اسامہ بن لادن ‘امریکا آج بھی خوفزدہ ہے

الطائر نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏مئی 3, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. الطائر

    الطائر رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏جنوری 27, 2012
    پیغامات:
    273
    اداریہ
    جسارت
    2 مئی 2012
    اسامہ بن لادن ‘امریکاآج بھی خوفزدہ ہے​


    القاعدہ کے بانی اور سربراہ اسامہ بن لادن کی شہادت کو آج پورا ایک سال گزر گیاتاہم اب تک تمام واقعات پراسرار کا پردہ پڑا ہواہے۔ اس پورے واقعہ میں صرف ایک چیز واضح ہے کہ امریکا نے پاکستان کی خود مختاری اور سا لمیت کو پارہ پارہ کرکے سرحدوں کے بہت اندر گھس کر ایک شہری علاقے پر حملہ کیا اور کھلی جارحیت کا مظاہرہ کیا۔ یہ اسامہ بن لادن کی مبینہ قیام گاہ یا ایبٹ آباد کی ایک بستی پر حملہ نہیں تھا بلکہ یہ پاکستان پر حملہ تھا ‘شاید ایسا ہی حملہ جیسا11 ستمبر2001 ء کو نیویارک پر ہوا تھا اور جس کے بدلے میں امریکا نے افغانستان اورعراق کو آگ میں جھونک دیا اور لاکھوں مسلمان شہید کردیے گئے۔

    گو کہ اب تک امریکی معیشت اور برتری کی علامت دو میناروں کی تباہی کا معاملہ بھی پراسرار ہے اور بیشتر ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس واقعہ کو جس طرح پیش کیا گیا اس کی کوئی اصلیت نہیں ہے اور طیاروں کے ٹکرانے سے مینار اس طرح بیٹھتے نہیں چلے جاتے تاہم خود امریکی رپورٹوں کے مطابق اس حملے میں کوئی افغان یا عراقی ملوث نہیں تھا ۔کہا تو یہ بھی جاتاہے کہ یہ سی آئی اے اور یہودیوں کی ملی بھگت تھی تاکہ مسلمانوں پر اس کا الزام عائد کرکے امریکی حکومت کو ان کے خلاف انتقامی کارروائی کا جواز فراہم کیا جا سکے۔ یہودی پہلے ہی باور کرا چکے تھے کہ سوویت یونین کے بکھرنے اور کمیونزم کے دم توڑنے کے بعد اب امریکا کاسب سے بڑا دشمن اسلام اور اس کے پیروکار ہیں۔

    ایک مخصوص عیسائی فرقے ایونجلیک سے وابستہ اس وقت کے امریکی صدر بش جونیئر کو بھی موقع کی تلاش تھی اور انہوں نے حادثے کے فوراً بعد کسی تحقیق کے بغیر اپنے کشف کے ذریعہ افغانستان کے غاروں میں بیٹھے اسامہ بن لادن کا نام لے دیا اور طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسامہ کو ان کے حوالے کیاجائے۔ طالبان کا موقف جرأت مندانہ اور اصولی تھا کہ ثبوت فراہم کیے جائیں یا کسی غیر جانبدار ملک میں مقدمہ چلایاجائے۔ امریکا سے ڈرنے والے کئی مسلمان دانش ور آج بھی اسے طالبان حکومت کی غلطی قرار دیتے ہیں کہ اس انکار کی وجہ سے افغانستان تباہ ہوگیا لیکن کیا نائن الیون سے پہلے ہی امریکا نے افغانستان کو میزائلوں کا نشانہ بنانا نہیں شروع کردیا تھا۔

    یہ تو پاکستانی حکام ہی ہیں کہ امریکا جس پر انگلی رکھ دے اسے اپنے ہاتھوں سے امریکا کے حوالے کردیتے ہیں اس کے باوجود سلالہ کی فوجی چوکیوں پر حملہ ہوجاتاہے‘ پارلیمنٹ کی مشترکہ قراردادوں کے باوجود ڈرون حملے جاری رہتے ہیں اور کہاجاتاہے کہ یہ امریکا کاقانونی حق ہے۔ امریکا اپنے لیے قانون بھی خود ہی گھڑ لیتاہے۔ پاکستان کے حکرانوں نے تو کمال ہی کیا کہ طالبان حکومت کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف تک کو امریکا کے حوالے کرکے سفارتی اصولوں کی دھجیاں اڑادیں۔ یہی نہیں پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو بھی بھیڑیوں کے آگے پھینک دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے متعدد افرادامریکا کے ہاتھوں فروخت کیے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ کل کو اگر امریکا ڈاکٹر عبدالقدیر یا کسی اور محب وطن شخص کو طلب کرلے تو ان حکمرانوں میں اتنی جرأت نہیں کہ طالبان کی طرح امریکا کو انکار کر سکیں۔

    اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں تھے یا نہیں‘ ان کو کس طرح شہید کیا گیا اور ان کی لاش کے ساتھ کیا سلوک ہوا‘ا یک سال گزرنے کے باوجود کچھ بھی واضح نہیں۔ سب سے زیادہ مشکوک معاملہ تو یہ ہے کہ امریکا کے دعوے کے مطابق اسامہ کی لاش کو بڑی عجلت میں سمندربرد کردیاگیا اور اسے عین اسلامی طریقہ قراردیا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ایسا صرف اسی صورت میں ہوتاہے جب ساحل کئی دن کی مسافت پر ہو اور لاش کے سڑنے کا امکان ہو۔ جدید سہولتوں کی وجہ سے اب ایسا نہیں ہوتا اور اسامہ کو تو امریکی دعوے کے مطابق خشکی پر ماراگیا تھا پھر بحری جہاز پر لے جاکر اسے سمندر میں پھینکنے کی کیا وجہ تھی؟ اسامہ تو امریکا کااتنا بڑاحریف تھا کہ امریکا ان کی لاش کی کئی دن تک نمائش کرتا اور اپنی فتح کے ڈنکے پیٹتا ۔ اگر اسے یہ خدشہ تھا کہ اسامہ مرنے کے بعد بھی اس کے لیے خطرہ بنا رہے گا اور اس کی قبر مرجع خلائق بن جائے گی تو کسی گمنام جگہ پر سپر د خاک کیاجا سکتا تھا۔ گوانتانامو بے میں دفن کیا جا سکتا تھا جہاں متعد مسلمان زندہ درگور ہیں ۔ابھی تو یہ بھی واضح نہیں ہوا کہ ایبٹ آباد میں کیا ہوا۔ کتنے امریکی ہیلی کاپٹر ز آئے اور کہاں گئے مختلف اطلاعات ہیں۔ چشم دید گواہوں کی زبان بند کردی گئی ہے۔

    قومی غیرت سے عاری حکمرانوں نے تو پاکستان پر اس حملے کو عظیم فتح قراردے دیا اور دعویٰ کیاکہ ان کی وجہ سے یہ حملہ کامیاب ہوا‘ پاکستانی سفیروں نے بھی بلاسوچے سمجھے بیانات داغ دیے کہ حکومت کو اس حملے کا پہلے سے علم تھا۔ گزشتہ دنوں آئی ایس آئی کے کچھ گمنام افسران نے بھی دعویٰ کیاہے کہ اسامہ کا سراغ ہم نے دیا تھا جس کی وجہ سے ایبٹ آباد پر کامیاب حملہ ہوا۔ ان دعووں میں اگرکچھ بھی صداقت ہے تو پھر ڈاکٹرشکیل آفریدی کا کیا قصور ہے جس کو غداری کے الزام کا سامناہے۔ اس نے بھی تو اسامہ کا سراغ لگانے کے لیے امریکا کی مدد کی تھی اور اب وطن فروش کہلاتاہے۔ حکومت پاکستان نے ایبٹ آباد حملے کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل ایک کمیشن قائم کردیاہے لیکن وہ بھی اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچا اور شاید کوئی نتیجہ نکلے بھی نہیں۔ یہ عوام کو مطمئن کرنے کا ایک آزمودہ نسخہ ہے۔ حکومت پاکستان اور فوجی قیادت کی طرف سے اب تک یہ واضح نہیں کیاگیا اگر اسامہ بن لادن فوجی اہمیت کے شہر ایبٹ آباد میں کاکول اکیڈمی کے قریب ایک عالی شان گھربناکر رہ رہے تھے تو کیا ذمہ دارا فراد کو اس کا علم تھا؟ اور اگر وہ وہاں رہ رہے تھے تو کیا انہیں طاقتور اداروں کی پشت پناہی حاصل تھی؟ ایسے بہت سی سوالات ہیں جو ایک سال گزرجانے کے باوجود تشنہ جواب ہیں اور شاید ان کا جواب کبھی نہ ملے۔

    اسامہ کو شہیدکرنے کے بعد بھی امریکا کے خوف میں کمی نہیں آئی گوکہ امریکی انتظامیہ یہ بیانات دے رہی ہے کہ القاعدہ کی کمرتوڑدی گئی ۔ اس کے ساتھ ہی امریکیوں کو دومئی کو ہوشیار اور محتاط رہنے کا انتباہ بھی جاری کردیاگیاہے۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھنے والا امریکا ایک لاش سے خوف زدہ ہے جس نے امریکا کا غرورخاک میں ملادیا تھا۔
     
  2. الطائر

    الطائر رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏جنوری 27, 2012
    پیغامات:
    273
    واقعہ ایبٹ آباد کی حقیقت

    روزنامہ جسارت پاکستان
    کالم: از متفرق
    واقعہ ایبٹ آباد کی حقیقت
    اسامہ بن لادن کی پہلی برسی سے پانچ روز قبل بالاخر ان کے اہل خانہ افغانستان و پاکستان کے خوفناک چکر سے نکل کر اپنے ملک کو روانہ ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اسامہ کی تین بیواؤں اور گیارہ بچوں کو لے کر سعودی عرب سے آیا ہوا خصوصی طیارہ اسلام آباد سے جمعرات کی شب جدہ کے لیے پرواز کرگیا۔

    ایبٹ آباد آپریشن گزشتہ برس پاکستانی وقت کے مطابق یکم اور 2 مئی کی درمیانی رات کو کیا گیا۔ تاہم امریکی وقت کے مطابق یہ یکم مئی کا دن تھا۔ آپریشن کرنے والوں نے دعویٰ کیا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں واقع ایک کمپلیکس میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ رہائش پذیر تھے۔ کہا گیا کہ اسامہ بن لادن کی یہاں پر رہائش کو جاننے کے لئے سی آئی اے نے اپنے ایک پاکستانی ایجنٹ کے ذریعے جعلی پولیو مہم بھی چلوائی اور اب یہ ایجنٹ گرفتار ہے۔

    ایبٹ آباد آپریشن اور اسامہ کی موت کے حوالے سے جتنی بھی خبریں پاکستان سمیت پوری دنیا تک پہنچیں ان سب کا ایک ہی ماخذ تھا اور وہ تھا واشنگٹن۔ اسلام آباد سے محض ایک سو تیس کلومیٹر کے فاصلے یا پھر صرف دو گھنٹے کی ڈرائیونگ پر واقع ایبٹ آباد جاکر عینی شاہدوں سے ملنے اور حقیقت جاننے کی سوائے ایک اینکر پرسن کے، کسی کی ہمت نہیں تھی یا پھر اجازت نہیں تھی کہ وہ ان عینی شاہدوں کے بیان سنتا، دکھاتا یا پھر لکھتا کہ اصل واقعہ کیا ہوا تھا۔ یہ واقعہ ایک سال پورا ہونے کے باوجود اب تک ابہام کی شدید دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ اب تک یہی پتا نہیں چل سکا کہ اصل واقعہ ہوا کیا تھا۔ واقعہ ایبٹ آباد پر بنایا گیا سرکاری کمیشن بھی اب تک نہ تو اپنی رپورٹ مکمل کرسکا ہے اور نہ اس بنیادی سوال کا تعین کرسکا ہے کہ اس کمپلیکس میں اسامہ موجود بھی تھا کہ نہیں۔

    جیسا کہ عرض کیا کہ صرف ایک عینی شاہد ہم کو ٹی وی پر نظر آیا۔ یہ عینی شاہد محمد بشیر بلال ٹاؤن میں اسامہ کے کمپاؤنڈ کے سامنے ہی رہائش پذیر ہے اور اس نے سارا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ عینی شاہد سماء ٹی وی کے پروگرام نیوز بیٹ میں اینکر پرسن کو بتا رہا ہے کہ اس سارے آپریشن کے دوران وہ اپنی چھت پر رہا اور اس نے اس سارے واقعے کو تفصیلی طور پر دیکھا۔ محمد بشیر نے بتایا کہ آپریشن کی رات ایک ہیلی کاپٹر آیا اور اسامہ کے کمپاؤنڈ پر دس بارہ آدمی اتار کر واپس چلا گیا اور تقریبا بیس منٹ تک وہ قریبی پہاڑوں پر چکر کاٹتا رہا۔ اس کے بعد وہ واپس آیا۔ اس کے ساتھ ہی دو ہیلی کاپٹر اور آئے۔ ان میں سے ایک مغرب کی طرف سے آیا اور ایک شمال کی طرف سے۔ جیسے ہی پہلا ہیلی کاپٹر نیچے اترا تو اس میں دھماکا ہوگیا اور آگ لگ گئی۔ محمد بشیر کا کہنا ہے کہ اس دھماکے کے فوری بعد ہی ہم باہر نکلے اور اس کمپاؤنڈ میں پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر ہم نے دیکھا کہ ہیلی کاپٹر میں آگ لگی ہوئی تھی۔ اس کے بیس منٹ بعد پاک فوج اور علاقہ پولیس وہاں پہنچ گئی۔ محمد بشیر کا کہنا ہے کہ جب وہ کمپاؤنڈ میں پہنچا تو اس کا مین گیٹ کھلا ہوا تھا اور صرف وہی نہیں تھا جو وہاں پر پہنچا بلکہ اس کے ساتھ پورے علاقے کے لوگ وہاں پہنچ چکے تھے جن کی تعداد تقریبا ًدو سو تھی۔

    محمد بشیر نے سوال اٹھایا کہ امریکاکا یہ کہنا کہ یہ آپریشن ہم نے اکیلے کیا اور ہم اسامہ کو امریکا لے گئے، سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ اس کا ایک ہیلی کاپٹر فضاء میں پھٹ گیا۔ انہوں نے دوبارہ بتایا کہ صرف ایک ہی ہیلی کاپٹر نیچے اترا اور اس نے بندے اتارے۔ پھر وہ چکر لگاتا رہا۔ جب وہ اپنے بندے واپس لینے پہنچا تو پھٹ گیا۔ دوسرا کوئی ہیلی کاپٹر نیچے اترا ہی نہیں۔ ایک ہیلی کاپٹر واپس مانسہرہ کی طرف چلا گیا (اس پر غور کریں، یہ ہیلی کاپٹر نہ تو افغانستان سے آیا اور نہ ہی افغانستان گیا جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے)۔

    محمد بشیر نے ایک بات اور بتائی کہ جب تک فوج اور پولیس نہیں آئی تھی اس وقت بھی وہاں ایجنسیوں کے لوگ موجود تھے جنہوں نے محلے والوں کو نہ تو وقوعہ سے ہٹایا اور نہ ہی اندر آنے سے منع کیا۔ محمد بشیر کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس لیے نہیں بتاسکتا کہ اس وقت اندھیرا تھا اور کمپاؤنڈ بھی خاصا وسیع ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ کمپاؤنڈ میں تقریبا پانچ چھ منٹ رہا کیوں کہ اس کے بعد ہیلی کاپٹر کے انجن میں یا پھر پٹرول ٹینک میں ایک چھوٹا سا دھماکا ہوا جس سے گھبرا کر سب لوگ کمپاؤنڈ سے باہر آگئے۔ اس کے پندرہ بیس منٹ کے بعد پولیس اور فوج آگئی جس نے سب لوگوں کو پیچھے ہٹادیا اور کمپاؤنڈ کو عام لوگوں کے لیے بند کردیا۔ محمد بشیر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ہیلی کاپٹر سے جو پہلے لوگ اترے تھے انہوں نے پورے محلے کے لوگوں کے دروازے زور زور سے بجا کر سب کو پشتو میں دھمکایا تھا کہ وہ لوگ باہر نہ نکلیں اور اگر باہر نکلے تو ان کو گولی ماردی جائے گی۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ سب لوگ پختون تھے یا لگتے تھے۔ کیوں کہ محمد بشیر ایک سیاسی کارکن اور ایبٹ آباد کے نائب امیر جماعت اسلامی کا رشتہ دار بھی ہے اس لیے وہ عادت سے مجبور ہو کر چھت پر چھپ کر دیکھنے چلا گیا کہ ہو کیا رہا ہے۔

    محمد بشیر کا کہنا ہے کہ شروع میں تو وہ یہی سمجھا تھا کہ یہ لوگ پاکستانی ہیں کیوں کہ وہ پشتو بول رہے تھے اور اسی لیے وہ اور دیگر محلے والے دھماکے کے بعد کمپاؤنڈ کی طرف بھاگے تاکہ پاکستانی فوجیوں کی مدد کرسکیں۔ محمد بشیر نے دوران انٹرویو بتا یا کہ اس کا ایک کزن بھی اس وقت اس کے گھر پر موجود تھا جو اس کے ساتھ دھماکے کے بعد کمپاؤنڈ میں گیا تھا۔ مگر اس کو وہاں سے ایجنسی والے لے گئے۔ بعد ازاں اس کو چھوڑ دیا گیا مگر وہ گھر پر نظر بند ہے۔ نہ تو اس کو باہر آنے کی اجازت ہے اور نہ ہی کسی رشتہ دار کو اندر جانے کی۔

    محمد بشیر نے واضح طور پر بتایا کہ پھٹنے والے ہیلی کاپٹر کے علاوہ اور کوئی ہیلی کاپٹر اترا ہی نہیں۔ جو دو اور ہیلی کاپٹر آئے ان میں سے ایک مغرب کی طرف سے آیا وہ شمال کی طرف چلا گیا اور دوسرا شمال کی طرف سے آیا وہ جنوب کی طرف چلا گیا۔ یہاں پر محمد بشیر کا انٹرویو ختم ہوگیا۔ محمد بشیر کے انٹرویو پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس انٹرویو سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تمام مردہ اجسام کو پاکستانی فوج نے اٹھایا اور اگر یہ امریکی فوجی تھے تو ان کو امریکا کے حوالے بھی پاکستانی فوج نے ہی کیا اور اگر اسامہ کی بھی یہیں پر رہائش تھی (یہ اگر بہت اہم ہے) تو اس کو بھی زندہ یا مردہ امریکیوں کے حوالے پاکستانی افواج نے ہی کیا۔

    اسامہ کے اہل خانہ کی جدہ روانگی تک بھی پاکستانی ایجنسیوں نے ان سے کسی آزاد میڈیا کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی۔ جناب عالی، محمد بشیر کے اس انٹرویو سے واضح ہے کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ اوراس میں کون کون ملوث ہے؟یہی وجہ ہے کہ ایبٹ آباد کمیشن اس واقعے پر اب تک رپورٹ نہیں بنا پایا ہے۔ جھوٹ بولا جا نہیں سکتا اور سچ کی اجازت نہیں ہے۔ کیا اسامہ واقعی اس کمپاؤنڈ میں موجود تھا۔ اس پر بعد میں بات کریں گے۔ ان شاء اﷲ تعالیٰ۔ جھوٹوں سے ہشیار باش۔
     
    Last edited by a moderator: ‏مئی 3, 2012
  3. الطائر

    الطائر رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏جنوری 27, 2012
    پیغامات:
    273
    اسامہ کی ہلاکت کے بعد القاعدہ شکست کے دہانے پر؟

    روزنامہ جسارت
    کالم:آصف جیلانی
    2 مئی 2012
    اسامہ کی ہلاکت کے بعد القاعدہ شکست کے دہانے پر؟

    ایبٹ آباد میں امریکی نیوی سیلزکے خصوصی دستہ کے حملہ اور مبینہ طور پر القاعدہ کے قائد اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو آج 2 ۔ مئی کو ایک سال ہونے کو آیا ہے ۔ اس موقع پر ممتاز امریکی فلاسفر اور امریکی میرین کور کے سابق کمانڈر جیمس فٹزرنے دعوی کیا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی داستان جھوٹی اور بناوٹی ہے جس کا مقصد صدر اوباما کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا اور افغانستان میں ناٹو کی شکست سے امریکی عوام اور دنیا کی توجہ ہٹانا تھا۔

    جیمس فٹزرکا کہنا ہے کہ ایبٹ آباد میں اس حویلی پر حملہ کی داستان من گھڑت ہے جہاں کبھی کسی نے اسامہ کو نہیں دیکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ اس شخص کو دوبارہ کس طرح ہلاک کر سکتے ہیں جو 2001ء میں ہلاک ہو گیا تھا۔جیمس فٹزرکا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکیوں کا یہ دعوی لغو ہے کہ اسامہ کی میت مسلم روایت کے مطابق سمندر برد کردی گئی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ غیر اسلامی فعل ہے ۔ مسلمان کبھی اپنی میتوں کو سمندر میں مچھلیوں اور شارک کو کھانے کے لیے نہیں چھوڑتے۔

    بہر حال جیمس فٹزر کے اس دعوے کے برعکس پاکستان کے حکمرانوں نے ایبٹ آباد پر حملہ کے بارے میں امریکیوں کے دعوے کو قبول کیا ہے اور اسی بنیاد پر اس حملہ کے تمام پہلوؤں کی تحقیقات کے لیے گزشتہ سال جون میں ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا ۔ توقع تھی کہ کمیشن اپنا کام گزشتہ سال کے اختتام تک مکمل کرلے گا لیکن ابھی تک کمیشن تحقیقات کے عمل میں مصروف ہے۔

    ویسے بھی پاکستان کے حکمرانوں نے انگریزوں کی یہ ریت اپنا لی ہے کہ جب بھی کسی سنگین اور ہنگامہ خیز معاملہ کو دبانا ہوتا ہے اس کے بارے میں تحقیقاتی کمیشن مقرر کر دیا جاتا ہے جو معاملہ کے بارے میں فیصلہ میں اتنی دیر لگاتا ہے کہ اصل معاملہ وقت کے جالوں میں الجھ کر عوام کے ذہنوں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔

    یہی حال پچھلے ایک سال کے دوران صحافی سلیم شہزاد کے پر اسرار قتل اور حسین حقانی کے میمو کے اسکینڈل کے تحقیقاتی کمیشنوں کا ہوا ہے ۔ بہر حال ایک سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان کی فوج اور خفیہ ادارے ایبٹ آباد کے حملہ پر سخت طیش اور ندامت میں مبتلا ہیں اور کوئی ٹھوس تاویل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ کیو نکر امریکی نیوی سیلز نے پاکستان کے دفاعی نظام سے اوجھل ہو کر پاکستان کی سر زمین میں دور تک داخل ہو کر ملک کی خود مختاری اور حاکمیت کو یوں چیلنج کیا ؟

    ابھی تک ایبٹ آباد کے حملہ کے سلسلہ میں مجرمانہ غفلت یا ایبٹ آباد میں اتنے طویل عرصہ تک اسامہ کو پوشیدہ رکھنے میں اعانت کے الزام میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا صرف ایک پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کو حراست میں لیا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نےCIA کی شہہ پر اسامہ کا سراغ لگانے کے لیے ایبٹ آباد میں ٹیکوں کی جعلی مہم شروع کی تھی تاکہ DNAحاصل کر کے اسامہ کا اتا پتا لگایا جائے۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد کمیشن نے ان کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ ایبٹ آباد کے حملہ کے بعد لوگ میمو گیٹ کے جال میں اور امریکا کے ساتھ تعلقات کی نئی بنیادوں کی کھوج کی بھول بھلیوں میں اور پھر وزیر اعظم گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مقدمہ میں ایسے الجھ گئے کہ ایبٹ آباد کے حملہ اور اس فوجی چھاؤنی کے شہر میں اسامہ کی روپوشی کی تہہ تک پہنچنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔

    اب اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لیے پاکستانی فوج اور CIAنے 3بڑے مشترکہ آپریشنز کیے تھے ۔ ایک 2005ء میں چترال میں اور دوسرا 2006ء میں بلوچستان میں افغانستان کی سرحد سے قریب۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جنوری 2011ء میں لاہور میں امریکی ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو پاکستانی نوجوانوں کی ہلاکت سے پہلے 2009ء میں پاکستانی فوج اور CIAنے 150مشترکہ آپریشنز کیے تھے اسامہ بن لادن کی تلاش میں۔

    ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری اور اس کے بعد دیت کے سہارے اس کی رہائی کے بعد مشترکہ آپریشنز کا سلسلہ ٹھپ پڑ گیا اور پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں پر امریکیوں کے عدم اعتماد کی خلیج جو 2001ء سے بڑھتی جارہی تھی ایک سمندر کی صورت اختیار کر گئی اور یہی وجہ ہے کہ امریکیوں نے ایبٹ آباد کے مشن کے سلسلہ میں پاکستان کو ایک لمحہ کے لیے بھی اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ ان کے ذہنوں پر یہ خطرہ چھایا ہوا تھا کہ پاکستان کے خفیہ فوجی اداروں میں کچھ ایسے عناصر ہیں جن کی طالبان سے ہمدردی ہے چنانچہ یہ مشن راز نہیں رہے گا۔امریکیوں کو خطرہ تھا کہ پاکستان اس حملہ کے بعد سخت طیش میں آکر کوئی کاروائی کرے گا لیکن وہ اس مشن کو خفیہ رکھنے کے لیے یہ خطرہ قبول کرنے کے لیے تیار تھے ۔ ایبٹ آباد کے حملہ کے بعد امریکیوں کو یہ خطرہ بھی تھاکہ القاعدہ اپنے قائد کی ہلاکت کا انتقام لینے کے لیے پاکستان میں اور سرحد پار افغانستان میں بڑے پیمانہ پر کاروائی کرے گی لیکن ایسا محسوس ہوا کہ القاعدہ کی قیادت ذہنی طور پر مفلوج ہوگئی اور کوئی انتقامی کاروائی نہ کر سکی۔ اس بناء پر امریکی تجزیہ کاروں نے یہ نتیجہ اخذ کرنا شروع کر دیا کہ اسامہ کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور اب وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کے لیے خطرہ نہیں ۔ لیکن امریکیوں کی یہ خوش فہمیاں غلط ثابت ہو رہی ہیں۔

    امریکا کی رینڈ کارپوریشن کے تجزیہ کار اور امریکی فوج کے اسپیشل آپریشنز کے مشیر سیتھ جونز کا کہنا ہے کہ یہ محض خام خیالی ہے کہ القاعدہ شکست کے دہانے پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں القاعدہ کی موجودگی بڑھی ہے اور اس کی اتحادی تنظیموں کی کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور بعض علاقوں میں القاعدہ کا اثر بڑی تیزی سے پھیلا ہے خاص طور پر یمن میں جہاں امریکا نے بڑے پیمانہ پرڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ پھر اسامہ کے جانشین ایمن الظواہری ابھی حیات ہیں اور موثر طور پر القاعدہ کی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ امریکیوں کو شبہ ہے کہ الظواہری پاکستان میں روپوش ہیں۔ انہیں اس بات پر سخت جھنجھلاہٹ ہے کہ اس وقت پاکستان اور امریکا کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے الظواہری کا سراغ لگانے کی ساری کوششیں ٹھپ پڑ گئی ہیں۔

    اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری اور اس کے نتیجہ میں پاکستان کے راستے افغانستان میں ناٹوکی افواج کی رسدکی بحالی کی امید کم ہی نظر آتی ہے۔
     
  4. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    اسلام کے بیٹے ضرور شہید ہوتے ہیں، اسلام کبھی سرنگوں نہیں ہوتا۔
    جب تک ایک بھی مسلمان میں دینی غیرت ہے جہاد جاری رہے گا۔
     
  5. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    اسلام کے بیٹوں میں ’’دینی غیرت‘‘ کا جو بیج اس ’’مردِ مجاہد‘‘ نے بویا ہے اسی کا اشارہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں کیا تھا کہ کفار کیا چاہتے ہیں؟؟؟؟؟
    روحِ محمد (ﷺ) اس کے بدن سے نکال دو۔
    لیکن یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ایجنسیوں سے بچ بچا کر صرف ’’اسلام‘‘ کے نام پرکے نام پر جان دینے والے اس دنیا سے ختم ہو جائیں۔
    اسی لئے جب تک ایک بھی ’’غیرت مند مسلمان‘‘ زندہ ہے۔ پورا عالم کفر اُس اکیلے سے بھی ڈرتا رہے گا۔
     
    Last edited by a moderator: ‏مئی 3, 2012
  6. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    كون مرد مجاہد جو بنگلے ميں بيوى بچوں سميت پرتعيش زندگی گزار رہا تھا ؟
    امريكيوں كو دھمكى آميز وڈيوز جارى كروا كر خود سكون سے مسلمانوں پر آتش برستى ديکھتا رہا ؟
    اس نے مسلمان ملكوں ميں خود كش دھماكے كروانے كا اعتراف كيا ، جو مسلمان ان دھماكوں ميں مرے معذور ہوئے اس كا حساب كون كرے گا ؟

     
  7. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,942
    السلام علیکم ۔ محترم بھائی ۔

    آپ کے طنزسے بھرے اورمضمون سے غیر متعلقہ جملے اور سمائلز حذف کر دیے گئے ہیں‌۔
    کسی بھی موضوع میں اختلاف ایک فطری چیز ہے ۔ اگر کسی نے مہذبانہ اور مناسب انداز میں اختلاف کیاہے تو اس کا جواب بھی اسی اندازمیں دیا جائے نا کہ غیر ضروری سمائل طنزیہ جملے استعمال کیے جائیں ، جس سے انتظامیہ بھی سوچ و بچار پر مجبور ہو جائے ۔ امید ہے کہ ہمارے بھائی آئندہ خیال رکھیں گئے۔ شکریہ
    منتظمین [ظ]-3
    ہر وہ مراسلہ لائقِ حذف/ترمیم متصور ہوگا جس میں فورم یا فورم کے منتظمین کو واضح یا ڈھکے چھپے انداز میں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا ہو

    ۔
     
  8. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    اے اللہ! مسلمان مردوں کو ’’دین نافذ‘‘ کرنے والا بنا دے تاکہ ان کی ’’گھروالیاں‘‘ بھی مشاہدہ کر سکیں کہ ’’اسلام کی خاطر‘‘ کن کن’’آشائشوں‘‘ یا ’’آزمائشوں‘‘ سے گزرنا پڑتا ہے۔
    شاہیں کا جہاں آج کرگس کا جہاں ہے
    ملتی ہوئی مُلَّا سے، مجاہد کی اذاں ہے؟
    مانا کہ ستاروں سے آگے ہیں جہاں‌ اور
    شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے
     
  9. الطائر

    الطائر رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏جنوری 27, 2012
    پیغامات:
    273
    محترم بھائی السلام علیکم! در اصل یہ آسائشوں کا شوشہ جان برینن کا چھوڑا ہوا ہے اور بد قسمتی سے لوگوں نے اس کے اگلے ہوئے لقمے چبانا شروع کر دیئے۔ جان برینن کو اپنے بیانات پر یورپی اور مغربی صحافیوں کی تند و تیز کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ لیکن یہ امریکی موٹی چمڑی کے ہوتے ہیں۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد کی پریس کانفرنس میں اس کے ان الفاظ پر غور کریں، کلک کریں:
    اور مزے یا تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک غیر مسلمہ، اس جان برینن جھوٹے تہمت باز کے خلاف اسی کی ایک اور پریس کانفرنس میں کس طرح اس کے لتے لیتی ہے اور حیران کن جراءت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ غیر مسلمہ کی جراءت ملاحظہ فرمائیں۔

    یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا:00006:

    شیخ اسامہ بن لادن یقیناً ایک متنازعہ شخصیت ہیں، رہے ہیں اور شاید رہیں گے۔ لیکن آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان کی شخصیت کس کے نزدیک نا پسندیدہ اور متنازعہ ہے اور ان لوگوں کے کیا مقاصد ہیں۔ موت اور رزق کی طرح عزت و ذلت بھی اللہ رب العزت ہی کے ہاتھ میں ہے۔ مائکل شوئیر سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔ یہ سی آئی اے کا 22 سالہ ملازم اسامہ بن لادن کی کھوج، اس کی گرفتاری یا نیست و نابود کرنے پر 2004 تک مامور تھا۔ پھر ہٹا دیا گیا۔ وجہ؟ دیگر امریکیوں کی نسبت اس نے شیخ اسامہ کے بارے میں کبھی، کسی تضحیک، تمسخر، بے بنیاد الزام تراشی اور گری ہوئی زبان استعمال نہییں کی۔ بلکہ اس کی قابلیت، مشن اور شخصی خصوصیات کا ہمیشہ بر ملا اظہار کیا۔

    مائکل شائیر نے گمنام کی حیثیت سے کچھ کتابیں تصنیف کیں جن میں اس نے امریکا کی خارجہ پالیسی پر حقیقت پسندی سے تنقید کی۔ اس کی چند کتابوں میں سے، کتاب Imperial Hubris اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہونے والی کتاب Osama-bin-Laden بہت مشہور ہوئیں۔اس کتاب میں مائکل شوئیر شیخ اسامہ بن لادن کو اس کا جائز خراج تحسین پیش کرتا نظر آتا ہے۔ اور بالآخر ایک امریکی اخبار نے مائکل شوئیر کو کتاب کے مصنف کے طور پر منکشف کر دیا۔ مائیکل شوئیر ایک انٹرویو میں اس کے تعیشات کو تج دینے کا بڑے خوب اندازمیں ذکر کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔

    میرا خیال ہے اتنا کافی ہے:00026:
     
  10. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    سنت نبوی ﷺ سے یہ درس ملتا ہے کہ اگر کوئی’’دین کی تنفیذ‘‘ کی خاطر ’’اجتہادی غلطی‘‘ بھی کر جائے تو اُس سے درگذر کی جاتی ہے۔ مثلاً صحیح بخاری میں سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کا واقعہ مشہور و معروف ہے جس میں انہوں نے دورانِ قتال کسی کافر کو، یا ایک جماعت کو قتل کر دیا۔ لیکن رحمت دو عالم اللہ کے نبی ﷺ نے ان سے کوئی دیت اور قصاص نہیں لیا۔
    مجھ سمیت کوئی بھی شخص کامل و اکمل نہیں۔ ہم سب ہی گنہگار ہیں۔ غلطیاں کرتے ہیں۔ اگر اسامہ بن لادن کی ’’غلطیاں‘‘ اللہ کی راہ میں جہاد کے دوران سرزد ہوئی ہیں تو ہمیں ان پر تنقید کا حق اُس وقت پہنچتا ہے جب ہم خود اُن سے بڑھ کر ’’دین نافذ‘‘ کر رہے ہوں۔ ’’بے سہارا لوگوں‘‘ کے لئے جہاد و قتال کر رہے ہوں۔
    جب کہ ’’اے سی‘‘ والے کمرے میں بیٹھ کر محض ’’تنقید‘‘ کرنے سے تو ’’علماء‘‘ کو ، کوئی نہیں روک سکتا، تو ’’عوام الناس‘‘ کو، کیونکر روکا جا سکتا ہے۔
    میرے بھائی نے شاید بالکل ٹھیک لکھا ہے۔
    یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
     
  11. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954
    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


    آپ کسی بھی حملے ميں غلطی سے ہلاک ہو جانے والے بے گناہ شہريوں اور دہشت گردی کی ايسی کاروائ ميں دانستہ ہلاک کيے جانے والے بے گناہوں کو ايک ہی عمل قرار نہيں دے سکتے جس کا مقصد ہی زيادہ سے زيادہ ہلاکت گيری اور افراتفری کے ذريعے تبائ اور بربادی پھيلانا ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں جس عمل کو آپ غلطی قرار دے رہے ہيں، اسامہ بن لادن کے حواريوں کے نزديک وہ عظيم کاميابی قرار ديا جاتا ہے جس کو وہ انتہائ ڈھٹائ کے ساتھ حملے سے پہلے اور بعد ميں تسليم بھی کرتے ہيں۔

    اس حوالے سے کوئ ابہام اور غلط فہمی نہيں ہے کہ اسامہ بن لادن کے نزديک کاميابی کيا تھی کيونکہ "خوف"، "ہلاکت" اور "دہشت گردی" وہ اصطلاحات ہيں جو ہميشہ تاريخ کے صفحات ميں اسامہ بن لادن کے ساتھ استعمال کی جائيں گي۔ ان کی فلاسفی، خيالات اور روش نے دنيا بھر کے ہزاروں افراد کی زندگيوں میں محض تباہی، بربادی اور غم کے دريچے کھولے۔ ميں نے نہيں سمجھ سکا کہ کوئ بھی ايسے شخص کی زندگی کی "کاميابيوں" کا فاتحانہ جشن تو درکنار، اس کا ذکر بھی کيسے کر سکتا ہے۔

    القائدہ کی جانب سے کيے جانے والے حملوں کی تاريخ اور ان کی تفاصيل پر ايک سرسری نگاہ بھی ڈالیں تو يہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ اسامہ بن لادن کی "مغرب کی صہيونی قوتوں" کے خلاف نام نہاد مقدس جنگ کی سب سے بھاری قیمت مسلمانوں نے ہی ادا کی ہے۔

    http://www.freeimagehosting.net/uploads/003ed9c7b4.jpg

    ميں نہيں سمجھ سکا کہ امت مسلمہ کے ليے ايسی کونسی امید کی کرن يا بہتری کے مواقع اسامہ بن لادن نے پيدا کیے جن کا حوالہ ديا جا سکے۔ ليکن ايک مقدس مذہبی جدوجہد کی آڑ ميں پاکستان کے سکولوں، ہسپتالوں، بازاروں اور حتی کہ جنازوں اور مسجدوں ميں جو خاک و خون کی ہولی کھيلی جا رہی ہے وہ يقينی طور پرايک ايسا جرم ہے جس کے لیے انھيں ہميشہ ياد رکھا جاۓ گا۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    U.S. Department of State
    Improve Your Experience | Facebook
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں