شاہین فصیحؔ ربانی غزل بھلے سے آپ جیسی سوچ رکھیے بُرا کیا ہے جو اچھی سوچ رکھیے نہیں ہے کچھ خبر اگلی گھڑی کی تو پھر کاہے کو اونچی سوچ رکھیے تقاضا عقلمندی کا یہی ہے پرے دل سے‘ پرائی سوچ رکھیے جو ہر سُو پھول کھلتے دیکھنا ہیں تو پھر بادِ بہاری سوچ رکھیے اجالا ہر طرف ہوتا رہے گا ذرا سی ماہتابی سوچ رکھیے بلندی آسماں سی چاہیے تو سمندر سے بھی گہری سوچ رکھیے فصیحؔ اس بزم میں کیا بات ہو گی کوئی قصّہ کہانی سوچ رکھیے