد کرنے والوں پر بھی طعنہ زنی اور سب و شتم کرتے ہیں اور جو کچھ وہ پاک نفس و پاک نہاد ،سچے ائمہ سے صحیح طورپر نقل کرتے ہیں اس کی تکذیب کرتے ہیں ۔اور ملحدین کی بے سروپاباتیں اور متشککین کے لچر پوچ اعتراضات لے کر حق والوں کا مذاق اڑاتے ہیں، جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھی استہزا کرتا ہے اور انہیں ان کی گمراہی میں مزید بڑھاتا ہے اور وہ اس امھال کی بنا پر سرکش اور خود سر ہوتے جاتے ہیں۔

    آپ خوب جان لیں کہ خواہش کے بندوں، سفلی جذبات کے اسیرو غلام اور وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی سیدھی راہ سے بہکا دیا ہے ان کا یہ کام اور ان سے اس قسم کا رویہ کوئی تعجب خیز امر نہیں ،ان کی ذلت و نکبت تو اسی سے ظاہر ہے کہ انہیں بطور دلیل نہ تو قرآن مجید پڑھنا نصیب ہے اور نہ ہی حدیث رسول ۔بلکہ انہوں نے دین میں اپنی رائے اور قیاس کو دخل دیدیا۔

    ان کے نو عمر ہزلیات میں پڑ گئے اور عمر رسیدہ بکواس اور حجت بازی میں مشغول ہوگئے۔

    ان لوگوں نے اپنے دین کو جھگڑوں اور بکھیڑوں کی آماجگاہ بنا لیا اور بوالفضولیوں میں پڑگئے ۔ان لوگوں نے اپنی جانوں کو ہلاکت کے گڑھوں اور شیطان کے پھندوں میں ڈال دیا۔ شک و ریب سے حق ان کی زندگیوں اورمحفلوں سے اٹھ گیا اور ان کی کتابوں سے نا پید ہوگیا ان کی یہ بیماری لا علاج مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے ۔اور نوبت بایں جارسید کہ احادیث کی کتابیں اگر ان کے سامنے پیش کی جائیں تو انہیں ایک طرف ڈال دیتے ہیں اور بن دیکھے منہ پھیر کر بھاگنے لگتے ہیں۔

    اور احادیث کے اوپر عمل کرنے والوں اور انہیں روایت کرنے والوں سے مذاق کرتے ہیں اس سارے کھکھیڑے سے مقصود محض دین حق کی دشمنی اور مسلمانوں کے عالی مقام اماموں پر طعن و تشنیع کرنا ہے اور کچھ نہیں۔

    لطف کی بات تو یہ ہے کہ اس قماش کے لوگ عوام میں بیٹھ کر بڑے فخر سے ڈینگ مارتے ہیں کہ ہماری تو عمر علم کلام میں گزری۔ اپنے سوا یہ باقی تمام لوگوں کو گمراہ جانتے ہیں۔ان کا خیال یہ ہے کہ نجات کے بس وہی حقدار ہیں۔۔۔اور کوئی نہیں، وہ اپنے تیئں عدل و توحید والے جانتے ہیں حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو ان کی توحید شرک و الحاد سے اٹی پڑی ہے انہوں نے رب الارباب کے بہت سے شریک اس کی مخلوق میں سے بنا لئے ہیں۔

    ان کے عدل کو بھی اگر جانچا جائے تو وہ یہ ہے کہ یہ لوگ کتاب و سنت کے صحیح اور اقوم راستے سے ہٹ کر سنت رسولﷺ کے مضبوط احکام کے خلاف ہوگئے ہیں۔

    آپ نے اکثر و بیشتر دیکھا ہوگا کہ ایسے علم کےمحتاجوں کو جب کبھی کسی مسئلہ کی ضرورت پڑتی ہے ،تو کسی فقہ کے جاننے والے کی طرف لپکتے ہیں، اسی سے مسئلہ دریافت کرتے ہیں، اسی کے قول پر عمل کا دارومدار رکھتے ہیں، اور اسی کی تبلیغ و تشریح میں عمریں کھپا دیتے ہیں ،اور پورے مقلد ہوجاتے ہیں حالانکہ بزعم خود مدعیان تحقیق و اجتہاد ہیں۔۔۔۔ مگر ان اقوال کو چمٹ جاتے ہیں بس ادھر فتوی صادر ہوا ادھر ان کا عمل شروع ہوا۔

    حالانکہ بہت ممکن ہے اس فتویٰ میں خطا ہو ،اس میں غور و خوض کی مزید گنجائش ہو، ہم دیدہ دانستہ اس سینہ زوری کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہیں تقلید کو حرام جان کر پھر بھی آخر کیوں حلال کرلی جاتی ہے؟۔نہ معلوم ایک گناہ کبیرہ کو جانتے بوجھتے پھر اسے کس طرح آسانی سے کرنے لگ جاتے ہیں؟ سچ تو یہ کہ جو چیز دنیا و آخرت میں کوئی نفع نہ دے سکے اسے پھینک دینا اور احکام شریعت پر کار بند ہوجانا ہی زیادہ انسب اور افضل ہے۔

    ہمیں امام دارالھجرة امام مالک رحمہ اللہ کا یہ فرمان با سند پہنچا ہے کہ وہ اس حجت بازی کو نا پسند کرتے تھے اور فرمایا کرتے کہ ایک زبان آور، شاطر اور بڑ بولا شخص آج ہمارے پاس آیا، ہم نے اس کی مانی ،کل دوسر آٹپکے گا، جو اس سے زیادہ تیز زبان اور شاطر ہوگا۔ ہم اس کے پیچھے ہو لئے تو پھر جبرئیل ؑ جو وحی لے کر جناب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے وہ تو سب کچھ رد ہو جائے گا۔

    امام ابو یوسف ؒفرماتے ہیں:‘‘بزرگوں کا مشہور مقولہ ہے کہ دین اسلام کو جو شخص علم کلام میں ڈھونڈے وہ بے دین ہے، جو عجیب و غریب حدیثوں کے پیچھے پڑ جائے وہ جھوٹا ہے اور جو کیمیا سے مال تلاش کرے وہ مفلس و قلاش ہوگا’’۔

    امام سفیان ثوری ؒنے تین مرتبہ فرمایا:
    ‘‘دین صرف اور صرف احادیث رسول میں ہے، رائے اور قیاس میں نہیں۔ ’’

    فضل بن زیاد نے جناب امام مالک ؒسے کرابیسی اور اس کے خیالات کی بابت دریافت کیا تو آپ نے ناراض ہو کر فرمایا کہ یہ جو دفتر کے دفتر ان لوگوں نے رائے قیاس کے لکھ لئے ہیں انہیں سے دین پر بلا آئی ہے، انہیں کتابوں میں پڑ کر لوگوں نے احادیث رسول کو چھوڑ دیا ہے۔

    جناب امام مالک ؒکا قول ہے کہ جناب رسول اکرم ﷺ اور آپ کے خلفاء کے طریقوں کو مضبوطی سے تھامنا ہی اللہ عزوجل کی کتاب کی تصدیق ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کے دین کی تصدیق ہے۔ سنت پر عمل کرنے والا شخص راہ یاب ہے، ھدیہ مصطفیٰ کو سینہ سے لگانے والا اور اس سے چمٹ جانے والا انسان ہی غالب اور کامران ہے۔ سنتوں سے کنارہ کشی اور پہلو تہی کرنے والا آدمی مسلمانوں کی راہ سے ہٹا ہوا، اور شرور و فتن میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔

    امام اوزاعی ؒفرماتے ہیں :لوگو! بزرگان سلف سے جو احادیث منقول اور مروی ہیں انہی پر عمل کرنے والے بنو اگرچہ لوگ تمہیں تنہا چھوڑ دیں۔لوگوں کی رائے اور قیاس کی تابعداری سے بچو اگرچہ وہ اپنی باتوں کو خوب بناؤ سنگھار اور ملمع کر کے پیش کریں ،اگر ایسا کرو گے تو آخر دم تک سیدھی راہ پر قائم رہو گے۔

    امام یزید بن ذریع ؒفرماتے ہیں کہ رائے قیاس کرنے والے اور اس پر چلنے والے لوگ سنتِ رسول ﷺ اور حدیث پیغمبرﷺ کے دشمن ہیں۔

    امام خطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر یہ رائے قیاس جیسی مذموم چیز کے متوالے اور شیدا، اپنے آپ کو ان علوم کی طلب و تحصیل میں مشغول کرتے جو فیض بخش اور منفعت رساں تھے ،تو کیا ہی اچھا ہوتا۔۔۔۔ یہ لوگ اگر اپنے دامن طلب میں رسول رب العالمین کی احادیث کے لعل و یواقیت بھر لیتے تو کیا ہی خوب ہوتا۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ اگر صرف فقہاء امت اور محدثین عظام کے آثار کو ہی اپنے ماتھے کا جھومر اور مانگ کا سیندور بنانے پر قانع ہو جاتے تو کیا ہی بہتر ہوتا۔۔۔۔۔ اور یہ دیکھتے کہ انہیں کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہ رہتی حدیثیں انہیں رائے اور قیاس سے بے نیاز کر دیتیں ۔

    اس لئے کہ علم حدیث میں اصول توحید ،نوید ہائے آخرت، وعید عذاب ،رب العالمین کی جملہ صفات ،جنت و دوزخ کا ذکر، ابرار و پاکیزہ خصال لوگوں کے روح پرور تذکرہ، برے اور بد باطن افراد کا بھیانک اور عبرتناک انجام، آسمان و زمین کے عجائبات مالک الملک کی عجیب کاریگری کا بیان، ملائکہ مقربین کا ذکر جمیل،صف باندھ کر عبادت کرنے والے تسبیح و تقدیس کے خوگر فرشتوں کا بیان، انبیاء و رسل کے پر بہار اور سبق آموز واقعاتے ،زاہدوں، شب زندہ داروں اور اولیاء اللہ کا ذکر حسن، بہترین، جامع اور عمدہ پند و نصائح، سمجھ بوجھ اور دانش و بینش رکھنے والے بزرگوں کا کلام، شاہان عرب و عجم کی سوانح، امم گزشتہ کے قصے رسول ا للہ ﷺکے واقعات جہاد و جنگ، آپ ﷺ کے احکام، فیصلے ،وعظ اور خطبے ،آپ کی نبوت کی نشانیاں اور معجزے ،آپ کی ازواج، اولاد رشتہ داروں اور اصحاب کے احوال ،ان کے فضائل و مناقب ،اخبار، قصص نسب، عمریں، قرآن کریم کی تفسیر ، اخبار مستقبلہ، صحابہ کرام کے احکام اسلامی میں محفوظ فیصلے ،ائمہ کرام اور فقہاء مجتہدین میں سے کون کون کس کس قول کی طرف مائل ہے، وغیرہ تمام باتیں موجود ہیں۔

    اللہ تعالیٰ نے اہل حدیث کو شریعت کے ارکان بتائے ہیں۔ انہیں کے ہاتھوں ہر بدعت کا ستیاناس ہوتا ہے۔ اللہ کی مخلوق میں یہ اللہ کے امین ہیں۔ نبی ﷺاور آپ کی امت کے درمیان واسطہ ہیں۔ یہ قدسی خصال لوگ اللہ کے دین کے حفظ اور یاد کرنے میں پورا انہماک اور کامل کوشش و لگن کرنے والے ہیں ،ان کے چہرے روشن ہیں ، ان کے فضائل مشہور ہیں ،ان کی نشانیاں ظاہر و عیاں ہیں، ان کا مذہب پاک اور ان کی دلیلیں پختہ ہیں ،ہر فرقہ کسی نہ کسی خواہش کی تابعداری میں پڑا ہوا ہے یا کسی نہ کسی کی رائے قیاس کو اچھا جان کر اس پرجم گیا ہے مگر اہل حدیث کی جماعت ہے کہ ان کا ہتھیار صرف کتاب اللہ ہے اور ان کی دلیل فقط حدیث رسول اللہﷺہے۔ ان کے امام و مقتدا صرف اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور ان کی نسبت بھی صرف رسول اقدس ﷺکی طرف ہے(یعنی محمدی)۔

    وہ خواہشوں کے پیچھے نہیں پڑتے، رائے قیاس کی طرف التفات نہیں کرتے، وہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں کو روایت کرنے والے ،ان کی زبانوں پر فرامین نبوی ﷺ ہر وقت رواں دواں رہتے ہیں ،وہ گفتار پیغمبر کے امین اور نگہبان ہیں، یہ دین کے محافظ اور اس کے خزانچی ہیں۔ یہ صحیح اور ٹھوس علم والے، علم کے حد درجہ شائق اور متوالے ،ان کے سینے علم سے معمور اور اس علم پر نازاں و مسرور ۔

    جس حدیث میں اختلاف ہو اس کا فیصلہ وہی کریں گے ،انہی کا حکم سنا اور مانا جائے گا۔ بصیرت افروز علماء، بلند پایہ فقہاء، کامل زاہد، پورے فاضل، زبردست قاری، بہترین خطیب ،دیگر علوم کے ماہر یہی ہیں۔‘‘سواد اعظم’’ انہی کو کہا جاتا ہے ،انہی کی راہ سیدھی اور مستقیم ہے بدعتیوں کو رسوا اور ذلیل کرنے والے یہی ہیں ،ان کے مخالف اپنے عقائد کے اظہار پر بھی قادر نہیں ہیں۔ان کے ساتھ دشمنی اور فریب کرنے والوں کو اللہ نیچا دکھائے گا اور ذلیل و رسوا کرے گا۔

    ان کو گزند پہنچانے والے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔انہیں چھوڑنے والے ہر گز فلاح نہیں پا سکتے ،ہر وہ شخص جو اپنے دین کا بچاؤ چاہتا اور حفاظت و صیانت کا متمنی ہے وہ ان کے ارشاد کا محتاج ہے ۔ان کی طرف بری نگاہ سے دیکھنے والوں کی بینائی ضعیف ہے۔

    اورمولیٰ کریم ان کی مدد پر قادر ہے۔
    جناب رسول اللہ ﷺ کا فرمان حق ترجمان ہےکہ ‘‘میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی، اللہ ان کا حامی و ناصر ہوگا، ان کے بدخواہ اور دشمن انہیں ضرر نہ پہنچا سکیں گے تا آنکہ قیامت آجائے۔ ’’

    امام علی بن مدینی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح رقم طراز ہیں کہ اس طائفہ سے مراد جماعت اہل حدیث ہے، جو لوگ رسول اللہ ﷺ کا دین حقیقی صورت مانتے ہیں اور آپ کے علم کی حفاظت کرتے ہیں ،اگر یہ نہ ہوتے تو ہم باطل پرست معتزلہ، رافضی، جہمیہ، مرجئہ اور رائے قیاس والوں کے سامنے کوئی حدیث پیش نہ کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ منصور جماعت دین کی نگہبان اور پاسبان بنائی ہے، اس جماعت نے دشمنان دین اور اعدائے سنت کے دانٹ کھٹے اور ان کے ہتھکنڈے بے اثر کر دیئے ہیں، اس لئے کہ وہ شرع متین اور اسوہ پیمبر کو مضبوط تھامنے والے حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعیناور تابعین ؒکی روش پر قائم ہیں۔ ان کا کام یہی ہے کہ حدیثوں کو حفظ کریں اور ان کی تلاش میں خشکی ،تری، جنگل اور پہاڑ چھان ماریں ،نہ کسی کی رائے قیاس کو دل میں وقعت دیں ،نہ ہی کسی کی نفسانی خواہشوں کی پیروی کریں۔
    یہی وہ جماعت ہے جس نے سنت رسول ﷺکو زبانی بھی یاد کیا اور عمل بھی اسی پر رکھا۔ انہوں نے اگر دل میں کسی کو بسایا ہے تو وہ حدیث رسول ﷺ ہے، اور نقل بھی اسی کو کیا ہے ۔کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کر دکھایا ہے، حقیقتاً یہ انہی لوگوں کا حصہ تھا اور یہی اس کے اہل تھے ۔ بہت سے ملحدوں اور سازشیوں نے ہر چند چاہا کہ اللہ کا دین خلط ملط کر دیں اور دین کو مشکوک کر دکھائیں مگر اس پاک جماعت کی وجہ سے ان کی کچھ نہ چل سکی، انہوں نے ان کا سارا تارو پود کھول دیا، دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا۔

    ارکان دین کے محافظ امور دین پر قائم یہی لوگ ہیں۔ جب کبھی موقع آجائے یہ حدیث رسول ﷺکے بچاؤ کے لئے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لے کر باہر نکل آتے ہیں، یہی لوگ الہی لشکر ہیں اور بالیقین یہ الہی لشکر ہی فلاح پائے گا۔

    ایک دوسری حدیث میں کچھ الفاظ مزید بھی مذکور ہیں ‘‘کہ اس علم حدیث کو ہر بعد والے زمانے میں عادل لوگ لیں گے ،جو زیادتی کرنےوالوں کی زیادتی، باطل پرستوں کی حیلہ جوئی اور جاہلوں کی معنی سازی اس سے دور کرتے رہیں گے۔’’

    عظیم محدث امام احمد بن سنان فرماتے ہیں‘‘مجھے ایک شخص نے اپنا خواب یوں بیان کیا ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو دو جماعتوں کے درمیان تشریف فرما دیکھا، ایک حلقہ میں جبل استقامت، محبوب المؤمنین عظیم محدث امام احمد بن حنبل aموجود ہیں اور دوسرے میں ابن ابی داؤد۔

    جب کہ نبی ﷺ قرآن مجید کی آیت﴿ فَاِنْ يَّكْفُرْ بِهَا هٰٓؤُلَا﴾ (اگر یہ لوگ اس کے ساتھ کفر کریں ) پڑھتے ہیں اور آپ ﷺ ابن ابی داؤد اور اس کے رفقاء کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو اہل الرائے تھے۔ پھر پڑھتے ہیں:﴿فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوْا بِهَا بِكٰفِرِيْنَ﴾(ہم نے ایک ایسی قوم بھی اس کی طرف دار بنائی ہے جو اس کے ساتھ کبھی کفر نہیں کر سکتی)۔ اور آپ اشارہ کرتے ہیں جناب امام احمدبن حنبل aاور ان کے ساتھیوں کی طرف (جو اہل حدیث ہیں)۔

    امام خطیب کا فرمان ہے کہ امام ابو محمد عبداللہ بن مسلم قتیبہ نے اپنی تصنیف‘‘کتاب تاویل مختلف الحدیث’’ میں بدعتی گروہ کے ان اعتراضات کو جو وہ اہل حدیث پر کرتے ہیں جمع کر کے مسکت اور دندان شکن جواب دیے ہیں ۔اگر ایک شخص نیک نیتی اور طلب صادق سے ان کو پڑھ لے۔ مزید یہ کہ اسے مولیٰ کریم کی طرف سے توفیق بھی مل جائے تو ان شاء اللہ ان کا پڑھنا از حد مفید رہے گا۔

    اب میں بھی اپنی کتاب میں ان شاء اللہ بیان کروں گا کہ نبی ﷺ نے کس طرح لوگوں کو اپنی حدیثیں پہنچانے کا حکم فرمایا اور کیسی کیسی رغبتیں انہیں دلائی ہیں ،نیز یہ کہ آپ کی احادیث نقل کرنے کی کیا کیا فضیلتیں ہیں۔

    پھر میں اس بارے میں صحابہ و تابعین اور علماء دین سے بھی جو کچھ وارد ہے اسے بیان کروں گا جس سے اہل حدیث کے فضائل و محامد ان کے درجات و مناقب اور ان کی بزرگیاں معلوم ہوں گی۔

    اللہ عزوجل سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں ان طالع ارجمند، نیک بخت و پاک نہاد اور برگزیدہ افراد کی محبت کی وجہ سے نفع دے اور انہی کے طریقہ پر زندہ رکھے اور اسی پر مارے، نیز انہیں کے ساتھ حشر فرمائے۔
    ‘‘وہ خبر رکھنے والا، جاننے والا اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔’’

    (ماخوذ مقدمہ شرف اصحاب الحدیث)


     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    جزاک اللہ خیرا.
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. عدیل سلفی

    عدیل سلفی رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2014
    پیغامات:
    30
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں