2خواب 2حقیقتیں،،روشن منزلیں

m aslam oad نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏مئی 16, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. m aslam oad

    m aslam oad نوآموز.

    شمولیت:
    ‏نومبر 14, 2008
    پیغامات:
    2,443

    کئی سال پہلے کی بات ہے۔ پاکستان میں اچانک ایک شور مچا کہ ایران سے ایک ایسا بچہ آیا ہے کہ جسے قرآن کریم اس قدر پختہ حفظ ہے کہ اس سے آپ قرآن کے جس حصے سے جو آیت پوچھیں، وہ آپ کو آیت نمبر، صفحہ کی دائیں یا بائیں طرف، سورہ کا نام اور نمبر، پارہ نمبر وغیرہ وغیرہ سب کچھ بتائے گا۔ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ اور قرات کالج کے نام سے قائم ایک ادارے نے اس کی خوب تشہیر کی اور اسے ’’زندہ معجزہ‘‘ تک قرار دیتے رہے۔ اس کی تشہیر و توقیر اس انداز سے کی جاتی رہی کہ جیسے دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑا اور انوکھا کار نامہ سامنے آ گیا ہے۔ یہ سلسلہ دو سال جاری رہا لیکن دوسرے سال اسے لاہور میں ایک تقریب کے دوران سوال و جواب کے موقع پر لاہور ہی کے ایک مدرسے کے طالب علم نے ایسی مات دی کہ یہ سلسلہ بند ہو گیا۔
    یہ واقعہ مجھے آج برسوں بعد دوبارہ اس لئے یاد آیا ہے کہ آج ہی رات مجھے لاہور میں ایک ایسی تقریب میں شرکت کا موقع ملا کہ جہاں ایسے ایک نہیں بہت سے بچے موجود تھے۔ لیکن یہ بچے ایرانی نہیں خالص پاکستانی تھے۔
    لاہور کے علاقہ بھگت پورہ شادباغ میں رحمۃ اللعالمین اسلامک سنٹر کے نام سے جماعۃ الدعوۃ لاہور نے ایک ایسا منفرد ویکتا ادارہ قائم کیا ہے کہ جہاں ایسے نابغہ روزگار حفاظ کرام قطار اندر قطار تیار ہو رہے ہیں۔ آج 5 سے 12 سال تک کی عمر کے یہ بچے، سفید لباس پہنے اسٹیج پر سب کی نظروں کے سامنے تھے۔ ان کے آگے بیٹھے علماء کرام اور حفظ قرآن کے اساتذہ… قرآن سے کبھی آیت پڑھتے اور کبھی نمبر بولتے تو انہیں ان کے سوال کے مطابق یہ بچے… آیت کے نمبر سے اگلی آیت، سورہ کا نام اور نمبر بتاتے چلے جاتے اور آیت کریمہ سناتے چلے جاتے۔
    اچانک ایک سوال ہوا کہ ’’اس سے پچھلی آیت سنائو…‘‘ یہ سوال دنیائے حفظ میں ناممکن جیسا مشکل سوال ہے کیونکہ اگلی آیت پڑھنا جس قدر آسان ہے تو پچھلی آیت پڑھنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہی نہیں بلکہ مافوق العقل بات ہے لیکن ان بچوں نے تو کمال حیرت سے پچھلی اور پھر مسلسل پچھلی آیات سنانا شروع کر دیں۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے کمپیوٹر کے بٹن دبائے جا رہے ہیں اور ریکارڈنگ چلتی جا رہی ہے۔ تھوڑی دیربعد ایک اور ننھا منا بچہ اسٹیج پر کھڑا ہوا ساتھ ہی کہا گیا کہ یہ آپ کو نہ صرف آپ کے سوالات کے مطابق اور مرضی کے مطابق آیات سنائے گا بلکہ ان کا ترجمہ بھی سنائے گا، اور پھر ایسا ہی ہوا۔ قرآن کی تلاوت اور حفظ میں اس قدر فصاحت و بلاغت… ہر طرف سے اللہ اکبر، سبحان اللہ کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو جاتیں تو یوں لگتا کہ جیسے نور کی برسات ہو رہی ہے۔
    تھوڑی دیر بعد عالمی شہرت یافتہ، بے شمار قرأ کرام کے استاد و مربی قاری محمد ادریس العاصم تشریف لائے اور ان طلباء کو اسناد عطا کیں۔ پھر جماعۃ الدعوۃ پاکستان کے شعبہ مدارس کی شاخ حفظ القرآن اور ’’سلسلہ مدارس معاذ بن جبل‘‘ کے سربراہ قاری الشیخ عبدالقیوم تشریف لائے اور انہوں نے ایک نئے زاویے سے حساب کتاب کر کے بیان کرنا شروع کیا کہ جو حفظ کے طلباء دن رات قرآن پڑھتے ہیں وہ اوسطً 72 ہزار حروف کی تلاوت کرتے ہیں اور نبی کریمﷺ کے ارشاد عالی شان کی رو سے وہ اوسطاً سات لاکھ سے زائد نیکیوں کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ ان کے ان الفاظ پر مجمع پر نظر دوڑائی تو سبحان اللہ کے الفاظ سنے تو یوں لگا کہ جیسے ہر کسی کی خواہش ہو کہ اس کے بچے بھی قرآن پڑھیں اور اتنی نیکیوں کے حق دار ٹھہرتے چلے جائیں۔ ہاں کتنا اچھا ہوتا کہ آج ہمارے بھی بچے یوں سامنے موجود ہوتے اور ہم انہیں یوں قرآن پڑھتا اور نیکیاں سمیٹتا دیکھتے۔ اس دوران جب راقم کو دعوت خطاب دی گئی تو راقم نے بیان کیا کہ انگریز نے مسلمانوں کو قرآن سے دور رکھنے کے لئے صدیوں کی محنت کی ہے۔ لارڈ مکالے کا نظام تعلیم دنیا بھر میں رائج کیا گیا کہ جس میں قرآن کی کہیں گنجائش نہ تھی۔ اس لئے تو اس نے وہ مشہور عالم الفاظ کہتے تھے کہ ’’ہم وہ نظام تعلیم تشکیل دے رہے ہیں کہ جس سے گزرنے کے بعد مسلمانوں کے بچے نام کے تو مسلمان ہوں گے لیکن وہ شکل و عمل ہر لحاظ سے سوفیصد ہمارے ہی لوگ ہوں گے‘‘ (یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ڈاکٹر کہلانے والے اور وزیر داخلہ تک بن جانے والے بسم اللہ تک نہیں پڑھ سکتے۔ سورہ اخلاص تک نہیں جانتے۔ ایک اور وزیر تھے کہنے کو لیفٹیننٹ جنرل لیکن قرآن کے پاروں کی تعداد کا پتہ نہیں)۔ لیکن قرآن پڑھنے والوں نے آج دنیا کے نقشے ہی بدل دیئے ہیں اور مستقبل انہی قرآن پڑھنے والوں کا ہے کیونکہ قرآن نے دعوت و جہادکے دونوں میدانوں میں مسلمانوں کے ان صدیوں پرانے آقائوں کو شکست دیدی ہے۔ اب وہ دور آنے والا ہے کہ سب نے رہنمائی قرآن سے ہی لینی ہے۔ پروگرام ختم ہوا تو کتنے لوگ تھے جو قرآن کے نور سے دلوں کو جگمگا کر ایک عزم و ارادہ لے کر نکل رہے تھے کہ اب وہ بھی اس دامن رحمت میں پناہ لیں گے۔ اللہ جزائے خیر عطا فرمائے، قاری ابو طلحہ عثمان صاحب کو کہ جنہوں نے دنیا کا یہ نادر و نایاب شجر بہار لگایا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شرف سے نوازے۔
    یہی سوچ رہا تھا کہ خیالات کے دھارے چند ماہ پہلے کی ان یادوں کے درمیان جا رکے کہ جو ہم نے گزشتہ سال کے صوبہ سندھ کے سیلاب کے دوران سمیٹی تھیں۔
    یہ صوبہ سندھ کا شہر حیدرآباد ہے۔ ہم یہاں داخل ہو کر جماعۃ الدعوۃ کے مرکز پہنچے تھے۔ جماعۃ الدعوۃ کے زونل مسئول فیصل ندیم وہاں موجود تھے۔ ان کے مرکز سے متصل اماں عائشہ ہسپتال بھی موجود ہے۔ یہ بھی خوابوں کا ایک ایسا جہاں ہے کہ جس کا پہلے صرف تصور ہی کیا جا سکتا تھا۔ آپ بھی ذرا اندازہ لگائیے کہ کیا دنیا میں کوئی ایسا خواتین کا خصوصی ہسپتال ہو سکتا ہے کہ جہاں چھوٹے بڑے آپریشن بھی ہوتے ہوں، گائنی کے تمام شعبے بھی قائم ہوں، جدید ترین لیبارٹریاں کام کر رہی ہوں لیکن اس ہسپتال میں کوئی مرد داخل تک نہ ہو سکے کہ پردہ دار خواتین کا پردہ اور حیاو حجاب کسی طور اور قطعاً مجروح نہ ہو۔ لوگوں نے یہ مشہور کیا تھا کہ ’’عورت کا ڈاکٹر سے پردہ ہی نہیں ہوتا‘‘ یوں ہمارے معاشرے نے تو ڈاکٹر کو محرمات میں شامل کر رکھا ہے لیکن بردار فیصل ندیم نے شاید دنیا کی تاریخ میں ایک ایسی روایت قائم کی اور ایسی طرح ڈال دی ہے کہ جس نے اس ساری بات کو مات دی ہے۔ انہوں نے ہمیں ہسپتال کے تمام شعبے اور تمام حصے دکھائے۔ صفائی، طہارت و نظافت کا وہ اعلیٰ انتظام و انصرام کہ دل دیکھتے ہی اللہ کی حمد و ثناء بیان کرے۔ کہتے ہیں کہ بڑے آپریشن تو صرف مرد ڈاکٹر ہی کرتے ہیں یا پھر کم از کم موجود ضرور ہوتے ہیں لیکن یہاں وہ ساری باتیں اور کہاوتیں الٹ دی گئی تھیں۔ جس کسی کو پتہ چلا کہ ان کی عصمت و عفت مآب بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کے حیا و حجاب کے لئے یوں کمال درجے کا انتظام و انصرام ہے تو اس نے یہیں کا رخ کر لیا۔ سب کچھ دیکھنے کے بعد ہم گویا ہوئے کہ اتنے شعبے، اتنا کام، ہر جگہ صرف اور صرف خواتین کا عملہ، آپ کو مل کیسے جاتا ہے؟ تو وہ بولے کہ ہم نے اللہ سے دعائیں کیں، اللہ نے مدد کی تو آج منظر آپ کے سامنے ہے۔ لوگ یہاں بلاتفریق پردے کے منفرد ترین نظام کی وجہ سے آتے ہیں۔ سبھی حیران بھی ہوتے ہیں اور دعائیں بھی دیتے ہیں۔ ہمارا کام تو ہر روز آگے آگے ہی جا رہا ہے۔
    آج دونوں مناظر دل و دماغ میں گھوم رہے تھے تو یوں لگتا تھا کہ جیسے آج وہ دو خواب پورے ہوئے ہیں کہ جو یقیناً میری نظر میں ناممکن تھے لیکن آج حقیقت کا روپ دھار چکے تھے۔ یوں یہ قافلہ چل رہا ہے، خواب حقیقتوں میں ڈھل رہے ہیں تو اب ایک اور خواب باقی ہے کہ ہر طرف قرآن کا علم لہرا رہا ہو۔ بے پردگی نہیں پردہ ہی پردہ ہو… مسلمان ذلیل و رسوا نہیں، فاتح و کامران ہوں… بے بس و ذلیل نہیں، عزت و شرف سے آراستہ ہوں… قدم اٹھ رہے ہیں۔ منزل روشن تر ہے۔ دیکھنا قافلہ چھوٹ نہ جائے۔

    بشکریہ ہفت روزہ جرار
    والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
    ali oadrajput
     

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں