حسین رضي اللہ تعالی عنہ کا سرکہاں دفن ہے ؟

ابن عمر نے 'ماہِ محرم الحرام' میں ‏جنوری 8, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابن عمر

    ابن عمر رحمہ اللہ بانی اردو مجلس فورم

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2006
    پیغامات:
    13,354
    حسین رضي اللہ تعالی عنہ کا سرکہاں دفن اورصحابہ کرام کی قبورکے علم کی کیا اھمیت ہے ؟

    سوال :
    سا‏ئل کا کہنا ہے کہ حسین رضي اللہ تعالی عنہ کی قبرکی جگہ کے بارے میں لوگوں کی رائے بہت ہی زيادہ ہیں ، اورکیا صحابہ کرام رضي اللہ عنہم کی قبور کے علم سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ ہے ؟

    جواب:
    الحمد للہ
    اس میں لوگ حقیقی طورپراختلاف رکھتے ہیں ، ایک قول تویہ ہے کہ انہیں عراق میں دفن کیا گيا ، اورکچھ کہتے ہیں کہ وہ شام میں دفن ہیں ، واقعتًا وہ کہاں دفن ہیں یہ تواللہ تعالی ہی جانتا ہے ۔
    اورسر کے متعلق بھی مختلف اقوال ملتے ہیں ، کچھ تویہ کہتے ہیں کہ وہ شام میں ہے ، اوربعض کا یہ کہنا ہے کہ ان کا سر عراق میں ہے ، اور یہ بھی کہا گيا ہے کہ وہ مصر میں ہے ، اورصحیح بات تو یہ ہے کہ جو مصرمیں ہے وہ نہ تو ان کی قبر اور نہ ہی ان کا سر ہے بلکہ یہ ایک فاش غلطی ہے ۔

    اہل علم نے اس کے متعلق کتابیں لکھیں ہیں جن میں یہ بیان کیا گيا ہے کہ مصر میں ان کی کوئی چيز بھی نہیں اور نہ ہی وہاں جانے کی کوئی وجہ ہی بنتی ہے ، ظن غالب یہی ہے کہ وہ شام میں ہے اس لیے کہ ان کا سر یزید ابن معاویہ کے پاس لےجایا گيا تھا جوکہ شام میں تھا تویہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسے مصر لے جایا گيا تھا ، یاتو وہ شام میں ہی دفن کیا گيا اوریاپھر عراق میں جہاں ان کا جسم تھا واپس کردیا گيا ۔

    بہرحال لوگوں کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ یہ معلوم کرتے پھریں کہ وہ دفن کہاں کیے گۓ اور کہاں ہیں ، مشروع تو یہ ہے کہ وہ ان کے لیے دعائے مغفرت اوررحمت کی جائے ، اللہ تعالی ان کے گناہ معاف فرمائے اوران سے راضی ہو وہ مظلوم ومقتول تھے ۔

    ان کےلیے دعائے مغفرت ورحمت کرنی چاہیے اوران کے لیےاللہ تعالی سے خیرکثير کی امید رکھنی چاہیے ، اور پھروہ اوران کے بھائی دونوں ( یعنی حسن وحسین رضی اللہ تعالی عنھما ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق جنتی نواجوانوں کے سردار ہیں ۔

    اب جس شخص کوان کی قبر کا علم ہے وہ اس کے لیے دعا مغفرت کرتا ہے جس طرح کہ دوسری قبروں کی زیارت کی جاتی ہے تووہ بھی اس کے بارہ میں بغیر کسی غلو اورعبادت کے دعا کرتا ہے توکوئی حرج نہیں ۔

    اسی طرح دوسرے فوت شدگان کی ان سے بھی سفارش طلب جائز نہیں اس لیے کہ میت سے کچھ مانگا نہیں جاسکتا بلکہ اگروہ مسلمان ہوتو اس کے لیے دعاۓ مغفرت کی جاتی ہے کونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

    ( قبروں کی زيارت کیا کرو اس لیے کہ وہ تمہیں موت یاد دلاتی ہیں ) ۔

    اب جوبھی حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہما یا کسی دوسرے مسلمان کی قبر پرصرف اس لیے جاتا ہے کہ ان کے لیے دعائے مغفرت ورحم کی جائے تویہ سنت ہے ، لیکن قبروں کی زيارت کا اگر یہ مقصد ہو کہ وہاں جاکر اس سے مدد واستعانت طلب کی جاۓ اوراس سے سفارش طلب کی جائے تویہ غیرشرعی فعل بلکہ شرکِ اکبر ہے ۔

    اوراسی طرح قبر پرنہ توکوئی عمارت مسجد و قبہ وغیرہ تعمیر کرنا جائزہے اورنہ ہی چراغان کرنا اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

    ( اللہ تعالی یھود و نصاری پرلعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کومسجدیں بنا لیا ) صحیح بخاری و مسلم ۔

    اوراسی طرح صحیح میں حدیث ہے کہ جابربن عبداللہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

    نبی صلی اللہ علیہ رسلم نے قبروں کوپکا کرنے اوران پربیٹھنے اوران پر عمارت کرنے سے منع فرمایا ۔

    تواب اس حدیث کی بنا پر نہ تو قبر پر کوئی عمارت اور قبہ بنانا جائز ہے اورنہ ہی اس پرخوشبولگانا یا چراغاں کرنا اورنہ ہی کپڑے اورغلاف چڑھانا تویہ سب کچھ ممنوع اورشرک کے وسائل ہیں ۔

    اور اسی طرح قبرکے پاس نماز بھی نہیں پڑھی جائے گی اس لیے کہ جندب بن عبداللہ بجلی رضي اللہ تعالی عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان نقل کیا ہے کہ :

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

    ( ہوشیار رہو تم سے پہلے لوگوں نے انباء اورصالحین کی قبروں کو مساجد بنا لیا تھا توتم قبروں کومساجد نہ بنانا میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں ) صحیح مسلم ۔

    یہ حدیث اس پردلالت کرتی ہے کہ قبروں کے پاس نہ تو نماز پڑھی جائے اور نہ ہوانہیں مسجد بنایا جاۓ ، اس لیے کہ یہ شرک کے وسائل اور اسی طرح غیراللہ کی عبادت و دعا اور ان سے استعانت اور ان کے لیے نذرو نیاز اور ان کی قبروں کوباعث برکت سمجھتے ہوۓ انہیں چھونا یہ سب ایسے کام ہیں جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اوربچنے کا کہا ہے ۔

    صرف قبروں کی شرعی طریقہ سے ہی زیارت کی جا سکتی ہے جو کہ بغیر کسی سفرکے ہواور صرف اس کے لیے دعائے مغفرت رحم تک محدود رہے ۔

    اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے اورصراط مستقیم کی راہنمائی کرنے والا ہے .



    دیکھیں کتاب : مجموعۃ فتاوی ومقالات متنوعۃ للشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی ( 6 / 366 )
    ماخوذ مِن الاسلام سوال وجواب
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
    • اعلی اعلی x 1
  2. مون لائیٹ آفریدی

    مون لائیٹ آفریدی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 22, 2007
    پیغامات:
    4,799
    جزاک اللہ خیرا.
     
  3. ARHAM

    ARHAM -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 7, 2007
    پیغامات:
    208
    السلام علیکم !
    زمرد بھائی ۔۔۔۔۔
    اپنی معلومات کے لیے اگر تھوڑی اس کی بھی وضاحت مل جائے تو شکر گزار رہوں گی ۔۔۔۔۔ ایک تو یہ کہ
    بغیر کسی سفر سے کیا مراد ہے ؟؟؟
    اور دوسرے یہ کہ ۔۔۔۔۔۔
    قبر پر چراغاں نہیں کرنا چاہیے ۔۔۔۔۔۔ تو آج کل ہمارے معاشرے میں جو چلن چلا ہے کہ قبر تو کسی اور جگہ ہے لیکن تصویر سامنے رکھ کر یا اس کے بغیر بھی علامتی طور پر موم بتیاں جلائی جاتی ہے وہ بھی غلط ہی ہے ؟
    آپ کا بے حد شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
    ولسلام ۔۔۔۔۔
     
  4. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    وعلیکم السلام
    درج ذیل الفاظ :
    دراصل اس عربی فتویٰ کا ترجمہ ہے جو یہاں درج ہے۔ عربی زبان میں یوں لکھا ہے :
    وإنما تزار القبور زيارة شرعية فقط ، للسلام عليهم والدعاء لهم والترحم عليهم من دون شد رحل لذلك
    شد رحل کے الفاظ ، صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث سے لیے گئے ہیں :
    عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا تشد الرحال الا الى ثلاثة مساجد المسجد الحرام، ومسجد الرسول صلى الله عليه وسلم ومسجد الاقصى ‏"‏‏.
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین مسجدوں کے سوا کسی دوسری جگہ کے لیے سفر اختیار نہ کرو ۔ مسجد حرام ، میری یہ مسجد (مسجدِ نبوی) اور مسجدِ اقصیٰ (بیت المقدس) ۔
    صحيح بخاري ، كتاب فضل الصلاة فى مسجد مكة والمدينة ، باب : فضل الصلاة في مسجد مكة والمدينة ، حدیث : 1198

    شیخ بن باز کا مطلب یہ ہے کہ سفر کر کے ، قبر کی زیارت نہیں کی جانی چاہئے۔ ہاں بغیر سفر کے اپنے ہی علاقے کے قبرستان میں قبروں کی زیارت کی جائے تو یہ درست ہے۔

    تصویر کے سامنے موم بتیاں جلانے کی بات تو مجھے نہیں معلوم۔ ویسے بھی مستند احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے قبروں پر چراغ جلانے سے منع فرمایا ہے۔
     
  5. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    جزاک اللہ خیر
     
  6. asim10

    asim10 -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏جنوری 3, 2009
    پیغامات:
    187
    اچھی انفارمیشن ہے
     
  7. دانیال ابیر

    دانیال ابیر محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2008
    پیغامات:
    8,415
    جزاک اللہ
     
  8. مجیب منصور

    مجیب منصور -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏جنوری 29, 2008
    پیغامات:
    2,150
    مشتمل برحقیقت۔معلومات فراہم کرنت کا بہت شکریہ شداد بھائی۔۔لک الاجر من عنداللہ
     
  9. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاكم اللہ خيرا وبارك فيكم ۔
     
  10. عاصم خان

    عاصم خان -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 3, 2010
    پیغامات:
    396
    [font="al_mushaf"]جزاکم اللہ جمیعا واحسن الجزاء[/font]
     
  11. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    10- مراسلہ نگاری [م]
    پوری پوسٹ کا ٹیکسٹ سائز 5 سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے، تھریڈ کے اندر صرف عنوانات کا سائز اس سے زیادہ کیا جا سکتا ہے۔
     
  12. محمد ارسلان

    محمد ارسلان -: Banned :-

    شمولیت:
    ‏جنوری 2, 2010
    پیغامات:
    10,398
  13. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    جزاک اللہ خیرا شداد بھائی
     
  14. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا۔
     
  15. ام محمد

    ام محمد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 1, 2012
    پیغامات:
    3,120
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  16. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    رحمک اللہ
     
  17. علی رضوان

    علی رضوان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏دسمبر 28, 2014
    پیغامات:
    18
    شیعوں نے اس مقصد کے لئے ،کہ واقعہ کربلا کو جتنا بھیانک اذیت ناک بتا کر پیش کیا جائے، اتنی روایاتیں گھڑیں کہ یہ روایات خود آپس میں متضاد ہونے کی بنیاد پر ٹکراتی ہیں اور اپنی تکذیب آپ ہی کرتی ہیں۔ مثلا "راس الحسین" کے ساتھ آٹھ مقامات مختلف دیار امصار میں بیان کئے گئے ہیں، جنکی تصریحات ناسخ التواریخ وغیرہ سے اخذ کرکے بیان کی گئی ہے۔

    علامہ ابن کثیر نے بیان کیا ہے کہ سر کے جسم سے جدا کرنے کی روایات متفق علیہ نہیں ہیں اور بالکل بدیہی ہے کہ اگر خدنخواستہ ایسا ہوتا تو ایک سر کی تدفین مختلف مقامات پر کیونکر ہوسکتی ہے۔ علامہ محمود احمد عباسی اپنی معرکۃ الارا ء کتاب "خلافت معاویہ (رض) و یزید (رح) میں تحریر کرتے ہیں کہ "مولف مجاہد اعظم" نامی کتاب کے مولف، شاکر امروہوی جہاں تک اپنے قیاس و اجتہاد کے ساتھ کام لیتے ہیں، ہمیں قرب الی الصورت یہی معلوم ہوتا ہے کہ فرق منور جسم کے ساتھ ایک ہی مقام پر دفن ہے" (ص 304) نجف و مدینہ و عسقلان و قاہرہ میں سر کے مدفون ہونے کی روایتوں کو "یقنی و متفقہ" نہیں سمجھتے اور یہ بھی مانتے کہ علی بن حسین (زین العابدین رح) نے دوبارہ کربلا آکر دفن کیا ہو، کیونکہ بقول انکے وہ دوبارہ کربلا میں آئے ہی نہیں۔ اس لئے مولف موصف فرماتے ہیں "ہم کو اس روایت کو کے عمر بن عبدالعزیز نے آپکے سر مبارک کو دمشق سے کربلا بھجوایا ، مان لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں (صفحہ 303)۔ اب اس روایت کو بھی سن لیجئے جسکے " مان لینے کے سوال کوئی چارہ نہیں"

    چون نوبت و خلافت بعمر بن عبدالعزیز افتادازمدفن او (سر حسین) محض نمود و آن زمین را بنش کرد دوآن سر مبارک راما خوذ داشت و کس ندائست کرباں سر چہ صنعت کرو چون گماں میروکہ دیندار بود تو اندیشہ کہ بہ کربلا فرستادو باجسد مطہر ملحق ساخت۔

    ترجمہ: جب نوبت (خلافت) کی عمر عبدالعزیز تک پہنچی (سر حسین) کے مدفن کی تحقیق و تلاش کی اور زمین کو کھدوایا اور اس سرمبارک کو قبضہ میں کیا، لیکن پھر کسی نے یہ نہ جانا کہ اس سر کے ساتھ کیا گیا چونکہ گمان یہ ہوتا ہے کہ وہ دیندار شخص تھے ہوسکتا ہے کہ کربلا بھجوادیا ہو اور جسم مطہر کے ساتھ ملحق کردیا ہوں ۔ (ناسخ التواریخ ج 6 از کتاب دوئم ص 378)

    امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اموی کا زمانہ خلافت 99 ھ سے 102ھ تک کا کل تین برس پانچ مہینے رہا، یعنی حادثہ کربلا کے تقریبا چالیس برس بعد۔ بس اگر اس روایت "کے مان لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں" تو ساتھ ہی یہ بات بھی مان لینے کی ہے کہ اس مدت چہل سال میں چند ہڈیوں کے سوا اور کیا باقی رہ گیا ہوگا، جو دمشق اور کربلا کے مدفونوں کو یوں کھدوا ڈالا جاتا۔ اور یہ کام بھی وہ اموی خلیفہ کرتے یا کراتے جو عالم فاضل تھے، زمرہ تبع تابعین میں شامل تھے اور شخصیت پرستی کی توہمات سے بالا تر تھے۔ اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ قبر علی کا وجود بھی تین سوا تین سو برس تک کسی کو بھی علم نہ تھا۔ بنی بویہ کے عہد امیر الامرائی میں عضد الدولہ ویلمی متوفی 276ھ نے نجف میں یہ مزار بنوایا تھا۔ظاہر ہے کہ جب قبر علی کا حال ہی معلوم نہ تھا تو تدفین سر کی یہ حکایت بھی محض وضعی ہے اور اسی سے اسکی تکذیب ہوتی ہے۔


    اب ہے کوئی شیعہ رافضی، جو اس چیلنج کو حل کرسکے، کہ سر حسین رض کہاں دفن ہے؟؟؟؟
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں