ہاتھوں کی محنت والی کمائی

نعیم یونس نے 'نقطۂ نظر' میں ‏اکتوبر، 8, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
    [font="al_mushaf"]قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم: (( مَا أَکَلَ أَحَدٌ مِنْکُمْ طَعَامًا أَحَبَّ إِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مِنْ عَمَلِ یَدَیْہِ۔ ))
    مسند أحمد، رقم: ۱۷۱۱۵، وقال حمزۃ أحمد الزین: إسنادہ صحیح۔[/font]

    ’’ تم میں سے کسی نے بھی ایسا کھانا نہیں کھایا جو رب تعالیٰ کو اس کی ہاتھوں کی کمائی سے زیادہ محبوب ہو۔ ‘‘
    شرح…: اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ کھانا وہ پسند ہے جسے انسان اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے۔
    اسلام نے کام پر رغبت دلائی اور لوگوں سے مانگنا منع کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    [font="al_mushaf"]وَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: (( لَأَنْ یَّأْخُذَ أَحَدَکُمْ حَبْلَہُ فَیَأْتِيْ بِحُزْمَۃِ الْحَطَبِ عَلَی ظَھْرِہِ فَیَبِیْعَھَا فَیَکُفَّ اللّٰہُ بِھَا وَجْھَہُ، خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَسْأَلَ النَّاسَ أَعْطُوْہُ أَوْ مَنَعُوْہُ۔))
    أخرجہ البخاري في کتاب الزکوٰۃ، باب: الاستعفاف عن المسألۃ، رقم: ۱۴۷۱۔[/font]

    ’’ اگر کوئی اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے، اس کو بیچے اور اللہ اس کے ذریعے اس کی آبرو بچائے رکھے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے کہ وہ دیں یا نہ دیں۔ ‘‘
    اس حدیث میں مانگنے سے بچنے پر ابھارا گیا ہے، گو انسان طلب معاش میں اپنے آپ کو حقیر سمجھتا رہے اور مشقت اٹھاتا رہے کیونکہ کمائی کی وجہ سے کام کرنے میں کوئی عار نہیں، نیز اس حدیث سے ہاتھ کے کام کی فضیلت بھی ظاہر ہوتی ہے اور کسی سے کام کروانے کی بجائے براہ راست خود کام کرنے کا مقدم ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔
    امام المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود محنت کرتے اور اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتے تھے یہاں تک کہ مکہ والوں کی بکریاں بھی چراتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    [font="al_mushaf"]قَالَ صلی اللہ علیہ وسلم: (( مَا بَعَثَ اللّٰہُ نَبِیًّا إِلاَّ رَعٰی الْغَنَمَ )) فَقَالَ أَصْحَابُہُ: وَأَنْتَ؟ فَقَالَ: ((نَعَمْ، کُنْتُ أَرْعَاھَا عَلیٰ قَرَارِیْطَ لِأَھْلِ مَکَّۃَ۔ )) أخرجہ البخاري في کتاب الإجارۃ، باب: رعي الغنم علی قراریط، رقم: ۲۲۶۲۔[/font]
    ’’ اللہ تعالیٰ نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ صحابہ نے عرض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی چرائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میں چند قیراط اجرت پر مکہ والوں کی بکریاں چراتا تھا۔ ‘‘
    سب انبیاء و رسل ہی کام کرتے اور اپنے ہاتھوں سے کماتے تھے چنانچہ داؤد علیہ السلام کاریگر تھے اور اپنے ہاتھ کی کمائی کماتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    [font="al_mushaf"](( مَا أَکَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَیْرًا مِنْ أَنْ یَأْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدَہِ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللّٰہِ دَاودَعلیہ السلام کَانَ یَأْکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ۔ ))
    صحیح سنن أبي داؤد، رقم: ۳۰۱۳۔[/font]


    ’’ کسی آدمی کے لیے اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔ ‘‘
     
  2. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    حدیث میں صرف داؤدعلیہ السلام کے ذکر میں حکمت یہ ہے کہ کام کرنا ان کی مجبوری نہیں تھا کیونکہ اللہ رب تعالیٰ کے فرمان کے مطابق وہ زمین میں خلیفہ و حکمران تھے لیکن انہوں نے افضل طریقے سے کما کر کھانے کو پسند کیا، اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کی محنت سے کمائے گئے مال کو بہترین ثابت کرنے کے لیے بطور دلیل داؤدعلیہ السلام کا قصہ پیش کیا۔
    حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کمانا، توکل کے منافی نہیں۔ داؤدعلیہ السلام کا ہاتھ سے محنت کرنے سے مراد زرہ بکتر بنانا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے لوہے کو نرم کردیا تھا چنانچہ وہ زرہ بنا بنا کر فروخت کرتے اور بڑے بادشاہ اور حکمران ہونے کے باوجود صرف اور صرف اسی چیز کی کمائی کھاتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

    [FONT="Al_Mushaf"]{وَشَدَدْنَا مُلْکَہُ وَآتَیْنَاہُ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ o} [صٓ:۲۰][/FONT]
    ’’ اور ہم نے اس کی (داؤد علیہ السلام کی) سلطنت کو مضبوط کردیا تھا اور اسے حکمت اور فضل الخطاب (فیصلہ کن خطابات) عطا کی۔‘‘
    اس کے باوجود وہ محتاط رہتے اور صرف اپنے ہاتھ کی محنت سے کمائی ہوئی روزی تناول فرماتے۔
    اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]{وَعَلَّمْنٰہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسٍ لَّکُمْ لِتُحْصِنَکُمْ مِّنْ بَأْسِکُمْ فَھَلْ أَنْتُمْ شٰکِرُوْنَ o} [الانبیاء: ۸۰][/FONT]
    ’’ اور ہم نے اسے (داؤد علیہ السلام کو) تمہارے لیے لباس بنانے کی کاریگری سکھائی۔ جو تمہاری جنگوں میں حفاظت کا موجب ہے تو کیا تم شکر بھی ادا کرنے والے بنو گے۔‘‘
    امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت رقمطراز ہیں کہ کام سیکھنے اور اسباب پکڑنے میں یہ آیت بنیادی حیثیت کی حامل ہے اور عقل مندوں کی یہی رائے ہے، یہ جاہل اور غبی قسم کے انسانوں کا قول نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ کام سیکھنا صرف کمزوروں کے ذمہ ہے۔
    اس کا سبب اللہ کی مخلوق میں اللہ کی سنت ہے، چنانچہ جس نے اس میں (محنت مزدوری میں) طعن کیا تو وہ کتاب اللہ اور سنت میں نقص نکالتا ہے اور جن نبیوں کا ہم نے تذکرہ کیا ہے ان کی نسبت کمزوری اور جنون کی طرف کرتا ہے۔ کاریگری کے ذریعہ انسان اپنے آپ کو لوگوں سے روک لیتا ہے اور اپنے نفس سے ضرر اور تنگی دور کرتا ہے۔
    ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول اس کی ایک شرط یہ ہے کہ انسان یہ اعتقاد نہ رکھتا ہو کہ رزق کمانے سے حاصل ہوتا ہے بلکہ یہ نظر یہ ہو کہ اس واسطہ سے رزق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے۔
     
  3. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    ہاتھ سے محنت کرنے کی فضیلت میں باطل اور لہو و لعب کے مقابلہ میں مباح امور میں مشغول رہنا اپنے آپ کو اس کے ساتھ مصروف رکھنا اور غیر سے مانگنے کی ذلت سے بچنا شامل ہے۔
    اس سے بلند مرتبہ والی ہاتھ کی کمائی وہ ہے جو جہاد کے ذریعہ کفار سے حاصل کی جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا یہی ذریعہ تھی یہ اشرف ترین کمائی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند اور دوسرے دشمنوں کا کلمہ پست ہوتا ہے نیز اس میں اخروی نفع بھی ہوتا ہے۔
    یہاں پر ایک اور بھی حلال اور پاکیزہ کمائی ہے لیکن اس کا تعلق براہ راست ہاتھوں کی محنت سے نہیں۔ مراد اس سے اولاد کی کمائی ہے اسے بھی انسان کی ذاتی کمائی ہی شمار کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    [font="al_mushaf"]((عَنْ عَمَّۃِ عَمَارَۃِ بْنِ عُمَیْرٍ أَنَّہَا سَأَلَتْ عَائِشَۃَ: فِیْ حِجْرِیْ یَتِیْمٌ أَفَآکُلُ مِنْ مَّالِہ فَقَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم : إِنَّ مِنْ أَطْیَبِ مَا أَکَلَ الرَّجُلُ مِنْ کَسْبِہِ، وَوَلَدُہُ مِنْ کَسْبِہِ۔ ))
    أخرجہ البخاري في کتاب البیوع، باب: کسب الرجل وعملہ بیدہ، رقم: ۲۰۷۲۔[/font]

    ’’ عمارہ بن عمیر کی پھوپھی بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مسئلہ پوچھا: میری زیر پرورش ایک یتیم ہے۔ کیا میں اُس کے مال سے کھا سکتی ہوں؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے جواب دیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: بے شک زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہے جو انسان اپنی کمائی سے کھاتا ہے اور اس کی اولاد اس کی کمائی سے ہے۔ ‘‘
    کیونکہ اولاد اس کی شادی کی وجہ سے حاصل ہوئی، لہٰذا باپ کے لیے ان کی کمائی کھانا جائز ہے۔
    ابوعیسیٰ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ بعض صحابہ اور دیگر کئی اہل علم کا عمل اسی بات پر ہے کہ والد کا ہاتھ اولاد کے مال میں کشادہ ہے چنانچہ جو چاہے لے سکتا ہے۔
    بعض اہل علم کا قول ہے کہ صرف ضرورت کے وقت ہی لے سکتا ہے ویسے نہیں۔


    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کی وضاحت کی ہے کہ اولاد انسان کی بہترین کمائی میں سے ہے اور اس کا مال کھانا باپ کے لیے جائز و درست ہے چنانچہ فرمایا:
    [font="al_mushaf"](( وَلَدُ الرَّجُلِ مِنْ کَسْبِہِ، مِنْ أَطْیَبِ کَسْبِہِ، فَکُلُوْا مِنْ أَمْوَالِھِمْ۔ ))
    صحیح سنن أبي داود، رقم: ۳۰۱۴۔[/font]

    ’’ آدمی کی اولاد اس کی کمائی سے ہے، (بلکہ) اس کی بہترین کمائی سے ہے، لہٰذا ان کے اموال سے کھاؤ۔ ‘‘
    اسی لیے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا تو اس نے پوچھا: اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! میرا مال بھی ہے اور اولاد بھی اور میرا باپ میرے مال کا محتاج ہے (یعنی میں کیا کروں؟) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:

    [font="al_mushaf"](( أَنْتَ وَمَالُکَ لِوَالِدِکَ؛ إِنَّ أَوْلَادَکُمْ مِنْ أَطْیَبِ کَسْبِکُمْ، فَکُلُوْا مِنْ کَسْبِ أَوْلَادِکُمْ۔ ))
    صحیح سنن أبي داؤد، رقم: ۳۰۱۵۔[/font]

    ’’ تو اور تیرا مال تیرے والد کے لیے ہے بے شک تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی سے ہے چنانچہ اپنی اولاد کی کمائی سے کھاؤ۔ ‘‘
    ایک روایت میں ہے کہ اس آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شکایت لگائی تھی کہ میرا باپ میرا مال ختم کر رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا عذر قبول نہیں کیا اور نہ ہی والد پر خرچ روکنے کی رخصت دی بلکہ فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے۔ یعنی جب وہ تیرے مال کامحتاج ہوگا تو ضرورت کے مطابق تجھ سے مال لے سکتا ہے جیسے وہ اپنے مال سے لیتا تھا اور جب تیرے پاس مال نہیں تھا لیکن اب تیرے پاس کمائی کا ذریعہ ہے تو تجھ پر کما کر باپ پر خرچ کرنا لازم ہے۔
     
  4. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    بہترین مضمون ہے
     
  5. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    جزاک اللہ خيرا
     
  6. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    کم نال عزت
    کم نال بہاراں نے


    [font="al_mushaf"]بارك اللہ فیك [/font]
     
  7. ام احمد

    ام احمد محسن

    شمولیت:
    ‏جنوری 7, 2008
    پیغامات:
    1,333
    جزاك الله خير بهائ
     
  8. ابو جزاء

    ابو جزاء -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏جنوری 11, 2012
    پیغامات:
    597

    ہمت افزائی کرنے کی بہترین ترجمانی کی ہے۔

    اللہ تعالی مضمون نگار اور اس پر کسی بھی قسم کا کام کرنے والے، ہمت بندھانے والے تمام لوگوں کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین
     
  9. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک الله خيرا۔
     
  10. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    [FONT="Al_Mushaf"]اللھم آمین[/FONT]
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں