گستاخانہ فلم کے مقاصد از طیبہ ضیا چیمہ

dani نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏ستمبر 24, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329

    گستاخانہ فلم کے مقاصد
    طیبہ ضیا چیمہ
    نوائے وقت
    گستاخانہ فلم کا نام نہاد فلمساز ایک عادی مجرم ہے جس کو مختلف جرائم اور جعلسازی میں سزا ہو چکی ہے اور اس وقت بھی پروبیشن پر ہے۔ ایک کنگلا اور مجرمانہ پس منظر کا حامل شخص امریکہ میں فلم کیوں کر بنا سکتا ہے گو کہ ملعون فلم قلیل سرمایہ سے بنائی گئی ہے مگر مقصد چونکہ ”عالمی جنگ“ہے لہٰذا جنگل کو آگ لگانے کے لئے ماچس کی ایک تِیلی ہی کافی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کیلی فورنیاکے ایک چرچ نے ملعون کو آٹھ لاکھ ڈالر کا چندہ دیا جبکہ اس فلم کے کرداروں کا الزام ہے کہ ان کی آواز ڈب کرکے فلم کی کہانی اور نام بدل دیا گیا۔ توہین آمیز فلم ”انوسنس آف مسلمز“ کی ایک اداکارہ نے لاس اینجلس کی عدا لت میں فلم ٹریلر کو یو ٹیوب سے ہٹانے اور اس کی مالک کمپنی ”گوگل“ کے خلاف ایکشن لینے کی درخواست دائر کی تھی جو کہ مسترد کر دی گئی۔ اداکارہ کا م¶قف تھاکہ اس ٹریلر کے ریلیز ہونے سے اس کی نجی زندگی متاثر ہو رہی ہے۔ اداکارہ نے ملعون فلمساز کے خلاف دھوکہ دہی کے الزام میں دوسرا مقدمہ دائر کیا ہے۔ اداکارہ کا کہنا ہے کہ اسے یہ باور کرایا گیا تھا کہ وہ جس فلم میں کام کر رہی ہے وہ قدیم مصر کی تہذیب سے متعلق ہے۔ اداکارہ نے اپنی درخواست میں الزام عائد کیا ہے کہ فلمبند کئے گئے اصل مکالموں کی جگہ اس میں ایسے مکالمے شامل کر لئے گئے جن میں پیغمبر اسلام کی توہین کی گئی ہے۔ اس فلم کا پہلا نام Desert Warrior تھا ۔۔۔ انگریزی میں بنائی گئی اس فلم کو ریلیز کرنے سے پہلے عربی ترجمہ کے ساتھ یو ٹیوب پر ڈال دیا گیا جس کا مقصد نہ صرف اسلام کی تضحیک ہے بلکہ امریکی عوام کے دل میں صدر اوباما کے خلاف جذبات کو بڑھکانا ہے۔ صدر اوباما کا حریف مٹ رومنی کو اسرائیل کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ری پبلکن صدارتی امیدوار رمنی نے انتخابی مہم کے دوران ایک ریاست میں مسلمانوں سے فنڈز قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ امریکہ کے پچھلے انتخابات میں ری پبلکن کا باراک اوباما کو مسلمان قرار دیے جانے کا پروپیگنڈا بیکار ثابت ہوا اور اوباما بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہو گئے۔ اسرائیل صدر اوباما کو مزید چار سال کے لئے وائٹ ہاﺅس میں برداشت نہیں کر سکے گا لہٰذا انہیں ہرانے کے لئے امریکی شہری سے اسلام مخالف فلم بنا ڈالی۔ مصر کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ملعون فلمساز کی ذہنیت کا پول کھل جاتا ہے۔ مصر میں کوپٹک کرسچن اسرائیل کے لئے مصر کے خلاف جاسوسی کرتے رہے جبکہ اسرائیل اپنے مقاصد کے لئے امریکہ کو بھی استعمال کرتا ہے اور امریکہ اپنے مفادات کے لئے پوری دنیا کو استعمال کرنا چاہتا ہے خاص طور پر مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کے لئے بعض اوقات اسرائیل کو بھی بائی پاس کر دیتا ہے جو کہ اسرائیل کے لئے ناقابل ہضم پالیسی ہے۔ اسرائیل کے یہودی امریکہ میں اپنے ملک و قوم کے مفاد کے لئے کام کرتے ہیں۔ اسرائیل امریکہ میں مقیم یہودیوںکو امریکہ کے خلاف جاسوسی کے لئے استعمال کرتا ہے اور امریکہ کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ صدر اوباما جو نہ صرف ایک سیاہ فام ہے بلکہ ان کا خاندانی پس منظر مسلمان ہے لہٰذا باراک اوباما اسرائیل کو کبھی برداشت نہیں ہو سکا۔ ری پبلکن چونکہ بنیاد پرست اور متعصبانہ سوچ رکھنے والی پارٹی سمجھی جاتی ہے لہٰذا اس پارٹی کو یہودی لابی کی خاص معاونت حاصل ہے۔امریکہ کے انتخابات سر پر ہیں مگر حریف پارٹی صدر اوباما کی مقبولیت کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ صدر اوباما اور اسرائیلی وزیراعظم کے درمیان سرد جنگ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسرائیل کے بے حد اصرار کے باوجود اوباما نے ایران پر حملہ نہیں کیا جس سے صدر اوباما کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اسرائیل کسی صورت نہیںچاہتا کہ اوباما دوسری بار صدر منتخب ہوں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے اگر عوام اوباما کے خلاف متحد ہو جائیں۔ اوباما کو شکست دینے اور اپنے ہم خیال مٹ رمنی کو جتوانے کے لئے یہودی لابی نے اس بار گہری چال چلی۔ اسرائیلی جاسوس امریکی قبطی کرسچن، ایک جرائم پیشہ کو فنڈز دے کر اسلام مخالف فلم بنائی تا کہ امریکہ کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ جائے اور تین لاکھ مسلمان ووٹر فلم کا ذمہ دار اوباما حکومت کو قرار دے کر انہیں ووٹ نہ دیں۔ شاطر یہودی جانتا ہے کہ فلم کا آتش فشاں پھٹتے ہی دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف نفرت کا لاوا پھوٹ جائے گا اور صدر اوباما مسلمانوں کے جذبات ٹھنڈے کرنے کے لےے لچکدار بیان دینے پر مجبور ہو جائیں گے، یہ وہ نازک موقع ہو گا جب مخالفین جلتی پر تیل کا کام کریں گے کہ ’ہم نہ کہتے تھے کہ باراک حسین اوباما مسلمان ہے۔“ ملعون فلم کے پس پشت دو مقاصد تھے، صدراوباما کی مقبولیت کو نقصان پہنچانا اورمسلم دنیا میں انتشار پھیلانا۔ صدر اوباما بھی فلم کے پس پشت چال کو جانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ فلم کی مخالفت میں غیر سیاسی الفاظ سے گریزاں ہیں۔ امریکہ کے مسلمان ووٹرز بھی چونکہ فلم کے پس منظر کو سمجھتے ہیں لہٰذا اسرائیل کے دوست اور اوباما کے حریف مٹ رمنی کو ووٹ دینے کا ارادہ نہیں رکھتے البتہ اس شاطرانہ چال کا دوسرا پہلو کامیاب ہوتا دکھائی دےتا ہے۔ یہودی جانتا ہے کہ فلم کے ردعمل میں مسلمان امریکہ کے خلاف ہو جائیں گے اور امریکی ووٹرز مسلمانوں کو کچلنے کےلئے اسرائیل کے دوست مٹ رمنی کو ووٹ دیں گے۔ اوباما حکومت انتخابات اور فلم کی نزاکت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بیانات میں احتیاط سے کام لے رہی ہے۔ ایک طرف مسلم ووٹرز ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کا ”تیل“ ہے جس کو ہمیشہ حکمت عملی کے ساتھ ”نچوڑا“ گیا ہے۔!
     
  2. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    شیرنگ کا شکریہ
     
  3. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    شکریے کا شکریہ :)
     
  4. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    اچھا کالم ہے ۔ تفصیل سے اس فلم کے اصل مقصد کو بیان کیاگیا ہے ۔ شیئرنگ کا شکریہ ۔
     
  5. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954
    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    صدر اوبامہ نے اقوام متحدہ ميں اپنی تقرير ميں جس بات کو واضح کيا وہ امريکی معاشرے ميں رائج قوانين اور آزادی راۓ کے اظہار کا وہ بنيادی آئينی حق ہے جو بغير کسی تفريق کے ہر فرد کو حاصل ہے۔

    امريکی حکومت کسی مخصوص گروہ کے خلاف دانستہ تشدد کی ترغيب کے سوا آزادی راۓ پر کوئ پابندی نہيں لگاتی۔

    امريکہ ميں ايسا کوئ قانون موجود نہيں ہے جو کسی بھی شخص کے خلاف کسی مخصوص مذہب، فرقے يا سياسی نظريے کے خلاف بولنے کی پاداش ميں قانونی مقدمے کا سبب بنے۔

    مختلف فورمز پر راۓ دہندگان جو اس بات پر بضد ہيں کہ اسلام اور مسلمان امريکی حکومت کے ايما پر دانستہ نشانہ بناۓ جا رہے ہيں، وہ اپنی دليل کے دفاع ميں ايسی مثالیں بھی ديتے ہيں جو اکثر غير متعلقہ اور تناظر سے ہٹ کر غلط پيراۓ میں بيان کی جاتی ہيں۔

    حقيقت ميں اس دعوے ميں کوئ سچائ نہيں ہے ۔

    اس سوچ کی بنيادی اساس اور نظريہ ہی تضادات پر مبنی ہے۔ ايک جانب تو راۓ دہنگان يہ تاثر ديتے ہيں کہ امريکی حکومت اتنی فعال اور وسائل سے مالا مال ہے کہ ہم نے تمام سوشل اور ميڈيا نيٹ ورکس کو اس حد تک اپنے زير اثر اور کنٹرول ميں کيا ہوا ہے کہ ہم مسلمانوں اور اسلام کی اہم اور مقدس شخصيات کے بارے ميں مواد پھيلا سکتے ہيں۔

    ليکن زمينی حقائق اور سوشل ميڈيا کے سرسری جائزے سے يہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ امريکی مخالف مواد خود امريکہ کے اندر بھی نا صرف يہ کہ باآسانی دستياب ہے بلکہ اس کی کھلم کھلا تشہير بھی جاتی ہے۔

    جہاں تک أنور العولقي کی ويڈيوز کا يو ٹيوب سے ہٹايا جانا اورايسی ہی ديگر مثاليں ہيں جن کا راۓ دہندگان بار بار حوالہ دے کر امريکی حکومت کی مبينہ دوغلی پاليسی کا ذکر کرتے ہيں، تو اس ضمن ميں يہ سمجھنا ضروری ہے کہ امريکی حکومت کا سوشل ميڈيا پليٹ فارمز کی پاليسيوں، رائج قواعد و ضوابط اور انتظاميہ کے صوابديدی اختيارات پر کوئ کنٹرول نہيں ہے۔

    يہ ان ويب سائٹس کی انتظامیہ پر منحصر ہے کہ کس مواد کوپوسٹ کرنے کی اجازت دی جاۓ اور کون سے مواد ان کی جانب سے ممبران کے ليے وضع کردہ قوانين کی حدود سے باہر ہے۔ امريکی حکومت کا اس سارے عمل پر کوئ اختيار يا کنٹرول نہيں ہے۔ اس بات کے ثبوت کے ليے انھی ويب سائٹس پر ايسی ہزاروں ويڈيوز آپ ديکھ سکتے ہيں جن ميں خود ہماری اپنی حکومت پر تنقيد کے ساتھ ساتھ امريکی صدر کو بھی تضحيک کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔

    يہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ امريکہ ميں "اينٹی سيميٹزم" اور "ہيٹ سپيچ" کے حوالے سے رائج قوانين کا اطلاق اسی صورت ميں ہوتا ہے جب کوئ فرد يا گروہ کسی مخصوص گروپ سے متعلق دانستہ تشدد کی ترغيب میں ملوث ہو۔ قانون کی تشريح کے مطابق "ہيٹ سپيچ" وہ تقرير ہوتی ہے جو نفرت اور تشدد کی حوصلہ افزائ اور ترغيب ديتی ہے۔

    میں آپ کو يقين دلاتا ہوں کہ امريکی حکومت يقينی طور پر اظہار راۓ کی آزادی کا مکمل احترام کرتی ہے ليکن ملک کے اندر مسلمانوں سميت کسی بھی گروہ کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کی روک تھام کے ليے پوری طرح پرعزم ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    U.S. Department of State
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu
     
     
     
  6. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    سلوگن
    Love Pakistan or Leave Pakistan
    بدلنے کا شکریہ
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں