رسولوں پر ایمان کے تقاضے اور فوائد

ابوبکرالسلفی نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏جنوری 21, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    رسولوں پر ایمان کے تقاضے اور فوائد

    شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ

    جو تبلیغ کے لئے بھیجا جائے اس کو‘‘رسول’’اور ‘‘پیغمبر’’ کہتے ہیں۔

    یہاں وہ شخص مراد ہے جس پر وحی کے ذریعہ کوئی شریعت نازل کی گئی ہو اور اسے اس کی تبلیغ کا حکم دیا گیا ہو۔ سب سے پہلے رسول نوح علیہ السلام ہیں اور آخر محمد ﷺ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿ إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ﴾

    (النساء: 163)
    (ہم نے آپ کے پاس وحی بھیجی ہے جیسے نوح کے پاس اور ان کے بعد اور پیغمبروں کے پاس بھیجی تھی)​

    ‘‘صحیح بخاری’’ میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ِ شفاعت میں آیا ہے کہ نبیﷺ نے ذکر فرمایا: لوگ اپنی سفارش کے لئے آدمؑ کے پاس آئیں گے تو وہ ان سے معذرت کر دیں گے اور کہیں گے: اللہ کے بھیجے ہوئے رسول نوحؑ کے پاس جاؤ: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ[/FONT]’’ [FONT="Al_Mushaf"](أخرجه البخاري كتاب التوحيد باب: كلام الله مع الأنبياء يوم القيامة ومسلم كتاب الإيمان باب [/FONT]: [FONT="Al_Mushaf"]أدنى أهل الجنة [/FONT][FONT="Al_Mushaf"]منزلة[/FONT]) (وہ سب نوحؑ کے پاس آئیں گے اورکہیں گے کہ آپ زمین والوں کی طرف سبسے پہلے رسول بھیجے گئے تھے) (انس رضی اللہ عنہ نے پوری حدیث ذکر کی ہے)۔

    اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کے بارے میں فرمایا ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿ مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ﴾ [/FONT]
    (الاحزاب: 40)
    (محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں)​

    کوئی بھی امت رسول یا نبی سے خالی نہیں رہی ہےرسولوں کو اللہ تعالیٰ مستقل شریعت کے ہمراہ ان کی قوم کی طرف بھیجتا تھا جب کہ نبیوں کی طرف اللہ تعالیٰ اس نبی سے قبل کی شریعت وحی کرتا تھا ،تاکہ وہ نئے سرے سے سابق شریعت کو جاری کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ﴾[/FONT]
    (النحل: 36)
    (اور ہم ہر امت میں کوئ نہ کوئی پیغمبر بھیجتے رہے ہیں کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے پرہیز کرو)​

    اور فرمایا:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿ وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خلَا فِيهَا نَذِيرٌ﴾[/FONT]
    (الفاطر: 24)
    (اور کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو)​

    اور فرمایا:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿ إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُواْ لِلَّذِينَ هَادُواْ ﴾ [/FONT]
    (المائدۃ: 44)
    (ہم نے توریت نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی تھی، انبیاء جو کہ اللہ تعالیٰ کے مطیع تھے اس کے موافق یہود کو حکم دیا کرتے تھے)​

    رسل اللہ حضرات بشر اور مخلوق ہیں۔ ان میں ربوبیت اور الوہیت کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے سردار اور اپنے نزدیک سب رسولوں سے زیادہ جاہ و مرتبہ رکھنے والے نبی محمدﷺ کے بارے میں فرمایا ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿ قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾[/FONT]
    (الاعراف: 188)
    (آپ کہہ دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا، اور اگر میں غیب جانتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیا کرتا اور کوئی مضرت بھی مجھ پر واقع نہ ہوتی میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں)​

    اور فرمایا:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿ قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا. قُلْ إِنِّي لَن يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا﴾[/FONT]
    (الجن: 21-22)
    (آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہارے لئے نہ کسی ضرر کا اختیار رکھتا ہوں نہ کسی بھلائی کا۔ آپ کہہ دیجئے کہ بے شک مجھ کو کوئی نہیں بچا سکتا اللہ سے اور نہ میں اس کے سوا کوئی پناہ پا سکتا ہوں)​

    انہیں بھی بیماری، موت ،ضرورتِ آب و دانہ وغیرہ جیسی دوسری انسانی ضرورتیں لاحق ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے رب کی توصیف اس طرح کی ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿ وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ. وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ. وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ ﴾[/FONT]
    (الشعراء: 79۔81)
    (اور وہ جو مجھ کو کھلاتا ہے اور پلاتا ہے ،اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھ کو شفا دیتا ہے ۔اور جو مجھ کو موت دے گا پھر مجھ کو زندہ کرے گا)​

    اور نبی ﷺ نے فرمایا ہے: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي[/FONT]’’[FONT="Al_Mushaf"](أخرجه البخاري كتاب القبلة باب: التوجه نحو القبلة حيث كان ومسلم كتاب المساجد باب: السهو في الصلاة والسجود له) [/FONT](بے شک میں تمہارے مثل ایک انسان ہوں ، بھولتا ہوں جیسے تم بھولتے ہو، لہٰذا جب بھول جاؤں تو یاد دلا دیا کرو)۔

    اللہ تعالیٰ نے جب انبیاء و رسل کے بلند مقامات کا تذکرہ فرمایاہے تو تعریفی لب و لہجہ میں ان کی بندگی کے وصف کے ساتھ تذکرہ فرمایا ہے ۔چنانچہ نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا﴾[/FONT]
    (الاسراء: 3)
    (بے شک وہ بڑے شکر گزار بندے تھے)​

    اور محمد ﷺ کے بارے میں فرمایا ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا﴾[/FONT]
    (الفرقان:1)
    (بڑی عالی شان ذات ہے جس نے یہ فیصلہ کی کتاب اپنے بندے پر نازل فرمائی کہ وہ تمام دنیا جہان والوں کے لئے ڈرانے والا ہو)​

    ابراہیم ،اسحاق اور یعقوب علیہم السلام کے بارے میں فرمایا ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُوْلِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ.إِنَّا أَخْلَصْنَاهُم بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ.وَإِنَّهُمْ عِندَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ﴾ [/FONT]
    (ص: 45۔47)
    (اور ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کو یاد کیجئے جو ہاتھوں والے اور آنکھوں والے تھے۔ ہم نے ان کو ایک خاص بات کے ساتھ مخصوص کیا تھا کہ وہ آخرت کی یاد ہے اور وہ حضرات ہمارے یہاں منتخب اور سب سے اچھے لوگ ہیں)​

    عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کے بارے میں فرمایاہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ﴾[/FONT]
    (الزخرف: 59)
    (وہ تو محض ایک ایسے بندے ہیں جن پر ہم نے فضل کیا تھا اور ان کو بنی اسرائیل کے لئے ہم نے ایک نمونہ بنایا تھا)​

    ‘‘ایمان بالرسل ’’(رسولوں پر ایمان میں چار باتیں آتی ہیں)

    *اول: اس بات پر ایمان کہ اس رسول کے رسالت اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق ہے۔ کسی ایک کا کفر اور انکار تمام رسولوں کا کفر اور انکار ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ﴾[/FONT]
    (الشعراء: 105)
    (نوح کی قوم نے تمام رسولوں کو جھٹلادیا)​

    قومِ نوح کو تمام رسولوں کا جھٹلانے والا فرمایا گیا ہے حالانکہ انہوں نے جب جھٹلایا تھا تو نوح علیہ السلام کے علاوہ اور کوئی نبی یا رسول نہیں تھا۔ بنابریں نصاریٰ جنہوں نے محمدﷺ کی تکذیب کی اور اتباع نہیں کی وہ مسیح بن مریم علیہما السلام کی بھی تکذیب کرتے ہیں اور ان کی اتباع کرنے والے نہیں ہیں۔ اس وجہ سے کہ مسیح بن مریم علیہماالسلام نے نصاریٰ کو محمد ﷺ کی بشارت دی تھی۔

    بشارت کا یہی مقصد تو تھا کہ محمد e ان کی طرف بھیجے جائیں گے ۔اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ نصاریٰ کو گمراہی سے بچائے گا اور ان کو صراط مستقیم کا راستہ دکھائے گا۔

    *دوم: جن کے ہم نام جانتے ہیں ان پر نام بنام ایمان لانا۔ جیسے محمد، ابراہیم ،موسیٰ ، عیسیٰ اور نوح علیہم السلام ۔یہی پانچوں اولوالعزم رسول ہیں۔ جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دو مقام پر تذکرہ فرمایا ہے۔ سورۂ احزاب میں فرمایا ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ﴾[/FONT]
    (الاحزاب: 7)
    (اور جب کہ ہم نے تمام پیغمبروں سے ان کا اقرار لیا اور آپ سے بھی اورنوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے بھی)​

    اور سورۂشوریٰ میں فرمایا ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ﴾[/FONT]
    (الشوری: 13)
    (اس نے تم لوگوں کے واسطے وہی دین مقرر کیا جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جس کو ہم نے آپ کے پاس وحی کہ ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسٰی کو حکم دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا)​

    اور جن کا نام ہمیں معلوم نہیں ہے ان پر ہم اجمالاً ایمان لائیں ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ﴾[/FONT]
    (الغافر: 78)
    (اور ہم نے آپ سے پہلے بہت سے پیغمبر بھیجے جن میں بعض تو وہی ہیں کہ ان کا قصہ ہم نے آپ سے بیان کیا ہے اور بعض وہ ہیں جن کا ہم نے آپ سے قصہ بیان نہیں کیا)​

    *سوم: ان کے بارے میں صحیح خبروں کی تصدیق کرنا۔

    چہارم: ان میں سے ہماری طرف بھیجے گئے رسول کی شریعت کے مطابق عمل کرنا، اور ان میں سے سب سے آخری رسول محمد ﷺ ہیں جو کہ تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿ فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ ﴾[/FONT]
    (النساء: 65)
    (پھر قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کرائیں پھر آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور پورا پورا تسلیم کر لیں)​

    ایمان بالرسل کے کئی بڑے فائدے ہیں۔

    *اول: یہ علم ہوتا ہے کہ بندوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کی کتنی عنایتیں ہیں کہ اس نے ان کی طرف رسول بھیجے، تاکہ وہ انہیں راہ الہٰی دکھائیں اور بتائیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کیسے کی جاتی ہے ۔کیوں کہ عقل انسانی اس کی معرفت میں استقلال کا ثبوت نہیں دے سکتی ہے۔
    *دوم: اس عظیم نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا۔
    *سوم: رسول حضرات سے محبت اور ان کی تعظیم، ان کے شایان شان منقبت بیان کرنا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور انہوں نے اس کی عبادت، اس کے پیغام کی تبلیغ اور اس کے بندوں کی خیر خواہی اوربھلائی کے فرائض انجام دئے ہیں۔

    رسول سےبیزار لوگوں نے غلط طور پریہ سمجھتے ہوئے رسولوں کی تکذیب کی ہے کہ اللہ کے رسول انسان نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس غلط نظریہ کا تذکرہ فرماتے ہوئے اسے باطل قرار دیا ہے، فرمایا:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُواْ إِذْ جَاءهُمُ الْهُدَى إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّهُ بَشَرًا رَّسُولاً.قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاء مَلَكًا رَّسُولاً﴾[/FONT]
    (الاسراء: 94۔95)
    (اور جس وقت ان لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکی اس وقت ان کو ایمان لانے سے بجز اس کے اور کوئی بات مانع نہیں ہوئی کہ انہوں نے کہا کیا اللہ نے بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ فرما دیجئے کہ اگر زمین پر فرشتے ہوتے کہ اس میں بآرام چلتے تو البتہ ہم ان پر آسمان سے فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے )​

    چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس غلط نظریے کو اس طرح باطل قرار دیا کہ بشر ہی رسول ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ رسول اہل زمین کی طرف بھیجا جاتا ہے ۔اور اہل زمین بشر ہیں، اگر اہل زمین فرشتے ہوتے تو ضرور اللہ تعالیٰ ان کے پاس کسی فرشتے کو ہی رسول بنا کر بھیجتا تاکہ دونوں میں فرق نہ ہو۔

    اسی طرح اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے جھٹلانے والوں کی بابت حکایةًبیان فرمایا ہے وہ کہتے ہیں:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿إِنْ أَنتُمْ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَآؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ.قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ يَمُنُّ عَلَى مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ ﴾[/FONT]
    (ابراہیم: 10۔11)
    (تم محض ایک آدمی ہو جیسے ہم ہیں۔ تم یوں چاہتے ہوکہ ہمارے آباء و اجداد جس چیز کی عبادت کرتے تھے اس سے ہم کو روک دو، سو کوئی صاف معجزہ دکھلاؤ، ان کے رسولوں نے ان سے کہا کہ ہم بھی تہمارے جیسے آدمی ہی ہیں، لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے احسان فرمائے۔ اور یہ بات ہمارے قبضے کی نہیں کہ ہم تم کو کوئی معجزہ دکھلا سکیں بغیراللہ کے حکم کے)

    [FONT="Al_Mushaf"](ماخوذ من شرح الاصول الثلاثۃ)[/FONT]​
    [/FONT]
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں