ہدایت پانے کےلیے ضروری چیز: تقویٰ، ڈاکٹر فرحت ہاشمی حفظہا اللہ

آزاد نے 'تفسیر قرآن کریم' میں ‏مئی 3, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. آزاد

    آزاد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    4,558
    بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
    الم (1) ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ (2) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (3) والَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (4) أُوْلَـئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (5) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ (6) خَتَمَ اللّهُ عَلَى قُلُوبِهمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عظِيمٌ (7)


    الم، یہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں[هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ] تقویٰ والوں کو ہدایت دینے کےلیے ہے۔

    ہدایت پانے کےلیے ضروری چیز: تقویٰ:

    گویا جو شخص ہدایت مانگتا ہے، اسے اپنے اندر ایک صفت پیدا کرنی ہوگی اور وہ صفت تقویٰ کی ہے۔ جو شخص اس صفت سے متصف ہوگا، اس کو اللہ کی کتاب بہت فائدہ دے گی۔اس کےلیے حق و باطل میں فرق کرنے کی اندرونی بصیرت پیدا ہوگی۔

    تقویٰ کیا ہے؟:

    کیونکہ تقویٰ دل کی کیفیت اور دل کے احساسات کا نام ہے۔تقویٰ احتیاط کی زندگی کا نام ہے۔ تقویٰ اس دنیا کی زندگی میں غلط کاموں سے، حرام کاموں سے اور شک میں ڈالنے والے امور سے بچ بچ کر چلنے کا نام ہے۔ جو شخص احتیاط کی زندگی بسر کرتا ہے اور دوسروں کےلیے وہی چاہتا ہے جو اپنے لیے چاہتا ہے، جو شخص اپنے رب کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ ایسا شخص حقیقت میں سنجیدہ انسان ہوتا ہے۔ اس کی نیت درست ہوتی ہے اور وہ اپنے ارادوں میں مضبوط ہوتا ہے۔اور اس کےلیے کوشش بھی کرتا ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ بھی اپنا راستہ دکھا تے ہیں۔لیکن وہ لوگ جن کی زبان اور دل باہم موافقت نہ کریں، جو اوپر سے کچھ اور اندر سے کچھ ہوں، جو کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہوں۔ انہیں اس کتاب سے زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔

    متقین کی صفات:

    اس لیے متقین کی پہلی صفت یہ بیان کی گئی [الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ]جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ اور ایمان بھی دل کی کیفیت کا نام ہے۔ اور تقویٰ ہم سے سب سے پہلے ایمان لانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور ایمان بھی کس پر؟ غیب پر، ان حقیقتوں پر جنہیں ہم نے دیکھا نہیں، جنہیں ہم نے سنا نہیں۔ ان سب چیزوں پر ایمان۔ اور کس طرح ؟ اوروہ کون سی چیزیں ہیں؟ مثلاً آخرت سے متعلق جتنے امور ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات، وحی الہٰی۔ یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نےہم تک پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کی زبانی پہنچائیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ بعض اوقات ہم ان کو زبان سے مانتے بھی ہیں لیکن ان کی لائی ہوئی بات کو مانتے نہیں ہیں۔ ایک ڈاکٹر کی بات پر اعتماد کرتے ہیں۔ کبھی اس کی ڈگری نہیں مانگتے۔ ایک سائنسدان کی بات پر یقین رکھتے ہیں، اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس کی تھیوریز کو پڑھتے ہیں اور اس کے مطابق آگے چلتے ہیں۔ لیکن ایک اللہ کے رسول کو جو صادق اور امین تھے، ان پر اور ان کی لائی ہوئی غیب کی حقیقتوں پرایمان لاتےہوئے بعض اوقات ہم اپنے آپ کو زبان سے مسلمان کہنے والے بھی شک میں پڑ جاتے ہیں۔جو لوگ شک کے ساتھ اس کتاب کو لیں، وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پا سکتے۔ ہدایت انہی کےلیے ہے جو غیب کی سطح پر ایمان لانے والے ہوں۔ اور جب وہ ایمان لے آئیں تو انہیں جھکنے میں کچھ مشکل نہ ہو۔ ان کا ایمان ان کے اندر کی ایسی پکار ہو کہ [وَيُقِيمُونَ الصَّلاةَ ] وہ نماز قائم کرتے ہوں اور اللہ کے آگے جھکتے ہوں۔ پھر انہیں جھکنے میں کچھ مشکل نہیں ہوتی کیونکہ انہوں نے اللہ کو اپنا رب مان لیا، محمد ﷺکو اپنا رسول مان لیا۔ آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے جو کچھ اللہ کی طرف سے آتا ہے، اس پر عمل کرتے چلے جاتے ہیں۔

    عمل میں سب سے پہلی چیز:

    اور عمل کرنے کی چیزوں میں سب سے پہلی چیز نماز ہے۔ آخرت میں سب سے پہلے حساب نماز کا ہوگا [وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ]اور ایسے لوگ وسیع دل کے ہوتے ہیں۔ وہ خیر اور بھلائی کو صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رکھتے۔کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ہمارا رب ایک دن ہم سے ان سب چیزوں کا حساب لے گا۔وہ خود غرض نہیں ہوتے۔ وہ صرف اپنا فائدہ نہیں چاہتے۔وہ خود کو ملنے والے رزق کو دوسروں پر بھی خرچ کرتے ہیں۔پھر ان کی نگاہ دنیا پر ٹکی نہیں رہ جاتی۔ پھر وہ آخرت کا سودا کرلیتے ہیں۔ اس لیے ان کے دلوں سے دنیا کی اہمیت خودبخود کم ہوجاتی ہے۔
    [ وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ] اور وہ صرف قرآن کو نہیں مانتے بلکہ ان تمام چیزوں کو مانتے ہیں جو آپﷺ کی طرف نازل کی گئیں خواہ وہ قرآن کی شکل میں ہیں یا حدیث کی شکل میں۔[ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ]جو کچھ بھی آپ کی طرف اتارا گیا، خواہ الفاظ کی شکل میں ، خواہ دوسری رہنمائی کی شکل میں۔[وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ ]اور جو آپ ﷺ سے پہلے نازل کیا گیا، یعنی دیگر انبیاء پر۔

    مؤمن وسیع دل اور سوچ کے مالک:

    گویا وہ وسیع دل اور وسیع سوچ کے مالک ہوتے ہیں، تنگ نظر نہیں ہوتے۔ وہ صرف اپنی کتاب کو نہیں مانتے۔پچھلی کتابوں اور پچھلے رسولوں کو بھی مانتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتےہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر دور میں انسان کی رہنمائی کےلیے بہترین انتظام کیا۔[ وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ] وہ آخرت پر یقین رکھتےہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک دن انہیں اللہ کے حضور پلٹنا ہے۔

    عقل مند اور کامیاب انسان:

    حقیقت میں کامیاب انسان وہی ہوتا ہے جو اپنے انجام اور انتہا کو دیکھ کرسفر کا آغاز کرے۔ ذرا سوچیے کسی ایسے انسان کے بارے میں جو سفر کا آغاز تو کردے لیکن اسے پتہ نہ ہو کہ اس نے جانا کہاں ہے؟مثلاً آپ اپنے گھر سے نکلیں اور آپ کو پتہ نہ ہو کہ آپ نے پہنچنا کہاں ہے؟ توآپ اپنی گاڑی کو ادھر اُدھر گھما کر ایسی جگہ جا پہنچیں گے جہاں پہنچنے کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں۔لیکن جو شخص گھر سے ایڈریس لے کر نکلتا ہے، سوچ کر نکلتا ہے۔ وہ مخصوص راستوں پر چلتا ہوا اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ تو وہ لوگ جو آخرت کو سامنے رکھ کر جیتے ہیں اور وہ لوگ جو آخرت کو بھلا کر جیتے ہیں، ان دونوں کی زندگی میں بھی بہت فرق ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو اپنے مقصد کو ہر آن اپنے سامنے رکھتا ہے، وہ اپنے وقت کو ضائع نہیں کرتا۔وہ اپنی جسمانی صلاحیتوں کو ضائع نہیں کرتا۔ وہ اپنے مال کو ضائع نہیں کرتا۔وہ ہر چیز کو سوچ سمجھ کر، آخرت کو سامنے رکھ کر، حساب کرکے استعمال کرتا ہے کیونکہ اس کو پورا یقین ہے کہ مجھے یوم الدین کی طرف لوٹنا ہے۔جہاں جزا بھی ہے اور سزا بھی۔ جزا اچھے کاموں پرہے اور سزا برے کاموں پر۔ اسے یہ شک نہیں کہ سزا اچھے کاموں پر ہوگی اور اسے یہ شک بھی نہیں کہ جزا برے کاموں پر بھی مل سکتی ہے۔ نہیں! اس کی سوچ بالکل واضح ہے۔وہ اچھائی اور برائی میں فرق کرنا بہت اچھی طرح جانتا ہے۔[ أُوْلَـئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ] یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت پر ہیں۔جن کے اندر ایسی صفات ہیں۔ اور ایسے ہی لوگ [وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ]وہ کامیاب ہونے والے اور فلاح پانے والے ہیں۔ہم میں سے ہر شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص نقصان سے ڈرتا ہے۔لیکن حیرت ہوتی ہے کہ وہ کام نہیں کرتا جو انسان کو کامیابی کی طرف لے جانے والے ہیں۔

    کافر حق کے انکاری کیوں ہوتے ہیں؟:

    اس کے برعکس کچھ اور لوگ بھی ہیں اس دنیا میں[إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ ] جن لوگوں نے ان باتوں کو ماننے سے انکار کردیا تو ان کےلیے برابر ہے کہ خواہ تم انہیں خبردار کرو، یا نہ کرو، وہ ماننے والے نہیں ہیں۔کیوں نہیں مانتے؟ آپ دیکھئے کہ جب روشنی ہوتی ہےاچھائی اور برائی کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی ہی آنکھیں بند کرلےتو اس کو پھر کوئی بھی چیز نظر نہیں آئے گی، نہ اچھائی نظر آئے گی اور نہ برائی۔تو انکار کرنے والوں کی نفسیات بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ جنہیں ماننا نہیں ہوتا وہ سورج کی روشنی کے سامنے بھی آنکھیں بند کرکے انکار کردیتے ہیں۔وہ دن کو رات کہنے کے عادی ہوتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی آنکھیں بند ہیں۔حق سورج سے بھی زیادہ روشن ہوتا ہے لیکن جو لوگ اپنی آنکھیں بند کرلیں ، جو دل کے دروازے بند کرلیں، جو تعصبات میں گھر جائیں، ان کو پھر حق نظر نہیں آتا۔اس لیے وہ پھر کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کو آپ خواہ کسی بھی طرح سمجھائیں، وہ مان کرنہیں دیتے۔اس لیے اللہ تعالیٰ بھی انہیں پھر سزا دیتے ہیں [ خَتَمَ اللّهُ عَلَى قُلُوبِهمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ]اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے۔اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔


    ایسا کیوں ہوا؟:

    کیونکہ انہوں نے نہ اپنے دل استعمال کیے، نہ اپنے کان استعمال کیے اور نہ اپنی آنکھیں استعمال کیں کہ حق موجود تھا لیکن اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔ [وَلَهُمْ عَذَابٌ عظِيمٌ ]اور ان کےلیے عظیم عذاب ہے، بہت بڑا عذاب ہے۔کیونکہ انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کی۔ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی۔ ان صلاحیتوں کو، ان ٹیلنٹس کو ان کاموں میں استعمال کیا جن میں حقیر دنیا کے فائدے تھے۔ ان کی ساری کوششیں اور ساری محنت صرف دنیا میں لگی رہی ، اور وہ حقیقت کو نہ پا سکے۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور ہمیں کہاں جانا ہے۔ انہوں نے اندھے بہرے بن کر زندگی بسر کی۔لہٰذا وہ اللہ کی نعمتوں کو نہ پاسکے اور ان کےلیے بہت بڑا عذاب ہے۔وہ عذاب ہی کے مستحق ہیں۔

    آڈیو لنک
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    ھٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًى وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ۱۳۸ ﴿آل‌عمران: ١٣٨﴾ واقعی ہدایت صرف متقین کے لئے ہی ہے۔
     
  3. ابو عبداللہ صغیر

    ابو عبداللہ صغیر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏مئی 25, 2008
    پیغامات:
    1,979
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں