مشہور صوفی حسین بن منصور حلاج کی شخصیت ائمہ دین کی نظر میں‌

ابن شہاب نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏جنوری 27, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابن شہاب

    ابن شہاب ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اپریل 13, 2011
    پیغامات:
    224
    مشہور صوفی حسین بن منصور حلاج کی شخصیت ائمہ دین کی نظر میں‌
    استاذ محترم فضیلۃ الشیخ علامہ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری حفظہ اللہ تعالیٰ‌
    مشہور گمراہ صوفی حسین بن منصور حلاج (م ٣٠٩ھ) زندیق اور حلولی تھا ۔ اس کے کفر والحاد پر علمائے حق کا اجماع واتفا ق ہے ۔اس کا بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز میں حلول کر گئے ہیں ۔ یہ عقیدہ وحدۃ الوجود کا بانی تھا ۔ اس کے کفروالحاد کی وجہ سے علماء نے اس کا خون جائز قرار دیا تھا اور اسے قتل کردیاگیا تھا ۔
    ائمہ اہل سنت میں سے کوئی بھی اسے اچھا نہیں سمجھتا تھا ، البتہ گمراہ صوفی اس کے پکے حمایتی ہیں ، اس کے باوجود وہ اپنے تئیں اہل سنت کہتے نہیں تھکتے ۔
    حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) اس کے بارے میں لکھتے ہیں :
    [font="al_mushaf"]
    ولا أری یتعصّب للحلّاج إلّا من قال بقولہ الّذی ذکر أنّہ عیّن الجمع ، فھذا ھو قول أھل الوحدۃ المطلقۃ ، ولھذا تری ابن عربیّ صاحب '' الفصوص '' یعظّمہ ویقع فی الجنید ۔۔۔ [/font]
    ''میں حلاج کے حق میں اسی شخص کو تعصب رکھتے دیکھتا ہوں ، جو اسی کے قول کا قائل ہے ، جو اس سے ذکر کیا گیا ہے کہ اس نے (خالق ومخلوق کے درمیان)جمع کو لازم کیا تھا ۔ یہی وحدت ِ مطلقہ (وحدت الوجود) والوں کا عقیدہ ہے ۔ اسی لیے آپ الفصوص نامی کتاب کے مصنف ابنِ عربی کو دیکھیں گے کہ وہ اس کی تعظیم کرتا ہے اور جنید کی گستاخی کرتا ہے ۔۔۔''
    (لسان المیزان لابن حجر : ٢/٣١٥)
    حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٩٧ھ)لکھتے ہیں :
    [font="al_mushaf"]اتّفق علماء العصر علٰی إباحۃ دم الحلّاج ۔ [/font]''اس کے زمانہ کے تمام علمائے کرام حلاج کے خون کے مباح ہونے پر متفق ہوگئے تھے ۔''(تلبیس ابلیس لابن الجوزی : ١/١٥٤)
    حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٣ھ)لکھتے ہیں :
    [font="al_mushaf"] وقد اتّفق علماء بغداد علی کفر الحلّاج وزندقتہ ، وأجمعوا علی قتلہ وصلبہ ، وکان علماء بغداد إذ ذاک ھم علماء الدّنیا ۔[/font]
    ''بغداد کے علمائے کرام حلاج کے کافر وزندیق ہونے پر متفق ہوگئے تھے اور انہوں نے اسے قتل کرنے اور سولی پرلٹکانے پر اجماع کرلیا تھا اور اس زمانے میں علمائے بغداد ہی دنیا کے (کبار)علماء شمار ہوتے تھے۔''(البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر : ١١/١٤٩)
    ابوحامد علامہ غزالی (م٥٠٥ھ) لکھتے ہیں :
    [font="al_mushaf"] وأمّا الشّطح فنعنی بہ صنفین من الکلام أحدثہ بعض الصّوفیۃ ، أحدھما الدّعاوی الطّویلۃ العریضۃ فی العشق مع اللّٰہ تعالیٰ والوصال المغنی عن الأعمال الظّاہرۃ حتّی ینتھی قوم إلی دعوی الاتّحاد وارتفاع الحجاب والمشاھدۃ بالرّؤیۃ والمشافھۃ بالخطاب ، فیقولون : قیل لنا کذا وقلنا کذا ، ویتشبّھون فیہ بالحسین بن منصور الحلّاج الّذی صلب لأجل إطلاقہ کلمات من ھذا الجنس ، ویستشھدون بقولہ : أنا الحقّ ، وبما حکی عن أبی یزید البسطامیّ أنّہ قال : سبحانی ، سبحانی ، وھذا فنّ من الکلام عظیم ضررہ فی العوّام حتّی ترک جماعۃ من أھل الفلاحۃ فلاحتھم وأظہروا مثل ھذہ الدّعاوی ، فإنّ ھذا الکلام یستلذّہ الطّبع إذ فیہ فیہ البطالۃ من الأعمال مع تزکیۃ النّفس بدرک المقامات والأحوال ، فلا تعجز الأغنیاء عن دعوی ذلک لأنفسھم ولا عن تلقف کلمات مخبطۃ مزخرفۃ ، ومھما أنکر علیھم ذلک لم یعجزوا عن أن یقولوا ھذا إنکار مصدرہ العلم والجدال ، والعلم حجاب ، والجدل عمل النّفس ، وھذا الحدیث لا یلوح إلّا من الباطن بمکاشفۃ نور الحقّ ، فھذا ومثلہ ممّا قد استطار فی البلاد شررہ وعظم فی العوّام ضررہ ، حتّی نطق بشیء منہ ، فقتلہ أفضل فی دین اللّٰہ من إحیاء عشرۃ ۔۔۔ [/font]
    ''شطح سے مراد ہم دوطرح کا علم ِ کلام لیتے ہیں ، جسے بعض صوفیوں نے گھڑا ہے ۔ ان میں سے ایک تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ عشق اور اس وصال کے بلند بانگ دعوے ہیں ، جو ظاہری اعمال (نماز ، روزہ ، حج وغیرہ)سے مستغنی کردیتا ہے ، حتی کہ کئی لوگ اتحاد (وحدت الوجود)، (خالق ومخلوق کے درمیان)پردے اٹھ جانے ، اللہ تعالیٰ کے مشاہدے اور بلاواسطہ کلام کے دعاوی تک پہنچ گئے ہیں ۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے )یوں کہا گیا اور ہم نے یوں کہا ۔اس بارے میں وہ حسین بن منصور حلاج سے مشابہت اختیار کرتے ہیں ، جسے اس جیسی باتیں کرنے کی وجہ سے صولی پرلٹکا دیا گیا تھا اور وہ دلیل میں اسی منصور کا[font="al_mushaf"] أَنَا الْحَقُّ [/font](میں ہی اللہ ہوں)والا قول پیش کرتے ہیں ، اسی طرح ابویزید بسطامی کا وہ قول بھی اپنی دلیل بناتے ہیں کہ اس نے کہا ، سُبحانی ، سُبحانی (میں پاک ہوں ، میں پاک ہوں) ۔ علم ِ کلام کی جو یہ قسم ہے، لوگوں میں اس کا نقصان بہت زیادہ ہوگیا ہے ، یہاں تک کہ فلاح کی راہ پرچلنے والے لوگوں کی ایک بڑی جماعت نے اپنی راہ ِ فلاح چھوڑ دی اور اس طرح کے دعاوی شروع کردئیے ، وجہ یہ ہے کہ علم ِ کلام کی اس قسم کو طبیعت بہت پسند کرتی ہے ، کیونکہ اس میں اعمال کو چھوڑنے کے باوجو دمقامات واحوال کے ساتھ تزکیہ نفس (کا دعویٰ)موجود ہے ۔بددماغ لوگوں کو اپنے لیے اس طرح کے دعاوی کرنے سے اور بے وقوفی پر مبنی چکنے چپڑے کلمات کہنے سے آپ نہیں روک سکتے ۔ جب بھی ان پراس بات کا اعتراض کیا گیا تو وہ یہ کہنے سے باز نہیں آئے کہ اس انکار کا مبدا علم وجدال ہے ، علم پردہ ہے اور جدال عمل نفس ہے اوریہ باتیں اللہ تعالیٰ کے نور کے مکاشفہ کے ذریعے باطن سے نکلتی ہیں ۔
    یہ اور اس طرح کی دیگر خرافات کا شر علاقوں میں پھیل گیا ہے اور عوام میں ان کا نقصان بہت بڑھ گیا ہے ، یہاں تک کہ جو شخص اس طرح کی بکواس بکے ، اسے قتل کرنادینِ اسلام میں دَس لوگوں کی زندگی بچانے سے بہتر ہے ۔۔۔''(احیاء العلوم للغزالی : ١/٣٦)
    نیز لکھتے ہیں : [font="al_mushaf"]
    ومن ھنا نشأ خیال من ادّعی الحلول والاتّحاد وقال : أنا الحقّ ، وحولہ یدندن کلام النّصاری فی دعوی اتّحاد اللّاھوت والنّاسوت أو تدرّعھا بھا أو حلولھا فیہا علی ما اختلف فیھم عبارتھم ، وھو غلط محض ۔۔۔
    [/font]
    ''یہاں سے اس شخص کا خیال پیدا ہوا ہے ، جو حلول واتحاد کا دعویٰ کرتا ہے اورکہتا ہے کہ میں ہی اللہ ہوں ۔لاہوت کے ناسوت میں متحد ہوجانے یا اس میں چھپ جانے یا اس میں حلول کرجانے کے بارے میں نصاریٰ کی کلام بھی اسی کے لگ بھگ ہے ، اگرچہ اس بارے میں ان کی عبارات مختلف ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل غلط ہے ۔۔۔''(احیاء علوم الدین للغزالی : ٢/٢٩٢)
    علامہ ذہبی رحمہ اللہ (٦٢٣۔٧٤٨ھ)لکھتے ہیں :
    [font="al_mushaf"] فتدبّر یا عبد اللّٰہ ! نحلۃ الحلّاج الّذی ھو من رؤوس القرامطۃ ، ودعاۃ الزندقۃ ، وأنصف ، وتورّع ، واتّق ذلک ، وحاسب نفسک ، فإن تبرھن لک أنّ شمائل ھذا المرء شمائل عدوّ للإسلام ، محبّ للرّأاسۃ ، حریص علی الظّھور بباطل وبحقّ ، فتبرّأ من نحلتہ ، وإن تبرھن لک ـ والعیاذ باللّٰہ ـ أنّہ کان ـ والحالۃ ھذہ ـ محقّا ، ھادیا ، مھدیّا ، فجدّد إسلامک ، واستغث بربّک أن یوفّقک للحقّ ، وأن یثبّت قلبک علی دینہ ، فإنّما الھدی نور یقذفہ اللّٰہ فی قلب عبدہ المسلم ، ولا قوّۃ إلّا باللّٰہ ۔۔۔ [/font]

    ''اے اللہ کے بندے ! آپ اس حلّاج کے مذہب پر غورکریں ، جو کہ کہ قرامطہ(غالی اورخطرناک قسم کے رافضی لوگوں)کا ایک سردار اور الحاد وبے دینی کا زبردست داعی تھا ۔ آپ انصاف وغیرجانبداری سے کام لیں ، اس سے بچ جائیں اور اپنے نفس کا محاسبہ کریں ۔اگر آپ کے لیے واضح ہوجائے کہ اس شخص کے خصائل اسلام دشمن ، حکومت پسند اور باطل وحق کے اختلاط کے ساتھ غلبہ حاصل کرنے کے خواہش مندشخص کے خصائل ہیں تو فوراً اس کے مذہب سے دستبردار ہوجائیے ! اور اللہ نہ کرے ،اگر اس صورت ِ حال کے باوجود آپ کو وہ حق بجانب ، ہدایت یافتہ اور ہدایت کنندہ نظرآئے تو اپنے اسلام کی تجدید کیجیے اور اپنے ربّ سے مدد مانگیے کہ وہ آپ کو حق کی توفیق دے اور آپ کے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھے ، کیونکہ ہدایت تو ایک نور ہے ، جسے اللہ تعالیٰ اپنے مسلمان بندے کے دل میں جاگزیں کردیتا ہے ۔ گمراہی سے بچنے اور حق کو پانے کی قوت وطاقت صرف اللہ تعالیٰ دیتا ہے ۔۔۔''
    (سیر اعلام النبلاء للذھبی : ١٤/٣٤٥)
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. طارق راحیل

    طارق راحیل -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 23, 2009
    پیغامات:
    351
    جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔۔۔Thanks......شکریہ
     
  3. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا
     
  4. عامر اعوان

    عامر اعوان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏جنوری 24, 2022
    پیغامات:
    7
    وحدت الوجود عقیدے کا نام نہیں ایک کیفیت کا نام ہے۔ اللہ کو انسان اس دنیا میں نہیں دیکھ سکتا عقیدہ یہی ہے لیکن دوران نماز کیفیت ایسی بناو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ جب سورج نکلتا یے تو تارے چھپ جاتے ہیں تارے "حقیقت میں" ختم نہیں ہو گئے "کیفیت میں" ختم ہو گئے۔ اللہ بندے کا حقیقت میں ہاتھ پاوں آنکھ زبان نہیں بن جاتا بلکہ اسکی کیفیت ایسی یو جاتی یے کہ وہ ہر چیز میں اللہ کو محسوس کرتا ہے۔ محسوسات اور عقائد کی دنیا کو علیحدہ علیحدہ دیکھنے اور رکھنے کی ضرورت ہے
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں