طاغوت کی تشریح مختصر ہدایة المستفید میں (شرح کتاب التوحید(

محمد آصف مغل نے 'نقطۂ نظر' میں ‏جولائی 15, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    باب
    اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ۝۰ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۝۶۰ (سورۃ النساء:۶۰)
    اے نبی! تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوںپر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کیلئے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ اُنہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دُور لے جانا چاہتا ہے۔
    حافظ ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو کتاب و سنت سے اعراض کر کے باطل جگہوں سے فیصلہ کراتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسے طاغوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
    گزشتہ صفحات میں گذر چکا ہے جس میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ طاغوت کے بارے میں وضاحت سے فرماتے ہیں کہ: ’’اپنے معبود و متبوع اور مطاع کی مقرر کردہ حدود سے آگے نکل کر کوئی شخص کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے فیصلہ کراتا ہے تو گویا وہ اپنا فیصلہ طاغوت کے ہاں لے گیا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو انکار کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ فیصلہ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ سے ہی ہونا چاہیئے اور جس شخص نے کتاب و سنت کو نظر انداز کر دیا اور دوسرے دروازوںپر دستک دی تو اس نے حدود مقررہ سے آگے قدم زن ہونے کی جسارت کی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے جو حدود متعین فرمائی تھیں ان حدود سے باہر نکل گیا اور کتاب و سنت کہ خلاف احکام کو وہ حیثیت دی جس کے وہ ہرگز مستحق نہ تھے‘‘۔
    یہی صورت حال اُس شخص کی ہے جو غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ بھی اصل میں طاغوت ہی کی عبادت میں مشغول ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں۔ غیر اللہ کی عبادت دو حال سے خالی نہیں پہلی صورت یہ ہے کہ ایسے شخص کا معبود اگر صالح انسان ہے تو اس کی عبادت شیطان کی عبادت تصور ہو گی ایسی عبادت کرنے والوں کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے: (ترجمہ) ’’جس روز ہم ان سب کو ایک ساتھ اپنی عدالت میں اکٹھا کریں گے پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے کہ ٹھہر جاؤ تم بھی اور تمہارے بنائے ہوئے شریک بھی پھر ہم انکے درمیان اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں گے اور ان کے شریک کہیں گے کہ ’’تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے! ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ (تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو) ہم تمہاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے۔ اُس وقت ہر شخص اپنے کئے کا مزہ چکھ لے گا، سب اپنے حقیقی مالک کی طرف پھیر دیئے جائیں گے اور وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے گم ہو جائیں گے‘‘ (یونس:۲۸ تا ۳۰)۔
    دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور خواہش کی عبادت کی طرف لوگوں کو دعوت دے یا شجر وحجر یا کسی ولی اللہ کی قبر کی عبادت کرنے کا پرچار کرے، جیسے مشرکین اپنے اصنام وغیرہ کی، جو صالحین اور ملائکہ کی شکل و صورت میں بنا کر رکھے گئے تھے، عبادت کرتے تھے تو یہ وہ طاغوت ہے جس کی عبادت کرنے سے خود اللہ تعالیٰ نے روکا ہے لوگوں کو ان سے اظہارِ برات کا حکم دیا ہے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی ہو، اگر اس کی عبادت کی گئی تو یہ شیطانی فعل ہو گا۔ شیطان نے اپنے ان قبیح افعال اور مذموم اعمال کو بڑے مزین اور انتہائی خوبصورت بنا رکھا ہے یہ ایسے افعال ہیں جو توحید اور کلمہ لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ کے بالکل الٹ ہیں۔ توحید کی اصل یہ ہے کہ انسان اللہ کے سوا ہر طاغوت کا انکار کر دے جس کی کسی نہ کسی صورت میں عبادت کی جا رہی ہو۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کا حکم یہ ہے: (ترجمہ) ’’تم لوگوں کے لئے ابراہیم f اور ان کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا : ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں۔ ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک کہ تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ‘‘۔ (الممتحنہ:۴)۔ لہٰذا جو شخص غیر اللہ میں سے کسی کی عبادت کرتا ہے، وہ ان حدود سے تجاوز کرنے کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کو معبود گردانتا ہے جس کا وہ مستحق نہیں تھا۔
    امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے طاغوت کہلاتی ہے‘‘۔
    اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی سے فیصلہ کرانے والے شخص کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے پوری شریعت اسلامیہ کا انکار کر دیا ہو، اور مزید برآں یہ کہ اس نے غیر اللہ کو اپنی اطاعت میں شریک ٹھہرا لیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’پس اے محمد ﷺ تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو اللہ نے تمہاری طرف نازل کی ہے‘‘۔ دوسری جگہ پر فرمایا: (ترجمہ) ’’اے محمد(ﷺ) تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سربسر تسلیم کر لیں‘‘۔ (النساء:۶۵)۔
    پس جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی مخالفت بایں طور پر کرتا ہے کہ وہ کتاب و سنت کے علاوہ کسی اور جگہ سے فیصلہ کرواتا ہے یا اپنی خواہشات کی تکمیل میں مگن ہے تو گویا اس نے عملاً ایمان اور اسلام کی رسی کو گردن سے اتار پھینکا ہے۔ اس کے بعد خواہ وہ کتنا ہی ایمان اور اسلام کا دعویٰ کرے بیکار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جھوٹا قرار دیا ہے۔ لفظ یَزْعُمُوْنَ وہاں استعمال کیا جاتا ہے جہاں عمل دعویٰ کے خلاف کیا جارہا ہو۔ ہمارے اس دعویٰ کی دلیل قرآن کریم کی زیر نظر آیت ’’و قَدْ اُمِرُوْا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ‘‘ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طاغوت کا انکار کرنا توحید کا سب سے اہم رکن ہے جب تک کسی شخص کے اندر یہ رکن نہ ہو گا اس وقت تک اسے موحد کہنا غلط ہے تمام اعمال اور ایمان کی اساس اور مرکزی حیثیت توحید کو حاصل ہے۔ اعمال کی صحت اور عدمِ صحت کا دارومدار توحید ہی پر ہے اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (ترجمہ) ’’جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا اُس نے ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں‘‘ (البقرۃ:۲۶۵) ۔ اپنے فیصلے طاغوت کے پاس لے جانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جانے والے کا اس پر ایمان ہے۔
    طاغوت کے پاس اپنے متنازعہ معاملات لے جانے اور وہاں سے فیصلہ طلب کرنے کا اصل محرک شیطان ہوتا ہے اور وہ اس قسم کی باتیں بہت ہی خوبصورت انداز میں انسان کے دل میں ڈالتا ہے۔ اس طرح شیطان بیشمار لوگوں کو گمراہ کر چکا ہے۔ کتاب و سنت کو پس پشت ڈال کر طاغوت کو فصیل ماننے اور فیصلہ کن طاقت قرار دینے سے بڑی گمراہی اور ہدایت سے دُور کر دینے والی اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی ہے۔
    وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنٰفِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا۝۶۱ۚ فَكَيْفَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِيْبَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْہِمْ ثُمَّ جَاۗءُوْكَ يَحْلِفُوْنَ۝۰ۤۖ بِاللہِ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّآ اِحْسَانًا وَّتَوْفِيْقًا۝۶۲ (النساء:۶۱۔۶۲)۔
    جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے، اور آؤ رسول ﷺ کی طرف، تو اُن منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔ پھر اُس وقت کیا ہوتا ہے جب ان کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت اُن پر آن پڑتی ہے؟ اُس وقت یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ہم تو صرف بھلائی چاہتے تھے اور ہماری نیت تو یہ تھی کہ فریقین میں کسی طرح موافقت ہو جائے۔
    اللہ تعالیٰ نے منافقین کی علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ ان کے سامنے جب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ پیش کی جاتی ہے تو اس سے اغماض کرتے ہیں اور جو شخص ایسا کرے گا خواہ وہ کتنا ہی مدعی ایمان ہو حقیقت میں وہ ایمان کی دولت سے بالکل محروم ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جس شخص کے سامنے متنازعہ فیہ مسائل میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ پیش کی جائے اور وہ تسلیم نہ کرے تو وہ شخص منافق ہے‘‘۔
    لوگوں کی اکثریت اس جرم میں گرفتار ہے اور خصوصاً علماء پر نہایت افسوس ہے جو علم کے ہوتے ہوئے ایسے لوگوں کے اقوال کو سامنے رکھ کر کتاب و سنت سے اعراض کئے ہوئے ہیں جو کئی مسائل میں مرتکب خطا ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے آپ کو آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کا پابند کر رکھا ہے حالانکہ ان میں سے کسی کی تقلید کا کوئی جواز نہیں اور ایسے لوگوں کے اقوال کو قابل اعتماد ٹھہرا لیا ہے جن پر اعتماد کی ضرورت نہ تھی۔ مقلدین کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ وہ نصوصِ کتاب و سنت کے مقابلے میں آئمہ کے اقوال کو پیش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قواعد شرعیہ ہی ایسے قواعد ہیں جن پر کلی اعتماد کیا جا سکتا ہے اور ان کے بغیر کسی اور چیز پر فتویٰ صادر کرنا قرین صحت نہیں۔
    اب صورتِ حال یہ ہے کہ سنت رسولِ کریم ﷺ کے متبع کی حیثیت ایک اجنبی اور مسافر کی سی ہو کر رہ گئی ہے ایسے شخص کو اس دَور میں کوئی وقعت نہیں دی جاتی۔ ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کتاب و سنت سے روگرداں ہے اور اکثر مقامات پر ان دو بنیادی نصوصِ شرعیہ پر عمل متروک ہو چکا ہے۔ (واللہ المستعان)۔
    وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۝۱۱ (البقرۃ:۱۱)
    جب کبھی اُن سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو اُنہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔
    جو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے اور دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی پر اُکساتا ہے تو گویا وہ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور زمین و آسمان میں اِصلاح کی ایک ہی صورت ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ترجمہ) ’’ان بھائیوں نے کہا: اللہ کی قسم! تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے ہیں اور ہم چوریاں کرنے والے لوگ نہیں ہیں‘‘ (یوسف:۷۳)۔
    یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ہر نافرمانی فساد فی الارض ہے۔ زیر نظر آیت کریمہ کا باب سے تعلق یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ سے فیصلہ کروانا منافقین کا کام ہے جو درحقیقت فساد فی الارض ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اس بات کی تنبیہ کی گئی ہے کہ خواہشات کے بندوں کے اقوال سے ہوشیار اور چوکس رہنا چاہیئے کیونکہ یہ لوگ اپنے دعوؤں کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اہل خواہش کے فریب سے بھی ہوشیار رہنا چاہیئے جب تک کہ وہ اپنی بات کی دلیل کتاب و سنت سے پیش نہ کریں۔ کیونکہ اُن کی یہ عادت ہے کہ وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ فساد فی الارض کی اس سے بڑی اور کیا صورت ہو سکتی ہے۔ فساد فی الارض سے خود بخود ایسے اُمور مرتب ہوتے ہیںجن سے انسان دائرہ حق سے باہر نکل کر باطل کی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔
    ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ لوگوں کی اکثریت اسی وہم میں گرفتار ہے سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان و یقین کی پختگی کی نعمت عطا فرما دی ہو ، شہواتِ نفس کے غلبہ کے وقت ان کی عقل کامل اور شکوک و شبہات کے مقابلے میں وہ بصیرت تامہ سے بہرہ ور ہوں۔ بس یہی وہ افراد ہیں جو شبہات اور وساوس سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم۔
    قول اﷲ تعالیوَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا۝۰ۭ اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۵۶ (الاعراف:۵۶)

    زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اِصلاح ہو چکی ہے اور اللہ ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔
    اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے ابوبکر بن عیاش رقمطراز ہیں کہ: ’’زمین کے چپہ چپہ پر فساد برپا تھا، پس اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرما کر زمین اور اہل زمین کی اصلاح فرمائی اور اب جو شخص کتاب و سنت کو چھوڑ کر کسی دوسری طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے وہ فساد فی الارض کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے‘‘۔
    علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اکثر مفسرین کا بیان ہے کہ فساد فی الارض یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی میں زندگی برباد کر دے۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت اور شریعت اسلامیہ کی وضاحت سے اہل زمین کی اصلاح کے بعد کسی کا غیر اللہ کی اطاعت کی طرف دعوت دینا فساد فی الارض کی بدترین شکل ہے کیونکہ غیراللہ کی عبادت اور اس کی طرف دعوت دینا شرک ہے اور کتاب و سنت کی مخالفت درحقیقت فساد فی الارض اور شرک ہے۔ پس شرک کرنا غیر اللہ کی اطاعت کی طرف دعوت دینا، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو معبود ٹھہرانا اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین کو چھوڑ کر دوسروں کی پیروی کرنا سب سے بڑا فساد فی الارض ہے۔ اصلاح کی ایک ہی صورت ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کو معبود مانا جائے، اسی کی توحید کی طرف لوگوں کو دعوت دی جائے، اس کے آخری پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کی جائے اور آپ ﷺ کے علاوہ کسی بھی شخص کی بات پر عمل کرنے سے پہلے بڑے غور و فکر سے یہ دیکھ لیا جائے کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی مخالفت تو نہیں کر رہا اور اگر کتاب و سنت کے برعکس بات کہہ رہا ہو تو اُس کی بات کو چھوڑ دینا چاہیئے کیونکہ شریعت اسلامیہ میں کسی کی سمع و اطاعت ہرگز نہیں کرنا چاہیئے۔ دنیا کے حالات کا سرسری جائزہ لینے کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ اصلاحِ حال کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی عبادت اور رسول اللہ ﷺ کی اتباع کو اپنے اوپر لازم قرار دے لے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی توحیدکا انکار یا آپ ﷺ کی نافرمانی کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ کی زمین میں فتنہ و فساد برپا ہو جاتا ہے، قحط سالی کا دور دورہ ہوتا ہے اور خصوصاً دشمن اسلام مسلمانوں پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے‘‘۔
    زیرنظر آیت کریمہ کا ترجمۃ الباب والی آیت سے تعلق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر دوسروں سے فیصلہ کروانا تمام گناہوں سے بدترین گناہ ہے جو حقیقی طور پر فساد فی الارض ہے۔ اصلاح کی ایک ہی صورت ہے کہ انسان اپنے تمام متنازع فیہ مسائل میں صرف کتاب و سنت کی طرف رجوع کرے۔ تمام مومنین کا یہی طریقہ اور دستور رہا ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (ترجمہ) ’’اور جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے درآں حال یہ کہ اس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو تو اس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے‘‘۔ (النسا:۱۱۵)۔
    اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَ۝۰ۭ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ۝۵۰ۧ (المائدۃ:۵۰)
    (اگر یہ اللہ کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں اُن کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں۔
    زیر نظر آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی تردید کرتا ہے جو اس کے ان احکامات سے اعراض کرتے ہیں جن میں خیر ہی خیر ہے جن میں ہر قسم کے شر سے روکا گیا ہے اور ایسی آرا، اقوال اور اصطلاحات کی طرف رجوع کرتے ہیں جن کو ان لوگوں نے وضع کیا ہے جو شریعت اسلامیہ کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں جیسے تاتاریوں نے چنگیز خان کی تقلید اور اس کی آراء کے مطابق فیصلے کرنے شروع کر دیئے۔ چنگیز خان نے یاسق کے نام سے ایک دستور مرتب کیا جو حقیقت میں مختلف مذاہب مثلاً یہودیت و نصرانیت اور ملت اسلامیہ سے مقتبس تھا اور اس انتخاب میں بھی اس نے اپنی خواہشات اور ذاتی نظریہ کو ملحوظ رکھا یہ ایسا مجموعہ ہے جسے اس کے پیروکار کتاب و سنت پر مقدم قرار دیتے ہیں اور اس کو مقدس سمجھتے ہیں۔ پس جو شخص ایسے فعل کا مرتکب ہو گا وہ کافر ہے جس سے اس وقت تک جنگ کی جائے گی جب تک کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع نہ کر لے اور معمولی سے معمولی اور بڑے سے بڑے تنازع میں کتاب و سنت کو حکم نہ مان لے‘‘۔
    جو شخص عقل و خرد سے اور غور و فکر سے کام لے گا اس کے سامنے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائے گی کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے زیادہ عدل کہیں نہیں۔ اللہ احکم الحاکمین ہے اور ماں سے بھی زیادہ اپنی مخلوق پر رحمت و شفقت کرنے والا ہے۔ وہ اپنے بندوں کی حاجتوں کو خوب جانتا ہے، وہ ہر چیز کے کرنے پر قدرتِ تامہ رکھتا ہے اس کے اقوال و افعال اور قضاء و قدر میں بیشمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ اس آیت کریمہ میں جاہلیت کے تمام فیصلوں کو کتاب و سنت کے فیصلوں یک مقابلے میں ترک کر دینے کی وضاحت کی گئی ہے اور جس شخص نے جاہلیت کے فیصلہ کو اپنایا اس نے حق اور احسن فیصلہ سے اعراض کیا اور باطل کو حق کے مقابلے میں ترجیح دی-
     
    Last edited by a moderator: ‏جولائی 15, 2012
  2. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُوْلاً أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ
    ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کردیا کہ ’’اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔(النحل : ۳۶)۔


    طاغوت: طغیان سے مشتق ہے، اس کے معنی حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’طاغوت کا اطلاق شیطان پر ہوتا ہے‘‘۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: طاغوت ہر اس شے کا نام ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہو۔

    علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے طاغوت کی ایک ایسی تعریف کی ہے جو بڑی جامع و مانع ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی وجہ سے انسان حد سے تجاوز کر جائے، خواہ عبادت میں، یا تابعداری میں، یا اطاعت میں۔ ہر قوم کا طاغوت وہی ہے جس کی طرف وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے بجائے فیصلہ کے لئے رجوع کرتے ہیں، یا اللہ کے سوا اس کی پرستش کرتے ہیں، یا بلا دلیل اس کی اتباع کرتے ہیں، یا اس کی اطاعت بغیر اس علم کے کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو چھوڑ کر جس کسی کے پاس بھی اپنا فیصلہ لے جایا جائے یا اللہ کے سوا جس کی بھی عبادت کی جائے یا رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو ترک کر کے کسی دوسری شخصیت کی اطاعت کی جائے، اُسے اس قوم کا طاغوت سمجھا جائے گا‘‘۔

    ارشادِ الٰہی ہے:
    (ترجمہ)’’ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔ (النحل:۳۶)۔
    اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے: ترجمہ:اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں (البقرۃ:۲۵۶)۔ حقیقت میں کلمہ ’’لا اِلٰہ الا اﷲ‘‘ کا مطلب یہی ہے۔ کیونکہ ’’مضبوط سہارا‘‘ ’’لا اِلٰہ الا اﷲ‘‘ ہی ہے۔


    قال اللّٰہ تعالٰی: وَقَضٰی رَبُّکَ أَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اِیّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُھُمَآ أَوْ کِلٰھُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّھُمَآ أُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْماً وَ اخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا
    تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُسی کی۔ اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکررہیںتو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔ اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ ’’پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالاتھا‘‘۔(بنی اسرائیل:۲۳، ۲۴)۔


    علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’محض نفی یا اثبات بلا نفی توحید نہیں ہے، بلکہ حقیقی توحید یہ ہے کہ وہ نفی اور اثبات دونوں کو متضمن ہو‘‘۔

    مسند امام احمد میں ابن عباس سے منقول ہے ۔
    سیدنا عمر بن الخطابرضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ ابوالعالیہ ، مجاہد رحمہ اللہ اور حسن وغیرہ نے الجبت سے سحر اور طاغوت سے شیطان مراد لیا ہے ۔
    قُلْ ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِکَ مَثُوْبَۃً عِنْدَ اللہِ مَنْ لَّعَنَہُ اللہُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ وَجَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَ الْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْت {سورۃ المائدہ : ۶۰}
    پھر کہو کیا میں ان لوگوں کی نشان دہی کروں جِن کا انجام اﷲ تعالیٰ کے ہاں فاسقوں کے انجام سے بھی بدتر ہے ۔ وہ جِن پر اﷲ نے لعنت کی ، جن پر اس کا غضب ٹوٹا ۔ جن میں سے بندر اور سُور بنائے گئے جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی ۔


    علامہ ابن قیم رحمہ اللہ بنوثقیف کے اسلام اور لات کے گرائے جانے کا واقعہ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ہر اس جگہ کو جہاں شرک اور کسی بھی طاغوتی طاقت کی پرستش ہورہی ہو جہاں تک ممکن ہو، اسے منہدم کردینا ضروری ہے۔ ایک دن بھی اسے باقی نہ رکھا جائے۔
    پھر ان بڑے بڑے قبوں اور ہر قسم کی تعمیرا ت کو جو قبوں پر بنائی گئی ہیں ، اور جن کی اﷲ تعالیٰ کے سوا عبادت ہورہی ہے گرادینا ضروری ہے ۔


    اسی طرح ان حجر وشجر کو ، جن کو لوگ متبرک سمجھتے ہیں اور جن پر نذر و نیاز دیتے ہیں ، طاقت و قدرت ہوتے ہوئے فوراً ختم کردینا چاہیے ۔ کیونکہ ان میں سے اکثر کو لات ، مناۃ ، اور عزی کا سا مقام دے دیا گیا ہے یا ان سے بھی بڑھ کر ان کی تکریم ہوتی ہے ۔ ان کے پجاری اپنے سے پہلے یہودو نصارٰی کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔ اور قدم بقدم ان کی تقلید میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ کم علمی اور جہالت کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہیں۔

    سب سے بڑا ظلم تو یہ ہورہا ہے کہ معروف کو منکر اور منکر کو معروف سمجھا جارہا ہے ۔ اسی طرح سنت کو بدعت سمجھ کر رد کردیاگیا اور بدعت کو سنت سمجھ کر اپنا لیا گیا ہے ۔ شریعت مطہر ہ کے نشانات ختم ہو کر رہ گئے ہیں ۔ اور اسلام کی بیچارگی کا یہ عالم ہے کہ اس پر غور و فکر کرنے کی کوئی شخص بھی تکلیف گوارا نہیں کرتا ۔ علمائے حق ، اﷲ کو پیارے ہوچکے ہیں اور سفہاء اور احمق لوگوں کا دور ،دورہ ہے ۔ کوئی کام بھی تو ٹھیک سے نہیں ہورہا ہے ۔ مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے ۔ اور لوگوں کی بدعملی اور گناہوں کی وجہ سے بروبحر میں فساد برپا ہوچکا ہے ۔

    لیکن ان ناموافق حالات کے باوجود مسلمانوں میں سے ایک جماعت حق وانصاف پر قائم رہے گی ، جو مشرکین اور مبتد عین سے برسر پیکار ہوگی ، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ اس کرۂ ارضی کا وارث ہو جائے۔ کیونکہ وہی بہتر اور اعلیٰ وارث ہے ۔

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ ان دونوں کو خیر وشر ، کفر اور ایمان کا علم تھا جس کی وجہ سے ان کو اس بات کا بھی علم تھا کہ جادو کفر ہے‘‘۔
    وقولہ یُؤْ مِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وِالطَّاغُوْتِ (سورۃ النساء : ۵۱) قال عمرأَلْجِبْتُ السِّحْرُوَ الطَّاغُوْتُ الشَّیْطٰنُ وقال جابر الطواغیت کاھن ینزل علیہ الشیطٰن فیْ کلّ حی واحد
    ان کا حال یہ ہے کہ وہ جبت اور طاغوت کو مانتے ہیں ۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ الجبت جادو اور الطاغوت شیطان ہے ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ طاغوت وہ کاہن ہیں جن پر شیطان اترتا تھا اور ہر قبیلے کا الگ الگ کاہن ہوتا تھا ۔


    جبت اور طاغوت کیا ہے؟
    مصنف محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت کی ہے کہ الجبت بھی جادو میں سے ہے ۔
    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’الجبت جادو اور الطاغوت شیطان ہے‘‘۔ یہ اثر ابن ابی حاتم وغیرہ نے نقل کیا ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جبت جادوہے اور طاغوت شیطان ہے ۔
    سلف امت کے اقوال وارشادات کے مطالعہ کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ہر وہ چیز جو انسان کو اﷲ کی عبادت سے روکے ، اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے سدراہ ثابت ہو، خواہ وہ انسان کی صورت میں ہو یا جن کی ، شجروحجر کی صورت میں ہو یا قوانین اسلامیہ کے علاوہ اجنبی دستور کی صورت میں ۔ غرض کسی بھی شکل میں ہو ، طاغوت کہلائے گی اور ان پر عمل کرنے والے اورنافذ کرنے والے بھی طاغوت کہلائیں گے ۔


    مزید فرمایا:
    طاغوت میں وہ کتب بھی شامل ہیں جو عقل انسانی کی ایجاد ہیں ، جن سے شریعت اسلامیہ سے دوری پیدا ہونے کا امکان ہو۔


    محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے مزید فرمایا:
    وہ بھی طاغوت ہے جو اللہ کی الوہیت اور ربوبیت میں رخنہ اندازی کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی عبادت کے لئے لوگوں کو دعوت دیتا ہے۔ ٭ یا ایسا طاغوت ہے جو غیر اللہ کی عبادت کے لئے لوگوں کو بلاتا ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. ام احمد

    ام احمد محسن

    شمولیت:
    ‏جنوری 7, 2008
    پیغامات:
    1,333
    جزاک اللہ خیر بھای
     
  4. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    جزاک اللہ خیرا.
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں